تاریخ کے اوراق

یاجوج ماجوج، اسرائیل و دجال شناخت اور یروشلم سے تعلق (دوسرا حصہ)

یاجوج ماجوج کے خروج کے بارے قرآن و احادیث، تورات اور تاریخی کتب کی روشنی میں تحقیق پر مبنی تحریر، یہ سمجھنے کی کوشش کہ وہ کون ہیں کس روپ اور کس خطہ میں رہ کر پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ (دوسرا حصہ)

Shahzad Abid Khan
شہزاد عابد خان

یاجوج ماجوج، اسرائیل و دجال شناخت اور یروشلم سے تعلق (دوسرا حصہ)

 (دوسرا حصہ)

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
”اور جس بستی والوں کو ہم نے تباہ کر دیا ان کا واپس آنا ناممکن ہے۔یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول نہ دیئے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے“۔ (سورۃ الانبیاء آیت 95-96)

اس آیت کریمہ کی روشنی میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب شعر کہا کہ

کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیر حرفِ ”ینسلون“

قرآن کریم کے مندرجہ بالا آیات اور حضرت علامہ اقبال ؒ کے اس شعر کو سامنے رکھیں ساتھ میں آپﷺ کی حدیث مبارکہ جس میں یاجوج ماجوج کے دیوار میں سوراخ بنائے جانے کا ذکر ہے تو یہ بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے کہ یاجوج ماجوج کھل چکے اور وہ آج دنیا میں عام انسانوں کے ساتھ گل مل کر زندگی گزار رہے ہیں، قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ وہ ہر اونچائی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔ سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے دیوار بنانے کے ذکر کے ساتھ کچھ یوں فرمایا ہے کہ
”اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں“(آیت۔94) چونکہ یاجوج اور ماجوج نے آخر الزماں میں زمین پر فساد برپا کرنا تھا تو اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کے مطابق ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے ساتھ جنگ نہیں لڑی بلکہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک دیوار بنا دی یہاں قرآن کریم میں ذکر موجود ہے کہ ”کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا اسے ریزہ ریزہ کردے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے“(سورۃ کہف آیت نمبر 98) اب ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی منشاء تھی کہ یاجوج اور ماجوج کا خروج قرب قیامت میں ہو۔
یاجوج اور ماجوج کے خروج کے بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
”جس بستی والوں کو ہم نے تباہ کردیا ان کا واپس آنا ناممکن ہے یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کھول نہ دیئے جائیں گے“ (سورۃ کہف آیت 95) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام پر عذاب کا ذکر کیا ہے جن میں قوم نوح، قوم لوط، ثمود و عاد ان جیسی اور بہت سی اقوام کا ذکر ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا،ان تمام بستیوں کو اُن کے باسیوں سمیت تباہ و برباد کر دیا گیا، مگر سورۃ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے جس بستی کا ذکر فرمایا ہے اس کے لیے کہا ہے کہ ”اور جس بستی والوں کو ہم نے تباہ کر دیا ان کا واپس آنا ناممکن ہے“مطلب بستی کو تباہ کر دیا گیا مگر اس کے باسیوں کا واپس آنا ممکن نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی کا ذکر ہو رہا ہے اس کے باسیوں کو مکمل طور پر موت سے ہمکنار نہیں کیا گیا بلکے چند ہزار لوگوں کو زندہ رہنے دیا گیا تاکہ اُن کی نسل آگے بڑھ سکے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا گیا کہ”یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول نہ دیئے جائیں اور وہ ہر اونچائی سے دوڑتے چلے آئیں گے“(سورۃ کہف آیت 96)۔ مطلب بستی کو تو تباہ کردیا گیا مگر اس کے باسیوں کو مکمل طور پر برباد نہیں کیا گیا بلکے آنے والے دور کے لیے نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا گیا وہ کون لوگ ہیں جن کو برباد کیا گیا مگر صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں گیا۔اس آیت مبارکہ میں جس بستی والوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سو فیصدی بنی اسرائیل ہیں۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

”اور اس وقت کو یاد کرو جب تیرے رب نے خبر کردی تھی کہ ضرور بھیجتا رہے گا یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو کہ دیا کرے ان کو عذاب بیشک تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کر دیں بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں“ (سورۃ الاعراف: آیت 166-167)

