قومی مفادات کا حامل کثیرالمقاصد منصوبہ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا، ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی……….. موسم سرما میں چونکہ بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے اور اسی تناسب سے بجلی کی پیداوار بھی ڈیموں میں پانی کی کمی کی وجہ سے کم ہوتی ھے لیکن آنے والے موسم سرما کے موسم میں متوقع جان لیوا لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ابھی سے ہی ملکی سطح پر بحث و مباحثے شروع ھو چکے ہیں۔
لیکن ڈیمز کے سلسلہ میں اس حساس معاملہ پر حکومت کے حوالے سے فی الوقت کہیں پر کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔
تاریخ
کالا باغ ڈیم کے اس کثیر المقاصد منصوبے پر تحقیقاتی کام محمد علی بوگرا کی وزارت عظمیٰ میں 1953ء میں شروع کیا گیا اور اس تحقیقاتی کام پر اُس وقت کی کرنسی ریٹ کے مطابق ایک ارب سے زائد کی رقم خرچ کی گئی۔ ڈیم کی تعمیر کا کام 1983ء میں باقاعدہ شروع کیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے اسے سیاسی ایشو بنا کر نہایت ظالمانہ طریقے سے پسِ پشت ڈال دیا گیا جسے بے حسی اور ملک و قوم کے ساتھ بدترین دشمنی و غداری کہا جا سکتا ہے۔
1984ء میں فیڈریشن آف انجینئرنگ ایسوس ایشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق کالا باغ ڈیم کی اس تاخیر کے باعث ملک کو سالانہ دو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا جو اج کے کرنسی ریٹ کے مطابق 400 ارب روپے سے زائد کا سالانہ نقصان یہ ملک برداشت کر رہا ہے۔
دنیا کے تمام بڑے ممالک جن میں چین جاپان کینیڈا فرانس وغیرہ شامل ہیں نے کالا باغ منصوبے کو نہایت مفید اور کارآمد قرار دے چکے ھیں مگر ہمارے سیاست دان اور حکمران اس منصوبے کو ذاتی مفادات کے تحت پاکستان کی تباہی قرار دینے میں پیش پیش ہیں۔ اندرونِ و بیرونِ ممالک کے انجینیئرز نے اس پر بہت عرق ریزی کے ساتھ کام کیا۔
اعتراضات لگانے اور اسے ملک کی تباہی قرار دینے والوں کی خوشنودی، تسلی اور انہیں راضی و مطمئن کرنے کے لیے اس کے نقشے میں تبدیلی بھی لائی گئی مگر "مرغے کی وہی ایک ٹانگ” کے مترادف وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ کالا باغ منصوبے کی تعمیر کے لیے لا تعداد محبِ وطن افراد نے جلسے کیے، جلوس نکالے، پروگرام ترتیب دیے، مختلف ذرائع سے رائے عامہ لی گئی, ووٹنگ کرائی گئی, عدالتوں میں کیسز دائر کئے گئے مگر کسی سیاستدان و حکمران کے کانوں پر جوں تک نہ رنگی اور "میں نہ مانوں” کی مثل یہودیوں و نصرانیوں کے پیروکار کے طور پر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔
کالا باغ پراجیکٹ کو گمبھیر بنا دیا گیا
کالا باغ ڈیم کا معاملہ اب کافی گمبھیر صورتحال اختیار کر چکا ہے ایک طرف ہم ہیں کہ قومی ترقی کے حامل اس پروجیکٹ پر تقسیم ہوئے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف بھارت اپنے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ہر طرح کے بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے. حالیہ چند برسوں میں بھارت سیکڑوں ڈیم بنا چکا ہے۔ بھارت کا گنگا کشن ڈیم جہاں پر ایک ایسے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے یہ دریا کو ایسی سرحد عبور کرنے سے روک سکے گا جو اس وقت دنیا کا بہت بڑا فوجی بارڈر خیال کیا جاتا ہے۔
پاکستان نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے عالمی عدالت میں اپنی شکایت درج کرا رکھی ہے کہ وادیٔ گریز میں قائم یہ ڈیم بھارت کے اُن درجنوں منصوبوں کا باقاعدہ ایک حصہ ہے جو پاکستان کے پانیوں پر براہ راست اثر انداز ہوگا جو کہ غیر قانونی ہے۔ جس پر عالمی عدالت نے بھارت کو فی الوقت اس پر کام کرنے سے روک دیا تھا لیکن لیکن بعد ازاں بھارت نے اس احکامات کو ہوا میں اڑا دیا اور اپنا کام مکمل کیا۔
بھارت ہو یا اسرائیل یا پھر امریکہ، یہ تینوں ایک ہی میدان کے کھلاڑی ہیں اور یہ تینوں قوتیں عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف اپنا ایک ہی نظریہ رکھتی ہیں۔ پانی کا حساس معاملہ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا باعث ہے بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آتی جا رہی ہے۔
پانی پر متوقع جنگیں
ماضی میں بھی اگر دیکھا جائے تو ایران، عراق, ترکی اور شام کے درمیان بھی دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے مسئلہ پر جنگیں ہو چکی ہیں۔ واشنگٹن میں ووڈ رولسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز کے ساؤتھ ایشیا اسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین کے مطابق 2050ء تک ہم دنیا کو جنگوں کی طرف مائل دیکھ رہے ہیں کیونکہ پانی کے معاملہ میں بہت پوٹینشل پایا جاتا ہے۔
کوگل کے مطابق اس وقت کم و بیش 10 افریقی ممالک دریائے نیل پر شراکت دار ہیں۔ جنوبی مشرقی ایشیا میں چین اور لاؤس دریائے سیانگ پر ڈیم بنا رہے ہیں۔ امریکی انٹیلیجنس سی آئی اے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ عشرہ میں پانی پر جنگیں ہو سکتی ہیں جن میں پاکستان اور بھارت سرِ فہرست ہیں۔
صاحبِ مضمون دریاۓ سندھ کے اس مقام پر جہاں ڈیم تعمیر ہونا تھا. پول اور پول پر لگی وائرز آج بھی موجود اس قصۂ پارینہ کی یاد میں افسردہ و پژمردہ دکھائی دے رہے۔ ( اپریل 1988ء )
جنوبی ایشیا میں اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو دریائے سندھ، دریا گنگا اور دریائے برہم پترا ہیں جس کے ساتھ نئی دہلی، اسلام آباد اور بنگلہ دیش ملوث ہیں جن کا ان دریاؤں کے ساتھ براہ راست تعلق ہے جبکہ گنگا کشن پراجیکٹ نے ایک نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کو اس بات کی فکر اور خدشہ ہے کہ بھارت دریائے جہلم اور دریائے چناب کے پانیوں کو اپنے قبضے میں لے رہا ہے۔ بھارت انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ہر وہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے جو اس کے قومی مفاد میں ہے اسے کسی عالمی قانون، آئین یا اخلاقیات کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں مگر ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
تاجروں کے لیے کالا باغ ڈیم کی اہمیت
کچھ عرصہ قبل لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے اس صورتحال پر اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "بھوک, ننگ قحط اور افلاس سے بچنے کے لیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے۔
اگر اس پر کوتاہی برتی گئی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
اُس وقت کے صدر چیمبر عرفان قیصر شیخ نے اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کوئی بھی کالا باڑ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں اور وہ ملک و قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ کلا باغ ٹائم پر حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور اس غفلت کے باعث ملک کو تین سو ارب روپے سے زائد کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کالا باغ ڈیم سے نوشہرہ شہر کو کوئی خطرہ لاحق نہیں کیونکہ یہ ڈیم سے 150 فٹ بلند ہے۔
انہوں نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ کالا باغ ڈیم سے صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر کو فائدہ حاصل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں 8 سے 10 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت آئے گی اور اس ڈیم کے ذریعے بجلی صرف پانچ روپے فی یونٹ دستیاب ہو سکے گی۔
کالا باغ ڈیم کے لئے جنرل ضیاء الحق کی کاوشیں
یہاں پر یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں 1982ء میں اس پر دوبارہ کام شروع کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں کے باعث اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (UNDP) نے فنڈز کی یقین دہانی کرائی چنانچہ فنڈز کی فراہمی کے بعد رپورٹس تیار ھونا شروع ہوئیں۔ چھ سال کی عرق ریزی اور ایک ارب 10 کروڑ روپے کی لاگت سے جون 1988ء میں یہ رپورٹس تیار ہو گئیں اور ماہرین نے اس منصوبے کو نہایت مفید، قابلِ عمل اور پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا۔
قابلِ عمل ہونے کی رپورٹس کے مطابق یہ منصوبہ عرصہ چھ سال کی مدت میں 128 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونا تھا۔ ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ منصوبہ روبہ عمل آنے کے بعد سالانہ 33 ارب 20 کروڑ روپے کی آمدنی فراہم کر سکے گا۔
سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کالا باغ ڈیم کی اہمیت پر ماہرین کو بریفنگ دیتے ھوئے۔
کالا باغ منصوبہ کی تکمیل روبہ کار آنے کے بعد بجلی کے شعبہ میں تقریبا 25 ارب روپے سالانہ زرِ مبادلہ کی بچت ہونا تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے جون 1988ء میں جب یہ رپورٹ دیکھیں تو اس کارآمد منصوبہ پر عمل درآمد کے احکامات جاری کئے کہ یہ منصوبہ باقاعدہ طور پر اسی ماہ نومبر میں شروع کر دیا جائے جس پر نہایت جوش و خروش کے ساتھ تیاریاں شروع کر دی گئیں.
