مشرق ایکسکلوزیو

نصرت فتح علی خان مرحوم کی 28 ویں برسی پر خصوصی تحریر

ان کا فن ایسا ہے جو صرف کانوں سے نہیں سنا جاتا بلکہ دل اور روح کی گہرائیوں تک اُتر جاتا ہے۔ ان کی قوالیاں اور نغمے صدیوں کی صوفی روایت کو ایک نئی زندگی دیتے ہیں. عبد الباسط خان کی خصوصی تحریر

87 / 100 SEO Score
نصرت فتح علی خان مرحوم کی 28 ویں برسی پر خصوصی تحریر
نصرت فتح علی خان
عبدالباسط
آج قوالِ اعظم، استاد نصرت فتح علی خان کی برسی ہے۔
نصرت فتح علی خان کا فن ایسا ہے جو صرف کانوں سے نہیں سنا جاتا بلکہ دل اور روح کی گہرائیوں تک اُتر جاتا ہے۔ ان کی قوالیاں اور نغمے صدیوں کی صوفی روایت کو ایک نئی زندگی دیتے ہیں۔ نصرت صاحب کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ
"ان کی قوالیاں سننے والا اپنی دنیاوی سوچ اور باتوں کو بھول کر ایک الگ روحانی کیفیت میں داخل ہو جاتا تھا۔”
یہ تحریر میں نے کچھ عرصہ پہلے ان کی ایک قوالی سن کر لکھی تھی۔ آج برسی کے موقع پر سوچا آپ کے ساتھ شیئر کروں کیونکہ ایسے عظیم فنکار کے کلام اور یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
وہ کلام ہوں یا قوالیاں، غزلیں ہوں یا فلمی نغمے — نصرت فتح علی خان نے ہر روپ میں دلوں کو چھوا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
"تم ایک گورکھ دھندا ہو” — ناز خیالوی اور نصرت فتح علی خان کا ایک لازوال امتزاج
رب سے شکوہ؟
وہ بھی ان الفاظ میں — "تم ایک گورکھ دھندا ہو
یہ میرے لیے ایک بالکل نیا اور چونکا دینے والا تجربہ تھا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی رب سے شکوے کو یوں برہنہ اور بےباک الفاظ میں سنا ہی نہیں تھا۔ ہم نے رب سے مناجات، التجا، اور دعا کے انداز تو سنے تھے، مگر ایسا سوالیہ اور حیرت زدہ لہجہ بہت کم سننے کو ملتا ہے۔ یہ صرف شکوہ نہیں، ایک متلاشی روح کی چیخ ہے — اور یہی اس قوالی کو باقی سب سے ممتاز بناتی ہے۔ ایک صوفیانہ کلام جو خدا سے مکالمہ کرتا ہے، مگر احترام کے لبادے میں لپٹے روایتی اسلوب کے بجائے، الجھن، بےبسی اور حیرت کو پوری شدت سے بیان کرتا ہے۔
یہ کلام سنتے ہوئے مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ سچا شکوہ وہی ہوتا ہے جو دل سے نکلے، اور جس میں خوف سے زیادہ فہم، عقیدے سے زیادہ تجسس، اور عبادت سے بڑھ کر محبت چھپی ہو۔
قوالی صرف ایک موسیقی کی صنف نہیں، بلکہ روح کی آواز، دل کا اضطراب، اور عشقِ حقیقی کی پکار ہے۔ صدیوں سے قوالی نے سننے والوں کو وجد میں مبتلا کیا ہے، انہیں حقیقت کے پردوں سے جھانکنے پر مجبور کیا ہے۔ اس میں الفاظ، سروں اور جذبات کا ایسا امتزاج ہوتا ہے جو دل میں اتر جاتا ہے۔
میری پسندیدہ قوالیوں میں اگر کسی ایک کا ذکر ضروری ہو، تو "تم ایک گورکھ دھندا ہو” بلاشبہ سرفہرست ہوگی۔ یہ صرف ایک قوالی نہیں، بلکہ ایک فکری، روحانی اور وجودی تجربہ ہے۔ جب بھی دل بوجھل ہو، ذہن الجھنوں میں گرفتار ہو، یہ قوالی میرے لیے ایک مرہم بن جاتی ہے۔ نصرت فتح علی خان کی آواز اور ناز خیالوی کے الفاظ ہر بار کوئی نیا مفہوم لے کر دل و دماغ پر اترتے ہیں، گویا ہر سماعت ایک نئی بصیرت لے کر دل و دماغ پر اترتی ہے۔
ادب کی دنیا میں کچھ تخلیقات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے خالق کو امر کر دیتی ہیں۔ ناز خیالوی کا صوفیانہ کلام "تم ایک گورکھ دھندا ہو” بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ صرف ایک نظم نہیں، بلکہ ایک مکمل فکری، روحانی اور وجودی سفر ہے — ایک ایسا سفر جس میں انسان اپنے خالق، کائنات اور خود اپنی ذات کے اسرار سے سوال کرتا ہے۔

بیگم بیمار ہو گئیں، اور میری بادشاہت لڑکھڑا گئی!

