مشرق ایکسکلوزیو

سندھ طاس معاہدہ معطل!پاکستانی ردعمل و اثرات

معاہدے کے آرٹیکل XII کے مطابق، اس میں تبدیلی یا خاتمے کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔ یک طرفہ خاتمہ بین الاقوامی قوانین (جیسے ویانا کنونشن) کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔

Shahzad Abid Khan
شہزاد عابد خان

سندھ طاس معاہدہ معطل!پاکستانی ردعمل و اثرات

گزشتہ روز مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں فائرنگ سے 26 سیاح ہلاک ہو گئے۔ ہلاک افراد میں بھارتی سیاحوں سمیت غیر ملکی سیاح، بھارتی بحریہ کا افسر اور ایک انٹیلی جنس بیورو کا اہلکار شامل ہیں۔ اس واقعے کے ایک روز بعد بھارت نے تمام پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کردیے اور 48 گھنٹے میں پاکستانی شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اس واقع کے بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کو سارک کے تحت دیے گئے ویزے بند کر دیے گئے ہیں۔ جو پاکستانی اس وقت بھارت میں موجود ہیں اُن کے ویزے منسوخ تصور کئے جاتے ہیں۔ اٹاری واہگہ بارڈر بھی بند کردیا گیا ہے۔ پاکستانیوں کو ویزہ نہیں ملے گا۔ بھارت میں موجود پاکستانی 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑ دیں۔ اس کے ساتھ ترجمان بھارتی وزارت خارجہ نے انڈس واٹر معاہدہ بھی معطل کردیا۔

انڈس واٹر معاہدہ کیا ہے؟

 سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) 19 ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں کراچی میں دستخط ہوا۔ اس پر پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے۔ یہ دنیا کا سب سے کامیاب بین الاقوامی معاہدہ تصور کیا جاتا ہے، جس نے 3 جنگیں (1965، 1971، 1999) اور متعدد تنازعات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا۔

اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ اور اس کے ساتھ دوسرے دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس، ستلج کو دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ بھارت کو مشرقی دریاؤں راوی، بیاس، ستلج کا کنٹرول دیا گیا، جبکہ پاکستان کو مغربی دریاؤں سندھ، جہلم، چناب کے پانی پر حق دے دیا گیا۔ اگر یہ معاہدہ ختم یا معطل کیا جاتا ہے تو اس کے خطہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر ماہرین اپنی اپنی آرا دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کے دفاعی تجزیہ کاروں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام دہشت گردی واقع کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔ سیاسی رہنما اور بین الاقوامی امور کے ماہر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کیلئے بہانا بنایا ہے جب کہ سابق سفیر عبدالباسط نے اس ساری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدشہ ہے بھارت پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اجلاس میں بھارتی اقدامات کے خاطر خواہ جواب دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

معاہدے کے ختم ہونے سے پاکستان کو ممکنہ نقصانات

  • پانی کی قلت: پاکستان کی زراعت کا 90% انہی دریاؤں پر انحصار ہے۔ معاہدہ ختم ہونے سے پانی کی تقسیم میں خلل پڑ سکتا ہے۔

  • معاشی بحران: زراعت اور صنعتیں متاثر ہوں گی، جس سے معیشت کو شدید دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔

  • ماحولیاتی اثرات: دریائی پانی کے بہاؤ میں تبدیلی سے زمین کے کٹاؤ، نمکیات کا بڑھ جانا اور آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

  • تنازعات میں اضافہ: پانی کے بندوں اور ڈیموں پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

کیا معاہدہ یک طرفہ ختم کیا جا سکتا ہے؟

  • قانونی پہلو:

  • معاہدے کے آرٹیکل XII کے مطابق، اس میں تبدیلی یا خاتمے کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔ یک طرفہ خاتمہ بین الاقوامی قوانین (جیسے ویانا کنونشن) کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔

  • بھارت کا موقف: بھارت پہلے بھی اس معاہدے پر سوالات کھڑا کر چکا ہے اور سندھ طاس معاہدے کو اپنے لیے "خطرپ” قرار دیتے ہوئے یک طرفہ کارروائی کی دھمکی دے چکا ہے مگر قانونی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت خاتمہ

  • سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی سے وجود میں آیا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی براہ راست مداخلت کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہے تاہم اگر کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو مسئلہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) یا سلامتی کونسل تک جا سکتا ہے۔

  • معاہدے میں تنازعات کے حل کے لیے "طاس کمیشن” اور عالمی بینک کی ثالثی کا نظام موجود ہے۔