بنی اسرائیل کے بارے اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا دیا ہے کہ بنی اسرائیل پر قیامت تک ایسے لوگ مسلط کئے جاتے رہیں گے جو اُن کو اُن کی بد اعمالیوں کی وجہ سے سزا دیتے رہیں گے، ساتھ میں فرما دیا کہ اُن کو مختلف ٹولیوں، جماعتوں فرقوں اور ملکوں میں بانٹ دیا گیا، آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں کچھ نیک لوگ بھی ہیں جنہوں نے میری فرما برداری میں زندگی بسر کی جب کہ”کچھ اور طرح کے ہیں“ یہاں اللہ تعالیٰ لفظ ”بد کردار“، ”گناہ گار“یا ”نافرمان“ نہیں استعمال کر رہا ہے بلکہ فرمایا گیا ہے کہ”اور طرح“کے لوگ تھے مطلب وہ انتہائی ظالم، گناہ گار، نافرمان، خود سر، بدکردار اور لادین قسم کے لوگ تھے،پھر اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے کہ ہم انہیں خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے کہ شاہد یہ اپنی برائیوں سے باز آجائیں۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کا جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اُن پر کی جانے والی نوازشات کا بھی ذکر کیا ہے۔ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ایسے ایسے کام کئے ہیں کہ اگر اُن کو پڑھا جائے تو انسان بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ بنی اسرائیل ایک بد بخت قوم تھی۔ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا ذکر ہے وہیں ”سورۃ البروج“ میں بنی اسرائیل کے نیک لوگوں پر ہونے والے مظالم کا بھی ذکرکیا ہے اور اس سورۃ میں بنی اسرائیل کے نیک اور پاکباز لوگوں کا ذکر ہے، یعنی بنی اسرائیل میں جہاں بداعمال لوگ تھے وہیں پر اچھے اور نیک اعمال والے بھی شامل رہے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

”خندقوں والے ہلاک ہو گئے،جس میں آگ تھی بہت ایندھن والی،جب کہ وہ اس کے کناروں پر بیٹھے ہوئے تھے،اور وہ ایمانداروں سے جو کچھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے، اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے”۔ سورۃ البروج: (آیت 4تا8)

