تاریخ کے اوراق

کہاں ہے وہ انتظام و تنظیم جو اس وحشی نے قائم کی؟

اس وحشی و سفاک نے ان پڑھ ہونے کے باوجود ٹولیوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی قوم کو ایک ناقابل شکست لشکر بنا دیا اس لئے کہ وہ جاہل نہ تھا مگر ہم نے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک متحد قوم کو ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا اس لئے کہ ہم جاہل ہیں۔ ایک سبق آموز تحریر: ممتاز صحافی و تجزیہ نگار فاروق حارث العباسی کے قلم سے

Farooq Haris
فاروق حارث العباسی

کہاں ہے وہ انتظام و تنظیم جو اس وحشی نے قائم کی؟

1162ء میں پیدا ہونے والا چنگیز خان! تیرہ سال کی عمر میں اپنے باپ یسوکائی بہادر کا جانشین ہوا۔ مختلف مورخین نے چنگیز خان کی تاریخ پیدائش 1155ء اور 1167ء بھی بتائی لیکن اس بارے میں نامور مورخین و تحقیق نگار 1162ء پر متفق ہیں۔ ابتدائی عمر سخت پریشانیوں اور تکلیفوں میں گزاری۔ منگولوں کے جتھے اور ٹولیاں آپس میں دست و گریبان اور قتل و غارت گری میں مصروف عمل رہے۔ منگول منگول سے ٹکراتے، ایک دوسرے کا لہو بہاتے، ہم نسلوں کے گھر برباد کرتے، خاندانوں کے خاندان اجاڑتے اور پھر نئے حملوں کی تیاری میں جت جاتے۔ 1180 ء سے 1205ء تک 25 سال آپس میں ہونے والی اس جنگ و جدل اور قتل و غارت گری نے منگولوں کی قوت کو نابود کر کے رکھ دیا۔بالآخر چنگیز خان نے ایک مضبوط قدم آگے بڑھاتے ہوئے تمام منگول سرداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور نہایت دانشوری کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں سمجھایا کہ دنیا کی کوئی قوم ہم بہادر منگولوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اگر ہم اسی طرح آپس میں لڑتے مرتے رہے تو ہماری نہ صرف پوری کی پوری قوم تباہ ہو جائے گی بلکہ ہماری نسل تک مٹ جائیگی۔

G5لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم آپس کے تمام اختلافات مٹا کر متحد ہو جا ئیں اور اگر ہم نے ایسا کر لیا تو مجھے یقین ہے کہ ہم پوری دنیا کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں گے۔ وہ منگول سردار جو آپس میں لڑ مر کر تھک چکے تھے، چنگیز خان کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور دل و جان کے ساتھ وفا کا عہد کرتے ہوئے ایک پرچم تلے یکجا و متحد ہو گئے۔ اور پھر اگلے ہی سال 1206ء میں انہوں نے پورا منگولیا فتح کرتے ہوئے قراقرم کواپنا دارالحکومت بنایا۔ 1213 ء میں شمالی چین کی تسخیر کا آغاز کیا۔ 1215 ء تک اس نے چن خاندان کی سلطنت کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔ پھر چند ہی سالوں میں ترکستان، افغانستان اور ایران کو فتح کر لیا اور اس کے لشکر کا ایک حصہ 1218ء سے 1224ء تک جنوب مشرقی یورپ میں داخل ہوگیا۔1227ء میں چنگیز خان کی وفات کے بعد اس کا تیسرا بیٹا اوغدائی (اوگتائی) خان تخت نشین ہوا جسے جانشینی کے لئے چنگیز خان نے اپنی زندگی ہی میں خان اعظم کے لئے منتخب کر دیا تھا لہٰذا چنگیز خان کی موت کے بعد تاتاریوں کی مجلس عالیہ (قوریلتائی) نے اس کی توثیق کر دی چنانچہ 1227ء سے اپنی موت 1241ء تک وہ خاقان یعنی خان اعظم رہا۔ اس نے ختا کو فتح کیا پھر روس کے اطراف کے ممالک کی تسخیر کے لئے لشکر روانہ کئے جن کا سالار اعظم اپنے بڑے بیٹے ” کیوک ” کو بنایا۔ کیوک نے متحدہ افواج کے ذریعے تباہ کن حملے کئے اور ان تمام روسی علاقوں کو فتح کر لیا۔

