آج کا کالم

’’پاکستان کی خیر ہے‘‘

وہ وقت آیا جب ہم نے بھی خواب کسی اور دنیا کے دیکھے لیکن شناوری کسی اور بحر کی مقدر میں لکھی گئی

83 / 100 SEO Score
’’پاکستان کی خیر ہے‘‘

پاکستان کی خیر ہے
پاکستان کی خیر ہے
قارئین! ہوش سنبھالا تو والد مرحوم الطاف پرواز کو نہایت ایمانداری اور جانفشانی سے قلم کی مزدوری کرتے پایا۔ ہر بچے کیطرح میرا باپ بھی میرا ھیرو تھا۔ اس وقت سرزمین پوٹھوہار سے ٹکر کے دو بڑے اخبار شائع ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک روزنامہ تعمیر تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں اس روزنامے کی مجلس ادارت کے ساتھ وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور زمانہ کالم ’’پھول اور کانٹے ‘‘ تحریر کیا کرتے تھے۔ نوعمری نے سجھایا کہ برخودار یہ سیاسی سماجی کالم تمہاری سمجھ سے بالا تر ہے تم ٹارزن اور کوہ قاف کے جنوں کی کہانیاں پڑھو لیکن تجسس کی ضد تھی کہ بھلے کچھ ہو جائے پھول اور کانٹے کا مطالعہ ضروری ہے۔
پھر وہ وقت آیا جب ہم نے بھی خواب کسی اور دنیا کے دیکھے لیکن شناوری کسی اور بحر کی مقدر میں لکھی گئی۔ شاہ نور اسٹوڈیو کی روشنیاں من میں سجائے جا پہنچے ہم کاکول کے اندھیرے گراؤنڈ میں۔ عسکری ملازمت کے۲۵ سال پورے ہوتے پتہ ہی نہ چلا اور پھر ہمارا وردی سے ’’نکلنے‘‘ کا وقت آگیا۔ خاکی کو خیر باد کہہ بھی دیا لیکن یہ بات آج تک سمجھ نہ آئی کہ ہمیں دھکا کس نے دیا تھا۔۔ ملازمت کے آخری پانچ سال آئی ایس پی آر میں گذارے۔ یہی وہ وقت تھا جب باوردی ادبی اور صحافتی ماحول نے مہمیز کیا اور لکھنے کا وائرس بیدار ہوا۔ گو کہ اسی کی دہائی میں ریڈیو کیلئے بہت کچھ لکھا تھا لیکن اخبارات و جرائد میں لکھنے کے نوعمری کے کیڑے کو نوے کی دہائی میں خول سے باہر آنے کا موقع ملا۔ سو مختلف اردو انگریزی روزناموں میں تواتر سے لکھنا شروع کر دیا تاہم سوئی ہنوز کالم نگاری پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔
          ۱۹۹۹ میں جب پہلا اردو کالم ایک ممتاز قومی روزنامے میں شائع ہونے جا رہا تھا تو مسئلہ درپیش ہوا کہ ’’نومولود‘‘ کا نام کیا رکھا جائے۔ سب سے پہلا خیال والد مرحوم کے کالم ’’پھول اور کانٹے‘‘ کی جانب گیا لیکن اس خیال کو بے ادبی گردانتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا اوراس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ ان دنوں خاکی وردی پہنتے پہنتے سوچ بھی خاصی ’’خاکیانہ‘‘ ہو چکی تھی سو نجانے کہاں سے ۱۹۳۶ کی ہسپانوی خانہ جنگی کا ایک کردار قوم پرست جرنیل ’’ایمیلیو مولا‘‘ ذہن میں در آیا جس نے میڈرڈ کی طرف مارچ کرتے ہوئے ایک اخبار نویس سے کہا تھا.
’’اب جبکہ وہ اپنے چار فوجی کالموں (دستوں) کے ساتھ میڈرڈ پہنچ چکا ہے تو شہر میں موجود اس کے حامیوں پر مشتمل ’’پانچواں کالم‘‘ حکومت برطرف کرنے میں اس کی مدد کریگا۔ ہسپانوی ’’مولا جٹ‘‘ کی اس بڑھک کے بعد پانچویں کالم کی اصطلاح کا اسپین میں استعمال بہت عام ہوگیا بلکہ مشہور زمانہ ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے اپنے ایک ڈرامے کا نام بھی ’’پانچوں کالم اور پہلی انچاس کہانیاں‘‘ رکھ دیا۔
Fifth column and the first forty-nine stories
پاکستان کی خیر
سچ پوچھیں تو یہ نام بھلا لگا۔یہ الگ بات ہے کہ بیسویں صدی کے اختتام تک ’’پانچواں کالم‘‘ کی اصطلاح کو منفی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ چند دوستوں نے کوئی اور نام رکھنے کا مشورہ دیا لیکن باغیانہ طبیعت قائل نہ ہوئی اور یوں ۱۹۹۹ میں پانچواں کالم کا آغاز ایک قومی روزنامے میں اشاعت سے ہوا۔ روزنامے تبدیل ہوتے رہے لیکن کالم پانچواں ہی رہا۔ اس بارے میرا نظریہ مختلف تھا اور ہے۔ نائن الیون کے سانحے(یا ڈرامے) نے دنیا کو ایک بے رحم دھوبی پٹخا دیا ہے۔ دوست خون کے پیاسے اور دشمن ہم نوا بن چکے ہیں منفی چیزیں مثبت اور "مثبت ڈھکوسلے‘‘ منفی بن کر ابھر رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو ایسے میں پانچواں کالم بھی منفی اصطلاح نہیں رہی۔ اگر ریاست میں موجود بیرونی دشمنوں کے حمائتی پانچواں کالم ہو سکتے ہیں توکیا وجہ ہے کہ ان حمائتیوں کے ’’ریاستی دشمن‘‘ بھی پانچویں کالم کا کردار ادا نہ کریں۔آخر لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ پنجابی کی ایک مشہور مثل یاد آرہی ہے کہ ’’باقی تسی آپے سیانڑے او‘‘۔
