مشرق ایکسکلوزیو

ھنادی کا فلسطین اور غرقد کی شجرکاری

ھنادی ان ہزاروں بدنصیب فلسطینیوں میں سے ایک تھی جن کی زندگی، اسرائیلی حکومت کے وزیراعظم جنرل ایرل شیرون جسے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں کا قصائی کہا جاتا تھا، نے جہنم بنائی ہوئی تھی۔

87 / 100 SEO Score

دیھنادی کا فلسطین اور غرقد کی شجرکاری

یہ غالباً اکتوبر 2003 کی بات ہے جب ایک نوجوان فلسطینی قانون کی طالبہ ھنادی کا رویہ یکایک غیر متوقع طور پر تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور وہ ایک چہکتی اور سوشل لڑکی سے خاموش اور تنہا رہنے والی دوشیزہ بن گئی۔ اس معصوم لڑکی کی روزمرہ کی زندگی بھی رفتہ رفتہ تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ اس نے الصبح فجر کی نماز پڑھ کر تلاوت کلام پاک کو بھی اب اپنا معمول بنا لیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد اس نے کالج سے شام کو گھر لیٹ آنا شروع کر دیا لیکن اس کے گھر والوں کو اس پر اندھا اعتماد تھا سو انہوں نے کبھی اسکے کردار پر کوئی شک نہ کیا اور نہ ہی کبھی کوئی وضاحت طلب کی، لیکن ایک روزجب وہ صبح کالج نہ گئی تو اس کی والدہ نے اس سے وجہ دریافت کی جس پرھنادی نے خرابی طبیعت کا بہانہ کر دیا اورماں مطمئن ہو گئی۔ شام کو وہ نہایت خاموشی سے گھر میں کسی کو کچھ بتائے بغیرایک بیگ اٹھا کر نکل گئی اورٹھیک تین گھنٹے بعد تل ابیب کے ایک نواحی قصبے کے ایک ہوٹل میں شدید خوفناک دھماکہ ہوا جس میں کئی صیہونی شہریوں کے علاوہ متعدد اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہو گئے۔ کسی کو سمجھ نہ آئی کہ اس دھماکے کا ذمہ دارکون ہے، تاوقتیکہ اگلے روز ھنادی کی دھماکے سے پہلے کی تیارکردہ ایک ویڈیو جاری نہ ہو گئی۔
ھنادی ان ہزاروں بدنصیب فلسطینیوں میں سے ایک تھی جن کی زندگی، اسرائیلی حکومت کے وزیراعظم جنرل ایرل شیرون جسے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں کا قصائی کہا جاتا تھا، نے جہنم بنائی ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل نے ظلم و بربریت کا ایسا بازار گرم کیا ہوا تھا کہ حزب اللہ کے ایک نمائندے کو کہنا پڑا کہ اگر فلسطینی مسلمانوں کے نوزائیدہ اورشیرخوار بچے مریں گے تو بچیں گے صیہونیوں کے بچے بھی نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک تلخخ اور افسوسناک حقیقت ہے لیکن انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مجھے ایہود، یوری اور شالوم کی موت پر قطعی وہ دکھ نہیں ہو سکتا جو ردا، عروا، مصطفےٰ اور راحیل کی موت پر ہوگا۔
بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں جا پہنچی۔ یہ وہی فلسطینی ہیں جو اپنے وطن میں ہی بے وطن ہیں۔ جنہوں نے کھلی بانہوں سے بے گھر ہو کر آنے والے یہودیوں کو پناہ دی اور آج وہی پناہ گزین، مالک بن کر اپنے محسنوں کو اذیت ناک انجام سے دوچار کر رہے ہیں۔ مجھے پنجابی کا محاورہ شدت سے یاد آرہا ہے کہ ’’اگ لین آئی، گھر والی بن بیٹھی‘‘ (آگ مانگنے آئی اور گھروالی بن بیٹھی)۔ یہ کہانی آج کی نہیں بلکہ اسرائیلیوں نے خیمے میں سر دیتے ہی اپنی سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دی تھیں اور فلسطینیوں کے برے دن شروع ہو گئے تھے۔ اس تمام صورتحال میں فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کا بھی قصور ہے جو ستو پی کر سوئے رہے بلکہ اب تک گہری نیند سوئے ہوئے ہیں اور جن پر وہ ایک مشہور کہاوت صادق آتی ہے، کہ،
پہلے وہ سوشلسٹس کے تعاقب میں آئے
مگر میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا
پھر وہ ٹریڈ یونینسٹس کو سبق سکھانے آئے
