تاریخ کے اوراق

مُردوں کا ٹیلہ! موہنجودڑو

چار ہزار سال پہلے آباد ہونے والا یہ شہر اس قدر جدید نوعیت کا تھا کہ اس کا نقشہ تیار کرنے والوں کے ہاتھ اور ایسا ذہن رکھنے والوں کے ماتھے چوم لینے کو دل چاہا، کہاں جنگلوں، بیابانوں اور غاروں میں رہنے والوں کا وہ دور اور کہاں جدید طرز کا یہ شہر۔

موہنجودڑو

Graphic1
فاروق حارث العباسی

دنیا طلسم کی بات بھی کرتی ہے، کرامات کی بھی، شعبدہ بازی اور ہپناٹائزم کی بھی۔ آپ اسے جادو سمجھ لیں، شعبدہ بازی یا پھر ہپناٹائزم، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جونہی میں موہنجودڑو کے گیٹ میں داخل ہوا، ایک شخص میری طرف لپکا اور کہا! صاحب میرے ساتھ چلیں میں آپ کو موہنجودڑو کی تاریخ بتاتا ہوں، میں نے اسے سر سے پاوں تک دیکھا، نہایت بوسیدہ لباس، بڑھی ہوئی ڈاڑھی، چہرہ تقریباً گوشت سے خالی، اُبھری ہوئی ہڈیاں اور چپکے ہوئے گال، چھوٹی چھوٹی مگر شکرے کی مانند تیز آنکھیں، سر پر لپٹا ہوا پگڑی نما چھوٹا سا کپڑا، جوتوں پر جمی ہوئی گرد، لباس ہونے کے باوجود جسم کی تقریبا تمام ہڈیاں نمایاں نہایت پراسرار شخصیت دیکھنے میں یوں محسوس ہوا جیسے صدیوں پرانے زمانے کا کوئی شخص آج کے اس جدید دور میں کہیں سے آن نکلا ہے، میں نے کہا! بابا تم موہنجودڑو کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کہنے لگا صاحب چلیں میں آپ کو یہ چار ہزار سال پرانا شہر یہاں کے بسنے والے لوگ اور ان کا رہن سہن دکھاتا ہوں، میں نے سر ہلایا اور اس کے ساتھ ہولیا۔

Map
موہنجودڑو کا نقشہ

ہم دونوں ایک اونچائی کی طرف بڑھنے لگے، وہ مجھ سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا اور میں جواب میں، ہوں، ہاں، کرتا اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، میں نے اس سے کہا کہ بابا میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور خصوصی طور پر یہاں اس شہر کو دیکھنے آیا ہوں، اس نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور کہا کہ صاحب پھر تو آپ کو اور بھی مزہ آئے گا کیونکہ آپ تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کچھ جاننا چاہتے، میں نے ہولے سے ہاں میں جواب دیا، اسی اثناء میں ہم ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے، اب یہاں سے پورا شہر مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا، میں نے ایک نظر پورے شہر کی طرف دوڑائی، میری حیرت کی انتہا نہ تھی چار ہزار سال پہلے آباد ہونے والا یہ شہر اس قدر جدید نوعیت کا تھا کہ اس کا نقشہ تیار کرنے والوں کے ہاتھ اور ایسا ذہن رکھنے والوں کے ماتھے چوم لینے کو دل چاہا، کہاں جنگلوں، بیابانوں اور غاروں میں رہنے والوں کا وہ دور اور کہاں جدید طرز کا یہ شہر۔

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.18.21 PM
مین سڑک ( مال روڈ )

انسانی سہولیات کی ہر چیر میسر، صفائی ستھرائی کا بہترین نظام، گلیوں اور سڑکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح منسلک کیا گیا کہ آبادی کا کوئی حصہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہونے پائے، کہیں کہیں اِکا، دُکا محافظ بھی گشت کرتے دکھائی دیئے، میں نے اپنی دائیں جانب دیکھا تو ایک چوڑی سڑک کے شروع میں کونے پر ایک بورڈ لگا تھا، جس پر لکھا تھا مال روڈ، ہم ٹیلے سے نیچے اُترے اور مال روڈ کی طرف چل دیئے،

