مشرق ایکسکلوزیوآج کا کالم
بابا بھی گرم اور گولیاں بھی گرم
دین اسلام تو اترا ہی اس نصیحت کے ساتھ تھا کہ اس کے پیروکار ہر قسم کی لغو و فحش گوئی سے پرہیز کریں کجا کہ دشنام طرازی کو اپنا شعار بنا لیں

بابا بھی گرم اور گولیاں بھی گرم
دنیا کا کوئی مذہب یا کوئی بھی معاشرہ غلیظ گفتگو کو نہ تو پسند کرتا ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اور دین اسلام تو اترا ہی اس نصیحت کے ساتھ تھا کہ اس کے پیروکار ہر قسم کی لغو و فحش گوئی سے پرہیز کریں کجا کہ دشنام طرازی کو اپنا شعار بنا لیں۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں انجانے تو کیا کبھی کسی جان پہچان کے لوگوں کے خلاف بھی بد زبانی کارجحان نہیں رہا۔ اکا دکا واقعات ہر ملک اور ہر سوسائٹی میں ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں لیکن بات لچر گفتگو سے شروع کرنی اور فحش گفتگو پر ختم کرنی کبھی بھی ہم کلامی کا رائج الوقت طریقہ نہیں رہا۔
خاتم النبیین احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفےٰ صل اللہ علیہ وصعلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اپنی زبان سلجھی رکھو اور نیز سلجھے ہوئے لوگوں کی محفل میں اٹھا بیٹھا کرو۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو عذاب دینا چاہتا ہے، تو اُس کا عذاب ہر اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس قوم میں ہوتا ہے اور پھر آخرت میں لوگوں کو ان کے اعمال کے ساتھ اٹھایا جائے گا“۔ آپ خود سوچیئے کہ جب باقی گناہوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ سخت فرمان ہے تو کیا پھر قادر مطلق فحش گوئی اور لغو گوئی کرنے والوں سے لحاظ کریگا جبکہ قران پاک اور احادیث مبارکہ میں بیہودہ گوئی کی پہلی قسم کو تمام صورتوں کے ساتھ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور بد زبانی کو بے حیائی وبے غیرتی میں داخل کر کے اس سے روکا گیا ہے ، چناںچہ ترمذی شریف کی حدیث میں آیا ہے کہ جس کے اندر حیا آجائے تو وہ اس کو زینت یعنی شرافت وعزت دیتی ہے اور جس کے اندر بد زبانی اور تند خوئی آجائے تو اس کو عیب دار بنا دیتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بد زبانی ذلت ورسوائی کا اور شرم وحیا عزت وعظمت کا سبب ہیں۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو مسلمان ہے وہ طعنے نہیں مارتا اور نہ لعنت بھیجتا ہے اور نہ فحش گوئی کرتا ہے اور نہ بد زبانی کرتا ہے۔“
میرا یہ تمہید باندھنے کا مقصد کوئی اسلامی وعظ یا لیکچر دینا نہیں کیونکہ آج کے دور میں لیکچر کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک جماعت وہ ہے جو اللہ کے احکام کو بلا چون و چرا مانتی ہے اور دوسری جماعت وہ ہے جن کے دلوں پر کفر کی مہر لگ چکی ہوئی ہے اور وہ تاویلیں گھڑتے ہیں۔ میں نے یہ تمہید آپکی رضا لینے کے لئے باندھی کہ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ فی زمانہ فحش گوئی، بدزبانی، توہین و تحقیر اور بے مقصد بیہودہ گفتگو ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے؟ فحش گوئی یعنی بے ہودہ باتیں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے ایسی باتیں نکالے جو شرافت وتہذیب اور شرم وحیا کے دائرہ سے خارج ہوں، جیسے کسی کو گالی دینا، طعنہ زنی کرنا یا کسی پر لعنت بھیجنا۔
