مشرق اردو ادب

رخِ بے کل (برائی اپنے ہی دلدل میں خود آ پھنسی) قسط (2)

عطیہ کی نظر میز پر پڑی تو کیک کا رنگ کالا ہو چکا تھا۔یہ غیر فطری منظر دیکھ کر عطیہ کچھ کانپ گئی عطیہ نے گود میں اٹھائی بچی پر نظر ڈالی تو بے ساختہ چیخ اٹھی۔۔۔۔۔

رخِ بے کل

عطیہ کی نظر میز پر پڑی تو کیک کا رنگ کالا ہو چکا تھا۔یہ غیر فطری منظر دیکھ کر عطیہ کچھ کانپ گئی
عطیہ نے گود میں اٹھائی بچی پر نظر ڈالی تو بے ساختہ چیخ اٹھی۔۔عمل عطیہ کی باہوں میں نڈھال گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
قربان سب چھوڑ کر گاڑی کی طرف بڑھا۔ اسامہ جو کہ قربان کی گود میں تھا اسے گاڑی میں ڈالا وہ گہری نیند میں تھا۔ عطیہ بھی عمل کو لے کر گاڑی میں بیٹھ گئی
قربان نے گاڑی بڑی سپیڈ سے ہسپتال کی طرف موڑی۔ سڑک سنسان تھی بارش بھی بہت تیز تھی۔ طوفان زوروں پر تھا ہسپتال پہنچے تو بچی بخار میں تپ کر لال ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر نے بچی کو دیکھ کر فورا سٹاف کو آواز دی اور بچی کو فورا نہانے کا کہا۔ سٹاف نے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کر نے کے لیے بچی کو عطیہ سے لے لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(منظر: ایک عورت بڑی سی چادر لئے کسی کمرے میں بیٹھی ہے۔۔ آگ جل رہی ہے۔۔ اس کے ہاتھوں میں کچھ بال ہیں جن سے خون ٹپک رہا ہے۔۔ جن پر وہ کچھ پڑھ کر پھونک رہی ہے۔۔ اندھیرے کی وجہ سے اسکا چہرہ واضح نہیں ہے۔ بس ہونٹ آگ کی روشنی میں کچھ پڑھتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔۔ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹاف نے عمل کو نہلا کر عطیہ کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ ڈاکٹر عبد اللہ دبئی کا بہت مشہور ڈاکٹر تھا۔ بچی کا بخار اب کم تھا۔ ایمرجنسی ایکسرے کروایا گیا۔۔ سارے علاج معالجے کے دوران عطیہ اور قربان خاموش تھے۔۔ ایک دوسرے سے آنکھوں آنکھوں میں سوال کر رہے تھے۔۔ کچھ گھنٹے پہلے تو سب ٹھیک تھا۔۔ یہ اچانک سب کیا ہو گیا تھا۔۔ایکسرے دیکھ کر عمل کو داخل کر لیا گیا
عطیہ کو عربی نہیں آتی تھی۔ وہ پوچھتی گئی اور قربان اس کے سوالات ڈاکٹر سے عربی میں پوچھتا گیا۔۔ ڈاکٹر نے ہر طرح سے یقین دلایا کہ عمل جلد بہتر ہوجائے گی۔ عطیہ اور قربان کسی حد تک مطمئن ہو گئے تھے۔
عمل کو پراوئٹ کمرہ دے دیا گیا۔ بارش تھم چکی تھی۔۔ طوفان رک چکا تھا۔۔ مگر میاں بیوی کے ذہنوں میں جو طوفان سوالات بن کر برپا تھے وہ تھمنے کو نہ آتے تھے۔۔ عطیہ جب بھی آنکھیں بند کرتی اسے وہ منظریاد آتا جب اس کی نظر گھر سے نکلتے ہوئے کیک پر پڑی تھی جس کا رنگ کالا سیاہ ہو چکا تھا۔۔ ہر تھوڑی دیر بعد عطیہ کی نظروں میں وہ منظر گھومتا۔۔ ادھر قربان بھی اسی شش و پنج میں تھا۔۔ دروازے پر خون کے چھینٹے، دہلیز پر بکھری ہوئی عجیب اشیاء، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ عطیہ اور قربان دونوں کا بدن تھکن سے چور تھا، اسامہ کو قربان نے کمرے میں آتے ہی گود سے اتار کر کاوچ پر ڈال دیا تھا۔ تھوڑی دیر میں سٹاف آئی اور عمل کو ڈرپ لگا کر چلی گئی۔۔
قربان: ’چلو میں تمھیں گھر چھوڑ دوں۔۔ تم تھوڑی دیر آرام کرلیناپھر شام کو آجانا۔‘
عطیہ: نہیں نہیں آپ جا کر آرام کریں عمل اٹھی تو روئے گی۔۔ اسامہ کو بھی یہیں چھوڑ جائیں۔
قربان: ارے نہیں بیگم! (کچھ سوچ کر۔۔۔) اچھا پھر ایسا کرو کہ تم کاوچ پر آرام کرلو میں گھر سے ہو کر آتا ہوں۔
قربان نے چابیاں اٹھایئں اور گاڑی کی طرف چل دیا
سارا راستہ وہ اس شخص کے بارے میں سوچتا رہا جسے اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تھا۔۔وہ کون تھا جو اتنی بارش میں آیا تھا۔۔ کاش اس کا چہرہ نظر آجاتا۔۔ کاش اس نے وہ بڑی کالی چادر نہ لی ہوتی۔ گھر پہنچتے ہے قربان نے آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے دہلیز سے ھڈیاں، پنجوں اور خون کی غلاظت کو صاف کیا، دروازہ دھویا، پھر کیک کو کافی دیر بیٹھا دیکھتا رہا۔کاش یہ سب ایک ڈراؤنا خواب ہی ہو۔ یہ سب کیا ہوا۔۔ وہ کافی دیر صوفے پرنیم دراز سوچتا رہا اور سوچتے سوشتے سو گیا