یہ پختہ اینٹوں کی بنی ہوئی ایک کشادہ سڑک تھی، شہر کے وسط تک اس کی لمبائی تقریبا چھ سات سو میٹر کے لگ بھگ ہو گی، میں چلتا ہوا شہر کے وسط میں پہنچ گیا، لوگ اپنے اپنے کاموں میں آجا رہے تھے، کسی نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی، میں ایک جگہ پر آکر رک گیا۔ غالبا یہ شہر کا مین چوک تھا، جہاں پر شہر کی تمام چھوٹی بڑی سڑکیں آکر ملتی تھیں، میری دائیں جانب ایک چھوٹی سڑک نکل رہی تھی، جس کا رُخ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کی جانب تھا، اس کے بالکل سامنے بائیں طرف ایک اور سڑک تھی، جو مین مارکیٹ کی طرف جاتی تھی اور بائیں جانب ہی ایک اور چھوٹی سڑک تھی۔ یہ بھی مین مارکیٹ ہی کی طرف جارہی تھی، ان دونوں سڑکوں کے درمیان مکانات تعمیر تھے، میں اپنی بائیں جانب مڑتے

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.17.38 PM
رہائش گاھوں کے درمیان سے گزرتی ھوئی سبزی و پھل منڈی کی طرف جاتی ھوئی گلی

ہوئے کچھ آگے بڑھا تو مجھے شاہی دربانوں نے روک لیا اور کہا کہ اس طرف جانا منع ہے کیوں کہ اس طرف شاہی محل ہے۔
میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان سے ملنے اور شاہی محل وغیرہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، ان میں سے ایک نے مجھے یہیں پر رکنے کا اشارہ کیا اور وہاں سے چل دیا، میں اِدھر اُدھر کا جائزہ لیتا رہا، کچھ ہی دیر بعد وہ دربان واپس آیا اور نہایت ادب کے ساتھ جھکتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا، میں اس کے پیچھے ہولیا، باقی دربان بھی میرے پیچھے اور کچھ ساتھ ساتھ چلنے لگے، ایک مقام پر آکر وہ سب وہیں رک گئے اور پہلے والا دربان مجھے اپنے ساتھ لے کر محل کے اندر داخل ہوگیا، سامنے بادشاہ سلامت اپنے تخت پہ تشریف فرما تھے، دربان جھکا اور دائیں جانب ہاتھ باندھ کر دروازے کے ساتھ کھڑا ہو گیا، میں چند قدم آگے بڑھا اور حسب روایت تعظیم بجالایا۔
پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
میں نے عرض کیا،
جہاں پناہ! ملک پاکستان کے شہر لاہور سے آیا ہوں

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.24.02 PM
مہران سٹریٹ، اس وقت کے ایک بادشاہ شاہ مہران کے نام

پھر سوال ہوا، کوئی سیاح ہو؟
میں نے مختصراً جواب دیا: نہیں عالم پناہ!
تاریخ کا ایک طالب علم ہوں اور دنیا کی تاریخ میں دلچسپی رکھتا ہوں۔
تو یہاں کیا لینے آئے ہو؟ پھرسوال ہوا۔
میں نے جواب دیا، اس خوبصورت اور بارونق شہر کے متعلق سن رکھا تھا جو اپنی طرز کا جدید، تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت، ثقافت کا نمونہ اور فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے، یہ چیز مجھے یہاں کھینچ لائی۔
ظل الٰہی: شاہی آداب سے خاصے آشنا ہو، آپ سے مل کر خوشی ہوئی، ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟
بادشاہ کے چہرے پر ایک خاص تمکنت تھی جو شہنشاہوں کے چہروں پر ہوا کرتی ہے۔ میں نے ایک اچٹتی نگاہ محل کے کمرے پر ڈالی، یہ خاصا بڑا کمرہ تھا، کمرے کے دائیں کونے کے اندر ہی ایک اور دروازہ تھا جو دوسرے کمرے کی طرف کھلتا تھا، دیواروں پر مختلف جنگی سازوسامان اور پوشاکیں آویزاں تھیں، بڑے بڑے گلدان اور پکی مٹی سے بنے چھوٹے بڑے انسانی مجسمے خوبصورتی کے ساتھ سجائے گئے تھے۔ محل کی چھت مضبوط لکڑی اور پکی اینٹوں کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔ مٹی اور نایاب پتھروں کے بنے کچھ زیوارت بھی لٹک رہے تھے، جنہیں شاید بادشاہ اپنی شان و شوکت میں اضافہ کے لیے پہنتا ہو گا، تب بھی اس نے اسی قسم کے زیوارات پہن رکھے تھے، کڑھائی کیے ہوئی موٹے کپڑے کی بہترین پوشاک زیب تن تھی۔ یک لخت تالی کی آواز گونجی اور ایک درباری حاضر ہوا۔ حکم ہوا کہ یہ ہمارے شاہی مہمان ہیں، انہیں عزت و تکریم کے ساتھ ہمارے مقرب کے پاس لے جایا جائے اور ان کے آرام و آسائش کا خیال اور خواہشات کا احترام کیا جائے، میں آداب بجالایا اور پچھلے پاؤں محل کے دروازے سے باہر نکل گیا۔

