مشرق اردو ادب

وادی ناران! قدرت کی شاہکار رعنائیاں (سفرنامہ)

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن سے مالا مال اپنے خوبصورت نظاروں آبشاروں کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے

وادی ناران! قدرت کی شاہکار رعنائیاں (سفرنامہ)
پروفیسر محمد اعظم
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن سے مالا مال اپنے خوبصورت نظاروں آبشاروں کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہم نے وادی ناران کی خوبصورت جھلمل جھلمل کرتی سبز اور نیلے پانی والی جھیل سیف الملوک کو دیکھنے کا پروگرام بنایا اپنی فیملی کے ہمراہ نارووال سے پنڈی اور وہاں سے ایبٹ آباد پہنچ کر چشمے کے اوپر بنی ہوئی خوبصورت اور تاریخی الیاسی مسجد دیکھی۔ یہاں ہم نے کچھ تصاویر اتاریں اور نوافل ادا کئے۔ ایبٹ آباد کے بعد مانسہرہ آئے یہاں سے ہم گڑھی حبیب اللہ کی جانب مڑ گئے، جب ہم بالاکوٹ پہنچے تو دوپہر کے دو بجنے کو تھے۔ یہاں سے ہم نے حضرت شاہ اسماعیل شہید کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی، ایک لمبے سفر کے بعد گاڑی بھی گرم ہو چکی تھی اس لئے اسے دریائے کنہار کے ٹھنڈے ٹھار پانی سے دھویا اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔ اب ہماری کوشش تھی کہ ایک دو راتیں دریائے کنہار کے بالکل اوپر ہوٹل گیٹ وے میں گزاری جائیں تا کہ شہداء کی سرزمین بالا کوٹ شہر کی مزید معلومات اکٹھی کر لی جائیں۔

بالا کوٹ:

بالا کوٹ شہداء کی سرزمین، سب سے بڑا اور مشہور شہر ہے جسے تعلیم، ثقافت اور تجارتی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بالاکوٹ جو چند سال پہلے ایک قصبہ تھا اب چھوٹے سے لیکن صاف ستھرے اور اُجلے شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بالا کوٹ کا یہ تاریخی شہر دو حصوں میں تقسیم ہے درمیان میں دریا اپنی آب و تاب سے بہتا ہے، مشرقی حصہ گر لاٹ اور مغربی حصہ گراں کہلاتا ہے، دونوں حصوں میں آبادی بہت ہے اچھے مکانات عمدہ ہوٹل موجود ہیں۔ اس کا افتتاح اس وقت کے صدر جناب ایوب خان نے کیا تھا شہر کے مشرقی حصہ کے مقامات میں تڑاہ، دھڑیاں خواص ہیں مغربی بستی کے ساتھ ساتھ پوڑی، بلیانی وغیرہ ہیں۔ شہر میں داخل ہوتے ہی پہلے گرڈاسٹیشن، اے سی کی رہائش گاہ، ٹیلی فون ایکسچینج،پی ٹی ڈی سی کا دفتر، ہسپتال اورتھانہ آتا ہے۔ گندے نالے پر بنے پل کو عبور کریں تو بائیں ہاتھ گورنمنٹ ہائی سکول ہے۔ بالاکوٹ میں دو دن قیام کے بعد فیملی کی خواہش کے مطابق پروگرام بنا کہ جیپ کرایہ پر حاصل کی جائے اور وادی کے خوبصورت مناظر کی سیر کے ساتھ ساتھ معلومات بھی اکٹھی کی جائیں۔ اگلے دن صبح آٹھ بجے گیٹ وے ہوٹل سے روانگی تھی۔

وادی کا حسن

26101929337 623da75ff4 b
ناران کے قدرتی چشمے

وادی ناران کو قدرت نے جس حسن سے نوازا ہے وہ اس خدائے بزرگ و برتر کی شان کبریائی کی ایک زندہ مثال ہے۔ اس کے ایک ایک چپہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ان تمام لا محدود کرم نوازیوں پر شکر ادا کرنے کو دل چاہتا ہے اس ذات اقد اس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں کتنا حسین خطہ ارض رہائش کیلئے مرحمت فرمایا ہے۔ قدرت نے یہ اونچے اونچے پہاڑ، رنگ برنگے پھول، سبزہ، ٹھنڈے پانی کے چشمے، ندی، نالے، مسحور کن فضا، فضا میں اڑتے پرندے، کھیتوں میں چرتے جانور اور جنگلوں میں اگنے والے چیر دیودار اور بیار کے لمبے لمبے درخت اس کی مہربانیاں ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ بعد ہم شوگراں پہنچ گئے وہاں ہم نے ایک رات قیام کیلئے پائن پارک ہوٹل میں رہنے کا پروگرام بنایا فیملی کی خواہش تھی کہ آرام کر کے پھر انجوائے کیا جائے مگر موسم کے مطابق جاتے ہی سیر نہ کرنا بھی علاقہ سے زیادتی تھی۔

جرید:

