اُچے برج لاہور دے! اندرون شہر کا دہلی دروازہ
دِل کی دھڑکن، تاریخ کا نغمہ، ثقافت کا آئینہ۔۔۔۔لاہور


اُچے برج لاہور دے! اندرون شہر کا دہلی دروازہ
دہلی دروازہ:
شمال کی طرف کھڑا یہ دروازہ”سلاطین کے قافلوں“کا گواہ ہے۔ جب تیمور نے دہلی کو روند ڈالا تو لاہور نے اپنے اس دروازے سے انہیں خوش آمدید کہا۔ آج بھی اس کی بلند کمانوں سے گزرتی ہوا میں مغل بادشاہوں کے علم کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔ دہلی دروازہ لاہور کے اندرون شہر کے 13 تاریخی دروازوں میں سے ایک ہے، جسے مغل بادشاہ اکبر کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس کا نام اس کی جغرافیائی سمت کی مناسبت سے رکھا گیا، کیونکہ یہ دروازہ دہلی (موجودہ بھارت) کی طرف کھلتا ہے اسی نسبت سے دہلی دروازے کا نام دیا گیا۔ یہ

دروازہ مغلیہ دور میں تجارتی قافلوں کے لیے اہم گذرگاہ اور شہر کی حفاظتی فصیل کا حصہ تھا۔ 19ویں صدی میں انگریزوں نے اس کی بحالی کی۔ جس کے بعد یہ لاہور کی ثقافتی شناخت کا اہم حصہ بنا رہا۔
– دہلی دروازہ لاہور کے مشرقی جانب واقع ہے اور ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔
– اسے رات کے وقت روشن کیا جاتا ہے، جو سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے دیدنی منظر پیش کرتا ہے۔
– دروازے کی ساخت کو تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے اور یہ سیاحتی مقام بن چکا ہے۔
دہلی دروازے کے اندر مشہور مقامات
1. مسجد وزیر خان

– یہ مغل دور کی شاہکار مسجد ہے۔ جو 1634ء میں نواب وزیر خان نے تعمیر کروائی۔ اس کی دیواروں پر نفیس فارسی ٹائلز اور خطاطی کے نمونے ہیں۔ یہ مسجد اپنی دلکش ٹائل ورک، فریسکو آرٹ اور فنِ تعمیر کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔مسجد کے صحن میں بڑے پیمانے پر نمازیوں کے لیے جگہ موجود ہے، جہاں پنجگانہ نماز آج بھی باقاعدہ سے ادا کی جاتی ہے۔ مسجد و زیر خان کا لاہور کی قدیم ترین مساجد میں شمار ہوتا ہے۔
2. واں کھٹائی:

– دہلی دروازے کے قریب واقع یہ شیرینی کی مشہور دکان ہے، جو لاہور کی روایتی مٹھائیوں جیسے ”پھینیوں“ اور ”رس گلے” کے لیے مشہور ہے۔ یہ دکان مقامی لوگوں اور سیاحوں میں یکساں مقبول ہے۔
3.چٹا دروازہ:
– یہ سفید رنگ کا دروازہ 1650ء میں تعمیر ہوا اور اصل دہلی دروازے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ وزیر خان چوک پر واقع ہے اور اس کی تعمیراتی خوبصورتی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
4. ٹکسالی چٹھا:
– یہ فلمی پوسٹرز اور پرانے دستاویزات کی مارکیٹ ہے، جو فن اور ثقافت کے شائقین کے لیے اہم مقام ہے۔ یہاں پرانی فلموں کے پوسٹرز، کتابیں، اور آرٹ کے نمونے دستیاب ہیں۔
5. شاہی حمام:

دہلی دروازے کے بالکل اندر واقع، یہ مغل دور کا عوامی حمام تھا، جسے وزیر خان نے 1635ء میں تعمیر کروایا۔
ثقافتی اور معاشرتی اہمیت
– دہلی دروازہ لاہور کی مصروف ترین گلیوں میں سے ایک ہے، جہاں روایتی بازار، دستکاری کی دکانیں، اور کھانے کے اسٹالز موجود ہیں۔
– یہ علاقہ ادبی محفلوں اور ثقافتی تقریبات کا مرکز بھی رہا ہے، جہاں مقامی فنکار اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
دہلی دروازے کے اندر مشہور حویلیاں
1. حویلی نواب وزیر خان:
مسجد کے بانی نواب وزیر خان کی رہائش گاہ جوآج بھی جزوی طور پر موجود ہے۔
2. حویلی رستم خان:
ایک شاندار مغلیہ طرز تعمیر کی مثال مگر وقت کی تند و تیز آندھیوں اور حکومتی بے توجہی کی وجہ سے اب زوال پذیر ہو رہی ہے۔دہلی دروازے کے اندر کئی پرانی گلیوں میں تاریخی طرز کے آنگن والے مکانات آج بھی موجود ہیں۔
دہلی دروازے کے بازار
1. کشمیری بازار:
دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی قدیم کشمیری بازار شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں اعلیٰ معیار کے کپڑے، قالین اور دستکاری کے سامان کی خریداری ہوتی ہے۔
2. سونے چاندی کا مشہور زمانہ بازار:
زیورات کی مشہور مارکیٹ ”سوہا بازار“ کا راستہ بھی دہلی دروازے سے گزر کر مل جاتا ہے گو کہ یہ شاہ عالمی مارکٹ کے اندر موجود ہے۔
3. بوہڑ والا چوک:
دہلی دروازے سے آگے، بازار کے وسط میں واقع ہے، جہاں پھل، سبزی، مصالحے اور دیگر اشیائے خورونوش دستیاب ہیں۔
4. ادویات کا بازار:
پرانی طرز کی جڑی بوٹیوں اور یونانی دوا سازیاں یہاں آج بھی رائج ہیں۔
دلچسپ حقائق
دہلی دروازے کی بحالی کا منصوبہ ”والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی” (WCLA) نے مکمل کیا ہے۔ آج دہلی دروازہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ یہاں ثقافتی پروگرام، قوالی نائٹس اور مقامی فوڈ فیسٹیولز بھی منعقد ہوتے ہیں۔
تاریخی حوالے
دہلی دروازے کی تعمیر میں سرخ سنگِ مرمر اور پکی اینٹوں کا استعمال ہوا، جو مغل فن تعمیر کی پہچان ہے۔ انگریزوں کے دور میں اس دروازے کو تجارتی مرکز کے طور پر فروغ دیا گیا، جس کی وجہ سے یہ لاہور کی معاشی سرگرمیوں کا اہم حصہ بنا۔ لاہور کا دہلی دروازہ نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ شہر کی ثقافتی روایات کو زندہ رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے اندر موجود مساجد، بازار، اور تاریخی عمارتیں لاہور کے شاندار ماضی کی گواہ ہیں۔