WhatsApp Image 2025 01 14 at 3.22.04 PM
شکار کے لئے تیار کئے گئے نیزے بھالے اور لوھے پیتل کے مختلف طرز کے اوزار جو شکار کی غرض سے ڈنڈوں وغیرہ کے آگے لگاۓ جاتے۔

یہ محل ڈبل سٹوری تھا۔ اس کے اوپر بھی کمرے بنے ہوئے تھے اور محل کے بالکل ساتھ ایک کنواں تھا، جہاں سے شاہی خاندان اور محل سے منسلک لوگوں کے لیے پانی نکالا جارہا تھا۔ ہم شاہرہ الٰہیہ (یعنی شان خداوندی روڈ) سے گزر کر مقرب کے پاس ایک کمرے میں پہنچ گئے، وہ کچھ لکھنے میں مصروف تھے،انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا، شاہی دربان جھک کر آداب بجالایا اور شاہی فرمان سامنے رکھا۔ مقرب نے سر سے پاؤں تک مجھے غور سے دیکھا، پھر مسکراتے ہوئے ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر لکھنے میں مصروف ہوگئے، اُن کے سامنے پکی مٹی سے بنی کتابی شکل میں ایک بڑی سی تختی پڑی تھی، جس پر وہ چونے کے پتھر سے کچھ لکھ رہے تھے۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ یہ کمرہ پندرہ بائی بیس فٹ کا ہو گا۔ یہاں بھی ہر چیز نہایت سلیقے کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی پوشاکیں، نہایت خوبصورت کڑھائی کے ساتھ مگر شاہی لباس سے کچھ مختلف تھیں۔ چھوٹی بڑی چوکور اور مستطیل تختی نما پلیٹیں کافی تعداد میں ایک دوسرے کے اوپر ایک طرف رکھی تھیں، شاید ان پر کوئی شاہی احکامات یا پھر کوئی پیغامات درج تھے۔ کھانے پینے کے کچھ برتن وغیرہ بھی ایک ترتیب کے ساتھ پڑے تھے، پانی کا ایک خوبصورت مٹکا جس پرنقش و نگار بنے تھے، بہت بھلامعلوم ہو رہا تھا۔ میں کافی دیر ادھر اُدھر دیکھتا رہا، انہوں نے تختی ایک طر ف رکھی اور معذرت کے انداز میں بولے: دراصل میں ایک شاہی فرمان لکھ رہا تھا۔ دو دن بعد دربار عام ہے جس کی ہر خاص و عام کو اطلاع دی جائے گی، اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا، بولے! آپ کو یہاں آنے میں کوئی دقت پیش تو نہیں آئی؟ میں نے عرض کیا! جی نہیں حضور درباری مجھے بآسانی یہاں تک لے آئے۔ انہوں نے اثبات میں ہلکا سا سر ہلایا اور کہا کہ شاہی فرمان مجھے مل چکا ہے، میں آپ کے ہمراہ اپنے محافظ روانہ کرتا ہوں، وہ آپ کو شہر اور اہم مقامات کی سیر کرا دیں گے، جب تک آپ کا دل چاہے آپ ہمارے مہمان خانے میں قیام کرسکتے ہیں، اس کا بندوبست کر دیا جائے گا۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے پاس ہی پڑے پیتل یا کانسی کے برتن میں رکھا کسی دھات کا بنا دستہ اُٹھایا اور دو مرتبہ اس برتن پر مارا۔ اس کی آواز سن کر ایک درباری اندر داخل ہوا اور سر جھکا کرحکم کا انتظار کرنے لگا، انہوں نے دو آدمیوں کے نام لیے کہ اندر بھجوایا جائے درباری نے مزید جھکتے ہوئے حکم کی تعمیل کی اور باہر چلا گیا۔
چند ہی لمحوں بعد دو لحیم شحیم آدمی اندر داخل ہوئے اور سر جھکا کر کھڑے ہوگئے، مقرب نے انہیں حکم دیا کہ یہ ہمارے شاہی مہمان ہیں، انہیں شہر اور اہم مقامات لے جاکر دکھاؤ اور خبردار! انہیں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور مسکراتے ہوئے مجھے رُخصت کیا۔ ہم تینوں کمرے سے باہر نکلے اور ایک طرف چل دیئے۔
ایک میری دائیں جانب اور دوسرا آگے آگے چلنے لگا۔ ہم ایک دروازے کے سامنے آکر رُکے۔ انہوں نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے ساتھ اندر داخل ہوگیا۔ یہ ہال نما کمرہ کافی بڑا اور مستطیل شکل میں تھا۔ اس کی لمبائی کم و بیش ستر پچھتر فٹ اور چوڑائی پچاس پچپن فٹ ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارا اے سی(ائر کنڈیشن) روم ہے، چونکہ یہاں گرمی بہت زیادہ پڑتی ہے، اس لیے یہ ہال کمرہ ائرکنڈیشن تیار کیا گیا اور اسی ہال نما کمرے میں تمام اہم اجلاس ہوتے ہیں۔ انہوں نے مجھ دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس کے اندر کی دیواریں پکی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں جب کہ ان دیواروں کے باہر اڑھائی تین فٹ جگہ چھوڑ کر دو دو فٹ چوڑی خالص مٹی کی دیواریں چھت تک کھڑی کی گئی ہیں، جس کے باعث د رمیان میں خلا آگیا ہے، اس طرح اندر بنی ہوئی اینٹوں کی دیواریں دھوپ نہ پڑنے کی وجہ سے گرم نہیں ہوتیں اور کمرہ ٹھنڈا رہتا ہے۔کمرے کے درمیان میں ایک لمبا چبوترا بنایا گیا تھا جس پر موٹا کپڑا بچھا کر اسے میز کی شکل دے د ی گئی تھی۔ اس میز کے ارد گرد اینٹوں ہی کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے چبوترے بنائے گئے تھے جو کرسیوں کا کام دیتے تھے۔