G7چنگیز خان کے منجھلے بیٹے تولوئی خان کا بیٹا ہلاکو خان، ایران کے ایل خانی خاندان کا بانی، جس نے 1258ء میں بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پورا بغداد صفحہء ہستی سے مٹا دیا۔ اپنے بڑے بھائی منگو خان کے حکم پر 1251ء میں اسماعیلیوں کے مشہور و معروف قلعہ ” الموت ” کو فتح کیا جس سے اسماعیلیوں کی سیاسی قوت کو نابود کر کے رکھ دیا۔ بعدازاں آزربائجان کو فتح کیا اور پھر موصل کی طرف بڑھا۔ موصل کے حاکم کو گرفتار کیا اور اسے انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل کر ڈالا۔ تمام علاقوں پر قبضہ کر کے منگولی حکومت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف چنگیز خان کا پوتا (چنگیز خان کے بڑے چغتائی خان کا بیٹا) قبلائی خان اپنے دادا کی بنائی ہوئی سلطنت کا خان اعظم بنا اور 1279ء میں چین کے خاندان سنگ (Sung) کو شکست فاش دے کر تمام علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
کہنے کا مقصد فقد یہ ہے کہ اس تمام تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو چنگیز خان نے اپنی وہ بات ثابت کر کے دکھا دی کہ ”اگر ہم متحد ہو جائیں تو پوری دنیا کو اپنے پاؤں تلے روند سکتے ہیں“ تاریخ میں اس سے بڑا قاتل اور غارت گر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جو انسائیکلو پیڈیا میں درج ہے، اس نے اپنی ان فتوحات کے دوران چوراسی لاکھ سے زائد انسانوں کو قتل کیا اور ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ دنیا کی کوئی قوت اس کے سامنے ٹھہر نہ سکی۔ اس کا قول ہے کہ ”میں مفتوح ہونے کیلئے نہیں، دنیا کو فتح کرنے کیلئے پیدا ہوا ہوں اوپر خدا اور نیچے چنگیز خان، زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں جو چنگیز خان کے دشمن کو پناہ دے سکے“ اس فاتح عالم نے زندگی میں کبھی کوئی شکست نہ کھائی۔ ان پڑھ اور درندہ ہونے کے باوجود بلا کا ذہین و منتظم۔

G8وہ ان پڑھ ضرور تھا مگر جاہل نہ تھا، وہ درندہ بھی تھا مگر اپنی قوم کا رہبر و رہنما، وہ سفاک بھی تھا مگر ملت کا پاسبان، وحشی بھی تھا مگر اپنی قوم کا نگہبان۔ ایک وحشی و درندہ ہونے کے ناتے آج وہ ہمارے نزدیک قابل نفرت ہے، وہ ایک وحشت کا سامان تھا، ایک خوف کی علامت اور درندگی کا نشان تھا۔ اس سب کے باوجود دنیا اسے فاتح عالم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ چنگیزخان کی حکمرانی کے 21 سال عالم اسلام اور دیگر اقوام کیلئے کسی آفت و قیامت سے کم نہ تھے یہی وجہ ہے کہ بعض مورخین نے حقارت کے باعث 1227ء کے سال کو ”خنزیر کا سال“قرار دیا اس لئے کہ 1227ء میں جب وہ مرا تو پوری دنیا کو سکون قلب حاصل ہوا اور اقوام عالم خود کو محفوظ تصور کرنے لگی۔ اس سے قبل میں عرض کر چکا ہوں کہ بلاشبہ وہ ایک وحشی تھا، درندہ تھا، سفارک تھا اور مکمل طور پر ایک ان پڑھ شخص تھا جو الف ب کے الفاظ تک سے نا واقف تھا مگر اس کے باوجود وہ ایک اعلیٰ پائے کا منتظم اور بلا کا ذہین تھا جس نے اپنی بکھری اور جتھوں ٹولیوں میں بٹی ہوئی وحشی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا۔ تاریخ یہ بھی لکھتی ہے کہ وہ ان پڑھ ضرور تھا مگر جاہل نہ تھا، اگر جاہل ہوتا تو اتنے بڑے لشکر اور سر پھرے سرداروں کی کمان نہ کر سکتا، اگر جاہل ہوتا تو کبھی اتنا بڑا منتظم نہ ہوتا، اگر جاہل ہوتا تو کبھی فاتح عالم نہ ہوتا۔ ان پڑھ اور جاہل کا تقابلی جائزہ راقم کی نگاہ میں کچھ یوں ہے کہ ”جس طرح جاہل اور ان پڑھ میں ایک فرق ہے اسی طرح غریب اور نیچ میں بھی ایک فرق ہے، ہر غریب نیچ نہیں ہوتا مگر نیچ ہر حال میں نیچ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر ان پڑھ جاہل نہیں ہوتا مگر جاہل ہر حال میں جاہل ہوتا ہے