اس حدیث میں فحش گوئی کی بنیادی صورتوں کو ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ بیہودہ گوئی کا تعلق یا تو خلاف تہذیب وشرافت باتوں سے ہوگا، جیسے زبان سے گالی گلوچ کرنا، کسی پر طعنہ زنی کرنا ، کسی سے بدزبانی کرنا یا کسی کو کوسنااور یا وہ گوئی سے کام لینا۔ یا فحش گوئی کا تعلق شرم وحیا کے خلاف باتوں سے ہوگا کہ ایسی باتوں کو صاف صاف اور کھلم کھلا دوسرے کے سامنے بیان کرنا جو انسانی شرم وحیا کے خلاف ہوں۔
کیا یہ صورت حال آجکل عام نہیں ہے؟ آپ عام زندگی میں دیکھیں یا سوشل میڈیا پر جھانکیں ، دونوں جگہوں پر فحش گفتگو آپکو عام نظر آئے گی۔ اگر ہم عام زندگی کو لیں تو وہاں ملازموں، ماتحتوں دوست احباب اور روزمرہ کے لین دین میں فحش گوئی اور بدزبانی سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔ حضوراکرم صلی ا لله علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو بد زبانی اورگالی دینے سے اس حد تک روکا ہے کہ اپنے زیر دستوں، اپنے نوکر چاکر او راپنے خادموں کے ساتھ بھی یہ معاملہ نہ صرف جُرم قرار دیا بلکہ اس کو دورِ وحشت اورزمانہٴ جاہلیت کی یاد گار قرار دے کر اس سے دلوں میں نفرت بھی پیدا کر دی۔ لیکن ہم دولت اور اپنی حیثیت کے گھمنڈ میں ڈوب کر نہ صرف اپنے ملازمین کو بے لگام بدزبانی کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ بعض اوقات کم حیثیت دوستوں پر اپنا رعب جمانے کیلئے بھی لغو گوئی سے دریغ نہیں کرتے حالانکہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ نے اپنے غلام کو گالی دے دی، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ تم میں ابھی تک دورِ جاہلیت کا اثر باقی ہے، یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، جن کو الله تعالی نے تمہاری خدمت پر لگا دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان سے بھائیوں جیسا معاملہ کرو۔
یہاں تک تو عام زندگی کا معاملہ ہے لیکن اصل غلاظت تو سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ہے جہاں ہم اپنی بے لگامی اور بدزبانی کا کھلے عام مظاہرہ کرتے ہیں۔ بد زبانی اور گالی گلوچ سے مغلظ اور گندی گالیاں ہی مراد نہیں ہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے ہر وہ بات اس میں داخل ہے جو دوسرے کی توہین وتحقیر یا اس کی دل آزاری کا سبب ہو، حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے نہایت بلیغ اور مؤثر انداز میں ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ماں باپ کو بُرا بھلا نہ کہے، لوگوں نے عرض کیا کہ کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بُرا بھلا کہہ سکتا ہے؟ یعنی یہ بات تو کسی بھی شخص سے سرزد نہیں ہو سکتی۔
آپ صل اللہ علیہ وصعلم نے فرمایا کہ جو دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے گا تو وہ پلٹ کر اس کے ماں باپ پر ہی آئے گی۔ آپ سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم کو دیکھ لیں، خواہ وہ ایکس ہو یا فیس بک، تھریڈ ہو یا کوئی اور، آپکو ہر جگہ ایسے لغو گو بآسانی مل جائیں گے جو مخالفت میں صبر کا دامن چھوڑ کر تو تڑاخ اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں ۔ ایسے میں دوسری جانب کوئی سمجھدار ہو گا تو وہ بحث چھوڑ کر آف لائن چلا جاتا ہے لیکن اگر ادھر بھی کوئی بے صبرا ہو گا تو وہ جواباً زیادہ فحش گفتگو کریگا اور یوں انکی آپس کی اس جوتم پیزار میں وہ دونوں خود تو محفوظ رہیں گے لیکن انکے گھر کے بزرگ اور خواتین ان کی اس دشنام طرازی کا نشانہ بنیں گی یعنی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق اپنے اپنے والدین کو گالیاں دے رہے ہوں گے۔