ظالم ہندو راجاؤں پر قہر ڈھانے والا بت شکن: سلطان محمود غزنوی

یہ ایک کانفرنس ہال تھا، جہا ں پر تمام انتظامی، حفاظتی و شہری امور اجلاس کی صورت میں طے پاتے۔ یہاں سے نکل کر ہم دوبارہ مین چوک پر آگئے، جہاں شہرکے تمام راستے آکر ملتے ہیں، دربار کے اشارے پر میں ان کے پیچھے بائیں گلی کی طرف مڑ گیا۔ یہ سات آٹھ فٹ چوڑی ایک گلی تھی، جس کے دونوں اطراف گھر بنے ہوئے تھے۔ چلتے چلتے ہم سیدھا شہر کے مین بازار میں پہنچ گئے۔ یہ شہر کا ایک ہی بازار تھا جو شہر کے ایک سرے سے شروع ہو کر دوسے سرے پر ختم ہو جاتا تھا۔ اس کی لمبائی دو اڑھائی فرلانگ اور چوڑائی پچاس پچپن فٹ کے قریب ہو گی۔ بازار کے ایک طرف بنی دیوار کے ساتھ ساتھ نہایت ترتیب کے ساتھ پھلوں

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.12.48 PM
بیل گاڑی

والے اور دوسری طرف گھروں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ سبزیوں والے اپنے اپنے ٹھیلے اور چھابڑیاں لگائے بیٹے تھے۔ درمیان میں جگہ خالی تھی، جہاں پر چھوٹی چھوٹی اِکا دُکا بیل گاڑی آجارہی تھیں، باقی پیدل یا چند ایک لوگ اپنے گدھے ساتھ لائے تھے، جو ضروریات زندگی کی اشیاء خرید کر ان پر لاد کر لے جارہے تھے۔ عورتیں کافی تعداد میں تھیں،کچھ نے اپنے ننھے منے بچے مخصوص طرز کے بنے ہوئے غلافوں میں رکھ کر اپنی پشت پر لٹکائے ہوئے تھے۔ کافی رش تھا، چند ایک شاہی محافظ بھی ٹہلتے دکھائی دیئے، کچھ دیر بازار میں گھومنے کے بعد ہم بائیں جانب ایک گلی میں داخل ہوگئے۔ یہ بھی تقریبا اتنی ہی چوڑی گلی تھی، اس گلی میں داخل ہوگئے۔ اس کی دائیں جانب

WhatsApp Image 2025 01 14 at 3.24.15 PM
ڈسٹ بن ( کوڑے دان ) تمام رہائشی اس کے اندر کوڑا وغیرہ پھینکتے، جس کے گھر کے باہر کوڑا دکھائی دیتا اسے سخت سزا دی جاتی
WhatsApp Image 2025 01 14 at 3.24.22 PM
مستطیل ڈسٹ بن ( کوڑے دان )