معاہدے کا مستقبل

  • بھارت نے 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد معاہدے پر "نظرثانی” کی بات پہے بھی کی تھی۔

  •  پاکستان اس معاہدے کو اپنی بقاء کے لیے اہم سمجھتے ہوئے کسی بھی یک طرفہ عمل کو بین الاقوامی عدالتوں میں چیلنج کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک نازک توازن ہے۔ یک طرفہ خاتمہ نہ صرف علاقائی استحکام کو متاثر کرے گا بلکہ بین الاقوامی قانون کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم ہوگی۔

بھارت کے اس فیصلہ کے بعد کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا جاتا ہے پاکستان کے پاس کیا کیا آپشن موجود ہیں؟

بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی

  • پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی کو ICJ میں چیلنج کر سکتا ہے۔ ویانا کنونشن (1969ء) کے تحت کسی معاہدے کا یک طرفہ خاتمہ غیر قانونی ہے۔

  • چونکہ سندھ طاس معاہدے کی تشکیل میں عالمی بینک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان اس ادارے کو تنازعہ حل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔

  • مسئلہ کو سلامتی کونسل میں پانی کی بندش کو "امن کے لیے خطرہ” قرار دے کر بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی جا سکتا پے۔

سفارتی دباؤ اور اتحادیوں کی حمایت

  • پاکستان چین، ترکی، سعودی عرب، اور دیگر اسلامی ممالک کو سفارتی سطح پر ساتھ ملا سکتا ہے۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ چین پہلے ہی سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔

  • پانی کی قلت کو "انسانی حقوق کی خلاف ورزی” کے طور پر پیش کرکے عالمی رائے عامہ کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔

تکنیکی اور ماحولیاتی اقدامات

  • دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بھاشا ڈیم کی تعمیر تیز کی جا سکتی ہے۔

  • زیرزمین پانی کے استعمال، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور ڈی سیلینیشن پلانٹس (نمکین پانی کو صاف کرنے) کی صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے۔

  • کم پانی والی فصلیں جیسے گندم کی بجائے جو اگانے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

فوجی ردعمل (انتہائی خطرناک آپشن)

  •  اگر بھارت دریاؤں پر بند بنا کر پانی روکتا ہے تو پاکستان ان ڈیموں یا ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو فوجی ہدف قرار دے سکتا ہے۔ یہ 1965ء کی جنگ میں بھارت کے "آپریشن جبرالٹر” کی طرح ایک خطرناک قدم ہوگا۔

  •  پانی کے بحران کو کشمیر کے مسئلے سے جوڑ کر بین الاقوامی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے۔

 اقتصادی اور سماجی تیاری

  •  شہری اور دیہی علاقوں میں پانی کی راشننگ اور قیمتوں میں کنٹرول۔

  •  ڈرپ اریگیشن اور جدید آبپاشی کے طریقوں کو فروغ دے کر فصلوں کی پیداوار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

 دہشت گردی یا پراکسی جنگ کا خطرہ

  •  اگر سفارتی اور فوجی آپشنز ناکام ہوں تو انتہائی صورت میں پاکستان بھارت کے خلاف پراکسی گروپس کو سپورٹ کر سکتا ہے۔ یہ قدم بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کر سکتا ہے اور معاشی پابندیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

 عالمی میڈیا مہم

  • چونکہ سوشل میڈیا ایک پاور فل ٹول کے طور پر اب سامنے آچکا ہے اس لیے پاکستان سوشل میڈیا اور بین الاقوامی نیوز چینلز کے ذریعے بھارت کے اقدامات کو "انسانی المیہ” کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

  •  یک طرفہ اقدام بھارت کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے گا اور اسے "پانی کی جنگیں” کا مجرم قرار دیا جائے گا۔

  • اسی طرح پاکستان کے لیے یہ ایک خطرناک عمل ثابت ہو گا کیونکہ پانی کے بغیر زراعت کا نظام تباہ ہو سکتا ہے، جس سے قحط، بے روزگاری، اور سماجی بغاوت پھوٹ سکتی ہے۔

  • جنگ کا خطرہ: دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں، لہذا کسی بھی فوجی تصادم کا نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔

 سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک "مشترکہ خودکش بم” کی مانند ہے۔ یک طرفہ خاتمہ دونوں کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ اس لیے عالمی برادری اور دونوں ممالک کے عوامی دباؤ کے تحت مسئلہ کو مذاکرات سے حل کرنا ہی واحد راستہ ہے۔

بھارت نے پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کردیے،ملک چھوڑنے کا حکم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button