اس آیت میں بنی اسرائیل کے مسلمانوں کا ذکر ہے جو اپنے بادشاہ کے ظلم کا صرف اس وجہ سے شکار ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے تھے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی بد اعمالیوں پر مختلف سزائیں دیں کہ شائد یہ اپنی بری روش سے باز آ جائیں، قرآن میں ان واقعات کے بارے تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ سزاؤں سے ہٹ کر دی جانے والی سزاؤں میں اُن پر بخت نصر کی شکل میں بھی عذاب نازل ہوا جس نے اُن کی بستی ”یروشلم“ کو تباہ و برباد کیا، ہیکل سلیمانی کو مسمار، لاکھوں یہودیوں کا قتل عام اور لاکھوں کو قید کرکے ساتھ لے گیا تھا۔ اسی طرح ٹائٹس اور ہٹلر کوان پر قہر بنا کر نازل کیا گیا۔ ان تمام ادوار میں بنی اسرائیل دنیا میں در بدر اور ٹھوکریں کھاتے نظر آئے۔ یہاں ہم اپنی بحث کا رخ تھوڑی دیر کے لیے موڑتے ہیں اور بنی اسرائیل کی خانہ بدوشی والی زندگی پر اک نظر ڈالتے ہیں۔ بخت نصر اور ٹائٹس نامی عذاب کے بعد یہودی پوری دنیا میں دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیئے گئے۔ اسی خانہ بدوشی کے دوران بنی اسرائیل میں ایک نیا فرقہ ابھر کر سامنے آتاہے جسے ”اشکنازی“کہا جاتا ہے۔ اشکنازی کون تھے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر آج تک کوئی ختمی رائے قائم نہیں کرسکا۔
اشکنازی تارکین وطن کی آبادی ایک الگ اور یکجا برادری کے طور پررومی سلطنت کے اختتام پر وقوع پزیر ہوئی۔ ان تارکین وطن اشکنازیوں کی روایتی زبان”یدیش“ مختلف بولیوں پر مشتمل تھی۔ اشکنازی تمام تر وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلے اور وہاں برادریاں قائم کیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں ان بے وطنوں کا اپناعلاقائی اور تارک وطن اشکنازی تشخص پروان چڑھنے لگا۔ قرون وسطی کے آخر میں اشکنازی آبادی کا زیادہ تر حصہ جرمن علاقوں سے باہر پولستان اور لتھووینیا میں (بشمول موجودہ بیلاروس اور یوکرائن) مشرقی یورپ کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل تک جو جرمنی ہی میں رہے یا واپس جرمنی آئے ان کی ثقافتی اقدار نے دھارا بدلا آہستہ آہستہ ”یدیش“زبان کا استعمال ترک کر دیا اور اپنی مذہبی زندگی اور ثقافتی تشخص کی نئی جہتوں کو پروان چڑھانے لگے۔” یورپ میں قیام کے دوران اشکنازیوں نے یورپی ثقافت میں اپنا اہم حصہ ڈالا فلسفہ، ادب، آرٹ، موسیقی اور سائنس کے تمام شعبوں میں قابل ذکر اور غیرمعمولی اضافہ کیا۔گیارہویں صدی عیسوی تک اشکنازی دنیا کی کل یہودی آبادی کا تقریباً 3 فیصد تھے، جبکہ 1931ء کے اپنے عروج کے دنوں میں دنیا کی کل یہودی آبادی کا 92% شمار کیے گئے۔
اشکنازی مادری اور پدری نسب پر تحقیق کرتے ہوئے ان کے مغربی ایشیائی ماخذ کے اشارے ملتے ہیں۔جب آپ ان ممالک کی جانچ کریں تو آذبائجان اور آرمینیا ایسے ممالک ہیں جن کی جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ وہ خطہ ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں پر یاجوج ماجوج آباد تھے اور یہیں پر ذوالقرنین نے وہ تاریخی دیوار بنائی تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے۔ اشکنازی اپنی یورپی نسبت کے متعلق ایک مختلف اور بحث طلب سوچ رکھتے ہیں کہ ان میں یورپی جننیات کی ملاوٹ مادری نسبتوں سے ہی آئی ہیں۔ عام طور پر اشکنازی اصل سفاردی یہود کے برخلاف ہیں جو”وبیرین جزیرہ“ نما کے یہودیوں کی نسل سے ہیں۔ ان میں کچھ عبرانی حروف کے تلفظ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی اختلافات ہیں۔ یہود ی کسی کے مذہب بدل کر یہودیت اختیار کرنے کو باقاعدہ تسلیم نہیں کرتے یا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور یہ بحث تو کافی عام ہو چکی ہے کہ یہودی کون ہے؟ اور کون نہیں، چہ جائیکہ اشکنازی یہودی کا تعین کیا جائے، مگر اس وقت اشکنازی اور اسرائیلی یہودی آپ کو ایک دکھائی دیں گے کیونکہ ان کو اسرائیل میں یہودی تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے مذہبی، لسانی اور نسلی معیار پر پورا اترنا ضروری ہے۔ آج زیادہ تر یہودی آبادی مشرقی یورپ سے امریکہ، مغربی اور شمالی یورپ کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔ لفظ اشکنازی اپنی تاریخی ارتقا کے منازل طے کرنے کے بعد اب دوبارہ اہمیت حاصل کر چکا ہے خاص کر اسرائیل میں جہاں اس لفظ کو اب روایتی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ دنیا بھر میں اکثر یہودی برادری آج بھی دو کنیساؤں میں تقسیم ہے جہاں اشکنازی اور سفاردی روایات کے مطابق عبادات سر انجام دی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ امتیاز اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن غیر اسرائیلی سفاردی یہود کو ایک الگ مذہبی شناخت اور امتیاز حاصل ہے جبکہ اشکنازیوں نے کھیل، ثقافت، تنوت نور، اداکاری، سیاست، معاشیات اور صیہونیت میں اپنا مقام بنایا ہے۔ (جاری ہے)

اگلے حصہ میں ہم یاجوج ماجوج کے خروج کے بارے قرآن و احادیث، تورات، تاریخی کتب اور اُن کے شجرہ نسب کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون ہیں؟ آج وہ کس روپ اور کس خطہ میں رہ کر پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

رائے دینے کے لیے

replyskhan@gmail.com

یاجوج ماجوج، اسرائیل و دجال شناخت اور یروشلم سے تعلق

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button