آجکل ایک اور بیانیہ لانچ ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کو بدزبانی کا سبق عمران خان نے دیا ہے اور یہ صرف اس لئے کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل باقی جماعتوں کی نسبت خاصا مضبوط ہے جس کے مقابلے کی تاب دوسروں میں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تحریک انصاف کے بیہودہ گھفتگو کرنے والوں کی وکالت کر رہا ہوں۔ کہنے کا مقسد یہ ہے کہ عمران خان نے تو اپنی جماعت کی یہ تربیت کر دی لیکن باقی جماعتوں کو کس نے دعوت نامہ بھیجا تھا کہ وہ عمران کی تربیت سے متاثر ہوں اور اپنی صفوں میں بدزبانی کو فروغ دیں۔
مجھے مولانا فضل الرحمنٰ کا ایک سوشل میڈیا بیان ابھی تک یاد ہے جو آپ لوگوں نے بھی سنا ہوگا کہ ’’تحریک انصاف کی خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ عمران خان انکی خواب گاہ میں سوئیں‘‘۔ کیا یہ بہتان فحش گوئی کے زمرے میں نہیں آتا؟ رانا ثنا اللہ جب پیپلز پارٹی میں تھے تو ن لیگ کی مرحومہ کلثوم نواز اور مریم کے بارے کیا کہا تھا کہ کیپٹن صفدر ڈبل شفٹ لگاتا ہے۔ بے نظیر اور نصرت بھٹو کی فوٹو شاپ برہنہ تصویریں کیا نواز شریف نے جہاز سے نہیں پھنکوائی تھیں؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں لہٰذا کسی ایک کو دوش دینا مناسب نہیں۔
سوشل میڈیا تو اتنا بے لگام ہو چکا ہے کہ کسی پارٹی کا کوئی ہتھ چھٹ ورکر اگر ایک چوک پر مخالف پارٹی کے لیڈروں اور ورکروں کی ماں بہنوں کو بے لباس کرتا ہے تو اگلے چوک میں اسے اپنی ماں بہنیں برہنہ ملتی ہیں لیکن المیہ ہی ہے کہ اس کے باوجود اس کا ضمیر اسے ملامت نہیں کرتا۔ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان بھول کر،یہ سوچ کر کہ آگے چل پڑتا ہے کہ آن لائن گالم گلوچ ہی ہے ناں کونسا حقیقت ہے۔ بس احساس مرنے کی ہی بات ہے ورنہ اگر وہ دونوں مخالف یہ سوچ لیں کہ ہماری مائیں بہنیں تو گھر بیٹھی ہیں ہم انہیں اپنی بحث میں کیوں گھسیٹیں تو معاملات بہتر رہ سکتے ہیں۔ کسی گمنام مفکر کا قول ہے:
"The use of vulgar language is a sign of a weak mind.”
یعنی فحش زبان کا استعمال ایک کمزور ذہن کی نشانی ہے۔ اسی طرح سپنسر ڈبیو کمبیل کا قول ہے:
"Profanity is the effort of a feeble brain to express itself forcefully.”
فحش بیانی، اپنے نقطہ نظر کو دھونس سے منوانے کیلئے ایک عامیانہ دماغ کی کوشش ہوتی ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ اگر ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں تو اللہ پاک کے فرمان اور اس کے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات پر عمل بھی کریں۔ اگر مخالف فحش گوئی کرے بھی تو ہم وہ بحث چھوڑ دیں۔ کبھی نہ کبھی تو دوسرا فریق احساس کریگا، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بابا بھی گرم اور گولیاں بھی گرم ہیں۔
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔
