آج کا کالم

ڈیجیٹل ھیرا منڈی، نوجوان نسل کی دلدل

ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم پر نوجوان لڑکے لڑکیاں کھلم کھلا فحش گفتگو کرتے ہیں، ننگی باتوں اور گندی فرمائشوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہمارے ادارے، ہمارے محافظ، ہمارے قانون کے رکھوالے… سب کے سب آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں

86 / 100 SEO Score

ڈیجیٹل ھیرا منڈی، نوجوان نسل کی دلدلنوجوان

شاہد نسیم  چوہدری
ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا کی سرعام بے حیائی، عریانی، فحاشی اور اداروں کی بے حسی سوالیہ نشان ہے۔کہتے ہیں کہ معاشرے کی پہچان اس کے اخلاق اور اقدار سے ہوتی ہے۔ ہم بڑے فخر سے دنیا کو باور کراتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم کیا گیا تھا۔ لیکن آج ذرا سا موبائل کا بٹن دبائیے، اور دیکھیے کہ ہمارا "اسلامی جمہوریہ” کہاں کھڑا ہے۔ ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم پر نوجوان لڑکے لڑکیاں کھلم کھلا فحش گفتگو کرتے ہیں، ننگی باتوں اور گندی فرمائشوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہمارے ادارے، ہمارے محافظ، ہمارے قانون کے رکھوالے… سب کے سب آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس قوم کو رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر چلنے کا فخر ہونا چاہیے، وہی قوم "کپڑا ہٹاؤ” جیسے مکالمے لائیو سن رہی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرعام، عوامی جگہ پر نہیں بلکہ ہر بچے کے کمرے، ہر والدین کے ڈرائنگ روم اور ہر نوجوان کے ہاتھ میں موجود موبائل پر براہِ راست نشر ہو رہا ہے۔
"یہی ہے پاکستان؟”
یقیناً ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے کہ ملک آئی ٹی ایکسپورٹ بڑھا رہا ہے، کبھی بتایا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو آن لائن مواقع دیے جا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مواقع ہیں یا "ماہوکے”؟ نوجوانوں کو جو آزادی دی گئی ہے، وہ آزادی نہیں بلکہ بے راہ روی کا کھلا پروانہ ہے۔ کیا یہ ترقی ہے کہ ہماری نوجوان بیٹیاں اور بیٹے ایک دوسرے کو گندی گالیاں دے کر "فالوورز” بڑھا رہے ہیں؟۔اگر کسی معصوم بچے کے سامنے ٹک ٹاک کھل جائے اور وہ یہ سب دیکھ لے تو اس کے ذہن پر کیا اثر پڑے گا؟ شاید وہ سوچے کہ یہی اصل آزادی ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے۔ یہی نیا زمانہ ہے۔ لیکن کیا یہ وہی زمانہ ہے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟۔ ادارے کہاں ہیں؟۔ ہمارے ادارے کہاں ہیں؟ وہی ادارے جو معمولی سی سیاسی پوسٹ پر ایف آئی آر کاٹ دیتے ہیں، جو کسی چھوٹے سے میم پر ایکٹو ہو جاتے ہیں، وہ ٹک ٹاک پر روزانہ ہونے والی اس فحاشی پر کیوں خاموش ہیں؟۔
کیا ان کے پاس انٹرنیٹ بند کرنے کی طاقت نہیں؟ کیا یہ سب کچھ ان کے علم میں نہیں؟ یا پھر یہ سب "ریٹنگ” اور "ڈالرز” کے لالچ میں جان بوجھ کر ہونے دیا جا رہا ہے؟۔ جب کوئی صحافی حقیقت بیان کرے تو پیمرا حرکت میں آجاتا ہے، چینل بند ہو جاتا ہے، لیکن جب کوئی لڑکی لائیو آکر کپڑے ہٹانے کی فرمائش پوری کرے تو ادارے گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے یا دوہرا معیار؟۔ والدین کی غفلت، یقیناً ذمہ داری صرف اداروں پر نہیں۔ والدین بھی برابر کے شریکِ جرم ہیں۔
وہی والدین جو بچوں کے ہاتھ میں پانچ پانچ لاکھ کا موبائل پکڑا دیتے ہیں، لیکن پوچھتے نہیں کہ بیٹا/بیٹی تم دیکھ کیا رہے ہو؟ وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ گھر میں ہے تو محفوظ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی بچہ اپنے کمرے میں "ٹک ٹاک یونیورسٹی” سے وہ سب کچھ سیکھ رہا ہے جو کسی زمانے میں گناہ بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے سیاستدان بڑے دعوے کرتے ہیں۔ کوئی ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگاتا ہے، کوئی اسلامی فلاحی ریاست کا۔ لیکن ریاستِ مدینہ میں "ٹک ٹاک” جیسا فتنہ کھلا چھوڑ دیا گیا؟ وہاں تو نگاہوں کو نیچا رکھنے کا حکم تھا، یہاں نگاہوں کو ننگا کرنے کا مقابلہ ہے۔ وہاں حیا کو ایمان کا حصہ کہا گیا، یہاں بے حیائی کو "انٹرٹینمنٹ” کہا جاتا ہے۔
سیاستدانوں کو اپنی کرسی کی فکر ہے، عوام کے اخلاق اور نوجوانوں کے مستقبل کی نہیں۔ وہ جلسوں میں "قوم کے نوجوانوں” کو ملک کا سرمایہ کہتے ہیں، لیکن اس سرمایہ کو "ٹک ٹاک مارکیٹ” میں برباد ہوتے دیکھ کر بھی چپ رہتے ہیں۔ کیا پاکستان کا مطلب یہ تھا کہ ہم ایک آزاد ملک میں بیٹھ کر اپنی نوجوان بیٹیوں کو "لائکس” کے بدلے عزت نیلام کرتے دیکھیں؟
کیا یہ آزادی ہے یا عریانی؟
کیا یہ ترقی ہے یا تنزلی؟
کیا یہ نوجوان نسل کی پرواز ہے یا کھائی میں گرنے کا سفر؟۔
مذہب اور حقیقت
اسلام نے حیا کو عورت اور مرد دونوں کا زیور قرار دیا ہے۔ لیکن آج کے پاکستان میں یہ زیور "ٹک ٹاک” پر نیلام ہو رہا ہے۔ کیا ہم بھول گئے کہ قومِ لوط پر اللہ کا عذاب کس لیے آیا تھا؟ کیا ہم نے یہ سبق نہیں سیکھا کہ جب قومیں بے حیائی کو عام کر لیتی ہیں تو ان کا زوال یقینی ہوتا ہے؟
اداروں کے لیے پیغام
ادارے یہ نہ سوچیں کہ یہ معمولی بات ہے۔ یہ "معمولی بے حیائی” نہیں، یہ ایک سونامی ہے جو آنے والی نسلوں کو بہا لے جائے گا۔ آج یہ بچے "گندی فرمائشیں” کرتے ہیں، کل یہ بچے عملی طور پر گندگی پھیلائیں گے۔ آج یہ لائیو سیشن میں "کپڑے ہٹاؤ” کہتے ہیں، کل یہ سڑک پر کسی کی عزت نوچیں گے۔
عوام کے لیے پیغام
اے عوام! ذرا سوچو، تمہاری نوجوان بیٹی، تمہاری بہن، تمہارا نوجوان بیٹا کل کلاں اسی دلدل میں ہوگا۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہے؟ اگر نہیں تو آج ہی آواز اٹھاؤ۔ اپنی اولاد کو موبائل دیتے وقت نگرانی کرو اور سب سے بڑھ کر اداروں کو جھنجھوڑو کہ یہ ملک کسی بے حیائی کی تجربہ گاہ نہیں ہے۔
پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہی حالت رہی تو دنیا ہمیں "فحاشی کی جمہوریہ” کہنے لگے گی۔ ہم نے اپنے شہداء کے خون سے یہ وطن حاصل کیا تھا نہ کہ اپنی عزتوں کو سوشل میڈیا پر نیلام کرنے کے لیے۔
آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
اگر آج ادارے اور عوام نے آنکھیں نہ کھولیں تو کل ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ پھر کوئی سوال کرے گا:
"تم نے کیا چھوڑا ہمارے لیے؟ ایمان یا بے حیائی؟”
اب ٹک ٹاک اور اس جیسے دوسرے سوشل میڈیا پر سرعام فحاشی،عریانی گندی گفتگو "ڈیجیٹل ہیرا منڈی” کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ جو نسل نو کی دلدل اور تباہی کا باعث بن رہی ہے جس پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے.

کالا باغ ڈیم: وزیر اعظم ،فیلڈ مارشل کے نام اپیل

نوجوان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button