جرید خاصا گنجان آباد قصبہ ہے یہاں فرنیچر سازی، اونی کمبل اور شال بنانے کے چھوٹے کارخانے
قائم کئے گئے ہیں جن میں بنا ہوا مال اپنی خوبصورتی اور پائیداری میں شہرت رکھتا ہے۔ اکثر سیاح یہاں کچھ وقت ضرور قیام کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کی اشیاء خرید کر ساتھ لیجاتے ہیں بالخصوص ملکی او رغیر ملکی عورتیں یہاں بنائی جانے والی گرم شالوں کو بہت ہی خوشی سے خریدتی ہیں۔

شینو:

شینو میں ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کیلئے ایک فارم بنایا گیا ہے اس فارم میں کئی عمر کی مچھلیاں پالی جاتی ہیں۔ عمر کے مطابق خوراک دی ہے۔مچھلیوں کی عمر پورے ہونے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں بیچ دی جاتی ہیں۔ اس کی خرید میں زیادہ سیاح دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ ایک تو مہنگی بہت ہوتی ہے دوسرا سیاحت کا شوق رکھنے والے اس کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس مچھلی کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بہت کم کانٹا ہوتا ہے اور کھانے میں یہ دنیا کی تمام اقسام کی مچھلیوں سے زیادہ لذیذ اور زیادہ غذائیت کی مالک ہے۔یہ مچھلی بہت زیادہ ٹھنڈے پانی میں ہی زندہ رہتی ہے اور دریائے کنہار کا برفیلا پانی اس کی افزائش کیلئے بہت ہی موزوں ہے۔ مہانڈری کا خوبصورت گاؤں ”منور“ تالا اور کنہار کے سنگم پر واقع ہے۔ سامنے گھنا جنگل، پشت پر بلند پہاڑ،پہلو میں ٹھاٹھیں مارتا سنور تالا اور نشیب میں نیلگوں کنہار اس قیامت خیز منظر پر مستز ادلب دریا ایک اجلے ریسٹ ہاؤس کا وجود اس مقام کی دلآویزی اور حسن آفرینی کو چار چاند لگاتا ہے۔ یہاں سیاح مسافروں کے طعام و قیام کا درمیانہ سا اہتمام بھی ہے اور خرید و فروخت کیلئے اوسط درجے کا بازار بھی۔ مناظر فطرت کے رسیاؤں کیلئے یہاں سبھی کچھ ہے مہانڈری کی پشت پر واقع پہاڑوں میں منور کی وادی ہے جو ایک تنگ درہ سے شروع ہو کر وسیع سے وسیع تر ہو جاتی ہے۔

جھیل سیف الملوک

maxresdefault 1 1 e1561124329653
جھیل سیف الملوک

اس خوبصورت وادی میں بھی بے شمار ایسے مقامات آتے ہیں جو بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھتے ہیں گھنے جنگل اور وسیع مرغزار خودرو پھل اور جھاڑیاں اور جاذب نظر چشمے اور آبشاری، پتھروں سے سر پھوڑتے اور سانپ کی طرح پھنکارتے تند و تیز ندی نالے، آسمان کی نیلاہٹوں میں اڑتے ہوئے رنگ برنگ کے پرندے دعوت نظارہ دیتے ہیں، یہ وادی بتدریج بلند ہوتے ہوتے ناران اور جھیل سیف الملوک تک جا پہنچتی ہے۔ اس وادی کے گھنے جنگلوں میں مرغ زریں جیسے نایاب پرندے اور نافہ جیسے مشہور زمانہ ہرن بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ برفانی ریچھ اور برفانی چیتا بھی انہی جنگلوں میں دیکھا جاتا ہے۔ مہانڈری سے چار کلو میٹر دور پھاگل اور اس کے سامنے کمال بن کے مقامات آتے ہیں دونوں کے درمیان کنہار کا پانی اس قدر شفاف ہے کہ سامنے ایک کلومیٹر کی بلندی سے اس کی تہہ میں کنکر اور سفید رنگ کے پتھر حتی کہ تیرتی مچھلیوں کو گنا جا سکتا ہے۔ کمال بن کے جنگلات سے لکڑی کی بھاری بھر کم گیلیاں لوہے کے رسوں کی مدد سے فضائی راستے سے پھاگل بن لائی جاتی ہیں تین تین، چارچاربھاری بھر کم کیلیاں جب فضا میں تیرتی ہوئی ہزاروں فٹ کی بلندی سے دریا کے اس پار سے اس پار لائی جاتیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اس فضائی راستہ کو سکائی لائن کہا جاتا ہے۔ پھا گل سے چند میل آگے کھتیاں (ریوان بیلی کا مقام) ہے اس جگہ سادات کا تان نے مہاراجہ لاہور کے جرنیل دیوان سنگھ کو شکست دیکر اس علاقہ سے سکھوں کی عملداری کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا تھا۔