(خواب: وہ فقیر بابا۔۔۔  درویش۔۔  فقیروں کے ہلئے والا۔۔ وہ بیٹھا تسبیح کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے، ’لوگوں سے بچانا۔۔ کیسے بچاؤ گے۔۔۔۔۔ قہقہہ۔۔۔۔ ھاھاھا۔۔۔۔۔ کوشش کرنا۔۔۔۔کاش کہ اس کا نصیب بھی اس کی ماں جیسا ہو۔۔ میں تو ٹوٹے جوتے پہنتا ہوں۔۔ موزے نہیں میرے پاس۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں۔۔۔اللہ کا درویش بندہ۔۔)
گیارہ بجے تھے۔۔ قربان کی آنکھ کھل گئی۔۔ اٹھ کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ناشتہ تیار کیا، ٹفن بنایا اور عطیہ کو پاس پہنچ گیا۔ دونوں نے ناشتہ کیا اور قربان نے چابیاں پکڑیں تو عطیہ نے پوچھا ’کہاں؟‘
’ّآتا ہوں۔۔‘ قربان نے عطیہ کو جواب دیا۔ قربان کی آنکھیں نیند سے لال تھیں سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔۔قربان اس درویش کو دیوانہ وار سڑک پر ڈھونڈتا رہا مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔۔ اس نے آس پاس کی کئی سڑکیں چھان ماریں مگر سب بے معنی۔۔
تھک ہار کر قریب دوپہر کو وہ واپس ہسپتال پہنچ گیا۔۔بادل ابھی پوری طرح چھٹے نہیں تھے۔۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔۔
’آگئے آپ؟ عطیہ نے کاؤچ سے ٹانگیں اتارتے ہوئے پوچھا ’کہاں گئے تھے؟‘ عطیہ نے اسامہ کو اپنے چھاتی سے اتارتے ہوئے کاؤچ پر لٹا دیا۔۔
عمل نے ہلکی سے کھانسی کی اور اٹھ بیٹھی۔۔ اب ہوش آیا تھا۔۔ تو اٹھ کر اپنے آپ کو انجان جگہ پایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔اس کی حیرت پریشانی میں نہ بدل جائے اس لیے عطیہ نے اس کے ساتھ والی جگہ لے لی۔۔عمل کو پیار کرتے ہوئے پچھلی رات کا سارا واقعہ اس کے ذہن میں دوڑ گیا اور ایک آنسو اضطراب کی نشانی بن کر اس کے گال پر آگرا۔۔۔ عطیہ کو اس آنسو سے اپنے وجود کا احساس ہوا۔۔ جو احساس کھوگیا تھا۔۔
اس نے مسکرا کر عمل کی طرف دیکھا۔۔
’الحمدللہ‘ قربان کی زبان سے ادا ہوا جو یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا
’حوصلہ کرو بیگم! یہ وقت بھی گزر جائے گا‘ عطیہ جو کہ مسکرا رہی تھی۔۔فرطِ جذبات سے اس کے لب کانپنے لگے مگر اب کہ آنسو نہیں گرا۔۔ بظاہرکچھ نہیں ہوا بس دل میں خوف کا کھٹکا سا ہوا اور عطیہ نے ایک ہاتھ سے اپنی چادر کا ایک کونہ دبا لیا اور آنکھوں کو زور سے بند کرلیا ’اللہ اکبر‘ کہہ کر پھر مسکرانے لگی۔
ایکدو دن میں ہی عمل کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا اس دوران اسامہ بھی بہن کے ساتھ کھلونے لے کر کھیلتا رہتا تو عطیہ کو بھی آنکھ لگانے کی فرصت مل جاتی۔ قربان کی آفس روٹین بھی کافی ڈسٹرب ہو کر رہ گئی تھی۔۔ عطیہ الگ پریشان تھی۔۔ مگر عمل کی صحت سے بڑھ کر ماں باپ کے لیئے اس وقت کچھ نہیں تھا
اب کہ اسامہ کا سکول میں داخلہ بھی کرانا تھا سو عطیہ اور قربان اس بارے میں سوچنے لگے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسامہ کا داخلہ اچھے انگلش میڈیئم سکول میں ہو گیا تھا۔ بچہ ذہین تھا آسانی سے ٹیسٹ پاس کر گیا۔۔ویسے بھی عطیہ نے تیاری کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
اسامہ کا داخلہ اور عمل کی صحت کا معاملہ حل ہوتے ہی سب کچھ معمول پر آگیا تھا مگر عطیہ اور قربان کے وسوسے اپنی جگہ تھے۔بہت سے سوال تھے جن کی کشمکش میں میاں بیوی کا دل مضطرب تھا۔ دونوں ہچکچاتے اس رات کا ذکر بھی نہ کرتے۔ایسے میں عمل سارا دن کھلونوں سے کھیلتی رہتی۔۔عطیہ گھر سمیٹتی، کھانا پکاتی، کپڑے دھوتی، استری کرتی اور اپنی سوچوں میں گم رہتی۔ سوچوں کی گہرائی دن بہ دن بڑھنے لگی تھی۔ قربان بھی آفس جاتا واپس آتا۔۔ٹیوی دیکھتا، خاموش رہتا، کھانا کھاتا، اپنے لان میں تھوڑی واک کرتا اور سوجاتا۔ صبح اٹھتا، اخبار دیکھتا، نہا دھو کر تیار ہوتا، ناشتہ کرتا، اور آفس کو روانہ ہو جاتا۔ عطیہ کی بھی نیند پہلے جیسی نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ ماں تھی۔۔ جس نے اپنے گڑیا کے ہاتھوں میں تازہ خون دیکھا تھا۔۔اس کے بخار کی تپش کو محسوس کیا تھا۔ کیسے بھول سکتی تھی وہ۔ دونوں اپنی جگہ پریشان تھے۔۔ مگر ذکر کرتے ڈرتے تھے۔ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ دونوں کے زخم تازہ ہیں۔۔ دونوں کے وسوسے زندہ ہیں۔۔
