آج کا کالم
کچرے کے ڈبے، تعلیمی ادارے اور پانچ لاکھ جرمانہ
ڈی جی پنجاب انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کا مضحکہ خیز حکم نامہ

کچرے کے ڈبے، تعلیمی ادارے اور پانچ لاکھ جرمانہ
ڈاکٹر عمران حمید شیخ ڈی جی پنجاب انوائرمنٹل ایجنسی کے دستخط سے جاری یہ حکم نامہ نمبری 341/PA مورخہ 22 ستمبر 2025 اس تاثر کو جنم دیتا ہے کہ سکولوں کو ماحولیاتی تحفظ کے نام پر قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ بھاری جرمانے، روزانہ جرمانہ اور غیر حقیقی تقاضے تعلیم دشمنی ہیں۔ پالیسی اصلاح کے بجائے دھونس دکھائی دیتی ہے۔
اس حکومتی پالیسی کو تعلیمی اداروں کے تناظر میں پرکھا جائے گا، اور یہ دکھایا جائے گا کہ حکم عدولی پر بھاری جرمانے عائد کرنا تعلیمی اداروں کے ساتھ زیادتی ہے۔ ساتھ ہی دلائل دیے جائیں گے کہ کس طرح یہ پالیسی غیر متوازن اور غیر حقیقت پسندانہ
قانون سازی کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ پالیسی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ریاست اپنے عوام کو سہولت دیتی ہے، ان کے مسائل حل کرتی ہے، اور ایک ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جس میں تعلیم، صحت اور معیشت کے شعبے ترقی کر سکیں۔ لیکن جب پالیسی سازی میں زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیا جائے، تو وہی پالیسی سہولت کے بجائے سزا بن جاتی ہے۔ بالکل یہی معاملہ حالیہ دنوں پنجاب انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کے جاری کردہ حکم نامے کا ہے جس میں تمام تعلیمی اداروں کو یکم اکتوبر 2025 تک رنگین کچرے کے ڈبے (waste segregation bins) رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔
یہ حکم نامہ صرف ڈبے رکھنے کی حد تک ہوتا تو شاید قابل قبول ہوتا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں خلاف ورزی پر پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ اور روزانہ تین ہزار روپے اضافی جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر ماحولیاتی تحفظ کے نام پر ہے لیکن درحقیقت یہ تعلیمی اداروں کے لیے ایک نیا عذاب ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں پالیسی اسی طرح بنائی جاتی ہے؟
تعلیم اور ماحولیاتی شعور ,یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ طلبہ میں ماحولیاتی شعور اجاگر ہونا چاہیے۔ کچرے کو علیحدہ کرنے، ری سائیکلنگ کو فروغ دینے اور صاف ستھرا ماحول قائم رکھنے کی تربیت لازمی ہے۔ لیکن اس شعور کو بیدار کرنے کا طریقہ جرمانوں اور دھمکیوں کے ذریعے نہیں بلکہ نصاب، آگاہی مہمات اور عملی سہولتوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔کیا کبھی کسی نے سوچا کہ پاکستان کے بیشتر اسکول، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، ابھی تک بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں؟ جہاں پینے کا صاف پانی، واش روم، بجلی اور فرنیچر تک میسر نہیں۔ ایسے میں حکومت ان اداروں پر "کلر کوڈڈ ڈسٹ بنز” کے نہ رکھنے پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ ٹھونکنے کو تیاری کھڑی ہے۔ یہ انصاف نہیں بلکہ ایک مذاق ہے۔
ہسپتالوں کے معیار کو اسکولوں پر کیوں لاگو کیا جا رہا ہے؟
یہ حکم نامہ پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اسکولز اور کالجز ہسپتال ہیں۔ ہسپتالوں میں واقعی مختلف قسم کے کچرے کے لیے علیحدہ ڈبے ہونا ضروری ہے تاکہ مریضوں کے استعمال شدہ انجیکشن، آلودہ کپڑے اور خطرناک فضلہ عام کچرے میں شامل نہ ہو۔ لیکن اسکولوں کا کچرا کیا ہے؟ چند کاپیاں، پرانی کتابیں، پلاسٹک کی بوتلیں، ریپرز اور عام گھریلو کچرا۔ کیا اس کے لیے بھی سرخ، سبز اور پیلے ڈبے خریدنا لازم ہیں؟یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت نے واقعی "اسمارٹ ویسٹ مینجمنٹ” کا نظام رائج کرنا ہے تو سب سے پہلے ہسپتالوں، کارخانوں اور کارپوریٹ اداروں میں اسے یقینی بنائے جہاں کچرے کی نوعیت خطرناک ہے۔ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا آسان ہے کیونکہ وہ سرکاری نوٹسز اور معائنہ کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
