9 فروری: بھارتی مظالم کا سیاہ دن
9 فروری آج کے دن بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں بے گناہ افضل گورو کو ضد اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا

9 فروری: بھارتی مظالم کا سیاہ دن
تحریر: شہزاد عابد خان
آج کے دن 9 فروری 2013ء کی صبح بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں بے گناہ افضل گورو کو ضد اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ایک سیاہ ترین دن جو ظلم و بربریت اور بے ضمیر بھارتی عدلیہ کے خلاف احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے۔ محمد افضل گورو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے ایک جھوٹے اور من گھڑت مقدمہ میں ملوث کرکے پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ آج محمد افضل گورو کی شہادت کو 12 سال مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے عوام ظلم اور ناانصافی پر سراپائے احتجاج ہیں اور افضل سمیت اپنے شہیدوں کو یاد، بھارت سے نفرت اور آزادی کے مشن پر کاربند رہنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
بھارت نے افضل گورو پر بھونڈا الزام لگایا کہ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر جو فائرنگ ہوئی تھی، اس کا ماسٹر مائنڈ افضل گورو تھا۔ اس جھوٹے مقدمہ کو 12سال تک کھینچا گیا۔ مقدمہ کے دوران تمام شواہد سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ افضل گورو کسی بھی سطح پر اس جرم کے ذمہ دار نہیں ہیں جس کی پاداش میں انہیں قید کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بھارتی عدالت نے اُنھیں موت کی سزا سنا دی۔ ہندو ججوں کے سفاک الفاظ آج بھی بھارتی عدلیہ کے لیے سیاہ دھبہ ہیں۔ فیصلہ میں لکھا گیا تھا کہ
”بھارت کے اجتماعی ضمیر کا تقاضا ہے کہ افضل گورو کو موت کی سزا دے کر اُس کا وجود صفحہء ہستی سے مٹا دیا جائے“
۹ فروری کو جب افضل گورو کو پھانسی دی گئی اس وقت اُن کی عمر صرف 44 سال تھی۔
افضل گورو کی پھانسی بھارتی جمہوریت پر سیاہ دھبہ
بھارت کی ممتاز دانشور اور معروف ادیب ارون دھتی رائے نے اس موقع پر برطانوی اخبار گارڈین میں طویل مذمتی مضمون میں لکھا تھا کہ:
”افضل گورو کی موت بھارتی جمہوریت کے دامن پر ایسا سیاہ دھبہ ہے، جو کبھی نہ دُھل سکے گا“۔ افضل گورو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک سابق عسکریت پسند تھے جنھوں نے سنہ 1990 کی دہائی کے دوران والدین اور اہلیہ کے کہنے پر مسلح تحریک کا راستہ ترک کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور نئی دہلی میں ایک دوا ساز کمپنی کے مینیجر بن گئے تھے۔ وہ بڑے ہونہار طالبعلم تھے۔ 1986ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد سوپور میں اعلیٰ ثانوی تعلیم حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ ایم بی بی ایس نصاب کا پہلا سال مکمل کر لیا تھا کہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کرنے لگے۔
کشمیر کی تحریک آزادی
اسی دوران کشمیر کی تحریک آزادی نے ایک نئی اور تاریخ ساز کروٹ لی۔ افضل گورو نے بھی اپنا شاندار کیرئر چھوڑ کر اس میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد وہ گرفتار ہوئے اور جبری سزا کاٹنے کے بعد پرامن زندگی گذارنے لگے۔ اکثر اوقات کام کے سلسلہ میں دہلی جایا کرتے تھے۔ تحریک آزادی عروج پر تھی۔ بھارت اسے دبانے کے لئے ہر بدترین حربہ استعمال کر رہا تھا مگر کشمیریوں کے ناقابل شکست جذبوں کے آگے اسکی ایک بھی نہیں چل رہی تھی۔کشمیر کے سوال سے بچنے، وہاں کے حالات اور اپنے جرائم چھپانے کی غرض سے وہ ابتداء ہی سے اس تحریک کو دہشت گردی اور مذہبی انتہاء پسندی کا رنگ دیتا رہا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے بھارت نے الفاران نامی ایک جعلی جہادی تنظیم کے ذریعہ 4 مغربی سیاحوں کو اغواء اور ان میں سے تین کو قتل کیا۔ اس ڈرامہ کو دانستہ طور پر بہت طول دیا گیا تاکہ یہ مغربی میڈیا میں زیر بحث رہے۔
غیر ملکی صحافیوں کا دعویٰ
