مشرق ایکسکلوزیو

ایک اور ستمبر!

مدت ہوئی کہ میں نے بولنا بند کر دیا تھا، اس لئے نہیں کہ میں گونگا ہو گیا تھا بلکہ صرف اس لئے کہ میں ایک عجیب مخمصے کا شکار ہو چکا تھا

81 / 100 SEO Score

ایک اور ستمبر! ایک اور ستمبر!

7 ستمبر 2025

مدت ہوئی کہ میں نے بولنا بند کر دیا تھا، اس لئے نہیں کہ میں گونگا ہو گیا تھا بلکہ صرف اس لئے کہ میں ایک عجیب مخمصے کا شکار ہو چکا تھا۔ میرے لئے یہ فیصلہ کرنا بیحد مشکل ہو چکا تھا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔

میں حق و باطل میں تمیز کرنے سے عاری ہو چکا تھا۔ ایک لمحے میں مجھے جاوے ای جاوے کے نعرے لگانے والا گروہ سچ کا علمبردار نظر آتا تھا تو دوسرے ہی لمحے آوے ای آوے کا شور بلند کرنے والے حق سچ کے پرستار نظر آتے تھے۔ ان گھمن گھیریوں نے میرے دماغ کا دہی بنا دیا تھا سو ایسے میں، میں نے پانی میں مدھانی مارنے کی بجائے چپ کا روزہ رکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔

بہت طعنے ملے، دوست احباب نے جگت بازی کی لیکن میں مچلا بن کر کان لپیٹے پڑا رہا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ میں بالکل لکھ بھی سکتا تھا اور بول بھی سکتا تھا لیکن مجھے ایک ڈر تھا کہ نجانے کسی میں سچ سننے کا حوصلہ ہو گا بھی یا نہیں؟ حالانکہ اگر میں منہ پھٹ ہو جاتا تو اس حملے کا شکار میں خود بھی ہوتا کیونکہ ایک لحاظ سے وہ زبان کا جہاد خود کش حملہ ثابت ہوتا۔ اور میں چونکہ زندہ رہنا چاہتا تھا سقراط بننے کیلئے، منصور بننے کیلئے سو بولنے سے لکھنے سے گریز کرتا رہا۔

میں نے اب جو بولنے کا تہیہ کر لیا ہے تو اس لئے نہیں کہ پیارے وطن کے حالات آئیڈیل ہو گئے ہیں یا حکمرانوں میں سچ سننے کا جذبہ عود کر آیا ہے بلکہ اس لئے کہ میرے دل میں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی خواہش نے جنم لے لیا ہے اور اس لئے بھی کہ میں اب خاموش رہ رہ کر تنگ آچکا ہوں۔

میرے سامنے وہ جنہیں کبھی ’’رب دیاں رکھاں‘‘ دی جاتی تھیں وہ اب قابل دشنام ٹھہرتے ہیں تو مجھے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ وہ عوام جو کبھی ان کے کندھوں سے کندھا ملا کر دشمن کا ناطقہ بند کرتی تھی اب وہ انہیں بے نقط سنانے سے نہیں چوکتی تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے، تو ایسے میں آپ ہی بتائیں کہ میں کیسے خاموش رہوں؟ میں جو کہنے جا رہا ہوں اس کو صرف اور صرف ایک سچا مسلمان، محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے تحمل سے سنیئے اور اگر اس قوم کی اکثریت کی طرح آپکا صبر اور برداشت بھی جواب دے چکا ہے تو میری التجا ہے کہ میرا یہ فضول اور واہیات لغو کالم پڑھنے کی بجائے سوشل میڈیا کے کسی ایسے پلیٹ فارم پر چلے جائیے جہاں جذبات کی قے کرنے پر کوئی قدغن نہ ہو۔

جہاں آپ جی بھر کر دل کا بول و براز خارج کیجئے، اپنے قومی اداروں پر تبرے بھیجئے، وہ سیاستدان جو آپکو پسند نہیں انکی ماؤں بہنوں کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر بے پردہ کیجئے اور جو آپکے من پسند ہیں انہیں قطب و ابدال کا درجہ دیجئے لیکن لِلّٰہ یہاں وقت ضائع مت کیجئے۔

پہلے تو میں شاذو نادر ہی اس سوچ کو اپنے ذہن میں جگہ دیتا تھا لیکن اب یہ احساس تواتر سے مجھے جھنجھوڑتا ہےکہ میں ایسی خودغرض، غیر ذمہ دار، مطلب پرست اور بے حس قوم میں کیوں پیدا ہوا جو اپنا برا بھلا نہیں سوچ سکتی جو اچھے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔ مجھے غلط مت سمجھیئے۔ میں کوئی ذمہ دار، مخلص اور احساس والا ہونے کا دعویٰ نہ تو کر رہا اور نہ ہی کر سکتا ہوں کیونکہ باقی ہم وطنوں کی طرح میرے پلے بھی اپنے مفاد اور دوسروں کے لئے لعن طعن کے سوا کچھ بھی نہیں۔

