دِل کی دھڑکن، تاریخ کا نغمہ، ثقافت کا آئینہ۔۔۔۔لاہور
لاہور صرف ایک شہر نہیں، یہ ایک ”روح“ ہے جو صدیوں کے سفر میں جڑی ہوئی ہے۔ جیسے دریائے راوی کی لہریں اس کے دامن کو چومتی ہیں، ویسے ہی یہ شہر وقت کی دھول میں چمکتا رہا، کبھی راجاؤں کے تاج میں جڑا ہیرا، کبھی شہنشاہوں کی نگاہِ خاص کا محور اور اب پاکستان کی ثقافت کا سینہ فخر, (سلسلہ وار تاریخ)


دِل کی دھڑکن، تاریخ کا نغمہ، ثقافت کا آئینہ۔۔۔۔لاہور
(قسط نمبر 1)
لاہور صرف ایک شہر نہیں، یہ ایک ”روح“ ہے جو صدیوں کے سفر میں جڑی ہوئی ہے۔ جیسے دریائے راوی کی لہریں اس کے دامن کو چومتی ہیں، ویسے ہی یہ شہر وقت کی دھول میں چمکتا رہا، کبھی راجاؤں کے تاج میں جڑا ہیرا، کبھی شہنشاہوں کی نگاہِ خاص کا محور اور اب پاکستان کی ثقافت کا سینہ فخر
”لاہور لاہور اے“
غزل کے مصرعے جو اس کی اینٹ اینٹ میں بسے ہیں۔ لاہور کی گلیاں اقبال کے افکار کی طرح گہری، فیض کے اشعار کی طرح رچی ہوئی اور منٹو کی کہانیوں کی طرح پراسرار ہیں۔ یہاں کی فضا میں غالب کی نوکِ قلم کی سی شوخی ہے تو حضرت علی ہجویری ؒ کے دربار کی خاک میں سکونِ ابدی بھی۔ جب کوئی کہتا ہے ”لاہور لاہور اے“ تو یہ محض ایک جملہ نہیں! یہ ایک ”ندائے عشق“ہے جیسے محبوب کی ہر ادا اور اُس کی ہر سانس میں دعوتِ دید ہو۔
ثقافت کا میلہ، رنگ، راگ، اور رزق
لاہور کی ثقافت”بسنت“ کی طرح رنگین ہے
جہاں کبھی موسمِ بہار میں پتنگوں کی اُڑان آسمان کو چھوا کرتی تھی، جس کی گلیوں میں گُڈی گڈے کی شادیوں میں بچوں کی شہنائیاں گونجا کرتیں تھیں۔ جہاں خواجہ سراؤں کے ڈانس اور گھنگروؤں کی چھنکار سے بوڑھے بھی بچے بن جایا کرتے تھے۔ لاہور صرف ایک شہر کا نام نہیں بلکے ذائقوں کا جادو جگاتے پکوانوں کی جاگیر ہے، کہیں نہاری کی مہک، حلوہ پوری کی چٹخارے اور کہیں لسی کی شیریں ٹھنڈک، یہاں کھانا محض پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں ”محبت کا اظہار“ ہے۔
جدیدیت اور روایت کا سنگم
لاہور آج بھی ایک”زندہ داستان“ ہے
جس کے تعلیم کا چراغ سمجھے جانے والے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی جیسے ادارے اقبال کے ”خودی” کو پروان چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ جہاں فن کی بازگشت جیسا نیشنل کالج آف آرٹس جس کی دیواریں رنگوں سے باتیں کرتی ہیں جہاں الحمرا آرٹس کونسل کے سٹیج ڈرامے زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ معیشت کی دھمک میں لپٹا ایک شہر جہاں لیبرٹی مارکیٹ کی رونقیں، مال روڈ کی شامیں، ڈیفنس کی شاہراہیں اور گوالمنڈی کے روایتی پکوان ہر کسی کی اپنی ایک الگ شاعری ہے اور اس کے ہر مصرے میں ایک الگ کشش اور خوبصورتی کا ایک الگ رنگ ہے۔ اس شہر نے ترقی کی دوڑ میں بھی اپنی رُوح نہیں بیچی۔
لاہور کی رُوح، اک نغمہ جو کبھی ختم نہیں ہوتا
کہیں وزیر خان مسجد کے ٹائلوں میں پوشیدہ محبت کے خطوط، کہیں مقبرہ جہانگیر کی سنگ مرمر پر شبنم کی مانند آنسو۔ یہ شہر ہر دور میں اپنے عاشقوں کو ڈھونڈتا رہا، جو ایک بار اس کی گلیوں میں کھو گیا، وہ ہمیشہ کے لیے ”لاہور لاہور اے“ کا ترانہ گاتا رہا۔
لاہور کو سمجھنے کے لیے اس کی ہوا میں سانس لو،
کیونکہ یہ شہر نہیں ”جذبوں کی کتاب“ ہے
جس کا ہر ورق جب چُھوا جائے تو دِل کی دھڑکن بن جاتا ہے
تاریخ کے آئینے میں:
جہاں کا ہر پتھر اک الگ کہانی سناتا ہے۔ کہتے ہیں ”لاوا“ کے ہاتھوں بُنی یہ دھرتی، رامائن کے قصوں سے نکل کر تاریخ کے اوراق میں سما گئی تھی۔ مغلیہ دور کی شان جب اکبر نے اسے دارالحکومت بنایا تو شالیمار کے فوارے شہنشاہوں کے خواب بن گئے۔ بادشاہی مسجد کا ہر مینار عظمتِ اسلام کا نقیب اور لاہور قلعہ کی دیواریں وقت کے زخم چھپائے بیٹھی ہیں۔ وکٹورین عمارتوں نے مغل رعنائیوں کے ساتھ رقص کیا اور گورنمنٹ کالج جیسے اداروں نے علم کی مشعلیں روشن کرنا شروع کردیں۔