تمام بیت الخلاء بنے ہوئے تھے، جو گلی کے آخر تک جاتے تھے، ان کے بنانے کا انداز بھی خوب تھا، ان میں کسی کا بھی کوئی دروازہ نہ تھا، بلکہ اندر داخل ہوتے ہی سامنے ایک دیوار تھی جس کے باعث بائیں طرف مڑنے پر دائیں اور پھر رفع حاجت کی جگہ آجاتی۔ اندر داخل ہوتے وقت جو دیوار تھی درحقیقت یہ دروازے یا پردے کا کام دیتی، ہر بیت الخلاء کے باہر ایک صفائی والا موجود تھا تاکہ وہ آگاہ کرسکے کہ اندر کوئی ہے۔ نہانے کے لیے غسل خانے بھی بالکل اسی طرز پر بنائے گئے تھے، صفائی کا بہترین انتظام کیا گیا تھا اور موقع کی مناسبت سے فوراً بیت الخلاء کی صفائی کر دی جاتی اور بول و براز اُٹھا کر شہر سے بہت دور پھینک دیاجاتا، شہر کے مختلف مقامات پر گول اور مستطیل شکل میں کوڑا ڈالنے کے لئے ڈسٹ بن ( کوڑا دان ) بناۓ گئے تھے۔ تمام رہائشیوں پر لازم تھا کہ وہ گھر کا کوڑا وغیرہ ان کوڑا دانوں میں پھینکیں۔ اس کے لئے ایک ادارہ بنایا گیا تھا، جس کا ایک بااختیار انچارج تھا جسے سزا دینے اور جرمانہ کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا لہٰذا جس کسی کے گھر کے باہر کوڑا یا گندگی وغیرہ دکھائی دیتی اسے جرمانہ یا پھر قید کی سزا دی جاتی، یہی وجہ تھی کہ پورا شہر شیشے کی طرح صاف اور ستھرا تھا۔
اسی طرح شام کے وقت ملازمین پھل و سبزی منڈی سے تمام گندگی اٹھاتے اور شہر سے دور پھینک آتے۔یہاں سے نکل کر ہم ایک ہال کمرے میں داخل ہوئے۔ یہ ہائی سکول سے ملحقہ ایک کالج تھا جس میں لڑکے اور لڑکیاں زمین پر بچھائی گئی دری یا ٹاٹ نما کپڑے پر بیٹھے اپنے استاد کی طرف متوجہ تھے اور استاد دیوار پر پکی مٹی کے بنے ایک بورڈ پر چونے کے پتھر سے کچھ لکھ رہا تھا، یہ کمرہ کافی بڑا تھا کم و پیش پچاس ساٹھ فٹ لمبائی چوڑائی ہو گی۔ تمام بچے یک لخت ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ استاد محترم نے بھی ہماری طرف دیکھا۔ دونوں دربان استاد کی طرف تھوڑا ساجھکے

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.12.23 PM
ہائی اسکول کے ساتھ ملحقہ ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹر کے آفس کی جگہ

اور میری طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ شاہی مہمان ہیں اور بہت دور کسی ملک سے آئے ہیں۔ استاد نے نہایت احترام کے ساتھ جھک کر مجھے آداب کیا، میں نے بھی اسی انداز میں سلام کا جواب دیا۔ تمام بچے حیرت اور معصومیت کے ملے جلے انداز میں میری طرف دیکھے جارہے تھے۔ میں نے ہاتھ ہلا کر انہیں مزید اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے ہاتھ ہلا کرمجھے اس کا جواب دیا۔ تمام بچے نہایت ترتیب کے ساتھ قطار در قطار بیٹھے تھے اور بہت بھلے معلوم ہو رہے تھے۔ میں استاد صاحب کی طرف مڑا اور عرض کیا، استاد محترم! آپ انہیں کیا پڑھا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس وقت میں انہیں اپنی تہذیب و تمدن، آباؤ اجداد اور اپنی ثقافت کے بارے میں کچھ بتا رہا ہوں۔ اس کے بعد ان کی دوسری کلاس شروع ہوگی، جو ہمارے دوسرے استاد لیں گے۔ اس میں انہیں پیشہ ورانہ مہارت اور فنی تعلیم (یعنی ٹیکنیکل ایجوکیشن) کے بارے میں آگاہی دی جائے گی۔ میں نے پوچھا: اس میں کیا کچھ بتایا جاتا ہے؟ فرمانے لگے: اس میں بچوں کو ضروریات زندگی کی اشیاء بنانا، شکار کرنے کے چھوٹے بڑے اوزار بنانا، اسلحہ سازی، حفاظتی ہتھیار بنانا، عمارتیں اور کنوئیں وغیرہ بنانا سب شامل ہے۔ میں نے تعریفی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم وہاں سے نکل آئے۔

چند قدم چلتے ہی ایک گلی کے اندر مڑ گئے، دو گھر چھوڑ کر زیورات کی ایک د کان تھی جس میں طرح طرح کے خوبصورت زیور بڑی ترتیب کے ساتھ رکھے گئے تھے۔ کچھ پتھروں کو تراش کر، کچھ دھات کے بنے ہوئے اور کچھ مٹی کو پکا کر بنائے گئے تھے۔ ان میں ہار، کانٹے، چوڑیاں، انگوٹھیوں کے نگینے وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ ایک طرف چھوٹا سے ایک ترازو اور بہت سی تعداد میں آدھی چھٹانک سے بھی کم وزن اور ایک پاؤ وزن