عطیہ گھرکا سارا کام سنبھال تو لیتی مگر اب سوچیں اسے اس قدر پریشن کردیتیں کہ کام کے دوران اسے جب خیالوں کی دنیا میں وہ مناظر نظر آتے تو کچھ نہ کچھ نقصان ہو جاتا۔۔کبھی بنا کپڑے کے گرم کڑاہی پکڑ کر ہاتھ جلا لیتی، کبھی استری سے کپڑے جل جاتے، کبھی دھلے ہوئے کپڑے پھر دھلنے کے لیئے ڈل جاتے اور اچانک اسے یاد آتا’اوہ۔۔ یہ کیا کیا میں نے۔۔ یہ تو دھلے ہوئے تھے‘ قربان یہ سب نوٹ کرنے لگا تھا مگر ابھی خاموش تھا۔ وہ شخص کون تھا جو اس رات کھڑکی سے نظر آیا تھا۔۔۔ جس نے کالی چادر میں خود کو لپیٹا ہوا تھا۔۔ اتنی رات کیا کرنے آیا تھا۔۔ خواب میں وہ فقیر نما درویش کیوں آیا تھا۔۔ اس ہی رات کے بعد کیوں آیا تھا۔۔وہ اکثر سوچتا۔۔ ٹیوی بظاہر گھنٹوں لگا رہتا مگر قربان کا دھیان ٹس سے مس نہ ہوتا۔وہ بند آنکھوں کے پیچھے روز اس طوفانی رات کا سامنا کرتا۔۔ عطیہ سوچتی شائد تھک کر آرام کر ریے ہیں اس لیئے ساتھ والے صوفے پر آکر خاموشی سے بیٹھ جاتی یا عمل اور اسامہ کے ساتھ لان میں چلی جاتی۔
چھٹی کا دن تھا۔ اسامہ کو تو سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ دونوں بچے سوئے ہوئے تھے۔ بڑی سوچ بچار کے بعد قربان نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ عطیہ سے کچھ بات کی جائے۔ اس خاموشی کو توڑا جائے جو گھر کی دیواریں چیخ چیخ کر بیان کر رہی تھیں
صبح کے دس بجے قربان نے عطیہ کو آواز دی۔ عطیہ ہلکی سی آواز پر اٹھ بیٹھی’چلو ناشتہ کریں۔۔اٹھو شاباش میری جان!‘
عطیہ جو اب تک آنکھیں بند کئے تھی ’میری جان!‘ نے جیسے اس کے مردہ سے وجود کو زندگی بخشی۔ وہ بہت عرصے بعد بند آنکھوں سے مسکرا اور کہنے لگی ’جی قربان صاحب! کیوں نہیں۔۔ بس ابھی گئی اور ابھی آئی‘ کہہ کر واشروم چلی گئی۔۔ منہ ہاتھ دھو کر سیدھا باورچی کھانے پہنچی۔ قربان بھی فریش ہو کر لان میں جا بیٹھا اور اخبار پڑھنے لگا۔۔ عطیہ کمرے میں آئی اور قربان کو وہاں نہ پا کر سوچنے لگی ’کہاں گئے‘ پھر آواز دی تو لان سے آواز آئی ’لان میں لے آؤ نا! موسم اچھا ہے‘
عطیہ اس غیر معمولی بدلاؤ پر خوش بھی ہوئی۔ حیراں بھی۔۔ ’تو آج لان کی میز پر ہی سبزیاں کاٹنی شروع کردوں؟‘ عطیہ نے چھیڑا، ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں چائے اور ناشتے کا دیگر سامان موجود تھا۔’ہاہاہا۔ کرلو کرلوبیگم۔۔ جس میں تمہاری خوشی‘
’اچھا۔۔وہ آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔‘ عطیہ نے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے کہا
’ہاں ہاں بھئی کرو۔۔ پوچھتی کیا ہو؟‘
عطیہ کو بات کرنے کا حوصلہ ہوا۔
’وہ۔۔ وہ بجیہ آپا نے آپ کو ہماری اینیورسری پر شرٹ دی تھی نا!‘

’وہ اب۔۔تھی۔۔ ہو گئی ہے‘ قربان نے بڑے مضحکہ خیز انداز میں جملہ مکمل کیا تو عطیہ بھی ساتھ ہنس دی۔۔
’وہ پتہ ہی نہیں چلا۔۔ استری لگ گئی۔۔‘ عطیہ نے شرمندگی سے کہا
’جب ذہن میں سو سوال ہوں۔۔۔ دل خوف زدہ ہو۔۔ رفیق حیات سے بھی اپنے دل کا حال چھپایا جائے تو یہی ہو گا نا!‘ قربان نے کہا
عطیہ نے نظریں چرائیں۔ وہ جانتی تھی قربان صاحب کس زاوئے پر بات کر رہے ہیں۔ مگر وہ کہہ بھی تو ٹھیک رہی تھی۔۔ وہ جانتی تھی۔۔
’میں کافی دن سے نوٹ کر رہا تھا۔۔ سوچا آج بات کی جائے۔۔ ویسے بھی لان میں کرسیاں تمہارا ڈسٹنگ ورک بڑھانے کو تو نہیں رکھیں۔ ان پر بھی کبھی کبھی تشریف آمیز ہو جانے میں کوئی ہرج نہیں۔آس پاس ذرا سبزے کے احساس سے دل ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے‘
’صحیح کہا آپ نے‘ عطیہ نے مسکرا کر جواب دیا
’آہاں! بات کو مت ٹالو۔۔۔ میری شرٹ جلا دی پھر سے‘ عطیہ یہ سن کر کچھ پریشان ہوگئی
’ارے نہیں۔۔ مزاق کر رہا تھا۔۔۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہہ اپنا ہاتھ بھی جلا لیا۔۔ عورت کا جسم بے داغ ہونا چاہئے۔۔حسین ملائم اور خوبصورت۔۔ کیا ظلم کر رہی ہو اپنے ساتھ؟اور کس لیئے۔۔۔ کیا بات ہے؟‘
عطیہ: وہ اس رات کیا ہوا تھا؟؟ وہ سب کیا تھا؟
قربان: میں خود سمجھ نہیں پاتا۔۔۔ تم نے کسی سے ذکر تو نہیں کیا؟
عطیہ: نہیں۔۔ لوگ سوچیں گے میرا دماغ چل گیا ہے۔۔میرا خیال ہے۔۔ قران خوانی کراتے ہیں۔۔ یہ سب نارمل نہیں تھا۔۔میری عمل کے ہاتھوں میں کس کا خون تھا۔۔‘ عطیہ کی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی۔ قربان نے عطیہ کا کانپتا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا۔ عطیہ اس چھون سے بہت مطمئن ہوگئی