U9“ تو اس پوری تمہید باندھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ہم بہت پڑھے لکھے تو ہیں مگر بدقسمتی سے جاہل ہیں، اگر جاہل نہ ہوتے تو علم ہمیں بہت کچھ سکھا دیتا۔ علم ہماری رہنمائی اس لئے نہ کر سکا کہ جہالت نے اسے اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ نہ ہم اچھی قوم بن سکے اور نہ اچھے رہنما۔ چنگیز خان نے ان پڑھ ہونے کے باوجود ٹولیوں اور جتھوں میں بٹی ہوئی قوم کو ایک ناقابل تسخیر لشکر بنا دیا اس لئے کہ وہ جاہل نہ تھا اور ہم نے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک متحد قوم کو ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا اس لئے کہ ہم جاہل ہیں۔ ٰلہذا ان پڑھ اور جاہل کے درمیان یہ ایک بنیادی فرق ہے اور یہی بنیادی فرق ہمیں لے ڈوبا۔ لوگ چنگیز خان کو وحشی کا نام دیتے ہیں مگر ہم سے بڑا وحشی کون ہے؟ ہم چنگیز خان کو درندہ کہتے ہیں، ہم سے بڑا درندہ کون ہے؟ ہم چنگیز خان کو سفاک کہتے ہیں، ہم سے بڑا سفاک کون ہے؟ ہم چنگیز خان کو ظالم کہتے ہیں، ہم سے بڑا ظالم کون ہے؟

G3ہم چنگیز خان کو جابر کہتے ہیں، ہم سے بڑا جابر کون ہے؟ آج جو کچھ اس ملک اور اس قوم کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے بڑی سفاکیت،وحشت، بربریت، درندگی اور کیا ہوگی؟ کہاں ہے وہ تحفظ جو چنگیز خان نے اپنی قوم کو دیا؟ کہاں ہے وہ اتحاد جو اس درندے نے قائم کیا؟ کہاں ہے وہ انتظام و تنظیم جو اس وحشی نے قائم کی؟ کہاں ہے وہ رہنمائی جو اس سفاک نے قوم کو دی؟ کہاں ہے وہ روزینہ داری جو اس ظالم و جابر نے اپنے عوام کو فراہم کی؟ اس کی درندگی اپنی جگہ، سفاکیت اپنی جگہ، وحشت اپنی جگہ، بربریت اپنی جگہ، اس نے جو کچھ کیا اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا اس لئے کہ وہ ان پڑھ شخص تھا اگر اس کے اندر علم کی روشنی ہوتی تو شاید وہ ایسا نہ کرتا مگر ہم چونکہ سراپا جاہل تھے لہذا ہم نے خود اپنے ہاتھوں اپنی قوم کو اجاڑ ڈالا، اپنے ہاتھوں اپنی قوم کے افراد کو قتل کیا،

G1اپنے ہاتھوں اپنی قوم کو بے یارو مددگار کیا، اپنے ہاتھوں اپنی قوم کو بھوک ننگ افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا۔ وہ تو وحشی تھے۔ گھوڑوں، گدھوں اور جانوروں کا خون پیتے۔ ہم نے تو انسانوں کا خون چوس لیا، وہ حیوانوں کی کھال کا لباس زیب تن کرتے،

G2

 

ہم نے انسانوں کی کھال اتار کر انہیں بے زینت کر دیا۔ تو پھر ہم سے بڑا وحشی درندہ اور سفاک کون؟ وہ تو ایک پرچم تلے متحد ہو گئے مگر ہم نے بیسیوں پر چم لہرا دیئے۔ اس نے تسخیر دنیا کا ایک ہی نعرہ بلند کیا مگر ہم نے عصبیت کے درجنوں نعرے بنا ڈالے۔ اس نے قومیت کا ایک ہی بیج بویا مگر ہم نے لسانیت کے ہزاروں پودے لگا دیئے اور یہ تمام کام ایک پڑھا لکھا شخص ہی کر سکتا ہے کوئی جاہل نہیں۔ اشفاق احمد مرحوم نے بالکل سچ کہا تھا کہ”اس ملک کو ان پڑھوں نے نہیں، پڑھے لکھے لوگوں نے نقصان کا پہنچایا“ بقول راقم! ”جہالت جہاں اپنے مہیب پر پھیلا لے، وہاں علم کی روشنی معدوم ہو جاتی ہے۔ “ ابو جہل کون تھا؟ غورطلب بات ہے۔

 

چنگیز خان کو دھول چٹانے والا مجاہد اعظم، جلال الدین خوارزم

 

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button