Pic 1
مٹی اور دھات کے بنے ھوۓ زیورات اور ان کے ترازو

تک کے بٹے پڑے تھے، جو قیمتی پتھر یا نگینے وغیرہ تولنے کے لیے تھے۔ اسی طرح مٹی کے ایک پیالے میں مختلف قیمت کے سکے پڑے تھے، جو حکومت وقت کی کرنسی تھی۔ میں نہایت دلچسپی کے ساتھ یہ سب دیکھتا رہا، درباری نے جب انہیں میرا تعارف کرایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور میری طرف ہاتھ بڑھا دیا، میں نے بھی اپنا ہاتھ گرم جوشی کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے ان سے مصافحہ کیا۔ چند ایک باتیں کہیں اور اجازت لینا چاہی تو انہوں نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا پھر ان میں سے ایک خوبصورت نگینہ نکال کر بطور تحفہ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں چل دیئے۔
چلتے چلتے ہم ایک سوئمنگ پول پر آکر رکے۔ کچھ بڑی عمر کے اور کچھ نوجوان اس میں نہارہے تھے۔ میں کچھ دیر کھڑا انہیں دیکھتا رہا اور ساتھ ساتھ پول کا جائزہ لیتا رہا۔ یہ کوئی تیس پینتیس فٹ جوڑا اور پچاس پچپن فٹ لمبا ہو گا، گہرائی بھی ساڑھے چھ سات فٹ کے قریب ہوگی۔ اس کے دونوں طرف آمنے سامنے پول میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی تھیں جن کی تعداد دس تھی۔ پول میں پانی کی گہرائی چار ف

mohenjo daro fascinating facts about the first ever urban human civilization
سوئمنگ پول

ٹ سے زیادہ نہ تھی۔ اکثر بچے پول کی دیواروں سے پانی میں چھلانگیں لگارہے تھے اور کچھ سیڑھیوں سے پانی میں اترتے اور اس میں تیراکی کرتے ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے اور زور زور سے پانی اچھال کر ایک دوسرے کی طرف پھینک رہے تھے۔ گرمی بھی خاصی پڑ رہی تھی، میرا بھی دل چاہا کہ میں بھی اس ٹھنڈے پانی میں نہانے کے مزے لوں مگر کچھ سوچ کر خاموش ہو رہا اور جب رہا نہ گیا تو سیڑھیوں میں اتر کر پنڈلیوں تک پانی میں کھڑا ہو گیا۔ پانی خاصا ٹھنڈا تھا ایک دم سکون سا محسوس ہوا۔ وہ محافظ بھی میرے پاس ہی آکر کھڑے ہوگئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس کی صفائی کا انتظام کیسے کرتے ہیں؟ انہوں نے پول کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہاں سے پانی کے اخراج کا انتظام کیا گیا ہے۔ میں باہر نکلا اور اس جگہ پر پہنچ گیا۔ پول کے کونے میں فرش سے لے کر اوپر تک تقریباً ایک فٹ چوڑی جگہ رکھی گئی تھی جس کے آگے تختے رکھ کر اسے بند کر دیا گیا تھا اور باہر کی جانب چکنی مٹی سے لیپ کردیا گیا تھا تاکہ پانی باہر نہ نکل سکے اور جب پول کی صاف کرنا مقصود ہوتا تو یہ تختے ہٹا دیئے جاتے اور پول کا سارا پانی اس میں سے باہر نکل جاتا۔ میں نے پھر پوچھا کہ پول کا پانی نکل کر کہاں جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ کافی لمبی نالی بنائی گئی ہے جو سیدھا دریا کی طرف جاتی ہے، اس طرح یہ پانی دریا میں جاگرتا ہے۔ دراصل یہ شہر دریائے سندھ کے مغربی کنارے ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ ٹیلے کو جگہ جگہ سے

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.22.17 PM
عبادت گاہ کے قریب رئیس و امراء کے گھر