اسی دوران ولی خان نے جنرل ضیاءالحق کو للکارتے ھوئے بیان جاری کیا کہ تم کالا باغ ڈیم بناؤ ھم اسے بم سے اڑا دیں گے جس کے جواب میں جنرل ضیاءالحق نے کہا کہ ڈیم تو بنے گا میں دیکھتا ھوں اسے کون بم سے اڑاتا ھے لیکن اسے انتہائی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد انہیں ایک فضائی حادثہ میں کئی فوجی افسران کے ساتھ اڑا دیا گیا اور اس طرح کالا باغ منصوبہ بھی ان کے ساتھ ہی ہوا میں اڑ گیا۔
دریاۓ سندھ اور دونوں اطراف کا خوبصورت منظر۔ صاحبِ مضمون بُجھے دل کے ساتھ ایک چٹان پر موجود اِس منظر کو اپنی یادوں میں سمیٹتے ھوۓ۔
یہاں پر یہ بات بھی نہایت قابل ذکر ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے کالا باغ ڈیم بنانے کا حتمی فیصلہ اور ان تمام مخالفین کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا عہد کر لیا ( راقم اس بات کا عینی شاید ہے ) تو وزیراعظم محمد خان جونیجو نے 14 مارچ 1986ء کو اچانک کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنے کے احکامات جاری کر دیئے جو بعد ازاں جنرل ضیاءالحق اور محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات کی بنیاد بنے۔ محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاءالحق کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ سیاسی طور پر اس کی شدید مخالفت ہے لہذا ڈیم کی ڈیزائننگ تبدیل کرنے کے لئے یہ قدم اٹھانا پڑا۔
محمد خان جونیجو کے جاری کردہ ان احکامات کے ٹھیک 12 دن بعد محترمہ بے نظیر بھٹو جو اُن دنوں امریکہ میں مقیم تھیں، نے 26 مارچ 1986ء کو وائس آف امیریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "جونیجو حکومت جمہوریت کے استحکام کی طرف پہلا قدم ہے” حالانکہ محمد خان جونیجو محترمہ کے اس بیان سے ٹھیک ایک سال قبل 23 مارچ 1985ء کو بطور وزیراعظم پاکستان حلف اٹھا چکے اگر انہیں کوئی ایسا بیان دینا ہی تھا تو اُس وقت دیتیں جب انہوں نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا۔
ڈیم کے سلسلہ میں جنرل ضیاءالحق نے میاں نواز شریف کو مکمل اعتماد میں لیا ہوا تھا اور میاں نواز شریف اس بارے میں اپنی بڑی جذباتی اور قومی رائے رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ جنرل محمد ضیاالحق کی وفات کے بعد جب میاں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے تو 2، ستمبر 1988ء کو انہوں نے ایک جمِ غفیر کے سامنے نہایت جذباتی انداز میں للکارتے ہوئے کہا تھا کہ
” میں جنرل ضیاء الحق کا مشن ضرور پورا کروں گا "
اور پھر جب وقت گزرتا گیا تو ان کا ایک یہ بیان بھی شہ سرخی کی صورت میں نظر سے گزرا کہ "ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ ہم نے ایک فوجی آمر کا ساتھ دیا”
بہر کیف! ہم سب مصلحتوں کا شکار ہیں، جو کام ہم نہ کرنا چاہیں یا جو ہم سے نہ ہو سکے ہم اسے مصلحت کا نام دے کر اپنے بدترین دشمن کے ساتھ بھی مصالحت کر لیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایسے بہت سے ماہرین جن سے میری ملاقات ہوئی، ان میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ منصوبہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں یا جنرل ضیاءالحق نے باقاعدہ شروع کیا گیا تھا لہذا یہ وہی بغض و عناد ہے جس کے باعث اسے پسِ پشت ڈال دیا۔ کچھ ماہرین جو اس پر مکمل بات نہ کر سکے ان کا خیال یہی تھا کہ چونکہ یہ منصوبہ ایک جرنیل یا آمر نے شروع کیا چنانچہ ہو سکتا ہے اس کے نہ بننے کی یہی وجہ ہو۔
یہاں پر سب سے اہم اور سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ 1975ء میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا سندھ کی فصلیں تباہ ہو جائیں گی یا ڈیم ٹوٹ گیا تو نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ کئی اور جو خدشات تھے وہ ظاہر کیے گئے فیصلہ کیا تو وہاں پر یہ تمام مشینری پہنچائی گئی، آفیسرز و لیبر کالونیز بنائی گئیں.