ناز خیالوی (1947ء – 12 دسمبر 2010ء) شاعر، نغمہ نگار اور ریڈیو براڈکاسٹر تھے۔ انہیں اصل شہرت اسی نظم کی بدولت ملی، اور پھر جب اسے نصرت فتح علی خان نے اپنی آواز دی، تو یہ کلام زندہ جاوید ہو گیا۔
اس نظم کا ہر شعر ایک پرت ہے — ایک ایسی گتھی جو سلجھنے کے بجائے مزید الجھاتی ہے:
"حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم”
یہ اشعار صرف رومانی نہیں، روحانی بھی ہیں۔ یہ نظم انسان اور خدا کے تعلق کی اس گہرائی کو بیان کرتی ہے جو صوفی شعرا کا ازلی موضوع رہی ہے، مگر ناز خیالوی نے اسے ایک نیا، ذاتی، اور دل کو چھو لینے والا لہجہ دیا۔
یہ محض صوفیانہ کلام نہیں، بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر انسان اپنے سوالات دیکھ سکتا ہے۔
اس کے اشعار میں:
ایک عاشق کا والہانہ سوال بھی ہے،
ایک غریب کی بے چینی بھی،
ایک فلسفی کی حیرت بھی،
اور ایک متلاشی کی جستجو بھی۔
جب نصرت فتح علی خان جیسے روحانی آواز کے شہنشاہ نے یہ کلام پڑھا ہوگا، تو شاید ان کے اندر کے فنکار نے بے ساختہ کہا ہوگا:
"یہ وہ کلام ہے جسے صرف گایا نہیں جا سکتا، اسے محسوس کر کے دل سے ادا کرنا پڑے گا۔”
اور پھر نصرت فتح علی خان نے جو کچھ اس کلام کے ساتھ کیا، وہ واقعی ایک عجوبہ تھا۔ اس نظم نے جہاں ناز خیالوی کو بامِ عروج بخشا، وہیں نصرت فتح علی خان کی گائیکی کو بھی ایک نئی روح دی۔
انیس سو نوے میں ریلیز ہونے والی یہ قوالی پوری دنیا میں مقبول ہوئی۔ نصرت فتح علی خان نے اسے صرف گایا نہیں، جیا ہے۔ ہر مصرعے میں وہ درد، وہ حیرت، اور وہ تلاش موجود ہے جو ناز خیالوی نے لفظوں میں سمو دی تھی۔
یہ قوالی آسان نہیں۔ اس کی طوالت، گہرائی، اور جذباتی اتار چڑھاؤ ایک ایسے فنکار کا تقاضا کرتے ہیں جو صرف آواز کا نہیں، دل کا بھی شہنشاہ ہو — اور وہ نصرت فتح علی خان ہی ہو سکتے تھے۔
آدھے گھنٹے سے زائد کی یہ قوالی آواز، ساز، سکوت اور سوالوں کا ایسا امتزاج ہے جو سننے والے کو ساکت کر دیتا ہے، اور پھر اسے خود میں گم کر دیتا ہے۔
"یہ کوئی عام قوالی نہیں — یہ ایک روحانی سفر ہے۔”
یہ کلام آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا پہلے دن تھا۔ وقت کے ساتھ اس کی تاثیر میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہر سننے والا اس میں خود کو پاتا ہے۔
"تم ایک گورکھ دھندا ہو” دراصل ہر انسان کے ذہن میں اٹھنے والے ان سوالوں کا آئینہ ہے جن کا جواب صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہم صرف ظاہر دیکھتے ہیں، لیکن حقیقت کی وہ گہرائی ہماری عقل سے ماورا ہے۔
یہ نظم اور اس کی قوالی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حیرت، سوال اور تلاش — یہی انسان کی اصل پہچان ہیں۔
یہ نظم محض ایک صوفیانہ اظہار نہیں، بلکہ ایک روحانی تاریخ ہے — جس میں انبیاء کی روشنی، رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کی مظلومیت، سچے عاشقوں کی وارفتگی، اور ان مجذوبوں کی تنہائی اور تکلیف کا نوحہ ہے جنہیں زمانے نے سولی چڑھا دیا۔”
وہی حالات و خیالات میں ان بن دیکھوں
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب بھی کبھی دنیا کا درپن دیکھوں
ایک ہی خاک پہ فطرت کے تضادات اتنے
کتنے حصوں میں بٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا ساماں
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
کہیں پُھنکارتے دریا، کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل، کہیں صحرا، کہیں گلشن دیکھوں
خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نِردھن دیکھوں
دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مزیّن دیکھوں
کہیں مرجھائے ہوئے پھول ہیں سچائی کے
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبن دیکھوں
شمس کی کھال کہیں کھچتی نظر آتی ہے
کہیں سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں
رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے
یہ اجالا یہ اندھیرا کیا ہے
میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جب بھی میں یہ قوالی سنتا ہوں، ہر بار سوچ و فکر کے نت نئے دریچے وا ہو جاتے ہیں۔
یہ قوالی اور اس کی شاعری ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم خدا کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں — جو بظاہر بہت سادہ نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت اتنا آسان نہیں۔
یہ کلام ہمیں غور و فکر کی طرف بلاتا ہے، اور زندگی کی ان بے رحم حقیقتوں کو بے نقاب کرتا ہے، جن سے ہم اکثر نظریں چرا لیتے ہیں۔
شاید یہی فن کی طاقت ہے — جو نہ صرف روح کو چھوتا ہے، بلکہ عقل کو بھی جھنجھوڑ دیتا ہے۔
نصرت فتح علی خان کی یاد میں
عبدالباسط
نصرت فتح علی خان مرحوم کی 28 ویں برسی پر خصوصی تحریر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button