شکر گزاری کا جادو اور کامیابی
انبیاء کرامؑ، سائنسدان، فلسفی اور موجد سب شکر گزار انسان تھے۔ محرومیوں پر کڑھنے کے بجائے اپنے پاس موجود نعمتیں شمار کیجئے!

شکر گزاری کا جادو اور کامیابی
نعیم سلہری
انسان اپنی ذات پر اور اپنے آس پاس نظر دوڑائے تو اس کو ہر لمحہ بے شمار حمتیں نظر آتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اس پر لازم ہو جاتا ہے۔ انسان کھلی فضا میں سانس لیتا، قدرت کی طرف سے فراہم کردہ غذائی عناصر سے لطف اندوز ہو کر زندہ رہنے کا سامان کرتا ہے، اناج اگانے کے کے لئے زمین کا استعمال کرتا پھلوں، پھولوں سے مستفید ہوتا اور پہاڑوں میں چھپے خزانے تلاش کرتا ہے۔ قدرت کی ان نعمتوں سے کوئی کم فائدہ اٹھاتا ہے اور کوئی بہت زیادہ۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جو انسان اللہ کی پیدا کردہ نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اس کو زیادہ نوازتی ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں بار بار شکر گزار ہنے کی تاکید کرتا ہے، قرآن مجیدمیں اس کا بار بارذکر کیا گیا ہے۔ سورہ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اللہ تمہیں خبر دار کرتا ہے، اگرتم شکر گزار رہو گے تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا لیکن اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا تمہیں سخت سزادی جائے گی“۔ اسی طرح قرآن مجید کی ایک اور سورۃ مبارکہ میں ارشاد ہے: ”ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، اب اس کی مرضی ہے کہ وہ شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتا ہے“۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺکا قول مبارک ہے کہ”آپ کو جونعمتیں عطاکی گئی ہیں، ان کا شکر ادا کرنا یہ بات یقینی بناتا ہے کہ یہ نعمتیں بہت زیادہ مقدار میں آپ کے پاس رہیں گی“۔
اسلامی تعلیمات ہمیں ہر ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتی ہیں
اسلامی تعلیمات ہمیں ہر ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم کامیاب اور مطمئن زندگی گزارنے کے اس زریں اصول کی اہمیت وافادیت بھلا بیٹھے ہیں۔ اس کو تاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کی زبان پر ہر وقت شکوے اور شکایات کا ورد ہی رہتا ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے کے اس جادوئی اصول کو اہل مغرب نے ”Theory of Thanksgiving” کا نام دیا ہے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ انسان اپنی کسی خوبی یا خود کو حاصل کسی نعمت پر جتنا زیادہ شکر ادا کرتا ہے، اس خوبی یا نعمت میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کامیاب انسان گزرے ہیں، چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے رہا ہو، وہ سب کے سب اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام سائنس دان، فلسفی، موجد،اصلاح کار اورخاص طور پر تمام انبیاء کرام سب کے سب شکر گزار انسان تھے۔ اس حوالے سے گوتم بدھ کا ایک قول یاد آرہا ہے جو یوں ہے کہ ”آپ کی زندگی کا مقصد صرف شکر اور خوشی ہے۔
”وہ لوگ کس قدر مفلس ہیں جن کے پاس صبر جیسی دولت نہیں ہے“ شیکسپیئر
معروف موٹیویشنل سپیکر اور شہرہ آفاق کتاب اور فلم ”The Secret“کی خالق آسٹریلوی نژاد امریکی خاتون رہونڈا بائرن اپنی کتاب ”The Magic ” میں شکر گزاری کے جذبے کے بارے میں لکھتی ہیں: ”شکر ایک کا ئناتی قانون کے تحت عمل کرتا ہے۔ یہ کائناتی قانون آپ کی پوری زندگی پر لاگو ہوتا ہے۔ ہماری کائنات کی ساری توانائی پر کشش کا قانون ”of Attraction Law “ لاگو ہوتا ہے۔ ایک جو ہر Atom کے بننے سے لے کر سیاروں کی حرکت تک کشش کا قانون لاگو ہے کشش کے قانون کے مطابق ایک جیسی چیزیں ایک دوسری کی جانب مائل ہوتی ہیں۔ ہر زندہ مخلوق کے خلیے کشش کے قانون کے زیر اثر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اسی طرح ہر مادی چیز کا مواد بھی کشش کے قانون کے تحت یک جا رہتا ہے۔ آپ کی زندگی میں یہ قانون آپ کے خیالات اور جذبات پر لاگو ہوتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی
توانائی ہیں۔ چنانچہ آپ جس چیز، شخص، مقام یا کیفیت کے بارے میں سوچتے ہیں، اسے اپنی جانب مائل کرتے ہیں۔ نیوٹن کے نام اور کارناموں سے کون واقف نہیں، ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ”جو آپ دیتے ہیں، وہی پاتے ہیں اور برابر پاتے ہیں“
نعمتوں کا شمار، شکر گزاری کا محرک
انسان شکر گزاری کے عظیم جذبے کی ادائیگی اسی وقت احسن طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے جب وہ خود کو میسر نعمتوں کا شمار کرتا ہے، انہیں گنتا ہے۔ ایسا کرنے سے آپ کوتکمیل کا احساس ہوتا ہے اور آپ منفی سوچ سے نجات حاصل کر لیتے ہیں گو کہ کائنات میں انسان کے لئے بے شمار اور بے حساب نعمتیں بکھری پڑی ہیں اور وہ ہر ایک پر شکر ادا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلا و گے“۔ معروف امریکی گیت نگار، مصنف، اداکار اور گلو کار ولیم نیلسن کا کہنا ہے کہ”جب میں اپنی حاصل شدہ نعمتیں گنتا ہوں، تب میری پوری زندگی تبدیل ہو جاتی ہے“۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مثبت سوچنے کی بجائے منفی سوچوں کو اپنے ذہن کا مرکز ومحور بنا لیتے ہیں۔ ہم ماضی میں جھانک کر اپنی ناکامیوں، محرومیوں اور نا خوشگوار حادثات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پہنچتے ہیں اور امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر نا مراد ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔
منفی چیزوں پر کڑھنے کی وجہ سے انسان فطری طور پر ناشکری کا شکار ہو جاتا ہے
اس حوالے سے را ہوندا بائرن کہتی ہیں: ” اس کا تاریک رخ یہ ہے کہ جب ہم اپنی حاصل شدہ نعمتیں نہیں گنتے ہیں، تب ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم غیر ارادی طور پر منفی چیزیں گننا شروع کر دیتے ہیں۔ منفی چیزوں پر کڑھنے کی وجہ سے انسان فطری طور پر ناشکری کا شکار ہو جاتا ہے جو نعمتوں میں کمی کا سبب بن کر اسے ناکامی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ اس ضمن میں شہرہ آفاق انگریزی ناول نگار چارلز ڈکنز کا قول ہے کہ”اپنی ماضی کی محرومیوں یا بدنصیبیوں پر کڑھنے کی بجائے، جو کہ ہر انسان کی زندگی میں تھوڑی بہت ضرور ہوتی ہیں اپنی موجود نعمتوں پر غور و خوض کریں جو کہ ہر انسان کے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں۔
شکر گزری کا قانون کیسے کام کرتا ہے؟
رہونڈا بائرن اپنی کتاب ”The Magic ” میں ہمیں بتاتی ہیں کہ شکر گزاری کا یہ جذبہ کام کیسے کرتا ہے؟
وہ اس کے لئے تین انتہائی موئثر مراحل کے بارے میں بتاتی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1: آپ کا شکریہ کے جادوئی الفاظ ارادی طور پر سوچیں اوربولیں۔ ارادی طور پر ان الفاظ کا بار بار کہنا جہاں آپ کو مثبت رکھتا ہے وہاں آپ کی شخصیت میں ایسی مثبت تبدیلی لے آتا ہے جو دوسروں کو آپ کی طرف راغب کرتی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی مدد سے آپ اپنی کامیابی کی منزل کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔
2 آپ ان شکر گزاری کے جادوئی الفاظ یعنی آپ کا شکریہ کو جتنا زیادہ ارادی طور پر سوچیں اور بولیں گے، اتنی ہی زیادہ آپ شکر گزاری محسوس کریں گے۔ جب آپ شکر گزاری محسوس کریں گے تو آپ کا یہ عقیدہ پختہ تر ہو جائے گا کہ آپ کی کامیابی اور خوش حالی اللہ تعالی کے فضل و کرم کی وجہ سے ہے۔ اس سوچ کے حامل افراد کبھی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے، وہ ہر وقت خود کو ایک غیر مری طاقت کے حصار میں پاتے ہیں۔ اور یہی
احساس اللہ کی ذات پر بھروسہ کہلاتا ہے جو حقیقی کامیابی کا ضامن ہے۔
:3: آپ شکر گزاری کو جتنا زیادہ شعوری اور ارادی طور پر سوچیں اور محسوس کریں گے، اتنی زیادہ آپ فراوانی و کثرت پائیں گے۔
عمل کے بغیر کچھ ممکن نہیں