پاکستان کی خیر
پانچواں کالم ایک خاصی مقبول طاقت بن چکا ہے۔ وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں نے مخالف جماعتوں میں ’’سٹینڈ بائے‘‘ پانچویں کالم رکھے ہوئے ہیں جو ’’آبائی چار کالموں‘‘ کی دامے، درمے، سخنے حسب توفیق مدد کرتے رہتے ہیں لیکن کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جن میں نون لیگ سر فہرست ہے اور جو ہرگز ہرگز کسی کا ’’وساہ‘‘ نہیں کھاتیں اور انہوں نے نہ صرف پانچواں کالم اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے بلکہ اس کی قیادت بھی اپنے خاندان کے بچوں کو سونپ رکھی ہے جس سے نہ صرف ’’شہزادوں اورشہزادی‘‘ کا دل بہلا رہتا ہے بلکہ وہ بادشاہ بادشاہ کھیل کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ رہ گیا گھر کو نقصان کا خدشہ تو وہ کوئی ایسی پریشان کن بات نہیں۔ جاتی امرا اگر مشرقی پنجاب سے ’’پیاں پیاں‘‘ چل کر رائے ونڈ پہنچ سکتا ہے تو اسے لندن جانے سے کون روک سکتا ہے؟ پاکستان کا کیا ہے؟ یہ ستتر سال سے چل رہا ہے اور ان شااللہ آئندہ بھی ’’رڑھ کھُڑ‘‘ کر چلتا رہے گا۔ یادش بخیر۔۔۔۔۔۔ میری نسل کو سقوط ڈھاکہ بخوبی یاد ہے۔
گھر گھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی کہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ درد دل اور احساس زیاں رکھنے والے یوں بلک بلک کر رو رہے تھے جیسے کوئی اپنی اکلوتی اولاد نرینہ کی موت پر آنسو بہاتا ہے لیکن ایک واحد شخص جو ’’مثبت سوچ‘‘ کا مالک تھا، جو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے اور شاید قیامت تک زندہ رہے گا، بے ساختہ بول اٹھا تھا ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ پاکستان تو بچ گیا تھا اور ان شااللہ بچا رہے گا لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا احساس زیاں مرتا جارہا ہے۔
جب تک ہمیں اپنی سانسوں کی آمدورفت کا احساس ہےشاید ہم کچھ کر لیں ورنہ ہمارے ۴۷ نمبر وارڈ کے ایک ڈاکٹر تو ہمیں دو برس پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ڈال چکے ہیں اور اب تو ’’لواحقین‘‘ بھی کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ رہ گئی عوام تو ان کا تو المیہ ہے کہ ’’ساڈا تے والی وارث وی کوئی نئیں‘‘
پاکستان کی خیر
پیارےقارئین! بات میرے پانچویں کالم کی ہورہی تھی جو عرصہ دس سال تک مختلف قومی روزناموں میں شائع ہوتا رہا۔ بوجہ بریک لینی پڑی کہ اخبار مالکان کو ’روکڑا‘ دیتے تکلیف ہوتی تھی۔ کسی ماہ عنایت کر دیا اور کسی مہینے جیب کٹ جانے کا بہانہ۔ یہی حال ہمارے پبلشروں کی اکثریت کا بھی ہے، جس پر آئندہ کسی کالم میں بات ہوگی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ الحمدللہ خاکسار کسی اخبار کا محتاج نہیں ہے اور ویسے بھی آجکل سوشل میڈیا کے دور میں اخبار پڑھتا کون ہے۔ مالکان سرکاری اشتہارات کیلئے اخبار چھاپتے ہیں اور جو چھپتا ہے وہ پکوڑوں اور سموسوں کیلئے استعمال ہوتا ہے سو اپنی فیس بک ہے اور اپنا پانچواں کالم ہے۔ کوشش ہوگی کہ یہ ہر اتوار کو شائع ہو۔ آپکی رائے کا انتظار رہے گا۔ رائے ضرور دیجئے لیکن مہذب پاکستانیوں کی طرح کہ میری فیس بک پر خواتین بھی موجود ہیں ۔ سوشل میڈیا کا مطلب بندر کے ہاتھ میں استرا ہونا نہیں ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس

پاکستان کی خیر

وزیراعلیٰ پنجاب کے مثبت اقدامات 

پاکستان کی خیر

پاکستان کی خیر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button