مالی بوجھ اور جرمانے کا ظلم
پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ ایک اسکول کے لیے کتنا بڑا بوجھ ہے؟ ذرا تصور کیجیے:
گاؤں کے پرائمری اسکول کا کل سالانہ بجٹ اکثر پانچ لاکھ سے بھی کم ہوتا ہے۔
چھوٹے پرائیویٹ اسکولز جو پانچ سو روپے فیس پر چل رہے ہیں، ان کے لیے یہ جرمانہ "موت کا پروانہ” ہوگا۔
بڑے شہروں کے مشہور اسکولز تو شاید یہ ڈبے خرید لیں، لیکن پاکستان کے 80 فیصد اسکولز چھوٹے اور متوسط درجے کے ہیں۔
یہی نہیں، روزانہ تین ہزار روپے کا اضافی جرمانہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت نے اسکول مالکان کو "جرمانہ مشین” بنانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ آخر یہ جرمانے کہاں جائیں گے؟ کیا یہ طلبہ کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے پر لگیں گے یا صرف سرکاری خزانے میں جمع ہو کر ضائع ہو جائیں گے؟
اصلاح احوال کے بجائے دھونس
ایک معقول پالیسی ہوتی تو اس میں یہ درج ہوتا کہ:
حکومت پہلے مرحلے میں تمام تعلیمی اداروں کو مفت یا سبسڈی پر ڈسٹ بنز فراہم کرے۔
ایک سال تک صرف آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ طلبہ اور اساتذہ اس نظام کے عادی ہو سکیں۔
اس کے بعد بتدریج تعلیمی اداروں سے نتائج مانگے جائیں۔
لیکن یہاں تو سیدھا چھری گردن پر رکھ دی گئی ہے کہ اگر 30 ستمبر تک ڈبے نہ رکھے تو پانچ لاکھ جرمانہ۔ یہ طرز عمل ریاستی پالیسی سے زیادہ …. گردی لگتا ہے۔
طلبہ پر اثرات
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ حکم نامہ کس پر اثر انداز ہوگا؟ ظاہر ہے، اسکول مالکان یہ جرمانے اور اخراجات فیسوں میں ڈالیں گے۔ یعنی والدین پر بوجھ بڑھے گا اور طلبہ کی تعلیم مزید مہنگی ہو جائے گی۔ جس ملک میں پہلے ہی تعلیم تک رسائی ایک چیلنج ہے، وہاں مزید رکاوٹیں کھڑی کرنا کس دانشمندی کا ثبوت ہے؟
عالمی تناظر.دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ویسٹ مینجمنٹ کو تعلیم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، مگر طریقہ مختلف ہے۔ وہاں حکومتیں اسکولز کو ریسائیکلنگ کے لیے انعامات دیتی ہیں، فنڈز مہیا کرتی ہیں، اور مقامی حکومتیں کچرا اکٹھا کرنے کا انتظام کرتی ہیں۔ لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ حکومت خود تو تعلیمی اداروں کو بنیادی سہولتیں نہیں دے سکتی، مگر ڈبے نہ رکھنے پر پانچ لاکھ جرمانہ لگانے میں پیش پیش ہے۔سوالات جن کا جواب حکومت کو دینا ہوگا.کیا حکومت نے سکولوں کو ان ڈبوں کی قیمت اور خریداری کے حوالے سے کوئی مالی سہولت فراہم کی؟
کیا سرکاری اسکولوں کو ان کے سالانہ بجٹ میں یہ اضافی اخراجات شامل کرنے کی گنجائش ہے؟
کیا واقعی اسکولوں کے کچرے سے ماحولیاتی آلودگی اتنی زیادہ ہے جتنی صنعتوں، کارخانوں اور ہسپتالوں سے؟
کیا حکومت نے پہلے خود اپنے دفاتر اور اداروں میں یہ نظام مکمل طور پر نافذ کیا ہے؟
ماحولیات کی حفاظت یقیناً ضروری ہے، لیکن اس کے نام پر تعلیمی اداروں پر جرمانے لگانا اور انہیں سزا دینا ایک ظالمانہ پالیسی ہے۔ تعلیم دشمنی کی بدترین مثال یہی ہے کہ جس ملک میں بچے کتابوں، بستوں اور کرسیوں سے محروم ہیں، وہاں انہیں "کلر کوڈڈ ڈسٹ بنز” نہ رکھنے پر جرمانے دیے جا رہے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حکم نامے پر نظر ثانی کرے۔ تعلیمی اداروں کو شراکت دار سمجھ کر پالیسیاں بنائے، نہ کہ مجرم سمجھ کر۔ ورنہ یہ پالیسی صرف اسکولز کے لیے نہیں بلکہ طلبہ، والدین اور پورے تعلیمی نظام کے لیے ایک نیا بحران بن کر ابھرے گی۔
ای پی اے کا کام ماحول کو صاف رکھنا ہے، لیکن طریقہ کار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ بچوں کو کچرے کی علیحدگی، ری سائیکلنگ اور ماحول دوستی کی تعلیم دینا اصل حل ہے، نہ کہ بے چارے سکول مالکان کو بھاری جرمانوں اور دھمکیوں میں جکڑنا۔ جن اداروں میں بجلی، پانی اور فرنیچر نہیں، وہاں کلر کوڈڈ ڈبوں کی شرط مضحکہ خیز ہے۔ ای پی اے کو چاہیے کہ پہلے اپنے افسران اور عملے کی ٹریننگ کرے، شعور اجاگر کرے اور سہولتیں فراہم کرے، تبھی پالیسی کامیاب ہوگی۔ بصورت دیگر یہ اقدامات صرف تعلیم دشمن رویوں اور اعتماد کے بحران کو جنم دیں گے۔