’ہاں قرآن خوانی کراتے ہیں‘ قربان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔
’اس ھفتے عاطف بھای بھی امریکہ سے آرہے ہیں۔۔سوچ رہی ہوں ہماری طرف ہی ٹھہر جائیں۔‘
عطیہ نے اپنے بھائی کے آنے کی خبر سنائی تو قربان خوش ہو کر بولا ’ارے سچ!! اس نے مجھے بتایا بھی تھا۔۔ ہم انہیں گھر کی بجائے کہیں اور کیوں ٹھہرنے دیں گے بھلا؟‘
جمعے کی شام کو قربان اور عطیہ تیار ہو کر بچوں سمیت ائرپورٹ پہنچ گئے۔عاطف اپنی اہلیہ حنا اور تینوں بچوں سمیت لینڈکر چکا تھا۔
عطیہ پانچ سال بعد اپنے بھائی عاطف کو دیکھ کر اس سے لپٹ گئی۔ عاطف عطیہ کا بڑا بھائی تھا۔ وہ پانچ سال پہلے عطیہ کی شادی کے بعد امریکہ چلا گیا تھا۔۔’کیسی ہے میری گڑیا؟؟‘ عاطف نے پیار سے بہن کے سر پر ہاتھ پھیرا
’میری؟؟؟ نہیں۔۔ ہماری گڑیا!‘ حنا نے عطیہ کا ہاتھ پکڑا
ماں باپ کی موت کے بعد عطیہ کو عاطف نے ہی پالا تھا۔ پھر عاطف کی شادی کے بعد ماں جیسی،حنا بھابی کی صورت میں ملی تھی۔۔ عطیہ عاطف سے سات سال چھوٹی تھی۔تین ہی بین بھائی تھے۔۔ عاطف عطیہ اور وجیہہ (عرف بجیہ) عاطف نے امریکہ میں باپ کا بزنس سنبھال لیا تھا۔ بجیہ آپا سب سے بڑی تھیں۔ کوئی اوالاد نہ تھی۔۔ شادی کوپندرہ سال ہو چکے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاطف اپنی اہلیہ سمیت دبئی پہنچ چکا تھا۔ ائرپورٹ سے گھر کا راستہ قریب پندرہ منٹ کا تھا۔ راستے میں حال احوال دریافت ہوتا رہا۔ عاطف کے تینوں بچے غور سے دبئی کو دیکھ رہے تھے۔ عمر نے تو لڑ کر دروازے والی سائڈ لی تھی، بڑا جو تھا۔ حامد اور زرلختہ حنا سے چپک کر بیٹھے تھے۔ عمر لگ بھگ ۰۱ سال کا تھا، حامد ۸ سال کا اور زرلختہ ابھی ۴ سال کی تھی۔گھر میں داخل ہوتے ہی عاطف نے ’بسم اللہ‘ کہہ کر زرلختہ (عرف زری) کو گود میں اٹھا لیا۔۔وہ اتنا خوبصورت لان دیکھ کر بہت خوش ہوا۔مگر پودوں کی بگڑی ہوئی حالت بھی اس نے نظر انداز نہ کی۔
دونوں بچے لان میں بھاگننے لگے اور زری باپ کی گود میں رہی۔ حنا ٹیچی ٹرالی گھسیٹتی ہوئی اندر لے آئی۔ ایک بیگ عطیہ نے اٹھا لیا۔ گاڑی میں باقی سامان جو رہ گیا تھا عاطف زری کو عطیہ کے بازؤوں میں تھما کر لے آیا۔ قربان نے بھی اس کی مدد کی۔
انہیں گیسٹ روم دکھایا گیا۔ جس میں ٹی وی، فرج کی سہولت بھی موجود تھی، اے سی لگا ہوا تھا۔ ّآرام دہ بستر کا بھی انتظام تھا،بظاہر کوئی کمی نہ تھی۔ اٹیچ باتھ بھی تھا۔ حنا اور عاطف بہت مطمئن ہوئے۔۔ انہیں قربان اور عطیہ کو دیکھ کر احساس ہوا کہ عطیہ قربان کے ساتھ بہت خوش ہے
’بھابی! آپ فریش ہو لیں میں کھانا تیار کرتی ہوں۔‘ حنا سے کہہ کر عطیہ کچن کی ہو لی
’میں آتی ہوں ساتھ‘ حنا نے جواب دیا
عطیہ: نہیں نہیں۔۔ بھابی آپ فریش ہو کر تھوڑا آرام کرلیں
تھوڑی ہی دیر میں عطیہ نے دسترخوان سجا دیا، میز پر طرح طرح کے لذت آمیز کھانے موجود تھے۔ عطیہ نے اس دوران کھانا بھی تیار کرلیا اور عمل کو بھی سلا دیا۔ پھر اسامہ کے ذریعے سب کو کھانے کے لیئے بلاوا بھیجا۔ سب نے بہت مزے سے کھانا کھایا۔ اور حنا نے عطیہ کی ہاتھ کے ذائقے کی بہت تعریف کی۔ پھر کھیر پیش کی گئی۔۔
عاطف: عطیہ! تمھارے ہاتھ کی کھیر۔۔۔
عطیہ اور عاطف دونوں ہنس دیئے۔۔۔
قربان: بھئی کیا ہوا کوئی ہمیں بھی تو بتایا جائے
عطیہ: کچھ نہیں بس یوں ہی۔۔۔ عطیہ نے بھائی کو گھورا
عاطف: قربان صاحب دراصل جب عطیہ نے پہلی مرتبہ کھیر بنایی تھی تو چینی کی جگہ چمچ بھر بھر کر نمک انڈیل دیا تھا۔۔۔۔ اب ذرا خود ہی سوچیں۔۔ کیا ہوا ہوگا۔۔ اوپر سے حنا کے گھر والے مجھے دیکھنے آئے ہوئے تھے۔۔۔وہ تو شکر ہے میں نے سب سے پہلے چکھ لی۔ مگر سب نے عطیہ کہ خوش کرنے کے لیئے ایک ایک چمچ لگایا۔۔ یہ ابھی چھوٹی تھی مگر وہ آج بھی اپنی پہلی دعوت یاد کر کے ہنستے ہیں۔سب ہنسنے لگے۔۔ عطیہ بھی ہنستے ہنستے لال ہوگئی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سب اچھی نیند سوئے۔۔ صبح عطیہ کی طبعیت کچھ بوجھل تھی۔ مگر وہ اٹھی اور سب کا ناشتہ بنانے کچن میں چلی گئی۔ سب کافی دیر میز پر انتظار کرتے رہے مگر عطیہ تھی کہ آ ہی نہیں رہی تھی۔۔
حنا: میں دیکھتی ہوں شائد میری مدد درکار ہو۔
وہ کچن میں گئی تو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔
’عطیہ! عطیہ!!‘ حنا چلائی۔ قربان اور عاطف بھی بھاگتے ہوئے اس طرف آگئے