میں بھی باقیوں کی طرح ایک شرمسار لیکن بے حس پاکستانی ہوں۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میں بھی کوئی بے زبان جانور یا پرندہ ہوتا جو صبح اڑنے چگنے نکل جاتا، اپنے حصے کا رزق کھا کرشام کو گھونسلے میں پڑ رہتا لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اللّٰہ نے مجھے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے ایسا سوچنا تو نہ صرف کفر بلکہ اس ذات باری تعالیٰ کی ناشکری ہوگی۔ پھر خیال آتا ہے کہ مجھے وہ اسی دنیا کی کسی اور قوم میں پیدا کر دیتا مثلاً فلسطین میں۔

کم از کم مجھے آزادی جیسی نعمت کی قدر و قیمت کا احساس تو ہوتا، میری آنکھوں کے سامنے جب جب میرے عزیزوں کو ذبح کیا جاتا، مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، میری ماؤں بہنوں کو بے پردہ کیا جاتا، میرے بچوں کو فاقوں سے مارا جاتا، میرے گھر کو مسمار کیا جاتا تو تب تب میری ٹیسیں اور درد مجھے احساس دلاتیں کہ میں ایک محکوم قوم کا فرد ہوں اور یوں میرے اندر آزادی حاصل کرنے کا جذبہ انگڑائیاں لینے لگتا۔

ابابیلیں کیوں نہیں آتیں؟

مجھے پلیٹ میں رکھی آزادی اور بزور شمشیر حاصل کی ہوئی آزادی کا فرق پتہ چلتا۔ میں حرمت وطن کیلئے جان قربان کرنے والے شہیدوں اور باطل کے دستوں میں تمیز کر پاتا۔ میں اپنی قوم کے محسنوں اور جان نچھاور کرنے والے ہیروؤں کی بے عزتی نہ کرتا۔ میں اپنے سیاسی مخالفوں کی مٹی پلید کرتے ہوئے اس ارض وطن پر اپنا خون بہانے والے مجاہدوں کو تحقیر کا نشانہ نہ بناتا۔ کاش میں 65 و 71 اور 2025 کے حالات اور رویوں کو سمجھ سکتا۔

میں محض کسی ایک بندے کے بغض و عناد میں سیسہ پلائی دیوارکے تمام ستونوں کی حرمت کو پاؤں تلے نہ روندتا۔ میں یاسرعرفات پرضرور تنقید کرتا لیکن ایسے میں احمد الشکیری اور ہانیہ کی قربانیوں کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھتا۔ مجھے دشمنوں کے پراپیگنڈے سے متاثر ہونے کی جرأت نصیب نہ ہوتی۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال نے جو جدوجہد کی وہ اپنے لئے نہیں کی بلکہ ہمارے لئے کی۔ میں انکی وفات کے عشروں بعد انکی ذاتی زندگیوں کے پوتڑے دھونے نہ بیٹھ جاتا۔ میں قوم کے اصلی ہیروؤں کو رفتہ رفتہ منظر عام سے غائب کرکے مسخروں کو قوم پر مسلط کرکے انہیں رہنما بنا کر پیش نہ کرتا۔ کاش یہ احساس میرے ایمان کا حصہ ہوتا کہ ہیرو اور قوم کے محسن ہورڈنگ اور بل بورڈز پر نہیں بلکہ قوم کے دلوں کے مکین ہوتے ہیں۔

میری قوم کے رہنما، دانشور اور صحافی نما حضرات لفافوں اور پلاٹوں کیلئے قوم کو غلط راستے پر نہ ڈالتے اور نہ ہی انہیں گمراہ کرتے۔ میں ایم ایم عالم، عزیز بھٹی اور دیگر غازیوں اور شہدا کی آج بھی اسی طرح عزت اور قدر کرتا جسطرح ساٹھ سال پہلے تھی۔ میں نے قوموں کو پستی کی گہرائیوں سے نکل کر اقوام عالم میں مقام بناتےدیکھا ہے لیکن میں اس قوم سے ہوں جو تندہی سے اپنے عروج کو زوال کی تاریکیوں میں دھکیل رہی ہے۔ مجھے اقبال کے ایک شعر کا مصرعہ یاد آرہا ہے اور میں خوف سے کانپ رہا ہوں: تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں مجھے وہ وقت (خاکم بدھن) قریب آتا نظر آرہا ہے۔ اگر آپ کو نہیں نظر آرہا تو سمجھیئے کہ آپ شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دفن کئے کھڑے ہیں۔

کاش میں اس قوم کا فرد نہ ہوتا۔ فرانس کے ایک صدر چارلس ڈیگال نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ایک فوج نے بہرصورت آپکے ملک میں رہنا ہے۔ وہ آپکی فوج نہیں تو یقیناً دشمن کی ہوگی‘‘۔اب آپ سوچ لیجئے کہ آپکا کیا فیصلہ ہے اگرتو آپ نے چند افراد کے عمل و ارادوں کی سزا فوج کے ادارے کو دینے کا تہیہ کر لیا ہے تو پھر میرا بھی دوبارہ خاموش ہوجانا مناسب ہے۔

 سہیل پرواز ہیوسٹن، ٹیکساس

نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیر پانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button