لیکن میں خاموش رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا
اس کے بعد انہوں نےیہودیوں کا پیچھا کیا
مگر میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا
اورآخرمیں وہ مجھے مارنے آئے
لیکن اب میں اکیلا تھا اورمیرے حق میں بولنے والا کوئی نہ تھا
یہی حال مسلمان اورخاص طور پرعرب حکمرانوں کا تھا۔ ان سب نے اپنی اپنی جنگیں لڑیں۔ کسی نے لبنان کی پہاڑیوں کیلئے تو کسی نے گولان کی چوٹیوں کیلئے اورکسی نے صحرائے سینا واپس لینے کیلئے۔ سب علیحدہ علیحدہ برسرپیکار ہوئے اور سب نے اپنے اپنے علاقے پہلے کھوئے اور پھر مقبوضہ علاقے واگذار کرانے کیلئے معافیاں تلافیاں کرتے رہے۔ اک نہیں لڑے تو فلسطین کیلئے نہیں لڑے، بیت المقدس کیلئے نہیں لڑے اور نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل قبلہ اول پر مضبوط پنجے گاڑنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کو بھی آہنی شکنجے میں جکڑ چکا ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۳ سے جاری دو سالہ تازہ جارحیت میں اب تک ستر ہزار کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب زخمی ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی شہادت، بھوک پیاس اور بے گھرہونا علیحدہ المیے ہیں۔
فلسطین سسکیاں لے رہا ہے لیکن مسلمان حکمران اپنا اپنا چورن بیچنے میں مصروف ہیں۔ کبھی بیت المقدس کیلئے کالے جھنڈوں والی فوج بھیجی جاتی ہے تو کبھی پاک فضائیہ پندرہ منٹ کی بمباری میں اسرائیل کر نیست و نابود کر دیتی ہے۔ لال، نیلی پیلی اور کالی ٹوپیوں والوں نے تو اب پاکستانی بیلسٹک میزائلوں کا رخ بھی اسی طرف کر دیا ہے۔ چند سال پہلے ایک اور چورن متحدہ اسلامی فورس کا بھی مارکیٹ میں لایا گیا جب اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن فورس بنائی گئی جس بارے یہ تاثر دیا گیا کہ یہ ۴۳ مسلم ممالک کی متحدہ فوج ہے جس کا مقصد اسلامی فوجی اھداف حاصل کرنا ہوگا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس فورس کا مقصد انٹیلیجنس شیئرنگ، ٹریننگ پروگراموں کی ترتیب اور کاؤنٹر ٹیررازم سٹریٹیجی ترتیب دینا تھا نہ کہ کسی جنگ کی تیاری کرنا، یعنی کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔
اس کے بعد شکست خوردہ عرب حکمرانوں نے اندرونی طور پر فیصلہ کیا کہ اسرائیل سے لڑائی میں کچھ نہیں رکھا، کیوں نہ اس کو تسلیم کر لیا جائے اوراپنی اپنی بادشاہتوں اور سلطنتوں کو بچایا جائے لیکن اہل فلسطین کیلئے اب بھی کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ اپنا ذاتی مفاد پیش نظرتھا سو ’’ابراہم اکارڈ‘‘ کا ڈرامہ رچایا گیا جس کا پوشیدہ مقصد کچھ اور تھا لیکن ظاہری طور پراسے بے ضرر معاہدہ بنا کر پیش کیا گیا۔ جواس چال کو ترتیب دینے والے ممالک تھے انہوں نے خود تو اس میں فوراً شمولیت اختیار کر لی جبکہ باقی مالک کو بشمول پاکستان دانہ ڈالنا شروع کر دیا گیا۔ کچھ دام میں آئے اور باقی ٹوکرے کے پاس جا جا کرواپس آ رہے ہیں۔ پاکستان نے مشرف کے دورمیں کوشش کی اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے لیکن عوام کے غیض و غضب کے سامنے ہمت نہ ہوئی۔
جنرل باجوہ عمران خان کے دورحکومت میں متوازی حکومت چلاتا رہا اور خارجہ امور کے فیصلوں میں سیاسی حکومت سے بالا بالا سفارت کاریاں کرتا رہا جن میں سے ایک عمران خان کی حکومت کوفارغ کرنا بھی تھا۔ اس کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کرکے ایک دو ایکسٹینشنز حاصل کرنا تھا لیکن کام لینے والوں نے ’بغلول‘ کو کام لیکر دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔

تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

پھرباری آئی موجودہ حکومت کی۔ نوازشریف کو حسب وعدہ وزیراعظم بنایا جاسکتا تھا لیکن نواز شریف کی پچھاڑی کا کوئی اعتبارنہ تھا اورخصوصاً فلسطین والے معاملے میں موصوف کا قطعی اعتبار نہییں کیا جاسکتا تھا سوانہیں تو، بیٹی کو ٹک ٹاکروزیراعلیٰ بنا کر لالی پاپ دے دیا گیا لیکن وزیراعظم کیلئے اسی فیملی میں سے ایک عجیب الخلقت شخص کو چنا گیا جو اپنی عجیب و غریب حرکتوں اور مسخرہ پن کیلئے بہت مشہور ہے۔ ایسا شخص اسرائیل کو تسلیم کرنے والے معاملے کیلئے بہت سود مند ثابت ہوسکتا تھا سواسے آگے لایا گیا۔
اس کی ایک ہی شرط تھی کہ اسے وزیر اعظم رہنے دیا جائے اوربدلے میں اس سے خواہ کسی بھی دستاویز پر دستخط کروا لئے جائیں۔ اب یہ علم نہیں کہ اس نے پروانہ اجل سمیت نجانے کس کس پروانے پر دستخط کر بھی دیئے ہوں۔ قائد اعظم کا فلسطین بارے فرمان کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے لیکن یہ حکومت قائد اعظم کو پس پشت ڈالنے کا آغاز بھی کر چکی ہے۔ جوان کی ٹرمپو چچا کے دفتر میں آؤ بھگت اور ضیافتیں ہو رہی ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ لیٹ چکے ہیں کیونکہ امریکہ میں ایک کہاوت مشہورہے کہ
There is no free lunch
اور امریکی صدر تو ویسے بھی کاروباری شخصیت ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے میں بوئنگ سمیت نجانے کیا کیا سمیٹ لایا ہے اور بدلے میں عربوں کو ’’انگشت وسطی‘‘ دکھا آیا ہے۔ دوسری جانب پاک سعودی معاہدہ بھی ایک ’’آپٹک‘‘ ہے۔ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’خانہ کعبہ کو ایک کریہہ الشکل حبشی مسمار کریگا‘‘۔ اور بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ایسا ہونا ہے تو پھر یہ معاہدے کس مرض کی دوا ہیں۔ باقی رہی فلسطینیوں کی مدد کی بات تو توقع اب امام مہدی کے ظہور سے ہی مشروط ہے اوراسرائیلی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جب پتھراورچٹانیں انہیں پناہ دینے سے انکار کریں گی تو ایسے میں ’’غرقد‘‘ کا درخت ہی انہیں پناہ دے گا اسی لئے وہ مقبوضہ فلسطین میں بے تحاشا غرقد کی شجر کاری کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ امن کا نوبل انعام، فلسطین کی جنگ جیتتا ہے یا پھر دھول چاٹتا ہے۔
فی الحال ٹرمپو چچا مشرق وسطیٰ اور خصوصاً فلسطین کے حوالے سے ایک اہم اعلان کرنے جا رہا ہے جس کے بعد یقیناً فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی حماس کی بیخ کنی کر دی جائیگی۔ اسرائیل کو گھرجوائی بنایا جائیگا اوراہل اسلام اسی تنخواہ پر کام کریں گے۔
دی
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button