’اللہ اکبر‘ قربان نے عطیہ کو زمیں پر دیکھا حنا اس کے چہرے پر چھینٹے مار رہی تھی، زمین پر ایک طرف ٹوٹا ہوا انڈہ پڑا تھا جو وہ غالبا پیالے میں ڈال کر فرینچ ٹوسٹ کی تیاری کر رہی تھی۔
چہرے پر پانی پڑتے ہی عطیہ نے آنکھیں کھولیں۔۔
’مجھے کیا ہوا‘ وہ شرمندہ سی ہو گئی۔۔ قربان نے اسے سہارا دے کر لابی میں صوفے پر بٹھایا۔
’کیا ہوا تھا؟‘ قربان نے عطیہ کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے پریشانی کے عالم میں ہوچھا۔
’پتہ نہیں۔۔ چکر سا آگیا تھا۔۔‘
’کتنی بار کہا ہے کام والی رکھ لو۔۔۔ مگر تم نہیں مانتی۔ اب تمھاری ایک نہیں سنوں گا۔۔‘ دونوں کو بہت جلد ہی عاطف اور حنا کی موجودگی کا احساس ہوا تو سنبھل کر بیٹھے۔۔
قربان پانی لینے کچن میں گیا۔ تو عاطف اور حنا نے بھی پریشانی میں حال دریافت کیا۔۔ ’اب چکر تو نہیں آرہے؟؟۔۔تمھارا جسم بالکل ٹھندا پڑا تھا‘حنا نے کہا
’اور رنگ دیکھو فق ہو گیا ہے۔۔‘عاطف نے کہا
’اب کیسا محسوس کر رہی ہو؟‘ قربان نے واپس آکر عطیہ کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کہا
عطیہ: مجھے کیا ہوا تھا ایک دم
عاطف: لگتا ہے میری سپر گرل کو مری ہی نظر لگ گئی ہے۔
حنا پاس بیٹھ کر سر دبانے لاگ گئی۔ پھر جب عطیہ کچھ سنبھلی تو حنا نے کچن میں جا کر چیزوں کی جگہیں پوچھ پوچھ کر ناشتہ تیار کیا۔ اور عطیہ کے بار بار کہنے پر بھی عاطف نے اسے صوفے سے ہلنے نہیں دیا۔ سب نے ناشتہ کیا مگر عطیہ کا دل ایک دم بھاری سا تھا اس نے بھی سب کے اسرار پر دو نوالے ڈبل روٹی کے کھالیئے۔ ناشتہ کر کے قربان اسے ہسپتال لے گیا۔ عاطف بھی ساتھ چلا گیا حنا گھر بچوں کے پاس رک گئی۔ عمل ویسے بھی سو رہی تھی اور اسامہ عاطف کے بچوں کے ساتھ لان میں کھیل رہا تھا۔ ڈاکٹر نے چیک کیا تو بی پی تھوڑا لو تھا۔ ایک دو ٹیسٹ بھیجے جن کی رپورٹ کے انتظار میں قربان لاؤنج میں بیٹھ گیا۔عاطف بھی وہیں بیٹھا تھا۔ عطیہ اندر لیڈی ڈاکٹر کے پاس کاؤچ پر لیٹی رہی۔اتنے میں ایک بندہ لیب سے کچھ کاغزات ڈاکٹر کے کمرے میں لے گیا
قربان نے اسے روکنے کے لیئے ہاتھ کا اشارہ بھی کیا مگر عاطف نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دینی چاہی
ساتھ ہی اندر سے لیڈی ڈاکٹر باہر آئی۔۔ اس کے چہرے کی مسکرہٹ نے پہلے ہی عاطف اور قربان کو آنے والی خوشی سے آگاہ کر دیا
عطیہ کے آنگن میں پھر ایک پھول کھلنے والا تھا
’مبروک‘ لیڈی ڈاکٹر نے کہا تو قربان کی باچھیں کھل گئیں۔ اتنے میں عطیہ بھی باہر آگئی۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں
گھر پہنچے تو حنا کو عاطف نے یہ خوش خبری دی۔ حنا نے فورا عطیہ کو گلے سے لگا لیا
’ہمارے لیئے اتنا خوبصورت سرپرائز‘ حنا نے کہا تو عطیہ شرما کر حنا کے گلے لگ گئی۔
قربان عاطف کے ساتھ مٹھائی لینے نکل پڑاواپسی پر راستے میں اس کی نظر اچانک سڑک پار اس آدمی پر پڑی۔۔۔ یہ سچ تھا یا نظر کا دھوکہ۔۔کیا وہ حقےْتا وہاں موجود تھا؟؟؟

قربان نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی۔
’میں ابھی آیا‘ کہہ کر قربان عاطف کو گھر ڈراپ کرگیا
’کہاں؟‘ عاطف نے پوچھا
’بس آیا‘ قربان جلدی میں تھا
قربان کی بیچینی دیدنی تھی۔ اور کیوں نا ہوتی۔ اتنے عرصے بعد اسے وہ درویش نظر آیا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو وہاں کوئی نہ تھا۔۔ ’کہاں گیا۔۔‘ قربان خود سے سوال کرنے لگا
’وہ تھا بھی یا نظر کا فریب تھا؟؟‘ قربان مایوس سا ہو کر گھر کی طرف بڑھنے لگا۔
گھر پہنچا تو ماحول ہی اور تھا۔۔۔ سب بہت خوش تھے۔۔ اور کیوں نہ ہوتے۔۔ آخر خوشی کا موقع تھا۔۔ اس کا موڈ بھی بدل گیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کی تیز دھوپ تھی۔ عمل اپنے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی بھاگ رہی تھی۔ بچے لان میں کھیل رہے تھے۔ اسامہ لان میں کھڑے عمل کو سامنے سے آتا دیکھ رہا تھا۔ عمل لڑکھڑائی۔ اس سے پہلے کہ اسامہ اس تک پہنچتا وہ پھسل کر دونوں سیڑھیوں سے لان میں آگری۔ اور رونے لگی۔ قربان اس کی آواز سن کر بھاگتا ہوا آیا اور عمل کو گود میں اٹھا لیا۔ اسے بٹھا کر گٹھنے، کہنیاں سب ٹٹولا ’شکر‘ کہیں کوئی خاص چوٹ نہیں تھی۔ اسامہ سامنے سہما ہوا کھڑا تھا۔۔۔
قربان: ادھر آؤ بیٹا!
اسامہ باپ کے بلانے پر دوڑ کر آگیا
’جی ڈیڈی‘
قربان: بہن گر گئی تو بھاگ کر اٹھایا کیوں نہیں؟
اسامہ: ’میں کیوں اٹھاتا؟ آپ جو ہیں۔۔‘
قربان: بڑے بھائی بھی تو باپ جیسے ہوتے ہیں میری جان۔ ممی ڈیڈی ہمیشہ ساتھ تھوڑی رہتے ہیں۔
’کہاں چلے جاتے ہیں؟‘ اسامہ نے اپنے معصوم ذہن سے سوال کیا
قربان تھوڑی دیر خاموش رہا پھر آسمان کو دیکھنے لگا۔۔
قربان: کہیں نہیں جاتے۔۔ بس انہیں بہت کام ہوتے ہیں اس لئے وہ کام پر چلے جاتے ہیں۔ تو ہر وقت سامنے نہیں ہوتے نا بیٹا!۔۔ جیسے ممی کچن میں کام کر رہی ہیں۔۔ میں صبح آفس چلا جاتا ہوں۔ تو بہن آپکی ذمہ داری ہو گئی نا! تو بہن کو گرنے نہیں دینا۔۔ بہن کا خیال نہیں رکھو گے؟‘
’رکھوں گا‘ اسامہ نے سر میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا
’دیکھو عاطف ماموں آپکی امی کے بھای ہیں نا۔۔ کتنا خیال رکھتے ہیں آپکی ماما کا‘
’پر وہ تو یہاں نہیں رہتے ڈیڈی‘
’ہاں۔۔ مگر اپنی بہن کو کبھی نہیں بھولتے۔ سمجھے؟ بہن کے آس پاس رہا کرو۔‘
’اچھا‘ اسامہ نے جواب دیا
’جب ممی ڈیڈی پاس نہیں ہوتے تو بہن کے پاس رہا کرو۔ اچھے بھائی بہنوں سے بہت پیار کرتے ہیں‘
اسامہ: میں اچھا بھائی ہوں نا
قربان: ہاں بیٹا بہت اچھے بھائی ہو۔ بس بہن کا خیال رکھا کرو۔
ساڑھے چار سال کے اسامہ نے با پ کی بات پر سر ہلا کر واپس لان کا رخ کرلیا اور باقی بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا
قربان عمل کو اٹھا کر اندر لے گیا
اسے خوشی تھی کہ آج اس نے اسامہ کو اس رشتے کا بہت اہم سبق سکھایا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عطیہ: قربان!
عطیہ نے قربان کا ہاتھ پکڑا جو لیٹا ہوا کسی گہری سوچ میں محو تھا۔
قربان: جی جنابہ! کیا ہوا؟
عطیہ: وہ قرآن خوانی جو ہم نے کرانی تھی۔۔۔ بھیا بھی آئے ہوئے ہیں۔ اچھا ہوگا جو ان دنوں کرا لیں
قربان: ہاں بڑا اچھا خیال ہے۔ قربان نے اثبات میں سر ہلایا
عطیہ: تو اس چھٹی پر بلا لوں سب کو؟ یہ جو آپکا ویکینڈ آف ہے۔۔۔
ہم تو حکم کے غلام ہیں۔ بس تم زیادہ کام اپنے اوپر مت لینا۔ بلکہ پہلے مجھے کام والی کا بندوبست کرلینے دو۔
عطیہ: نہیں نہیں اس کی کیاضرورت ہے؟
قربان: اس بارے میں کوئی ہینکی پھینکی نہیں۔۔۔ ہاں یاد ہے نا اگلے ہفتے الٹرا ساؤنڈ بھی ہے تمہارا
عطیہ: اللہ خیر کرے بس۔۔
قربان: بھئی ایک بات ہے۔۔۔ ایسے موقع پر ساس ہونی چاہیے تھی تمھاری۔ امی ابو کو پتہ نہیں کیا سوجھی دونوں آرام سے اوپر جاکر بیٹھ گئے۔ شکر ہے خیر سے ایک ہی بھائی تھا جو بیاہ دیا۔
عطیہ: ہاں کاش امی ہوتیں تو۔۔ خیر اللہ ان کی بخشش کرے میں ذرا عمل اسامہ کو دیکھ آؤں پھر سوجاتی ہوں

آدھی رات گزر چکی تھی۔ اذانوں کا وقت تھا۔ عطیہ کی آنکھ کھلی تو پیاس کا احساس ہوا۔ سائڈ ٹیبل پر پڑا جگ بھی خالی تھا۔ وہ اٹھ کر کچن سے پانی لینے چلی گئی۔ اسے کوئی سایہ سا محسوس ہوا۔
وہ آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے رفتہ رفتہ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہو گئی۔ پھر آہستہ سے قربان کو آواز دی۔۔’قربان! قربان!۔۔۔‘ عطیہ نے سرگوشی کی۔
’کیا ہوا؟؟‘قربان ذرا اونچی آواز میں بولنے لگا تو عطیہ نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا اور آنکھوں سے اسے باہر کی طرف کا اشارہ کیا’ش ش ش۔۔ کوئی ہے۔۔۔‘ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔
’کہاں؟‘
عطیہ: میں نے ابھی ابھی لابی میں کوئی سایہ دیکھا ہے۔۔
قربان: تمہیں وہم ہوا ہے۔۔ ایسی حالت میں ایسا ہوتا ہے کیا؟
عطیہ: نہیں قربان مزاق نہ کرو۔ دیکھو نا۔۔
قربان نے بے فکری سے آنکھیں بند کرلیں۔
عطیہ: یقین کریں۔۔ کوئی ہے نا۔۔
قربان اٹھا اور دبے قدموں سے ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔واقعی کوئی سایہ منڈلا رہا تھا مگر لان میں
عطیہ نے کہا: آپ لان کے قریب جائیں۔۔ میں ساری بتیاں جلا دیتی ہوں۔۔مگر یہ چھری پکڑ لیں۔۔
قربان: چھری؟؟؟؟؟
قربان کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھل گئیں
عطیہ: ہاں اپنا بچاؤ تو کرنا ہے۔۔ دیکھا۔۔ کوئی ہے نا؟
قربان: تم بتیاں جلا کر عاطف بھائی کو اٹھاؤ۔ باقی دیکھ لیتے ہیں۔۔ میں لان کے پاس جارہا ہوں۔ دبے قدموں سے قربان اللہ اللہ کرتا لان کے پاس والی دیوار تک پہنچا۔۔ جب سایہ قریب سے گزرا تو وہ کوئی عورت تھی۔۔ قربان کے ذہن میں وہ کالی شال والا بندہ آگیا۔۔۔

قربان: تم بتیاں جلا کر عاطف بھائی کو اٹھاؤ۔ باقی دیکھ لیتے ہیں۔۔ میں لان کے پاس جارہا ہوں۔ دبے قدموں سے قربان اللہ اللہ کرتا لان کے پاس والی دیوار تک پہنچا۔۔ جب سایہ قریب سے گزرا تو وہ کوئی عورت تھی۔۔ قربان کے ذہن میں وہ کالی شال والا بندہ آگیا۔۔۔ شال تو اس نے بھی لی ہوئی تھی مگر وہ فورا پہچان گیا۔۔ اتنے میں عطیہ نے بتی جلا کر عاطف کی طرف دوڑ لگا دی۔
مگر قربان نے آواز لگائی۔۔ ’بھابی ہیں عطیہ!۔۔‘ اچانک بتیاں جلنے اور آواز سے حنا جو کہ تسبیح کر رہی تھی ڈر کر پھسل گئی۔۔۔
قربان: بھابی!!!!!
قربان نے آگے بڑھ کر حنا کو سہارا دیا۔۔ اتنے میں عطیہ بھی آگئی۔۔
چوٹ تو نہیں آئی آپکو؟
حنا: نہیں۔۔ بہت مزہ آیا۔۔۔ یہ کیا تم دونوں اپنے ہی گھر میں چوروں والے کام کر ہے ہو۔۔
حنا نے ’آئے ہائے‘ کرتے ہوئے کہا
عطیہ اور قربان نے جب پورا قصہ سنایا تو تینوں ہنسنے لگے۔
’ہمیں لگا کوئی گھر میں گھس آیا ہے۔۔ اور میں نے تو قربان کو چھری بھی پکڑا دی تھی۔۔‘ عطیہ نے ہنستے ہوئے حنا کو بتایا
حنا: اللہ!!! حنا کا تو جیسے دم ہی نکل گیا۔۔ مگر تینوں خوب ہنسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگست کا مہینہ تھا۔۔۔۔ موسم میں بھی نمی تھی۔۔ عطیہ کے حمل کے شروع کے ماہ تھے تو اکثر اٹھ کر طبیعت بوجھل رہیتی۔ عطیہ نے قرآن خوانی کے لیئے جن لوگوں کو بلایا تھا ان کی لسٹ تیار کرلی۔ اور ایک ایک کو فون کرنے لگی۔
’کیا ہو رہا ہے بھئی؟‘ حنا نے سیڑھیاں اترتے ہوئے دریافت کیا
’بھابی میں سوچ رہی تھی اور اب قربان نے بھی حامی بھر لی ہے۔۔ آپ لوگ بھی آئے ہوئے ہیں تو گھر میں ایک قرآن خوانی کیوں نہ رکھ لی جائے۔۔‘ عطیہ نے حنا کو بتایا
حنا: ہاں بھئی بڑی خوشی کی بات ہے۔۔ ضرور کراؤ اللہ رحم کرے
عطیہ: میں نے سب سے کہ دیا ہے اس جمعے کا۔۔۔ اچھا چائے بناؤں؟؟؟؟قربان بھی آتے ہوں گے۔۔ مارکٹ تک گئے تھے
حنا: ہاں کیوں نہیں۔۔ بلکہ تم بیٹھو۔۔ میں بنا کے لاتی ہوں آج۔۔
’او کے بھابی۔۔‘ عطیہ واپس صوفے پر بیٹھ گئی
حنا: ویسے تم نے میڈ کیوں نہیں رکھی۔۔ پہلے بار بھی نہیں دوسری بار حمل میں بھی نہیں۔۔ کیوں؟
عطیہ: ایسے ہو بھابی۔۔ فضول کا خرچہ بھی اور کھٹکا بھی۔۔ پتہ نہیں بچوں کے ساتھ کیا کرتی۔۔
حنا: تو بچے خود ہی دیکھ لینا نا! بس صفائی وغیرہ کا کام اس سے کرا لینا۔۔۔ کچن بھی خود دیکھو۔۔ کھانا اپنا ہی پکایا اچھا ہوتا ہے۔۔بس کچن کی صفائی وغیرہ کا کام تو لو اس سے۔ عطیہ حنا کے ساتھ کچن میں آگئی
عطیہ: کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔۔ جب اللہ نے اتنی استطاعت دی ہے تو کیوں نا رکھ لی جائے۔۔ قربان نے اپنے ایک دوست سے کہا ہے، اس نے کہا ہے وہ آجکل میں بتائے گا اس کی نظر میں ایک بندی ہے۔ تب تک بجیہ آپا اپنی میڈ بھیج دیں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاطف: حنا! یہ خوشبو کیسی ہے؟
حنا جو میز پر برتن سجا رہی تھی مسکرانے لگی۔۔ قربان بھی عین اس وقت گھر میں داخل ہو رہا تھا
عاطف جو لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
حنا: قربان بھائی! عاطف! آجائیں نا۔۔ عاطف! آپکی فیورٹ آلو ٹکیاں تو نہیں بنائیں حنا ہنسنے لگی۔۔
عطیہ پہلے سے ہی کرسی پر بیٹھی تھی۔
عاطف: خوشبو تو رسملائی کی ہے۔۔
سب مسکراتے ہوئے میز کی طرف بڑھے۔۔
عطیہ: میں نے سب کو فون کیا ہے قرآن خوانی کا یاد دلانے کے لیئے۔۔ سب نہیں آپائیں گے مگر جو ہیں ان کو ہی بلا لیتی ہوں۔۔
قربان: ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔۔
سب نے بہت شوق سے رس ملائی کھائی۔۔ چائے پی اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ عطیہ اور حنا برتن سمیٹ کر اندر چلی گئیں۔ بچے اسامہ کے کمرے میں اس کے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔۔ قربان اور عاطف بیٹھے ٹی وی دیکھنے لگے۔
قربان: کاروبار کیسا جارہا ہے بھائی؟
عاطف: الحمدللہ۔۔ اچھا ہے بس وقت دینا پڑتا ہے
قربان: ہاں جی! سو تو ہے۔۔ جس راہ میں کامیابی حاصل کرنی ہو اس راہ کی ٹھان لینی چاہئے۔ اور پھر مکمل وقت بھی دینا چاہئے۔
عاطف: میں تو عمر کو بھی ابھی سے ٹرین کر رہا ہوں۔ بچے بہت فاسٹ ہو گئے ہیں۔ابھی سے مائنڈ سیٹ نہ کیا تو بڑا ہو کر بولے گا شاہ رخ خان بننا ہے۔۔ پھر میں گاؤری کہاں سے لاؤں گا اس کے لیئے۔۔
عاطف کی بات سن کر قربان خوب ہنسا۔۔
قربان: صحیح بات ہے بھائی! میڈیا نے عام لوگوں کو یہاں تک کہ بچوں کو بھی وہ شعور دے دیا ہے جو کہ ایک حد تک فائدہ مند بھی ہے مگر اس حد کے آگے خاص کر بچوں کے لئے اس کے نقصانات بہت ہیں۔
دونوں کافی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حنا تیز توفان میں چلتی جارہی ہے۔۔مٹی کا توفان ہے۔۔۔ اس کا سانس بند ہو رہا ہے۔۔سنسان سڑک ہے۔۔ ہر طرف سے گرد اٹھ رہی ہے۔۔پھر ایک جگہ پہنچ کر مٹی دھویں کی طرح اڑ رہی حنا پریشان حال اپنی ماں کو ڈھونڈ رہی ہے۔۔سخت بھوک اور پیاس کے عالم میں ماں کو آواز دے رہی ہے۔۔)
حنا کی آنکھ کھل گئی۔۔ خواب تھا۔۔حنا پسینے میں شرابور تھی۔۔ عاطف کو آواز دی عاطف بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اذانوں کا وقت تھا۔۔’کیا ہوا؟‘ عاطف نے پوچھا
حنا: عاطف! خواب۔۔۔اللہ رحم
’کیا ہوا؟عاطف نے پوچھا
کچھ نہیں سوری سو جائیں۔۔ میں وضو کرلوں۔۔ فجر ادا کی تو یاد آیا۔۔ قرآنخوانی میں ابھی ایک دن باقی تھا۔۔ عطیہ نے چار لوگوں کو مدعو کیا تھا۔۔۔ حنا نے خود سے باتیں کرتے کرتنے اپنا ڈریس نکالا اور پریس کرلیا۔۔
آج بجیہ آپا کی میڈ نے بھی آنا تھا۔
حنا نے سوچا تھا عطیہ کو بھی میڈ کے لیے زور دے کر اس بار میڈ رکھوا کر ہی جائے گی۔صبح ناشتے کے وقت سب اکٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔ دروازہ کھٹکا۔۔ ’باجی جی!‘ عطیہ نے دروازہ کھولا
’وہ مجھے ثریا باجی نے کہا تھا آپ سے مل لوں۔۔۔ عطیہ نے ہلکے سے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس میڈ کو دیکھا تو شکر کیا کہ کوئی تو ہاتھ بٹنانے والا آگیا۔۔ حنا بھابی تو مہمان ہیں۔۔۔ وہ جتنا کرتی ہیں بہت ہے۔۔ بلکہ ان کی تو خدمت کی جانی چاہئے وہ میڈ کو لے کر اندر آئی۔۔ سب سے تعرف کروایا۔۔ اتنے میں عمل کے رونے کی آواز آئی۔۔ تو عطیہ میڈ کو رکنے کا اشارہ کر کے عمل کے کمرے میں چلی گئی
باہر نکلی تو عمل ساتھ تھی۔۔ چھوٹی سی عمل ننھے ہاتھوں میں ماں کی انگلی پکڑ کر چل رہی تھی۔۔
حنا کا موبائل بجا
’امریکہ سے ہے‘۔۔ کہہ کر حنا نے فون اٹھایا۔۔
دوسری جانب سے آواز صاف نہیں تھی مگر وہ پہچان گئی کہ اس کا بھائی حیدر ہے۔۔ (جاری ہے)

 

رخِ بے کل (برائی اپنے ہی دلدل میں خود آ پھنسی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button