لاہور شہر کی بنیاد کب اور کس نے رکھی؟
ہندوؤں کی مذہبی کتاب”رامائن“ کی روایت
لاہور کے نام اور بنیاد کو ہندو مذہبی کتاب”رامائن“ سے جوڑا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق، لاہور شہر کی بنیاد ”رام“ کے بیٹے ”لوہ“ یا”لاوا“ نے رکھی تھی، جس کے نام پر اس کا ابتدائی نام”لوہاوڑ“یا ”لاواپوری“ (لاوا کا شہر) رکھا گیا جب کہ اس کے جڑواں بھائی”کوشا“ نے قصور شہر کی بنیاد رکھی۔ لاہور قلعے کے اندر”’لوہ مندر“ کے آثار بھی اسی روایت کی عکاسی کرتے ہیں، جو قدیم ہندو دور کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔
قدیم حوالے اور تنقید
اگرچہ یہ افسانہ مقبول ہے لیکن تاریخی شواہد کی کمی کی وجہ سے اسے ”میتھولوجیکل تھیوری“ تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ”رگ وید“ (1700 قبل مسیح) میں درج”دس راجاؤں کی جنگ“ کا تذکرہ راوی کے کنارے ہونے والی لڑائی سے ملتا ہے۔ جسے بعض مورخین لاہور کی قدیم تاریخ سے جوڑتے ہیں۔ لیکن اس کی تصدیق کے لیے ٹھوس ثبوت کسی کے پاس موجود نہیں ہیں۔
قدیم جغرافیائی حوالے
پٹولمی کی جغرافیہ (دوسری صدی عیسوی)
یونانی جغرافیہ دان ”کلاڈیئس ٹولیمئس“ نے اپنی کتاب”جیوگرافیہ“میں ”لابوکلا“ نامی شہر کا ذکر کیا، جو دریائے راوی اور چناب کے درمیان واقع تھا۔ مورخین کی ایک بڑی تعداد اسے قدیم لاہور سے متعلق سمجھتی ہے۔
چینی سیاح”شوان زانگ“ کا دورہ (630 عیسوی)
ساتویں صدی میں چینی راہب ”شوان زانگ“ نے لاہور کو ایک”ہندو اکثریتی“ شہر کے طور پر بیان کیا، جہاں برہمنوں کی آبادی زیادہ تھی۔
آثارِ قدیمہ کے ثبوت
لاہور قلعے کی کھدائی (1959)
1959ء میں لاہور قلعے کے اندر کی گئی کھدائی میں 4,700 سال پرانے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے دریافت ہوئے، جو اس علاقے میں انسانی آبادی کی قدیم ترین نشانی ہیں۔
موہلہ مولیان کی دریافت
حالیہ برسوں میں محلہ مولیاں (اندرون لاہور) میں 4,500 سال پرانی مٹی کی اشیاء ملی ہیں۔ جو لاہور کی مسلسل آبادی کی تصدیق کرتی ہیں۔
ابتدائی تاریخی دستاویزات
حدود العالم (982 عیسوی)
اس فارسی متن میں لاہور کو ”لہور“ کے نام سے ایک ایسے شہر کے طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں مندر، بڑے بازار اور پتھر سے بنی سڑکیں تھیں۔
البیرونی کا تذکرہ
گیارہویں صدی کے مسلم عالم ”البیرونی“ نے لاہور کو”لہاور“کہا اور اس کی زرخیز زمینوں کا ذکر کیا۔
لاہور کی ابتدا کے حوالے سے”افسانوی روایات“ اور”تاریخی شواہد“ کا ایک پیچیدہ تانا بانا ہے۔ جہاں رامائن کی کہانیاں میں اسے روحانی تقدس کے طور پر دیکھا گیا وہیں پٹولمی کے جغرافیائی حوالے اور آثارِ قدیمہ کے ثبوت اس کی قدیم شناخت کو علمی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ یہ شہر نہ صرف اپنے ماضی کے رازوں کو سمیٹے ہوئے ہے بلکہ ہر دور میں ایک ”زندہ تہذیبی مرکز“ کی حیثیت کا حامل بھی رہا ہے۔
اندرونِ شہر لاہور:
فصیلوں میں بند ایک شاعری کہتے ہیں یہ شہر اپنی فصیلوں میں انگنت’کہانیاں“ سمیٹے بیٹھا ہے۔ ہر دیوار پر زمانے کے ہاتھوں کے نشانات اور ہر دروازے پر سفر کرتی ہوئی صدیوں کی دھول جمی ہے۔ اندرونِ شہر کی گلیاں جیسے کسی بزرگ کی چھڑی ہوں، ٹیڑھی میڑھی، پراسرار مگر ہر موڑ پر ایک ”راز“ چھپاہو ا ہے۔
دروازے: وقت کے محافظ
یہاں کے دروازے صرف پتھر اور اینٹوں کے ڈھانچے نہیں، بلکہ ”زمانے کے ترجمان“ہیں۔ ہر دروازے کے نام میں ایک داستان اور ہر چوکھٹ پر تاریخ کا سایہ نظر آتا ہے۔ قدیم لاہور کے گرد فصیل میں ”13 دروازے“ تھے جو مغلیہ دور میں تعمیر کیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کچھ دروازے تباہ ہو گئے بعد میں کچھ کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔ یہ دروازے شہر کی ثقافتی اور تاریخی شناخت کا اہم حصہ رہے ہیں۔
(جاری ہے)