تب کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا کہ سندھ کی فصلیں تباہ ہو جائیں گی, سندھ سوکھ جائے, گا سندھ ایتھوپیا بن جائے گا, نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا, ڈیم کسی حال میں بھی پاکستان کے حق میں نہیں, اس کے علاوہ بے شمار مفروضے پیش کیے گئے۔ اس کا تو پھر یہی مطلب نکلتا ہے کہ یا تو ان تمام سیاست دانوں کی نگاہ میں کالا باغ ڈیم نہایت قابل تھا قابلِ عمل و کارآمد منصوبہ تھا یا پھر بھٹو جیسے سخت گیر اور انتقامی نظریہ رکھنے والے شخص کے سامنے کسی کو زبان تک ہلانے کی جرات نہ تھی۔
بہرحال کچھ تو ایسا تھا جس کے باعث تمام سیاستدانوں کو سانپ سونگھا ھوا تھا لیکن جونہی جنرل ضیاءالحق نے اس کا حتمی فیصلہ کیا تو اس کے برخلاف ہر ایک کی منہ میں دس دس زبانیں آ گئیں۔ تکلیف غالباً یہ تھی کہ اس سے قبل جنرل ایوب خان متعدد ڈیم بیراج اور نہری نظام کو از سرِنو جدید طرز پر بنانے کا موجد تھا جس کے باعث آج ہم کچھ کھانے پینے اور سانس لینے کے قابل ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرا جرنیل کالا باغ بنا کر ہمارے مفادانہ و منافقانہ ارادوں پر پانی پھر دے۔
کالا باغ ڈیم پر بڑے اعتراضات
کالا باغ ڈیم پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا لہذا اس سلسہ میں گجرانوالہ شہر کے نواح میں واقعہ نندی پور کی ہائیڈل تجربہ گاہ میں ایک بہت بڑا ماڈل ایک سال کی مسلسل محنت اور زرِ کثیر کے سرمائے سے تیار کیا گیا جس کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی جھیل میں پانی بھرنے اور نوشہرہ شہر کو لاحق خطرات کا طبی معائنہ کیا گیا۔ مسلسل تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کالا باغ ڈیم نوشہرہ شہر کے لیے کسی بھی طرح سے خطرے کا باعث نہیں۔
سوچنے کی بات ھے کہ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر صوبوں کو اعتراضات ہیں تو حکومت اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جا کر حل کیوں نہیں کرتی؟
اس سلسلہ میں سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے خیبر پختون خواہ میں ریفرنڈم کرایا جائے اور یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ کے پی کے کے عوام کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں 74 فیصد پانی سلاب کے دنوں میں جبکہ 26 فیصد پانی عام دنوں میں آتا ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح بینک کسی شخص کے اچھے دنوں کی کمائی کو محفوظ بنا لیتا ہے اور وہ برے دنوں میں اس پیسے کو استعمال کرتے ہیں، اسی طرح ڈیم بینک کا کام دیتے ہیں اور سیلابی دنوں میں ذخیرہ کیا گیا پانی سوکھے موسم میں قومی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نصف صدی قبل ہی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے منصوبہ بندی کر کے توانائی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ڈیم تعمیر کر لیے تھے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مشکلات کا شکار ہو کر بھی ابھی تک کشمکش میں مبتلا ہیں کہ ڈیم بنائے جائیں یا نہیں۔
انہوں نے یہ بات بڑے واضح طور پر کہی کہ جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائے گا وہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں اور وہ حقیقتِ حال سے قطعی واقف نہیں اور انہوں نے تو شاید ڈیم کبھی دیکھے بھی نہیں ہوں گے کہ ڈیم ہوتے کیا ہیں؟ قدرت بہترین فیصلہ کرتی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ کے پی کے میں سب سے بڑا اور بدترین سیلاب 1929ء میں آیا مگر نوشہرہ شہر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ کالا باغ ڈیم میں جمع پانی کی مقدار اس سیلاب سے لاکھوں کیوسک کم ہے۔ اول تو اس کے ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر خدانخواستہ ٹوٹتا بھی ہے تو اس کا پانی نوشہرہ شہر میں داخل نہیں ہو پائے گا۔
بدقسمتی کی بات کہ کہ کالا باغ ڈیم کو اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق 1992 تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن حکمرانوں کی بے حسی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
کچھ تکنیکی باتیں
کالا باغ ڈیم کی بلندی 240 فٹ (80 میٹر) ہوگی یہ بلندی اصل منصوبہ میں 275 فٹ تھی مگر چند حلقوں کی طرف سے تشویش ظاہر کئے جانے پر نظر ثانی کے بعد 15 فٹ کم کر دی گئی۔ اگر یہ بلندی 275 فٹ رہتی تو بھی اس سے سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ ڈیم 11000 فٹ (350 میٹر) طویل ہوگا۔ اس کی تعمیر میں 18 کروڑ مکعب فٹ (4 کروڑ 50 لاکھ مکعب میٹر) کی بھرائی کی جائے گی. اس کی جھیل 164 مربع میل (425 مربع کلومیٹر) پر محیط ہوگی جس میں 61 لاکھ ایکڑ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا.
