امریکہ چین تجارتی جنگ:”چچا چھکن” کا تجزیہ
انکل ٹرمپ کا ٹیرف تماشہ: چین کی چٹخنیاں، دنیا کی چکا چوند" ایک الگ انداز، مزاحیہ تبصرہ


امریکہ چین تجارتی جنگ:”چچا چھکن” کا تجزیہ
صدرِ معظم ڈونلڈ ٹرمپ، جنہیں دنیا "ٹیرف کے بادشاہِ بے تاج” کے نام سے جانتی ہے، نے روایت کے مطابق ایک بار پھر عالمی منڈی کو اپنی "اقتصادی شطرنج” سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے درآمدی اشیا پر ایسے ٹیکس لگائے ہیں کہ لگتا ہے امریکہ اب "گولہ بارود کی بجائے پھٹے پرانے کپڑوں کی منڈی” بن گیا ہو۔ 24 سے 49 فیصد تک کے ٹیرف کا اعلان سنتے ہی دنیا بھر کے ممالک نے اپنا اپنا ”پنڈورا باکس” کھول لیا ہے۔ بھارت نے سوچا: "ہم بھی تو کسی سے کم نہیں!” اور امریکی مصنوعات پر 100 فیصد ٹیرف لگا کر اپنی دھوتی گھٹنوں سے اوپر کر لی جب کہ چین نے اپنے "ڈریگن والے” انداز میں جوابی ٹیرف کا اعلان کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے برکس ممالک پر 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی دے کر ثابت کیا کہ "اقتصادی جنگ” بھی ٹرمپ ٹاور کی طرح اوپر سے نیچے تک صرف "سنہری پینٹ” ہوتی ہے۔
چین پر 245 فیصد ٹیرف کی بات سن کر تو ایسے لگا جیسے امریکہ نے چینی مصنوعات کو "سونا بنانے کی فیکٹری” بنا دیا ہو۔ اب امریکی شہری اگر چین کا ایک پنکھا خریدیں گے تو اس کی قیمت شاید ایئر کنڈیشنر جتنی ہو جائے! چین کی معیشت پر یہ ضرب اتنی کاری ہے کہ "کنفیوشس بھی اپنی قبر میں کروٹیں لے رہے ہوں گے”۔ الیکٹرانکس اور سولر پینلز کی برآمدات گرتی دیکھ کر چینی صنعتکار اب شاید "ہاتھ سے چلنے والے پنکھے” بنانے لگیں، جو شائد ٹیرف سے بچ گئے ہیں۔
جب چین کی برآمدات کم ہوں گی تو یقیناً یوآن کی قدر بھی گرے گی۔ مگر چین نے تو زرِ مبادلہ کے ذخائر کو "پانی کی طرح بہانا” سیکھ رکھا ہے۔ سوچئے کہ کیا ہو اگر چین یوآن کو "کاغذی کشتی” بنا کر چھوڑ دے اور دنیا بھر کی کرنسیاں "دریا کے بہاؤ” میں بہہ جائیں؟ البتہ! چین کے پاس ایک ہی حل ہے: "ٹیرف کا جواب ٹیرف سے اور پابندی کا جواب پابندی سے”۔ اب تو بوئنگ کے ہوائی جہاز بھی چین میں "کاغذی طیاروں” کی طرح نظر آ رہے ہیں۔
چین کی معیشت کے ڈگمگانے سے تیل اور دھاتیں سستی ہو جائیں گی۔ لگتا ہے اب دنیا "تیل کے کنویں” پر بھی ”آف سیزن ڈسکاؤنٹ” سیل لگا دے گے۔ جرمنی اور جاپان جیسے ممالک جو چین کو مشینری بیچتے ہیں اب شاید اپنی فیکٹریوں میں "چینی کھلونے” بنانے لگیں۔ سپلائی چین (supply chain) کے نام پر اب تو لگتا ہے کہ دنیا بھر کی کمپنیاں "چور بازار” میں کھڑی ہیں، جہاں ہر کوئی اپنا حصہ لے کر بھاگ رہا ہے۔
چین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب امریکہ کو چھوڑ کر "افریقہ اور یورپ کو گود لے گا”۔ مقامی صنعتوں کو سبسڈی دے کر چین اب "گھر بیٹھے کپڑے بنانے” والوں کو بھی ٹیکنالوجی دے گا۔ اگر امریکہ نے چپس پر پابندی لگائی تو چین "آلو کے چپس” کی صنعت کو فروغ دے گا۔ ہواوی Huawei اور ڈی جے آئی DJI جیسی کمپنیاں اب "خود ساختہ چپس” بنا کر دکھائیں گی جو شاید امریکی چپس سے بھی تیز چلیں گے!
دونوں لیڈران کی یہ جنگ اب ایک "ٹینس میچ” بن چکی ہے، جہاں ٹیرف کی گیند کو ہر کوئی دوسرے کی جانب زور سے شارٹ مارنا چاہتا ہے۔ عالمی تجارتی ادارہ (WTO) تو اب "کھلونا بن چکا ہے”، جہاں امریکہ کہتا ہے: "ہمارا فیصلہ ماننا ہے تو مانو، ورنہ ٹیرف کا اگلا راؤنڈ تیار ہے!”
یہ تجارتی جنگ جیتنے والا شاید کوئی نہ ہو، ہارنے والی پوری دنیا ہوگی۔ جب تک انکل ٹرمپ "ٹیرف کی توپ” اور چین "یوآن کی تلوار” چلاتے رہیں گے، عالمی معیشت "سرکس کے شیر” کی طرح ڈانس کرتی رہے گی۔ باقی دنیا کی حیثیت اس تماشے میں "مونچھوں پر تاؤ دینے والے تماش بینوں” جیسی ہے، جو کہتی نظر آ رہی ہے کہ "ارے بھائی، یہ ٹیرف کا کھیل کب تک چلے گا؟ ہمیں تو کچھ سستا سامان بھی چاہیے!”