"اظہار خیال کی پابندی میں زندہ رہنے کی کہانی”
آپ کی آزادی تب شروع نہیں ہوتی جب دروازے کھلتے ہیں،وہ تب شروع ہوتی ہے جب آپ کا ذہن آزاد ہوتا ہے۔ ایک مثبت سوچ شہزاد عابد خان کا نظریہ، مشکلات میں زندہ رہنے کا گُر

"اظہار خیال کی پابندی میں زندہ رہنے کی کہانی”
ایک مثبت سوچ شہزاد عابد خان کا نظریہ، مشکلات میں زندہ رہنے کا گُر
جب آپ ایک آمریت میں جی رہے ہوں تو زندہ رہنا ایک فن بن جاتا ہے. ایسا فن جو خاموشی میں سیکھا جاتا ہے، نظروں کے تبادلوں میں، اور آپ کے ذہن کے ان کونوں میں جہاں کوئی جھانک نہیں سکتا۔ یہ کہانی کسی ڈرامائی فرار یا کسی ہیرو کی بغاوت کی نہیں ہے۔ یہ اُس چیز کے بارے میں ہے جو شاید کم نظر آتی ہے مگر کہیں زیادہ مشکل ہے:
کہ کیسے اپنی سوچ کو قید ہونے سے بچایا جائے۔
میں ایک ایسے نظام میں جی رہا ہوں جہاں ہمیں خوف پہلے سکھایا گیا، الفاظ بعد میں۔ سچ صرف سرگوشیوں میں بولا جاتا تھا، کبھی زور سے نہیں۔ ہر جگہ نظریں تھیں، کبھی کیمروں کے ذریعے، اور کبھی آپ کے اپنے ہمسائے کے ذریعے۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ کیا سوچنا ہے، کیا بولنا ہے، یہاں تک کہ کیا محسوس کرنا ہے۔ ان حدود سے باہر جانے کی سزا صرف مار نہیں تھی،بلکہ مٹایا جانا تھا۔
لیکن میں آپ کو، خاص طور پر نوجوانوں کو، یہ بتانا چاہتا ہوں:
آپ پھر بھی زندہ رہ سکتے ہیں، اپنے ذہن کے ساتھ۔
۱۔ اپنے اندر کی دنیا کو محفوظ رکھیں
جو چیز نظر نہ آئے، وہ چھینی نہیں جا سکتی۔ میں نے اپنے ذہن میں ایک پناہ گاہ بنائی، ان کتابوں سے جو میں نے چھپ کر پڑھیں، ان گانوں سے جو مجھے یاد تھے، ان یادوں سے جو میں نے تیز دھار ہتھیاروں کی طرح سنبھال رکھیں۔ جب سب کچھ بے رنگ محسوس ہوتا تھا، تب میں نے اپنی سوچ میں چنگاریاں جلائیں… اور انہیں بجھنے نہیں دیا۔
۲۔ خاموشی کی طاقت کو سمجھیں
آمریت میں خاموشی کمزوری نہیں، حکمت ہے۔ کب بولنا ہے اور کب نہیں، یہ جاننا کئی بار میری جان بچا گیا۔ لیکن خاموشی کا مطلب ہار مان لینا نہیں ہوتا۔ آپ پھر بھی جان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، چُن سکتے ہیں، بس خاموشی سے، ابھی کے لیے۔
۳۔ چھوٹے چھوٹے انکار کی اہمیت
چھوٹے چھوٹے انکار بھی بغاوت ہوتے ہیں۔ ایک نظر، ایک چھپی ہوئی کتاب، خوف کے لمحے میں ایک ہنسی۔ یہ لمحے یاد دلاتے ہیں کہ آپ ابھی بھی انسان ہیں، ابھی بھی "آپ” ہیں۔
۴۔ اپنے جیسے لوگوں کو تلاش کریں
ایسے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، اگرچہ وہ بھی خاموش ہوتے ہیں۔ اُن کو تلاش کریں جو سچائی سے نظریں ملاتے ہیں۔ جو اصل سوال کرتے ہیں۔ جو خواب دیکھنا نہیں بھولے۔ آپ انہیں پہچان لیں گے، ان کی آنکھوں سے، ان کے چہروں سے، ان کے سوالوں سے۔
۵۔ مستقبل کے لیے تیار رہیں
آمریت مایوسی سے جیتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ آپ یقین کر لیں کہ یہ سب ہمیشہ رہے گا۔ لیکن کچھ بھی ہمیشہ نہیں ہوتا۔ ایک دن یہ نظام ٹوٹے گا۔ یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔
تیار رہیں۔ سیکھتے رہیں۔ سوچتے رہیں۔ خواب دیکھتے رہیں۔
اگر آپ اس وقت قید محسوس کر رہے ہیں:
آپ کی آزادی تب شروع نہیں ہوتی جب دروازے کھلتے ہیں، وہ تب شروع ہوتی ہے جب آپ کا ذہن آزاد ہوتا ہے۔
اُسے سنبھالیں۔ اُسے جلاتے رہیں۔ کیونکہ ایک دن دنیا بدلے گی۔
اور جب بدلے گا،
تو آپ اُن لوگوں میں ہوں گے جو ایک بہتر دنیا بنانے کے قابل ہوں گے۔
نہ اس لیے کہ آپ کو ڈر نہیں لگا…
بلکہ اس لیے کہ آپ نے اپنے اندر کی زندگی کو زندہ رکھا۔