سادات کے جد اعلیٰ

سادات کے جد اعلیٰ تمازی بابا کی تلوار کے نشان ایک چٹان پر اب بھی موجود ہیں معجزاتی طورپر عمودی چٹان پر گھوڑے کے سموں کے نشان بھی موجود ہیں اس جگہ کے آس پاس کا ماحول بہت طلسماتی اور سحر انگیز نظر آتا ہے۔ سامنے کی وادیوں میں دور تک گاڑیاں جاسکتی ہیں دریا کے اس پار بھوٹن دیس کا علاقہ ہے جہاں وادی کا سب سے عملدہ سیب پیدا ہوتا ہے جس میں گولڈن، کنگ گولڈ اور عنبری قابل ذکر ہیں۔ مشہور قصبہ کا تمان یہاں سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے جہاں سیاحوں کے طعام و قیام کی سہولتیں موجود ہیں۔ کاتمان میں ایک نہایت ہی خوبصورت ہوٹل پائن پارک موجود ہے۔ متعدد ہوٹل اور ریستوران جہاں سیزن کے دوران بہت چہل پہل اور رونق ہوتی ہے ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے اور ایک ہائی سکول، ڈسپنسری، ڈاک و تار کی سہولت کے علاوہ ایک مائیکرو ہائیڈل الیکٹرک پاور اسٹیشن بھی بنایا گیا ہے جو کئی گھرانوں کو رات کی تاریکی میں روشنی فراہم کرتا ہے۔ مقامی طور پر بجلی پیدا کرنے کا یہ منصوبہ بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔ کاتمان میں سادات خاصی تعداد میں آباد ہیں اور یہی لوگ زمینوں جنگلات اور دوسرے وسائل کے مالک بھی ہیں،

میدانی علاقے

lalazar 05 768x576 1
ناران کے مرغزار

موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی جب گوجر اپنے مال مویشیوں سمیت میدانی علاقوں سے نقل مکانی کر کے پہاڑی چراگاہوں کی طرف آتے ہیں تو سید جوان بھری بھری چراگاہوں کے بھی مالک ہیں ان سے فی بکری تین روپے گائے اور بھینس کے نو روپے ”چرائی وصول کرتے ہیں۔(یقینامہنگائی ہونے کے بعد انہوں نے بھی اپنے ریٹ بڑھالیے ہوں گے) گلگت، سکردو، بابو سر ٹاپ جانے کیلئے جیپوں کے قافلے چلا کرتے تھے اس وقت سیاحت کے بجائے تجارتی لحاظ سے ناران کو بہت اہمیت حاصل تھی۔بالاکوٹ کے عموماً کاغان کے دکاندار خصوصاً وہاں سیزن کے دنوں میں جاتے تھے۔

جامع مسجد

1959ء سے قبل یہاں اوپر والے کنارے پر ایک چھوٹی سی مسجد ہوتی تھی۔ حضرت مولانا عبد الطیف صاحب بالا کوٹی مرحوم نے یہاں پر موجودہ جامع مسجد کی بنیاد رکھی اور نماز جمعہ کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت یہاں پر صرف ایک سکول تھا جو سیزن کے دنوں میں چلتا تھا۔ ایک موچی ایک نائی کی دکان یہاں پر موجود تھی دو تین چائے خانے موجود تھے۔ما سوائے محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس کے باقی ساری عمارتیں کچی ہی تھیں۔ جون، جولائی میں گوجروں کے قافلے جو سینکڑوں مویشیوں پر مشتمل ہوتے تھے بسیر اور بورا وائی کی طرف جاتے تھے اب جبکہ ایک بارونق بازار ہے دنیا کی تمام سہولتیں میسر ہیں حتی کہ پانچ چھ پی سی اوز بھی ہیں موسم سرما میں چند گنے چنے لوگوں کے اور کوئی بھی رہائش پذیر نہیں ہوتا تھا سہوچ کے مقام پر لوگ عموماً مرغابی کا شکار کھیلتے تھے۔ ناران سے دس کلو میٹر دور 1430 فٹ لمبی 400 فٹ کم از کم چوڑی یہ جھیل سطح سمندر سے تقریبا ساڑھے دس ہزارفٹ بلند ہے۔

راستے:

جھیل تک جانے کیلئے ایک کچا راستہ بھی ہے جو بل کھاتا ہوا وہاں پر پہنچتا ہے یہ سفر پیدل یا گھوڑوں پر کیا جا سکتا ہے پیدل مسافت تقریباً ایک گھنٹہ کی ہے مقامی گائیڈ بھی یہاں دستیاب ہیں۔

جھیل:

Naran
ناران میں برفباری کا منظر

اس جھیل کے پانی کا رنگ گہرا نیلا ہے اردگرد پہاڑ ہی پہاڑ ہیں جو اکثر سفید چادر لئے ہوئے ہیں، ویسے جھیل کے ارد گرد بھی برف کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے اس کے بڑے بڑے گالے پانی میں تیر رہے ہوتے ہیں نوجوان خون گرمانے کی خاطر برف کے گولے بنا بنا کر ایک دوسرے کو مار تے ہیں۔ مغربی تہذیب سے بہرہ ور نوجوان دوشیزائیں بھی کبھی کبھی انکا ساتھ دیتی ہیں عموماً طرفین میں ہلکی سی گولہ باری بھی ہو جاتی ہے۔

 

ٹردے ٹردے (سفر نامہ) قسط نمبر1

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button