ڈیم کی جھیل میں پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح 915 فٹ (279 میٹر) اور کم سے کم سطح آب 825 فٹ (251 میٹر ) ہوگی۔ اس کے دو "سپل وے” ہوں گے ایک سپل وے دروں پر مشتمل ہوگا اور بوقت ضرورت دونوں میں سے ہر ایک سپل وے 12 لاکھ کیوسک پانی خارج کر سکے گا۔
ایک سپل وے زیرِ زمین سطح کا ہوگا جس کے باعث پانی کے ساتھ گار بھی خارج ہو جائے گی (یہ خصوصیت منگلا اور تربیلا ڈیم میں نہیں یہی وجہ ہے کہ گار بھر جانے کے باعث ان ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ نہایت کم ہو چکا ہے)
ملک میں بجلی کی کُل کھپت و پیداوار
ملک کو اس وقت اڑھائی لاکھ سے زائد میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت صرف گیارہ سے بارہ فیصد بجلی پیدا کی جا رہی ہے جس نے ملک کو تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق وفاقی و صوبائی محکمہ برقیات کے پاس 65 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی بنانے کی رپورٹس موجود ہیں مگر ان پر کوئی عمل درامد نہیں ہو رہا۔ تھرکول جیسے منصوبے پر عمل درآمد کر کے ملک میں بجلی کے شعبے میں خود کفالت حاصل اور اس سے 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
موجودہ و سابقہ تمام وفاقی حکومتوں نے گزشتہ 20 برسوں میں سرکاری فائلوں میں دبے متبادل توانائی کے 40 ہزار میگاواٹ سے زائد قابل عمل منصوبوں پر 2012 تک فقط دو منصوبوں پر کام کیا جو صرف 310 میگاواٹ پر مشتمل ہے جبکہ دس ہزار میگاواٹ کمی کا سامنا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے بجلی کا خسارہ 50 سو میگاواٹ سے زیادہ رہا جس کو پورا کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے شہروں، گاؤں اور قصبوں میں لوڈ شیڈنگ کی گئی. یہ سب کچھ ہو جانے اور ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ جانے کے باوجود حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ ایران، چین، جاپان، سمیت ہمیں سستی بجلی دینے پر آمادہ ہیں بلکہ ایران کا تو یہ کہنا ہے کہ ہم سے فائدہ حاصل کر لیں مگر امریکا کے وفادار ہمارے حکمران امریکی ناراضگی مول لینے کے لیے تیار نہیں۔
منصوبے کے ثمرات
اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا تو آج بجلی فی یونٹ صرف پانچ روپے میں دستیاب ہوتی اور پھر بیس سال کا یہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اگر کالا باغ منصوبہ ستمبر 2013ء میں بھی مکمل ہو جاتا تو سستی ترین بجلی دو روپے ساٹھ پیسے فی یونٹ دستیاب ہوتی مگر کالا باغ ٹائم نہ ہونے کے باعث عوام پر بجلی کا بم نہیں بلکہ ایٹم بم گرا دیا گیا ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے کہ 46/47 روپے فی یونٹ کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ اگر یہی حال رہا تو آنے والے وقتوں میں لوگ بجلی کا بل ادا کرنے سے قطعی قاصر ہوں گے اور یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ لوگ میٹر کٹوانے پر مجبور ھو جائیں اور ملک کی انڈسٹری دم توڑ جائے۔
بہت سیدھی اور صاف سی بات ہے کہ ملک سے اگر کرپشن اور لوٹ مار کا یہ بازار اگر بند ہو جائے تو بلا شبہ ایک نہیں، کالا باغ جیسے درجنوں ڈیم بن سکتے ہیں اور ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