آج کا کالم

ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات: وقت کی اہم ضرورت

وطن عزیز کی داخلی اورخارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ میں اس انداز میں بحث مباحثہ نہ ہو سکا جس انداز میں ہونا چاہیے تھا۔ اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو بھی خفیہ اور بااثر ہاتھوں نے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔

سید محسن رضا بخآری
خطے میں مستقل قیام امن اور وطن عزیز کی تعمیر وترقی کے لیے ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہے. گو اس ضمن میں حضرت قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال بہت واضح ہیں. مگر بوجوہ اس متوازن خارجہ پالیسی پر تواتر سے عمل نہ ہونا پاکستان کے لئے پریشانی کا باعث بنا چلا آ رہا ہے. ان وجوہ میں ملک میں عدم سیاسی استحکام, نا تجربہ کار وزیروں اور مشیروں کا انتخاب ائین پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہونا اور قومی سلامتی کے حوالے سے آمرانہ فیصلے ہونا ہے. جس سے مفاد پرست عناصر کے علاؤہ عالمی طاقتیں بھرپور فائدہ اٹھاتی چلی آ رہی ہیں. اس تناظر میں ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں بار بار مارشل لاء لکائے جانے سے جمہوری اداروں کا مضبوط اور فعال نہ ہو سکنا ہے. اگر عوام کی کوششوں سے منتخب حکومت کا قیام عمل میں آیا بھی تو اسے دوام حاصل نہ ہو سکا اور متعدد بار ایسی حکومتوں کا بوریا بستر کبھی آمرانہ فیصلوں سے گول ہوتا رہا اور کبھی دباؤ کے تحت کام کرنے والی عدلیہ کے فیصلے ان منتخب حکومتوں کے خاتمے کا باعث بنے. اس پر مستزاد یہ کہ اگر کبھی جمہوری عمل کے تحت پارلیمنٹ وجود میں آئی بھی تو بھی جمہوریت کی آڑ میں ہونے والے امرانہ فیصلوں کے باعث ملک کا یہ سپریم ادارہ عملاً مفلوج رہا جس سے ملک کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وطن عزیز کی داخلی اورخارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ میں اس انداز میں بحث مباحثہ نہ ہو سکا جس انداز میں ہونا چاہیے تھا۔ اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو بھی خفیہ اور بااثر ہاتھوں نے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔

ارباب اختیار کے دعوے اور زمینی حقائق

پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ ہو یا پاک ایران یا پاک افغان دوستی ان تینوں ہمسایہ ممالک کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی قائدا اعظم کے فرمودات اور عوام کی امنگوں یا زمینی حقائق کے تناظر میں آزادانہ انداز میں نہیں بن سکی۔ اول تو ایسے فیصلوں میں بلا جواز تاخیر ہوتی رہی اور اگر کوئی فیصلہ بر وقت ہوا بھی تو بھی با اثر مافیا اپنا کام دکھا گیا۔ یوں قیام پاکستان کے بعد تا حال ہمارے تعلقات افغانستان کے ساتھ کبھی تواتر سے بہتر رہے نہ ایران کے ساتھ اور نہ ہی بھارت کے ساتھ، اس انداز میں معاملات طے پا سکے کہ دونوں ممالک پر امن طور پر رہ سکیں، چلیں پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہ آنے کی وجوہ تو مسلمہ سہی مگر دونوں مسلم ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان سے تو ہمارے تعلقات مثالی ہونے چاہئیں تھے، مگر ایسا نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ اس تناظر میں جب بات کی جائے یہی وجہ سامنے اتی ہے کہ امریکی دباؤ کے تحت ایسا نہیں ہو رہا۔ آگر یہ درست ہے تو پھر ہم یہ گردان کیوں کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو بحثیت قوم ہمارے ماتھے کا بد نما داغ بن چکا ہے۔  آج یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ اگر ہم توانائی بحران کے باعث معاہدے کے باوجود ایران سے گیس یا بجلی نہیں خرید سکتے تو پھر یہ کیوں دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد آور خود مختار ملک ہے۔ایران اور افغانستان کے ساتھ مثالی تعلقات کا تسلسل ہماری ضرورت ہے۔ جو ہر صورت پوری ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے امریکی دباؤ سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ وطن عزیز سے سیاسی تناؤ ختم ہو تاکہ قومی نوعیت کے معاملات پر پوری قوم متحد ہو سکے۔ ارباب اختیار اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ بہترین قومی مفاد کے پیش نظر اس پر توجہ دیں تاکہ داخلی اور خارجہ پالیسی سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button