مشرق ایکسکلوزیو
آفت میں بھی فائدہ کی تلاش
قومیں ایسے لمحات میں یکجہتی، قربانی اور ایثار کی عظیم مثالیں قائم کرتی ہیں

آفت میں بھی فائدہ کی تلاش
بارش ہو یا سیلاب، زلزلہ ہو یا کوئی وبا. یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جب قوموں کا اصل کردار سامنے آتا ہے۔ بعض قومیں ایسے لمحات میں یکجہتی، قربانی اور ایثار کی عظیم مثالیں قائم کرتی ہیں تو بعض معاشرے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیفوں کو کم کرنے کے بجائے، انہیں مزید لوٹنے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوب گئے، کچے مکانات زمین بوس ہو گئے، سڑکیں کٹ گئیں، فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لیکن ان سب کے بیچ ہمیں ایک اور "عذاب” بھی سر اٹھاتا نظر آیا, منافع خوروں کا ضمیر فروش کاروبار۔
بارش اور سیلاب کی آڑ میں منافع خوروں نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھا دیں۔ آٹا، چینی، دالیں، دودھ، سبزیاں، پینے کا صاف پانی، جو چیز عام دنوں میں بھی بعض لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے، اب وہ ان قدرتی آفات کے دوران سونے کے بھاؤ فروخت ہو رہی ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جب انسانیت، انسانوں سے سوال کرتی ہے کہ کیا تمہیں صرف پیسہ عزیز ہے؟ کیا تمہارا دل نہیں دہلتا کسی بھوکے بچے کو دیکھ کر؟ کیا تمہیں رات نیند آتی ہے جب تم جانتے ہو کہ تمہاری ذخیرہ اندوزی کے باعث ایک بیمار ماں مر گئی؟
یہ کیفیت صرف انتظامیہ کی ناکامی کا شاخسانہ نہیں، یہ ہم سب کے اجتماعی ضمیر کی موت ہے۔ ہم نے بحیثیت معاشرہ جانے کب سوچنا چھوڑ دیا کہ مصیبت زدہ کی مدد ہمارا فرض ہے؟
یقیناً قانون اپنا کام کرے گا، مگر قانون سے پہلے اگر ضمیر جاگ جائے، تو بہت سی قباحتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
آفات کا مقابلہ صرف حکومتیں نہیں کرتیں، اقوام کرتی ہیں اور اقوام وہی ہوتی ہیں جو اپنے کمزور طبقے کو سب سے پہلے سنبھالتی ہیں، نہ کہ لوٹتی ہیں۔

کلامِ عارفانہ
تحریر: محمد عارف ملک