ہموار کرکے وہاں رہائش گاہیں بنائی گئیں تھیں، اسی لے یہ رہائش گاہیں اوپر نیچے تمام ٹیلے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں سے نکل کر ہم اس طرف نکل گئے جہاں وزراء و امراء کی رہائش گاہیں تھیں، یہ شہر کا سب سے خوبصورت حصہ تھا، کھلی رہائش گاہیں، کھلی راہداریاں اور یہاں پر دیگر شہریوں کا زیادہ گزر نہیں تھا۔ ان رہاش گاہوں کی تعداد پچاس ساٹھ گھروں پر مشتمل ہو گی۔ ان رہائش گاہوں کے قریب ہی ایک کنواں تھا جہاں سے کچھ لوگ بڑے بڑے برتنوں میں پانی نکال نکال کر لے جارہے تھے، میں نے پوچھا یہ لوگ پانی کہاں لے کر جارہے ہیں؟  اُن میں سے ایک نے کہا کہ ان لوگوں کا بس یہی کام ہے کہ کسی بھی گھر میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں، یہاں پر صرف وزراء امراء اور بڑے خاندان کے لوگ رہتے ہیں اور کوئی دوسرا گھرانہ یہاں آباد نہیں ہو سکتا۔ عام شہری آبادی یہاں سے پانچ چھ فرلانگ کے فاصلے پر ہے اس نے

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.26.15 PM
شہر کا آخری حصہ، اس سے کم و بیش دو کلو میٹر دور عام لوگوں کی بستی

اس طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ ہے عام شہریوں کی آبادی اور وہ بھی تقریباً اتنا ہی بڑا شہر ہے جتنا کہ یہ۔ میں نے کندھے اچکائے اور ٹیلے کی چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ انہوں بتایا کہ یہ ہجرے ہیں اور ان میں ہمارے بزرگ اور درویش رہائش پزیر ہیں جو اپنی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ چند فٹ اور اوپر چڑھے تو کافی کھلی اور ہموار جگہ پر جاپہنچے۔اس جگہ کے عین وسط میں ایک اور ٹیلہ تھا جس کے اوپر عبادت گاہ تھی۔ یہ عبادت گاہ شہر کی سب سے اُونچی جگہ پر تھی جہاں سے تمام شہر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہ ٹیلہ گولائی میں تھا جسے چاروں طرف سے پختہ اینٹیں لگا کر محفوظ کر دیا گیا تھا۔ اُوپر جانے کے لیے بھی سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ ہم اُوپر جاسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں کیوں نہیں ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر عبادت گاہ تک پہنچ گئے۔ انہوں نے مجھے اپنے جوتے ایک طرف اُتارنے کے لیے کہا اور خود بھی اُتار دیئے۔ جوتے اُتار کرہم عبادت گاہ کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ بغیر چھت کے ایک کھلی ہموار جگہ تھی جس کے مغرب کی جانب آدھی گولائی میں مٹی اور اینٹوں کی ایک موٹی دیوار کھڑی کی گئی تھی۔ جس کی اُونچائی

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.27.51 PM
عبادت گاہ اور اس کے نیچے تین اطراف پجاریوں کے چھوٹے چھوٹے کمرے

سات ساڑھے سات فٹ ہوگی۔ دیوار کی بنیاد کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک فٹ اُونچی بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی گئی تھی جہاں پر بزرگ یا درویش بیٹھتے اور باقی رئیس و امراء یا وزراء ان کے سامنے بیٹھ کر ان کا درس سنتے۔ درس کے خاص دنوں میں جب ان کے دیوتا وہاں آتے اس سے نیچے جو کھلی جگہ بنائی گئی تھی وہاں عام لوگ آکر عبادت کرتے اور درس سنتے۔
میں نے پوچھا کہ یہ عبادت گاہ شہر سے دور اور اتنی اُونچی جگہ پر کیوں بنائی گئی ہے، لوگ اتنی دور سے اتنی اُونچی جگہ پر چڑھ کر آتے ہیں اگر شہر کی کسی درمیانی جگہ پر ہوتی تو لوگوں کے لیے آسانی رہتی؟ اس نے کہا یہ نہایت ادب کا مقام ہے۔ یہ جگہ کسی رہائشی جگہ کے برابر نہیں ہو سکتی یا اس عبادت گاہ کے مقابلے میں کسی کی رہائش اس سے اُونچی نہیں بن سکتی۔ اسی لیے اسے سب سے اونچے مقام پرتعمیر کیا گیا ہے تاکہ اس کی بے ادبی نہ ہو۔ کیوں کہ بہت سی جگہوں پر دوہری عمارتیں بھی ہیں۔ اسی طرح ان بزرگوں اور درویشوں کے ہجرے بھی عبادت گاہ سے کچھ نیچے اور باقی شہر سے اونچے ہیں کیونکہ یہ بزرگ عام لوگوں سے بہت اُونچے ہیں۔ میں ان کی بات سن کر سکتے میں آگیا کہ یہ کس قدر باادب اور تہذیب یافتہ قوم ہے، جو اپنی عبادت گاہوں اور بزرگان دین کا اس درجہ حد تک احترام کرتی ہے۔ سہ پہر کا وقت ہونے کو تھا میں نے چلنے کے لیے کہا۔ ہم وہاں سے نیچے اترے اور چلتے چلتے شہر سے باہر نکل گئے۔ دیکھا تو ایک بڑے ٹیلے کی اوٹ میں بڑے بڑے تنور اور چولہے جلائے جارہے ہیں۔

WhatsApp Image 2025 01 13 at 11.32.19 PM
پانی کا کنواں

پکی مٹی کی بڑی بڑی ہانڈیاں اور کنالیاں پاس پڑی ہیں۔ پانی کے بڑے برے مٹکے بھی ہیں۔ کچھ لوگ گوشت بنانے اور کچھ سبزیاں کاٹنے میں مصروف ہیں ایک طرف بڑی بڑی کنالیوں میں آٹا گنودھا جارہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ لوگ شہر سے باہر یہ سب کچھ کیوں بنارہے ہیں؟ ایک بولا کہ یہاں شاہی محل کے افراد اور تمام وزراء وامراء کے لیے کھانا بنا کر ان تک پہنچایا جاتا ہے، یہ لوگ ابھی سے شروع کریں گے تو شام تک پک کر تیار ہوجائے گا۔ یہ جگہ شہر سے باہر اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ دھواں شہر کی فضا کو  آلودہ نہ کرے اور گھروں میں داخل ہوکر لوگوں کی صحت کو نقصان نہ پہنچائے۔

Pic 2
کھدائی کے دوران ملنے والی اشیا

میری حیرت کی رہی سہی جو کسر تھی وہ یہاں پر پوری ہو گئی کہ حاکم وقت نے شہر کے نظام اور انتظام کو کس قدر شفاف اور سہولیات سے آراستہ کر رکھا ہے کہ کسی ایک شخص کو کوئی معمولی سی تکلیف بھی نہ پہنچنے پائے۔ میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے ان دونوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ ان دونوں نے نہایت ادب کے ساتھ جھک کر اس کاجواب دیا۔ میں واپس مڑا اور اس حسین و دلکش شہر اور اس میں بسنے والے عظیم لوگوں کی یادوں میں گم ایک طرف چل دیا۔ اچانک زور سے آواز آئی، صاحب رُکیں! آگے کھائی ہے۔ اس آواز نے میرا سارا طلسم توڑ دیا۔ میں واقعی شہر سے باہر کھائی کے ایک کنارے پر کھڑاتھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ بابا! اگر آپ مجھے آواز نہ دیتے تو شاید میں اس کھائی میں گرجاتا اور میری روح بھی ناحق قتل ہونے والے ان باشندوں کی روحوں کے ساتھ مل جاتی۔ جو ہزاروں سال سے احتجاجاً یہاں پر بھٹک رہی ہیں مگر ان کی سننے اور انہیں انصاف دلانے والا کوئی نہیں۔ معلوم نہیں کس ظالم نے اس قدر خوبصورت اور پرامن شہر کو برباد کردیا۔ بابا جی خاموش رہے۔ پھر کچھ دیر بعد بولے: چلیں صاحب اب چلتے ہیں شام ہونے کو ہے۔

Pic 3
کھدائی ملنے والی اشیا

اُداس قدموں کے ساتھ میں باباجی کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ بابا جی بولے میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ یہ شہر چار ہزار سال پرانی تہذیب کا مرکز ہے۔ اس کی ثقافت اپنی ہم عصر سمیری ثقافت (یعنی بزرگ و معزز لوگوں کی ثقافت) سے بہت ملتی جلتی ہے۔ یہ ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر تھا اور اس کی تہذیب کئی لحاظ سے بین النہرین کی تہذیب سے ممتاز ہے۔ شہر میں بڑے بڑے حمام، کھلی اور چوڑی سڑکیں، مصنوعات، زیورات، اسلحہ اور اسلحہ خانے، مجسمہ سازی کے علاوہ یہ لوگ فن تعمیر میں بھی نہایت ماہر تھے۔ جو کتبے یہاں سے ملے ان پر لکھی ہوئی تحریریں آج تک ناقابل فہم ہیں۔ ظاہراً  اسمیری بھارت کی برہمی ابجد، ابتدائی عیلامی، جنوبی عربی سے ملتی ہے اور غالبا بھارت کے قدیم مذہب کے پیروکار تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ رومیوں نے اس طرف رخ کیا اور اس عظیم شہر کے باشندوں کو بیگ وقت تہہ تیغ کردیا، مگر اس کے بارے میں حتمی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قوم کس قوم کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ اسی لیے اس شہر کو ”موہنجودڑو“یعنی مردوں کا ٹیلہ کہا گیا ہے۔ اس طرح باتیں کرتے اور چلتے چلتے ہم اس گیٹ تک آن پہنچے جس گیٹ سے چند گھنٹے قبل میں اندر داخل ہوا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button