یہاں تک آپ یہ تو یقیناً جان گئے ہوں گے کہ شکر گزاری کا جذبہ کامیابی میں کس حدتک ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین! اصول کوئی بھی ہو، آپ اس کے بارے میں چاہے جتنامرضی جان لیں، اسے ازبر کر لیں، اس کو ہزاروں بار لکھ کر ذہن نشین کرلیں جب تک آپ اس پر عمل نہیں کریں گے، آپ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے عمل نہ کرنا اور صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف رہنا آپ کو کامیاب نہیں بلکہ تضحیک کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ اس ضمن میں ایم آرکوپ میئر اپنی کتاب ”آپ چاہیں تو امیر بن سکتے ہیں“میں بڑی پتے کی بات لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ شہرت اور ناموری کے خواہش مند میں تو ”صبر و تحمل کے ساتھ عمل کو یاد رکھیے کیونکہ عمل کے بغیر کامیابی کا تصور محض خود فریبی اور حماقت ہے۔ آپ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو بھی صبر و تحمل سے کام لیجیے اور اس کے ساتھ ساتھ عمل مسلسل عمل کو بھی یاد رکھیے۔ اگر آپ عملی محنت کو نظر انداز کردیں گے تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اگر آپ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو بھی صبر و تحمل سے کام لیجیے
آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا شمار دنیا کے بہترین سیاست دانوں میں ہو تو بھی صبر و تحمل سے کام لیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ”عمل“ کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ ان کا قول ہے۔ دنیا کی ہر بڑی کامیابی عمل اور صبر کا نتیجہ ہے: صبر کے بارے میں شیکسپیئر کا قول بھی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے: ”وہ لوگ کس قدر مفلس ہیں جن کے پاس صبر جیسی دولت نہیں ہے“۔ کسی اور حکیم کا قول ہے کہ: ”صبر سب سے بڑی طاقت ہے“، مشہور فرانسیسی ادیب جوزف دی میسترے نے کہا ہے صبر کیسے کیا جائے۔۔۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا شمار دنیا کے بہترین سیاست دانوں میں ہو تو بھی صبر و تحمل سے کام لیں
اگر آپ نے جان لیا تو سمجھ لیں کہ کامیابی آپ کا مقدر ٹھہری،صبر کیا ہے۔۔۔؟ خاموش رہنا، برداشت کرنا،ٹھہر جانا،رک جانا، ثابت قدم رہنا، اگر ہمارا کوئی نقصان ہو جائے،ہمیں کوئی صدمہ پہنچے تو کہاجاتا ہے کہ صبر کرو مطلب کہ اسے برداشت کرو۔۔۔۔جو ہونا تھا ہو چکا اب اس پر پچھتانا یا افسوس کرنا فضول ہے۔ایک امریکی صدر ”کیون کو ولج” نے کہا تھا: ”کوئی جذبہ اور کوئی احساس اور کوئی طاقت صبر وتحمل کی جگہ نہیں لے سکتی“: ”جان ڈرائیڈن کا قول ہے۔۔ صبر کرنے والے شخص کے قہر سے بچو۔۔۔! اسی طرح امریکی ادیب ٹائرون ایڈورڈ کا کہنا ہے۔۔۔ جو صبر کرے گا وہ قائم رہے گا۔ صبر کی طاقت محض ایک مقولہ یا نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک آفاقی صداقت ہے۔ دنیا کی تمام مذہبی کتا بیں ”صبر وتحمل کی طاقت کی گواہ ہیں۔ دانا لوگ ہمیشہ صبر وتحمل سے کام لیتے ہیں، اعتدال پسند ہوتے ہیں اور جلد بازی سے پر ہیز کرتے ہیں۔ صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ عمل اور جدو جہد کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔
کامیابی کے حصول کے لیے صبر و تحمل اورعمل لازم و ملزوم ہیں
اگر آپ دولت مند بننے کے خواہش مند ہیں تو انتھک محنت کے ساتھ ساتھ ” صبر و تحمل کو اپنا رہنما بنائیے۔ کامیابی کے حصول کے لیے صبر و تحمل اورعمل لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے کہا گیا ہے: ” دنیا کی ہر بڑی کامیابی صبر اور عمل کا نتیجہ ہے۔۔۔ اور ایک یونانی کہاوت ہے۔ جو صبر نہیں کرتے ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ قارئین! او پر ہم نے بات کی ہے کہ عمل کے بغیر محض خالی معلومات اور علم وہ خزانہ ہے جو آپ کے پاس تو ہے مگر آپ اسے اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتے۔ اس کے بارے میں ابن خلدون نے کیا خوب کہا ہے کہ: ”علم خزانہ ہے اور عمل اس کی چابی ہے۔ امریکہ کے 35 ویں صدر جان ایف کینیڈی کا کہنا ہے کہ جب ہم شکر ادا کریں تو ہمیں یہ بات بالکل بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اعلی ترین طرز عمل یہ ہے کہ محض الفاظ ہی نہ بولے جائیں بلکہ زندگی بھی ان کے مطابق بسر کی جائے۔