تاریخ کے اوراق

چنگیز خان کو دھول چٹانے والا مجاہد اعظم، جلال الدین خوارزم

''تم اس قوم سے کیا توقع رکھتے ہو جس کے امراء ملت فروش ہوں؟ جس کے علماء میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو چکی ہو جو برسر عام تاتاریوں کی غلامی کا فتویٰ دیتی ہو؟ جس کے سپاہیوں کی تلواروں کا لوہا دشمن کی آنچ سے پکھل چکا ہو؟

عالم اسلام کے سپوت کی ایمان افروز داستان جس نے وحشی تاتاریوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے

 

Graphic1

مصنف و محقق فاروق حارث العباسی کے قلم سے

چنگیز خان کی بربریت اور وحشت و دہشت کا آگ برساتا سورج انسانی جسموں کی نرم و نازک کھالیں ادھیڑ رہا تھا۔ اس کی بے رحم تپش جہاں جہاں پہنچتی، روح انسانی اس میں پگھل کر رہ جاتی۔ وہ فاتح عالم ضرور تھا مگر قہر خداوندی سے کم بھی نہ تھا۔ شہر بخارا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد وہ ایک عظیم الشان مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے پہنچ کر گھوڑے سے اترا اور ایک شخص سے سوال کیا! کیا یہ تمہارے بادشاہ کا گھر ہے؟ نہیں! یہ خدا کا گھر ہے، اس شخص نے جواب دیا۔ چنگیز خان مسجد کے اندر داخل ہو گیا اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "میری افواج تھکی ہوئی ہیں انہیں آرام اور خوراک کی ضرورت ہے، ان کیلئے اپنے اپنے گھروں کے دروازے کھول دو، اس قسم کی کشادہ عمارتیں میرے گھوڑوں کیلئے خالی کر دو اور ان کیلئے چارہ مہیا کرو، میں تمہارے لئے خدا کا قہر بن کر آیا ہوں” اس نے سچ ہی کہا تھا اس لئے کہ دنیا کو اس بلائے ناگہانی اور قہر خداوندی سے بچنے کیلئے کہیں پر کوئی امان نہ تھی۔ چنگیز خان قراقرم کو اپنا مرکز بنا چکا تھا۔ اسے اپنی بے پناہ فوجی قوت پر ناز بھی تھا اور گھمنڈ بھی۔ سلطان علاؤالدین شاہ خوارزم اپنی بھر پور فوجی طاقت کے باوجود چنگیز خان سے بری طرح شکست کھا چکا تھا اور روئے زمین پر اس کے چھپنے کیلئے کوئی پناہ گاہ نہ تھی۔ اس نے اپنے بہادر و نڈر بیٹے جلال الدین خوارزم کو پیغام بھجوایا کہ وہ کسی بھی طرح اس سے ملے۔ سلطان ایک شام سمندر کے کنارے کھڑا تھا کہ دور سے ایک گرد اڑتی دکھائی دی۔ اسے شک گزرا کہ تاتاری اس کا تعاقب کرتے کرتے یہاں تک بھی پہنچ چکے ہیں مگر ایک سپاہی نے آکر خبر دی کہ مسلمانوں کی فوج ہے اور جلال الدین آرہا ہے۔ سلطان کو تسلی ہوئی ۔ جلال الدین اب قریب آچکا تھا۔ اس نے اپنے گھوڑے کو سلطان کے قریب کیا اور خاموشی سے اپنے باپ کی طرف دیکھتا رہا۔ سلطان نے کہا جلال ! کیا گھوڑے سے نہیں اترو گے؟ نہیں ! مجھے بہت دور جانا ہے میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ آپ نے مجھے کیوں بلایا ؟ تو تم میری مدد کیلئے نہیں آئے؟ سلطان نے پوچھا۔ جلال الدین نے کہا کہ اس ویران جگہ پر آپ کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ میں موت کی تلاش میں جا رہا ہوں، موت سے بھاگنے والوں کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ سلطان نے آگے بڑھ کر جلال الدین کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا، "نہیں نہیں میں تمہیں نہیں جانے دوں گا، وہ تعداد میں لا تعداد ہیں”  جلال الدین نے کہا! ”مجھے آپ کی یہ باتیں خوفزدہ نہیں کر سکتیں۔ آپ کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ہے اور میں آپ کے پاس یہ درخواست لیکر آیا ہوں کہ خزانہ میرے حوالے کر دیجئے، میں چاہتا ہوں کہ بخارا اور سمرقند کے خزانوں کی طرح وہ بھی تاتاریوں کے قبضہ میں نہ آ جائے ۔ مجھے تازہ فوج تیار کرنے کیلئے ایک ایک کوڑی کی ضرورت ہے” تو تمہارا خیال ہے کہ تم تا تاریوں کے ساتھ لڑ سکتے ہو؟ شاہ خوارزم نے کہا! ”تاتاریوں کے ساتھ لڑنے کا خیال ایک جنون ہے اور میں اس مصیبت میں اپنی رہی سہی پونجی سے محروم نہیں ہونا چاہتا، مجھے اپنی جان سے زیادہ تمہاری جان عزیز ہے، اس آسمان کے نیچے ایسی جگہیں ہیں جہاں ہم آرام سے زندگی گزار سکتے ہیں، ہم مصر چلے جائیں گے، اندلس چلے جائیں گے”جلال الدین نے کہا! ”میں بزدلوں کی زندگی بسر کرنے والوں کا ساتھ دینے کے بجائے بہادروں کی موت مرنے والوں کا ساتھ دوں گا، قوم تو آپ کے تخت و تاج کیلئے خون بہاتی رہی، اسے آج میرے خون پسینے کی ضرورت ہے، میں اسے پیٹھ نہیں دکھا سکتا”۔ جلال الدین نے لگام  کھینچ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی ۔ سلطان نے اسے روکنے کیلئے آواز دی اور کہا! کہاں جارہے ہو؟“ جلال الدین نے یک لخت باگ کھینچ لی اور مڑ کر کہا موت کے پیچھے، آزادی کی تلاش میں۔ سلطان نے عاجزانہ انداز میں کہا، نہیں نہیں بیٹا! میرا کہا مانو، ہم تاتاریوں سے نہیں لڑ سکتے۔ جلال الدین نے یہ کہتے ہوئے کہ ”اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات سے زیادہ میرے لئے آپ کا حکم مقدم نہیں، ہماری منزل اور راستے مختلف ہیں، خدا حافظ” گھوڑے کو ایک زور دار ایڑ لگائی اور پھر اپنی فوج سمیت اس اڑتی ہوئی دھول میں سلطان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ جلال الدین افغانستان کی شمالی سرحد پر پہنچ چکا تھا اس نے وہاں سے "مرو” کے گورنر کو اطلاع دی کہ وہ کم از کم چار ہفتے مرو کی حفاظت کرے اور اس عرصہ میں وہ بلخ، ہرات اور دوسرے شہروں سے نئی فوج منظم کر کے اس کی مدد کیلئے پہنچ جائے۔ جلال الدین نے ہر مقام پر فوج تیار کرنے کے احکامات جاری کر دیئے اور ایران و ترکی سے بھی مدد کیلئے مراسلے بھجوا دیئے۔ ایک دوپہر رضاکاروں کی ایک فوج مشرق کی دشوار گزار پہاڑیوں سے گزر رہی تھی۔ ان ہراول دستوں کی قیادت عبدالعزیز کے سپرد تھی اور اس کی رہنمائی ایک ایرانی نوجوان کر رہا تھا۔ ایک تنگ گھاٹی سے مڑتے ہوئے ایرانی نوجوان نے ایک ہاتھ سے ٹھہرنے کا اشارہ کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے نیچے وادی کی طرف اشارہ کیا۔ عبدالعزیز نے نیچے دیکھتے ہی بلند آواز میں پکارا۔ ہوشیار! کوئی ایک میل چوڑی اور تین میل لمبی وادی میں دو افواج کے درمیان گھمسان کی جنگ لڑی جارہی تھی۔

17105806464f37887715a70732ead5421e99325b05 ایک ترک نے غور سے دیکھنے کے بعد کہا “ تاتاری مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر چکے ہیں اور وہ دیکھیے عقب کی پہاڑی سے تاتاریوں کی مزید فوج اتر رہی ہے۔ مسلمانوں کی تعداد پانچ چھ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن تاتاری ان سے تین چار گنا زیادہ ہیں جبکہ عقب سے مزید فوج میدان میں لا رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ تاتاریوں کی بڑی فوج کے ہراول دستے ہیں اور اس مختصر فوج کو اس جوانمردی کے ساتھ لڑانے والا سلطان جلال الدین کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا” عین اس وقت جب تاتاری سخت ترین حملہ کر چکے تھے، عبدالعزیز بھی سلطان کی مدد کو پہنچ گیا۔ نعرہ تکبیر بلند ہوا اور چھپی ہوئی فوج دو حصوں میں تقسیم ہو کر ٹیلے کے ارد گرد چکر لگاتی ہوئی میدان میں آگئی۔ تاتاریوں کے ہوشیار ہونے سے پہلے تین ہزار سواروں کے نیزے ان کے سینوں میں اتر چکے تھے۔ اس اچانک اور شدید حملے سے تاتاریوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ ملی۔  لڑتے لڑتے جلال الدین کے اعضا شل ہو چکے تھے۔ اپنی فتح کا یقین ہونے کے بعد وہ میدان سے ایک طرف ہٹ کر گھوڑے سے اترا اور ایک چھوٹی سے چٹان پر چڑ کر ایک پتھر کے سائے میں بیٹھ گیا۔ تاتاری دس ہزار کے قریب لاشیں میدان میں چھوڑ کر بھاگ نکلے جبکہ جلال الدین کے سپاہی شہیدوں کو دفن اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف ہو گئے۔ سلطان جلال الدین اس چٹان پر گہری نیند سو چکا تھا۔ ایک ہراول دستے کا سالار تیمور ملک سلطان کو اٹھانے کیلئے آگے بڑھا مگر طاہر نے اسے روک دیا۔ "نہیں! ایسے سپاہی کی نیند بہت قیمتی ہے، خدا معلوم کتنے دنوں کے بعد سوئے ہیں” مگر تیمور نے سلطان کا بازو پکڑ کر آہستہ سے کہا، عالی جاہ! اٹھئیے جلال الدین نے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ” تیمور کبھی تو مجھے آرام کرنے دیا کرو”۔ عالی جاہ! تولوئی خان کا لشکر ہم سے زیادہ دور نہیں۔ جلال الدین نے کہا کہ جانتا ہوں اور میں ایسا بے خبر بھی نہیں، سلطان نے جواب دیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ سلطان نے چند دیگر سالاروں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور پوچھا یہ فوج کہاں سے آئی ہے؟”  تیمور ملک نے جواب دیا بغداد سے۔ سلطان بولا  "تو خدا نے میری دعائیں سن لیں ، اب ہم دنیا کی ہر طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اگر بغداد کے لوگ بیدار ہو گئے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ تمام عالم اسلام جاگ اٹھے گا اور ہم زمین کے آخری کونے تک اس وحشی قوم کا مقابلہ کر سکیں گے”  سلطان آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ اس فوج کا سالار کون ہے؟ سلطان نے پوچھا۔ تیمور نے طاہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "ان کا نام طاہر بن یوسف ہے اور اس نوجوان نے ہمارے لئے بہت کچھ کیا ہے”۔ جلال الدین نے طاہر کی طرف نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ”عقابوں کی دنیا میں آرام دہ نشیمن نہیں ہوتے، میرے ساتھ رہتے ہوئے آپ کو ایسی چٹانوں پر سونے کا عادی ہونا پڑے گا” طاہر نے اس کا جواب مسکراہٹ میں دیا۔ جلال الدین نے کہا میں تمہیں لڑتے ہوئے دیکھ چکا ہوں تم نہایت جوانمردی کے ساتھ بالکل ایک عرب جنگجو کی طرح لڑ رہے تھے۔ اس پر میں تمہیں مبارکباد اور اپنے تین بہترین گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا انعام کے طور پر دیتا ہوں” تیمور نے کہا! ”طاہر تم کتنے خوش نصیب ہو، سلطان صلاح الدین ایوبی نے تمہارے باپ کو اپنی تلوار انعام میں دی تھی اور خوارزم کے مجاہد اعظم نے تمہیں اپنا گھوڑا انعام میں دیا ہے” جلال الدین نے حیرت سے کہا! ”سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار؟” ہاں! ان کے باپ کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے بہادری کے صلے میں اپنی تلوار انعام کے طور پر دی تھی۔ جلال الدین نے کہا "کیا تلوار تمہارے پاس ہے اور کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟” طاہر نے کہا جی ہاں! وہ میرے پاس ہے اور آج میں نے اسے پہلی بار استعمال کیا ہے۔ طاہر نے وہ تلوار نکال کر سلطان کے سامنے پیش کر دی۔ سلطان نے تلوار کے دستے پر سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام دیکھ کر تلوار کو بوسہ دیتے ہوئے کہا! ”خوش نصیب ہے وہ بیٹا جس کے باپ نے اتنا بڑا انعام حاصل کیا، کاش! میرا باپ بھی خوارزم کا شہنشاہ ہونے کی بجائے اس اولوالعزم مجاہد کی فوج کا ایک سپاہی ہوتا اور میں بھی تمہاری طرح اس پر فخر کرتا”

002 1

جلال الدین نے فوج کو بغداد کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ طاہر بغداد کا نام سن کر چونک پڑا اور عرض کیا ”عالی جاہ! بغداد میں جانے کا کچھ فائدہ نہیں اس لئے کہ بغداد سے میرے ساتھ صرف ایک ہزار سپاہی آئے ہیں اور خلیفہ نے ہم سب کو باغی قرار دے دیا ہے، باقی تمام لوگ مختلف شہروں سے رضا کارانہ طور پر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ یہ سن کر جلال الدین نے اپنے ہونٹوں پر ایک مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا! ”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی، لیکن میں مایوس نہیں۔ تمہاری آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ باہر کے مسلمان ہمارے مصائب کے متعلق بے پروا نہیں اور وہ وقت آئے گا کہ تمام عالم اسلام اس فتنہ عظیم کے مقابلے کیلئے اٹھ کھڑا ہو گا، میں اس وقت تک اپنا فرض ادا کرتا رہوں گا جہاں تک ہو سکے گا اور میں اس وقت تک عالم اسلام کی حفاظت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتا رہوں گا جب تک تاتاریوں کے گھوڑے میری لاش کے اوپر سے گزر نہیں جاتے۔ میں ہر قدم پر ان کا مقابلہ کروں گا، میں دنیا پر یہ ثابت کر دکھاؤں گا کہ جو جماعت خود مٹنے کا ارادہ نہیں رکھتی اسے کوئی نہیں مٹا سکتا، میں اسلامی ممالک کے ہر حکمران کے محل کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، میں دنیائے اسلام کے دور افتادہ ممالک میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگاؤں گا اور مجھے یقین ہے کہ میری آواز صدائے بالصحرا ثابت نہیں ہوگی”  جلال الدین نے تیمور کو حکم دیتے ہوئے کہا! لشکر کو کوچ کا حکم دو اب ہماری منزل مقصود افغانستان ہے۔ راستے میں چند مقامات پر تاتاریوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں نے مزاحمت کی جو سلطان کی تلاش میں دن رات ایک کئے ہوئے تھیں لیکن سلطان انہیں تہہ تیغ کرتا ہوا غزنی پہنچ گیا۔ غزنی میں امین الملک نے پچاس ہزار سپاہیوں کے ساتھ سلطان کا استقبال کیا۔ چند دنوں میں سیف الدین اغراق بھی اپنے چالیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ سلطان سے آن ملا۔ اس کے بعد افغانستان کے ملک اور سردار یکے بعد دیگرے اپنی اپنی جمعیت کے ساتھ غزنی پہنچ گئے۔ افغانستان کے علماء پہلے ہی جہاد کا فتوی دے چکے تھے اور پھر غیور افغان جہاد کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جوق در جوق سلطان کی فوج میں شامل ہونے لگے۔ سلطان جلال الدین نے اپنی فوجی قوت کا اندازہ لگانے کے بعد چنگیز خان کو، جو ان دنوں طالقان میں موجود تھا، چند تاتاری قیدیوں کی معرفت یہ پیغام بھجوایا "تم نے بے خبری کی حالت میں ہم پر حملہ کیا، تم نے طاقت سے زیادہ عیاری و مکاری سے ہمارے شہر فتح کئے، تمہارے سپاہی ایک مدت سے میری تلاش میں سرگرداں ہیں، میں اس وقت افغانستان میں ہوں اور تمہیں مقابلے کی دعوت دیتا ہوں اور تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس دفعہ تمہاری تلواروں کے سامنے بے کس عورتیں اور معصوم بچوں کی گردنوں کے بجائے تلواریں ہوں گی، اگر ہمت ہے تو مقابلے کیلئے آجاؤ۔ جلال الدین شاہ خوارزم کا پیغام جب چنگیز خان تک پہنچا تو وہ غصے سے تھرتھر کانپنے لگا۔ اپنے منجھے ہوئے جرنیل شیکی تُوتُو کو بلایا اور مکمل ہدایات دینے کے بعد ایک زبردست فوج کے ساتھ جلال الدین کے مقابلے کیلئے روانہ کیا۔ سلطان نے غزنی سے چند کوس آگے نکل کر اس کا راستہ روکا۔ تین روز مسلسل گھمسان کی جنگ جاری رہی۔ ترکوں اور افغانوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ تاتاریوں کو دن میں تارے دکھائی دینے لگے۔ چوتھے روز تاتاریوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ سلطان نے کئی میل تک ان کا تعاقب کیا اور بھاگتے ہوئے تاتاریوں کو پھر جالیا۔ تاتاری جان چھڑانا چاہتے تھے مگر جلال الدین کے جلال کے آگے بے بس تھے۔ جلال الدین شاہ خوارزم انہیں گھیر کر ایک ایسے علاقے میں لے آیا جہاں تنگ پہاڑی راستے پر اس نے اپنے بہترین تیز انداز بٹھا رکھے تھے۔  شیکی تُوتُو کی بہت تھوڑی فوج یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی لیکن سلطان نے چنگیز خان کے اس مایہ ناز بھاگتے ہوئے جرنیل کا پیچھا نہ چھوڑا اور دریائے کابل تک اس کا پیچھا کیا۔ شیکی تُوتُو نے دریا میں کود کر اپنی جان بچائی۔ تیروں کی بوچھاڑ سے زخمی شیکی تُوتُو جب دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچا تو اس کے ساتھ اس کی فوج کے صرف آٹھ سپاہی باقی بچے تھے۔ افغانستان میں سلطان جلال الدین کی اس شاندار فتح کی خبر چاروں اطراف جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ چنگیز خان کو اس شکست کی خبر کے ساتھ یہ خبر بھی ملی کہ کوہ ہندوکش سے لیکر دریائے مرغاب کے ساحل تک تمام قبائل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے تاتاریوں کی ہر چوکی کے سپاہیوں کا صفایا کر دیا ہے۔ چنگیز خان نے زندگی میں پہلی بار فکر مندی کے ساتھ صرف ایک محاذ پر اپنی تمام قوت جمع کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور پھر زبردست تیاری کے بعد اس نے ہرات کے درمیان ایک وسیع علاقے کو تباہ و برباد کرنے کے بعد دریائے مرغاب کے کنارے پر پڑاؤ ڈال دیا اور فرغانہ سے لیکر آذربائیجان تک بکھری ہوئی فوج کا انتظار کرنے لگا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ چنگیز خان کو اپنی فتح کا پورا یقین نہ تھا اور اسے یہ خدشہ تھا کہ اگر اسے شکست ہو گئی تو مفتوحہ ممالک کے تمام لوگ جو ابھی تک تاتاریوں کے مظالم کی وجہ سے سہمے ہوئے ہیں، اس کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور جلال الدین زمین کے آخری کونے تک اس کا پیچھا کرے گا لیکن قدرت کو شائد جلال الدین کے عزم و استقلال کا ایک اور امتحان مقصود تھا۔ اس دوران ایک افسوسناک حادثہ پیش آیا جس نے شیر خوارزم کی فتح شکست میں بدل کر رکھ دی۔ ہوا یوں کہ شیکی تُوتُو کی شکست کے بعد جو مال غنیمت سلطان کے ہاتھ آیا اس میں ایک خوبصورت اور نایاب گھوڑا بھی تھا۔ اس گھوڑے پر امین الدین اور سیف الدین اغراق کے درمیان تکرار ہوگئی۔ سیف الدین کے منہ سے کوئی سخت جملہ نکل گیا اور امین الدین نے غصہ میں آکر اسے چابک رسید کر دی ۔ سیف الدین کے بھائی نے فوراً تلوار کھینچ لی اور امین الدین پر حملہ کر دیا لیکن امین الدین کی فوج کے ایک افسر نے پیچھے سے تلوار مار کر اس کا سر قلم کر دیا۔ اس ناخوشگوار واقعہ نے طول پکڑ لیا اور مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ جلال الدین کے لشکر میں پھوٹ کی خبر ملتے ہی چنگیز خان طوفان باد و باراں کی طرح غزنی کی طرف بڑھا۔ سلطان نے اطلاع ملتے ہی غزنی سے کئی میل کے فاصلے پر جا کر پڑاؤ ڈال دیا اور چنگیز خان کے راستے کی ہر پہاڑی، ہر گھاٹی، ہر درے اور ہر ندی کے پل پر چھاپہ مار سپاہیوں کے پہرے بٹھا دیئے۔ چنگیز خان کے ساتھ ایک بے پناہ قوت تھی۔ وہ راستے کی ہر مشکل پر قابو پاتا، مزاحمت کی ہر چٹان کو سرنگوں کرتا اور قدم قدم پر اپنے سپاہیوں کی لاشوں کے انبار چھوڑتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ جلال الدین کی فوج سے چالیس ہزار ترک نکل جانے کے بعد اس کی فوج کے حوصلے کافی پست ہو چکے تھے۔ صرف پندرہ بیسں ہزار سپاہی ایسے تھے جن کے متعلق سلطان کو یقین تھا کہ وہ فتح و شکست کی پروا کئے بغیر آخری دم تک لڑیں گے۔ اس نے اپنی فوج کا بیشتر حصہ امین الملک اور تیمور کے سپرد کیا اور اپنے پرانے جانثاروں کے طوفانی دستوں کے ساتھ آگے بڑھ کر چنگیز خان کے ہراول دستے کو بری طرح سے شکست دی اور چنگیز خان کے پانچ ہزار سے زائد سپاہیوں کو تہ تیغ کر ڈالا۔ چنگیز خان جب ہراول دستے کے سالاروں کو لعنت ملامت کر رہا تھا تو اسے خبر ملی کہ جلال الدین کے طوفانی دستوں نے پہاڑیوں کے عقب سے ایک لمبا چکر کاٹ کر عقبی دستوں پر حملہ کر دیا ہے اور رسد کا بہت سارا مال لوٹ لیا ہے۔ مٹھی بھر جماعت کے ساتھ جلال الدین کی ان کامیابیوں نے اس کی فوج میں پھر سے ایک نئی روح پھونک دی۔ ایک صبح تاتاری جب سورج کے سامنے سر بسجود تھے، جلال الدین نے ایک پہاڑ کے عقب سے نمودار ہو کر ان کے لشکر کے بائیں بازو پر زور دار حملہ کر دیا۔ اس سے قبل کہ دوسری جانب سے وہ ان کی مدد کو آتے، جلال الدین تین ہزار سے زائد تاتاریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر پہاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا۔ اس طرح تمام دن وہ مختلف چھاپہ مار طریقوں سے تاتاریوں کو موت کے گھاٹ اتارتا رہا۔ جلال الدین اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ کئی دنوں تک برسر پیکار رہا۔ اس کی فوج اب بتدریج کم ہوتی جارہی تھی اور تاتاری چاروں اطراف سے اس کا گھیرا تنگ کرتے جا رہے تھے۔ کوئی تازہ دم فوج یا کمک جلال الدین کو نہیں پہنچ رہی تھی لہذا ایک شام بڑھتی ہوئی تاریکی میں جلال الدین تاتاریوں کو جل دے کر اپنے تقریباً آٹھ ہزار سپاہیوں کو وادی سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا لیکن چنگیز خان کے حکم پر تاتاریوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ چند دنوں تک تاتاری سائے کی طرح اس کے پیچھے لگے رہے یہاں تک کہ وہ لڑتا بھڑتا دریائے سندھ کے کنارے جا نکلا۔ ایک صبح سلطان اپنی مٹھی بھر فوج کے ساتھ ایک ایسی چٹان پر کھڑا تھا جو تین اطراف سے تاتاریوں کے محاصرے میں تھی اور چوتھی طرف تقریباً تیس سے چالیس فٹ نیچے دریائے سندھ  ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ جلال الدین نے مڑ کر چنگیز خان کی طرف دیکھا۔ چنگیز خان کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ابھری۔ خان اعظم کو یقین ہو چکا تھا کہ جلال الدین اب اس کے نرغے میں آچکا ہے اس لئے کہ اس کے سامنے بلندی سے نیچے دریا اور تین اطراف سے اس کی فوج نے اسے گھیر رکھا تھا مگر جلال الدین کے چہرے کا اطمینان و سکون یہ بتا رہا تھا کہ اس نے بہت کچھ سوچ رکھا ہے۔ چنگیز خان کا حکم تھا کہ جلال الدین کو ہر قیمت پر زندہ گرفتار کیا جائے۔ تاتاریوں کا گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ ان کی فوج سے ایک سوار جو شکل و صورت اور لباس سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، سفید جھنڈا لئے آگے بڑھا اور چٹان کے قریب پہنچ کر بلند آواز میں کہا سلطان معظم! اگر آپ ہتھیار ڈال دیں تو خان اعظم آپ کی جان بخشی کا وعدہ کرتے ہیں۔

001 2

سلطان نے جواب دیا ”اگر تمہارے ہاتھ میں سفید جھنڈا نہ ہوتا تو میں تمہاری بات کا جواب تیر سے دیتا، جاؤ اس ڈاکو سے کہہ دو کہ میں ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتا ہوں”۔ چنگیز خان نے جلال الدین کو زندہ پکڑنے کی نیت سے اپنے چند سپاہیوں کو چٹان پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کیا۔ جب تاتاری چٹان کے اوپر پہنچ کر دریا کی طرف اشارہ کر کے چلانے لگے تو چنگیز خان بجلی کی تیزی کے ساتھ چٹان پر چڑھنے لگا۔ جلال الدین نے گھوڑے سمیت پہاڑ کی بلندی سے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ جلال الدین کے اکثر سپاری تاتاریوں کے تیروں اور دریا کی تیز و تند لہروں کا شکار ہو چکے تھے لیکن جلال الدین تیروں کی زد سے دور جا چکا تھا۔ وہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر ایک ٹیلے پر چڑھا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ چنگیز خان حسرت بھری نگاہوں سے چٹان پر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ جلال الدین چنگیز خان کو دیکھ کر مسکرایا اور اپنی مٹھی بھر بچی کھچی فوج کو لیکر پہاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ چنگیز خان پیچ و تاب کھا کر چٹان سے واپس مڑا اور جلال الدین کے تعاقب میں لگ گیا۔ جلال الدین ایک وادی میں پڑاؤ ڈالے بغداد کی فوج کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ جوں جوں تاتاریوں کی افواج قریب آرہی تھیں، سلطان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ ایک دن سلطان طلوع آفتاب سے کچھ دیر بعد حسب معمول پہاڑی پر چڑھ کر بغداد سے آنے والی ایک پگڈنڈی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے چند فوجی افسران بھی کھڑے تھے۔ اچانک اسے دور سے ایک بلند پہاڑی کے دامن میں پندرہ پیس سوار آتے دکھائی دیئے۔ تھوڑی دیر غور سے دیکھنے کے بعد سلطان خوشی سے چلا اٹھا ” وہ آگئے، وہ آگئے، وہ بغداد سے تین لاکھ فوج کی آمد کی خبر لا رہے ہیں۔ دیکھا! میں نہ کہتا تھا کہ مدد کو فوج آئے گی، مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، وہ ضرور میری مدد کو پہنچیں گے” ۔ وہ سوار تھوڑی ہی دیر میں سلطان کے قریب پہنچ گئے اور گھوڑوں سے اتر کر انہوں نے بغداد کے خلیفہ کی طرف سے بھجوایا گیا مراسلہ سلطان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ سلطان نے جلدی سے مراسلہ کھولا۔ سلطان جوں جوں مراسلہ پڑھتا گیا توں توں اس کا رنگ زرد پڑتا گیا۔ اس وقت سلطان کی حالت اس شخص کی سی تھی جس پر اچانک بجلی گر پڑی ہو۔ سلطان اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔ مراسلہ اس کے کانپتے ہاتھوں سے گر پڑا۔ وہ مسکرایا لیکن اس کی مسکراہٹ آنسوؤں سے کہیں زیادہ دردناک تھی۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا! ”مجھے معلوم تھا لیکن مایوسی کی انتہا انسان کو خود فریبی کا عادی بنا دیتی ہے، میں ریت کا محل تعمیر کر رہا تھا، مبارک ہو! خلیفہ عبدالملک کا خط پڑھ کر ان سب کو سناؤ اور اس کے بعد جو جانا چاہیں انہیں میری طرف سے اجازت ہے۔ میں طاقت کیخلاف لڑ سکتا ہوں، مایوسی کیخلاف لڑ سکتا ہوں لیکن قدرت کی خلاف نہیں لڑ سکتا۔ مجھے قدرت سے شکایت نہیں، ہم پر قدرت کا یہ احسان معمولی نہ تھا کہ اس نے مٹھی بھر جانثاروں کو کئی برس تک تاتاریوں کا سیلاب روکنے کی ہمت دی لیکن جب مسلمان ہی بیدار نہیں ہوتے تو قدرت سے کیا شکایت؟ قدرت کسی کیلئے اپنا قانون نہیں بدلتی” سلطان اب زیادہ تر اپنا وقت تنہائی میں گزار نے لگا۔ دنیا میں اس کی تمام تر دلچسپیاں ختم ہو چکی تھیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے ساتھیوں سے کہتا  ”میں ایک بلند مینار ہوں جس کی بنیادیں ہل چکی ہیں، تم یہاں سے چلے جاؤ ۔ مجھے ڈر ہے کہ جب میں گروں گا تو تم اس کے نیچے دب جاؤ گے” چند افسران نے سلطان کو آخری جنگ لڑنے کا مشورہ دیا۔ سلطان نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ” تو تم چاہتے ہو کہ جب تک میں زندہ رہوں تھوڑے تھوڑے مسلمانوں کو جمع کرکے انہیں موت کے منہ میں دھکیلتا رہوں ۔ میں آج تک اس امید پر لڑتا رہا کہ کبھی تو عالم اسلام بیدار ہوگا، میں انہیں تیاری کیلئے وقت دینا چاہتا تھا اور میں نے اپنا فرض پورا کیا۔ انہوں نے مراکش سے لیکر ہندوستان تک میرے پاس تسلی کے پیغامات بھیجے لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ تم اس قوم سے کیا توقع رکھتے ہو جن کے امراء ملت فروش ہوں؟ جس کے علماء میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو چکی ہو جو برسر عام تاتاریوں کی غلامی کا فتویٰ دیتی ہو، جس کے سپاہیوں کی تلواروں کا لوہا دشمن کی آنچ سے پگھل چکا ہو اور جس کا خلیفہ ۔۔۔۔! میں اس کا ذکر تک کرنا نہیں چاہتا” عبد الملک نے کہا!  یہ سب خلیفہ کی وجہ سے ہوا لیکن خلیفہ کی بدعہدی کے بعد خدا کی رحمت کے دروازے بند نہیں ہوئے ۔ آپ پھر ہندوستان چلیں، ہندوستان نہیں تو مصر اور مراکش کے دروازے آپ کیلئے کھلے ہوں گے ہم تاتاریوں سے شمال کے برفانی علاقوں کی شکست کا بدلہ افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں لے سکیں گے اور ہم اس وقت تک لڑیں گے جب تک خدا کی رحمت جوش میں نہیں آجاتی” سلطان نے تلخ لہجے میں کہا! ”تم مجھے کیوں پریشان کرتے ہو؟ میں کئی سلطنتوں کو پیغام پہنچا چکا ہوں اور ان کے جواب بھی آچکے ہیں، میں صرف ایک سپاہی تھا اور اپنا فرض پورا کر چکا ہوں۔ میرے پاس تلوار تھی اور جب تک اس کی دھار کند نہیں ہوئی، میں لڑتا رہا” یہ کہہ کر جلال الدین کھڑا ہو گیا اور کوئی بات کئے بغیر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب واپس آیا تو سواری کا لباس پہنے ہوئے تھا۔ سلطان کو دیکھ کر تمام حاضرین مجلس کھڑے ہو گئے ۔ سلطان نے کہا ” عبدالملک! عزت کی موت کے لئے مجھے ساتھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، میں نے دنیا کے تمام آلام کو شراب میں ڈبونے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے چین نصیب نہ ہو سکا، میں نے نغموں کی تانوں میں سونے کی کوشش کی تھی لیکن تلواروں کی جھنکار میرے کانوں میں گونجتی رہی، میں جانتا ہوں اور تم کو حکم دیتا ہو کہ کوئی میرا پیچھا نہ کرے۔ میں مسلمانوں کی حفاظت کیلئے تمہاری تلواروں کا محتاج تھا لیکن اب اپنے لئے کسی کی جان خطرے میں ڈالنا گوارا نہیں کروں گا۔ عبدالملک! تمہیں میری شراب نوشی سے دکھ ہوا ہوگا، میرے دل میں تیمور ملک کے خون کے بعد تمہارے آنسوؤں کی بڑی قدر ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ شراب کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا تم واپس جا کر اپنا کام جاری رکھو تمہارے لئے ہندوستان جانا بہتر ہوگا” سلطان نے ایک شخص کو گھوڑا تیار کرنے کا حکم دیا۔ ایک سردار نے سوال کیا۔ ”لیکن آپ اس برفباری میں کہاں جائیں گے؟” سلطان نے جواب دیا ” میں تمہیں یہ پوچھنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر تم میرے لئے کچھ کر سکتے ہو تو دعا کرو کہ خدا مجھے عزت کی موت دے” تھوڑی دیر بعد یہ لوگ دروازے کے باہر کھڑے سلطان کو الوداع کہہ رہے تھے۔ کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہ تھے۔ سلطان نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور برفباری کے طوفان میں روپوش ہو گیا۔ اس کے بعد کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں گیا۔ تاتاریوں نے اس کی تلاش میں زمین کا کونا کونا چھان مارا۔ سلطان کا سراغ لگانے والوں کیلئے بڑے بڑے انعامات مقرر کئے گئے مگر اس کا کہیں پتہ نہ چل سکا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اس بات پر یقین ہونے لگا کہ شیر خوارزم اب اس دنیا میں نہیں ۔۔۔!!! جرات مند، جوانمرد، بے خوف، بے باک، غیرت مند، اسلام کا سپوت اور ایمان کی چٹان، جسے 1199 سے 1220 تک مسلسل گیارہ سال تاتاری اور ظلم و بربریت کا نشان چنگیز خان بھی شکست نہ دے سکا، وہ ملت فروش امراء اور ضمیر فروش علماء کے ہاتھوں گیارہ دنوں میں شکست کھا گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں اور سالاروں کو بالکل صحیح کہا تھا کہ ”تم اس قوم سے کیا توقع رکھتے ہو جس کے امراء ملت فروش ہوں؟ جس کے علماء میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو چکی ہو جو برسر عام تاتاریوں کی غلامی کا فتویٰ دیتی ہو؟ جس کے سپاہیوں کی تلواروں کا لوہا دشمن کی آنچ سے پکھل چکا ہو؟ اور جس کا خلیفہ۔۔۔!!! میں اس کا ذکر تک کرنا نہیں چاہتا” کیا آج وہی وقت نہیں؟ امراء کا کردارعلماء کے فتوے اور ان کے درمیان گروہ بندیاں ہمیں آج کے جدید تاتاریوں کی غلام بنا چکی ہیں۔ البتہ سپاہیوں کی تلواروں کا لوہا جو دشمن کی آنچ سے پگھل نہ سکا، ملک و ملت کو تحفظ فراہم کئے ہوئے ہے۔ آج عالم اسلام کی حالت دیکھیں تو سلطان جلال الدین شاہ خوارزم کا وہ وقت نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے کہ کوئی ایک بھی مسلم ملک اس مجاہد اعظم کی مدد کو نہ پہنچا۔ یہودیوں و نصرانیوں کے پیروکار اسلامی ممالک کے یہ امراء و علماء اور خلفاء آپس میں دست و گریبان، اسلام کے بدترین دشمنوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں جبکہ دور حاضر کا چنگیز خان اسلامی مملکتوں و سلطنتوں کو چن چن کر تباہ و برباد کرتا چلا جا رہا ہے ۔ اسلامی تاریخ ہمارے لئے ایک نصیحت ہے یہی وجہ ہے کہ ان غلام ذہن حکمرانوں نے بدترین سازش کے تحت  ہمیں اسلامی تاریخ سے نابلد اور محروم کر دیا ہے تا کہ نہ ہمارے اندر جہاد کا جذبہ پیدا ہو سکے اور نہ ہم اپنی اسلامی تاریخ کو دہرا سکیں۔ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ نئی جنریشن کو اپنے کسی اسلامی ہیرو اور اس کے عظیم ترین کارناموں کا علم تک نہیں ۔ اس وقت اگر اسلامی ممالک اس مجاہد اعظم جلال الدین شاه خوارزم کا ساتھ دیتے تو آج تاریخ کے صفحات پر چنگیز خان کی بجائے سلطان جلال الدین شاه خوارزم کا نام سنہری حروف میں فاتح عالم کے طور پر ہمارے سامنے ہوتا۔ افسوس کہ ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔

یہاں پر میں یہ ضروری سمجھتاہوں کہ اپنے قارئین کو ”خوارزم“کی تاریخ سے بھی مختصراً آگاہ کرتا چلوں۔”خوارزم“ در حقیقت ”خیوہ“ کا پرانا نام ہے۔ خیو ہ یعنی قدیم خیوق: صحرائے قراقرم کے نزدیک ازبکستان (سابق سوویت جمہوریہ) کا بارونق شہر ہے جو اسی نام کے نخلستان میں واقعہ ہے۔خوارزم شاہی سلطنت کے زمانے میں یہ اوردوسرے بڑے شہر پر رونق اور آباد تھے۔پھر سولہویں صدی کے اواخر میں یہ مقام خوانینِ خیوہ (یعنی خانوں یا بڑے لوگوں کا) دارالحکومت بن گیا۔یہ ریاست بحیرۂ ارال یعنی بحیرۂ خوارزم شاہی اور دریائے آمو (جیجوں) کے درمیان واقع تھی۔1873ء تک انہوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کی لیکن اس کے بعد اس پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا اور اب یہ خطہ موجودہ ازبکستان میں شامل ہے لیکن اسلامی شوکت و حشمت کی یادگاریں آج بھی قدیم شان و شکوہ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
اس کا محل وقوع وسط ایشاء، قرون وسطیٰ کی سلطنت، خیوہ کی سلطنت ”خانان“ یعنی چنگیزوں یا تاتاریوں سے قبل قائم ہوئی تھی اور یہ بحیرۂ قزوین، بحیرۂ ارال، دریائے آمو(جیجوں) اور ایران کے درمیان میں محصور تھی۔ اس کا دارالحکومت ”ارگنج“ تھا۔ آٹھویں صدی عیسویں میں عرب فاتحین نے یہاں آکر آبادی کو مشرف بہ اسلام کیا۔خوارزم شاہیوں کی حکومت کے دوران خوارزم نے بارہویں تیرہویں صدی میں بخارا، سمرقند اور ایران کے زیادہ تر علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا جسے 1218ء سے 1224ء تک چنگیز خان نے تباہ و برباد کردیا۔ خوارزم کے فرمانر ؤ اں کو ابتدأ ہی سے ”خوارزم شاہ“ کہتے آئے ہیں لیکن یہ لقب بالخاصہ اُن سلاطین کے لیے بولا جاتا تھا جو 1097ء سے 1231ء تک وہاں کے حکمران رہے جن کی فہرست درجہ ذیل ہے۔
1۔ انوشت گین: (1077ء)
2۔ قطب الدین محمد: (1097ء)
3۔ التسز: 1127)ء)
4۔ ایل ارسلان (1156ء)
5۔ سلطان شاہ (1172ء)
6۔ تکش شاہ (1172ء)
7۔ علاؤ الدین محمد المعروف علاؤ الدین شاہ خوارزم: (1199ء)
8۔ جلال الدین بنگرنی المعروف جلال الدین شاہ خوارزم: (1220ء(
انوشت گین، سلطان ملک شاہ سلجوقی کا تشت دار تھاجسے بعد ازاں خوارزم کی
حکومت ملی لیکن اس کے باوجود کہ وہ حاکم تھا، وہ اور اس کا بیٹا قطب الدین محمد سلجوقیوں کے وفا دار رہے۔التسز نے سب سے پہلے خود مختاری کی کوشش کی اور دو مرتبہ سنجر سلجوقی سے شکست کھائی۔ سلطان علاؤالدین محمد کے عہد میں خوارزم شاہی سلطنت وسیع تر ہوئی یہاں تک کہ پورا ایران، افغانستان، سمرقند، بخارا وغیرہ اس کے ماتحت آگئے۔اسی کے عہد میں چنگیز خان کے تاجروں کا ایک قافلہ سلطنتِ خوارزم شاہی بہ الزام جاسوسی مارا گیا (یار رہے کہ چنگیز خان ہمیشہ تاجروں کے بھیس میں اپنے جاسوس بجھوایا کرتا تھا) اس پر چنگیز خان نے انتقاماً سلطنت خوارزم شاہی پر حملہ کردیا اور تاتاریوں کا سیلاب پوری خوارزم شاہی سلطنت میں بہہ نکلا۔لاکھوں بے گناہ مسلمان شہید کردیئے گئے، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر ہوئے، تہذیب اور علوم و فنون کے بڑے بڑے مراکز نابود کردیئے گئے۔ سلطان علاؤالدین شاہ خوارزم فرار ہو کر ہندوستان پہنچا جہاں سلطان شمس الدین التمش کی حکومت تھی مگر اس نے یہ کہہ کر شاہ خوارزم کو پناہ دینے سے انکار کردیا کہ وہ بلاوجہ ہندوستان کو تباہ اور معصوم لوگوں کا قتل عام کرانا نہیں چاہتا۔ تب چنگیز خان نے شاہ خوارزم کے لیے تاریخی الفاظ کہے کہ”اوپر خدا اور نیچے چنگیز خان، روئے زمین پر تمہارے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں“ علاؤ الدین شاہ خوارزم