دو برطانوی صحافیوں Edrain Levy اورCathy Scot Clark نے اپنی کتاب THE MEADOW: KASHMIR 1995 ،Where The Terror Began میں لکھا کہ کشمیر پولیس کے ایک انسپکٹر کو قتل کیا گیا تھا کیونکہ اس نے تحقیقات کے دوران مغوی سیاحوں کو بھارتی فوج اور RAW کے قبضہ میں دیکھا تھا۔ تاہم ان گھناؤنی سازشوں کے باوجود کشمیریوں کو شکست دینے میں بھارت کوپھر بھی کامیابی نہیں ملی۔ اس دوران عسکریت نے مزید شدت پکڑلی اور برسوں سے حالت جنگ میں رہنے والی بھارتی فوج کو اور زیادہ نفسیاتی طور پر پست کردیا۔ چنانچہ 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے جس میں ایک مالی سمیت تین سیکورٹی اہلکار ہلاک اور 9 دیگر زخمی ہوجاتے ہیں۔ جوابی کاروائی میں پانچ نامعلوم حملہ آوروں کو بھی موقع پہ ماردیا جاتا ہے۔
بھارت کی سازش
اس شیطانی سازش پر عمل کے لئے کشمیر پولیس کے ایک سینئر افسر دویند سنگھ کو استعمال کیا گیا جس نے محمد افضل گورو اوربعض دیگر محبوس کشمیریوں کوجھانسہ دیکر پھنسایا۔ حسب منصوبہ، حملے کے ساتھ ہی بھارتی حکومت، ایجنسیز اور میڈیا نے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا اور کہا کہ یہ حملہ جیش محمد نامی تنظیم کے ذریعہ کرایا گیا۔کہانی میں رنگ ڈالنے کی خاطر بعد ازاں 15 دسمبر 2001 کو 4 کشمیری، افضل گورو، دہلی یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ایس اے آر گیلانی، شوکت گورو اور ان کی اہلیہ افشاں گورو کو گرفتار کرکے ان پر حملہ آوروں کی اعانت کرنے کا جھوٹا الزام دھرا یاگیا۔ 4 جون2002 کو گرفتار شدگان پر فرد جرم عائد کی گئی۔افضل گورو کو حملے کا ماسٹر مائند قرار دیکر 18 دسمبر 2002 کو دلی کی ایک عدالت کے ذریعہ انھیں، پروفیسر گیلانی اور شوکت گورو کو سزائے موت سنوائی گئی جبکہ عدالت نے افضل گورو کی سزاء پر ایک سال کے اندر عمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔29 اکتوبر 2003 کو دلی ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی تاہم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو رہا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
افضل گورو کی اپیل
4 اگست 2005کو بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح قرار دیا لیکن شوکت گورو کی موت کی سزا کم کرکے دس سال قید میں تبدیل کردیا۔20 اکتوبر 2006 کو افضل گورو کی سزا پر عمل درآمد ہونا تھا اور تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں مگر اسی دوران ان کی اہلیہ تبسم گورونے اس وقت کے صدر پرناب مکھرجی سے رحم کی اپیل کی جس کی وجہ سے سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا۔12جنوری 2007 کوسپریم کورٹ نے افضل گورو کی نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسکی کوئی وجہ نہیں ہے۔30 دسمبر 2010 کو شوکت حسین گورو کو گناہ ناکردہ کی 10 سالہ سزا پوری ہونے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا۔3 فروری 2013 کو بھارتی صدر نے رحم کی اپیل مسترد کردی اور6 روز بعد یعنی 9 فروری کو افضل گورو کو تختہ دار پر چڑھادیا گیا۔
کشمیری راہنماؤں کا احتجاج
افضل گورو کو پھانسی کی سزادیئے جانے پر کشمیری راہنماؤں میرواعظ عمر فارق اور سید علی گیلانی نے چار روزہ ہڑتال کی کال دی۔ مقبوضہ و آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آزاد کشمیر حکومت نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقہ میں مظاہروں کو روکنے کے لئے بھارتی غاصبین نے سری نگر سمیت کئی شہروں میں کرفیو نافذاورانٹرنیٹ و کیبل سروس معطل کر دی تھی۔تاہم ان پابندیوں کے باوجود لوگوں نے احتجاجی مظاہرے جاری رکھے اور بھارتی حکمرانوں کے پتلے اور بھارتی پرچم نذر آتش کیے۔
افضل گورو کی بیگناہی
افضل گورو کے جرم بے گناہی کی کئی بھارتی صحافیوں، انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے کارکنوں اور دیگر نے بھی گواہی دی۔ اور تو اور تہاڑ جیل کا ایک عہدیدار سنیل گپتاایک انٹرویو کے دوران افضل گورو کا ذکر کرتے ہوئے زاروقطار رودیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل کامنی جیسوال کا کہنا ہے کہ افضل گورو کی رحم کی اپیل سے متعلق ایک درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی تھی ایسے میں پھانسی دینا قانونی طور پر بھی درست نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھناؤنا جرم صرف اور صرف سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا۔
One Comment