نے سلطان التمش کے جواب سے مایوس ہو کر بحیرۂ ْقزوین کا رخ کیا اور دور دراز ایک جزیرے میں پناہ گزیں ہوا، وہیں گمنامی کے عالم میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا جلال الدین بنگرنی (شاہ خوارزم) گیارہ سال تک مسلسل چنگیز خان (تاتاریوں) کے خلاف نبرد آزما رہا جس کا احوال اوپر بیان کیا جاچکاہے۔ (بنگرنی، بنگری سے ہے یعنی نہ جھکنے والا، ضدی، ٹیڑھا، خود سر، خوددار، اکھڑ وغیرہ۔۔۔)انہی عادات یاخوبیوں کے باعث اس کے نام کے ساتھ بنگرنی معروف ہوا اور جب سلطان بنا تو بنگرنی لقب کی جگہ ”شاہ خوارزم“ کالقب استعمال و معروف ہوا۔ 1220ء میں جلال الدین شاہ خوارزم کے لاپتہ ہونے کے سات سال بعد یعنی 1227ء تک چنگیز خان زندہ اور وحشت و دہشت کی علامت بنا رہا۔1227ء میں چنگیز خان کی موت واقع ہوئی جسے ”خنزیر کا سال“ قرار دیا گیا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ تاریخ کے اکثر طالب علم اس شش و پنج میں مبتلاء رہے ہیں کہ جلال الدین شاہ خوارزم دریائے سندھ کے آخر کس پہاڑی علاقے میں تھا جہاں سے وہ گھوڑے سمیت انتہائی بلندی سے دریامیں کود گیا اس لیے مورخین کی اکثریت نے اس کا مقام نہیں بتلایا بلکہ صرف اس کے کود جانے کا تذکرہ ہی کیا لہٰذا ہم اپنی تحقیق کے مطابق معزز قارئین کی یہ سوچ و بچار اور فکر و اندیشہ بھی دور
کیے دیتے ہیں۔ پاکستان سے گزرنے والے دریائے سندھ کو اگر دیکھیں تو اس کے گزرنے والے تمام راستوں میں ایسا کوئی بلند و بالاپہاڑی سلسلہ دکھائی نہیں دیتا جہاں پانی کے بہاؤ کی ایسی صورتحال ہو جو تاریخ میں بیان کی گئی ہے۔ دریائے سندھ بلاشبہ پاکستان کا ایک شہرہ آفاق دریا ہے لیکن اس کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے نام مختلف حصوں میں مختلف ہیں۔ بالکل ابتدائی حصے میں اسے ”اباسین“ کہا جاتا ہے، وسطی حصے میں ”اٹک اور نیلاب“ جب کہ اس کے آخری حصے کو ”سندھ یا مہران“ کہا گیا ہے۔ یہ دریاایک ہزار آٹھ سو(1,800) میل طویل ہے۔ یہ ہمالیہ کے اس حصے سے نکلتا ہے جس کا مرکز تبت ہے اور اس کے منبع (یعنی اس کے پانی جاری ہونے یا نکلنے) کے مقام کی بلندی بھی اٹھارہ سو(1,800) فٹ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے ابتدائی مقام سے پانی کے نکلنے کی رفتار انتہائی تیز اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سیلاب کی مانند ہے چنانچہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے جلال الدین شاہ خوارزم اپنے گھوڑے سمیت دریا میں کود گیا جس کا چنگیز خان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا دوسرا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب جلال الدین نے بچے کھچے معمتد ساتھیوں کو اپنے جدا ہونے کا ختمی فیصلہ سنایا تو ان میں سے ایک سردار نے سوال کیا کہ ”آپ اس برف باری میں کہاں جائیں
؟۔۔۔۔ سلطان نے گھوڑے کو ایڑلگا دی اور برف باری کے اس طوفان میں روپوش ہوگیا“ لہٰذا یہ بات ثابت کرتی ہے کہ پہاڑوں کی یہ بلندی، پانی کا شدید تر بہاؤ اور اس قدر برف باری ماسوائے ہمالیہ او ر تبت کے پاکستان سے گزرنے والے دریائے سندھ کے کسی بھی مقام پر نہیں۔
درحقیقت جلال الدین کے کودنے کے اس مقام کو پورے یقین و وثوق کے ساتھ اس لیے کہا گیا کہ ہمارے کچھ قریبی تبتی بزرگ دوستوں کی مدد سے جو نسل درنسل اس علاقے کے مکین تھے، انہوں نے نقشہ کھینچتے ہوئے پن پوائنٹ (Pin Point) کیا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے جلال الدین نے دریا سے چھلانگ لگائی اور پھر ان بلند و بالا پہاڑوں میں غائب ہو گیا اب تبت 1951ء سے چین کا ایک خود مختار صوبہ ہے۔ اس کے شمال اور مغرب میں چین اور جنوب میں بھوٹان، نیپال اور بھارت ہیں۔ یہ دنیا کے بلند ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس کی اوسط بلندی پندرہ ہزار (15000) فٹ ہے۔ زیادہ تر کوہ کِن لِن (شمال) اور ہمالیہ (جنوب) کی درمیانی سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ زراعت صرف سانگپو (برہمپترا) دریائے سندھ اور ستلج کی وادیوں میں ممکن ہے۔

ظالم ہندو راجاؤں پر قہر ڈھانے والا بت شکن: سلطان محمود غزنوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button