مشرق ایکسکلوزیو
میرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن
اللہ غریق رحمت کرے ہمارے ایک بابائے قوم ہوا کرتے تھے، شاید قائد اعظم محمد علی جناح نام ہوا کرتا تھا ان کا۔ جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو متحد کرکے انکی فرنٹ سے قیادت کی اور انہیں ایک علیحدہ اور آزاد مسلم ریاست حاصل کرکے دی

میرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن
اللہ غریق رحمت کرے ہمارے ایک بابائے قوم ہوا کرتے تھے، شاید قائد اعظم محمد علی جناح نام ہوا کرتا تھا ان کا۔ جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو متحد کرکے انکی فرنٹ سے قیادت کی اور انہیں ایک علیحدہ اور آزاد مسلم ریاست حاصل کرکے دی۔ ہماری ایشیائی اور خصوصاً پاکستانی روائت ہے کہ بزرگ جب بھی بچوں کو کوئی تحفہ دیں یا کہیں بھیجیں تو کچھ نصیحتیں ضرور کرتےہیں کہ یہ نہیں کھانا، وہ نہیں کرنا، انجان سے ہاتھ نہیں ملانا، اجنبی کی باتوں میں نہیں آنا وغیرہ وغیرہ۔ بعینہ محمد علی جناح نے پاکستان کے حصول کے بعد اہل پاکستان کو بھی چند سنہری نصیحتیں کیں، مثلاً:
اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کرنا
کشمیر ہماری شہ رگ ہے
انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا جیسے کہ، ملکی پالیسیاں بنانا سیاسی حکومتوں کا کام ہے فوج کا کام احکامات پر عملدرآمد کرنا ہے اور یہ کہ بیوروکریسی عوام کی خادم ہے حاکم نہیں ۔
جن لوگوں کیلئے قائد اعظم نے یہ احکامات صادر کئے انہوں نے ان پر کان تو کیا دھرنا تھے الٹا انہیں بابا کا وجود ہی بار گراں گذرنے لگا۔ یارو! ہماری ایک اور بھی روائت ہے کہ گھر والے جس بزرگ کی طویل علالت سے بیزار ہوتے ہیں، وہ عمداً اس کی تیمارداری اور علاج معالجے میں بے توجہی برتنا شروع کر دیتے ہیں کہ کل کا مرتا آج رخصت ہو، سو یہی کچھ اس وقت کے کرتا دھرتاؤں نے اپنے اس عظیم محسن کے ساتھ کیا اورانہیں، خواہ چند ماہ پہلے سہی، لیکن قبل از وقت چلتا کیا۔ اب باری آئی بانی پاکستان کے احکامات کی دھجیاں اڑانے کی۔ سو الٹی گنتی شروع کر دی گئی۔
سب نے مل جل کر ملکی معاملات میں اپنا عمل دخل شروع کیا اوراپنی اہمیت بڑھانے کے تردد شروع کر دیئے۔ پہلے سیاسی، معاشی اور دیگر معاملات میں چونچیں مارنی شروع کیں پھر بات ٹھونگوں تک پہنچی اور بالاخر انہوں نے ٹوکرے پر چڑھ کر بانگیں دینی شروع کر دی گئیں۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ اس میں سارا قصور کسی ایک شعبہ کا ہے تو میں ہرگز یہ ماننے کو تیا رنہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے سیاستدان بھی پرلے درجے کے نااہل، ناکارہ اور بے ایمان رہے ہیں، ماسوائے نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے معدودے چند حضرات کے جنہوں نے ہمیشہ مسائل کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کیا کیا جاتا جو عین وقت پر ’’کتی چوراں نال رل گئی اے‘‘ کے مصداق اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا بیٹھتے اور ملک کے حالات جیسے تھے کی جانب رخ اختیار کرجاتے۔
ہم نے مشرقی پاکستان کو اپنے ہاتھوں بنگلہ دیش بنایا لیکن اس پر پچھتانے کی بجائے ہم اس پر اترائے اور بہت آسانی سے سارا الزام اپنے بنگالی بھائیوں پر تھوپ دیا اور اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا کہ پینتیس ہزارلڑنے والی سپاہ کے قید ہونے کا بیانیہ دنیا ہرگز درست نہیں مانتی جبکہ پچانوے ہزار جنگی قیدیوں کے ہتھیار پھینکنے کا بھارتی بیانیہ درست تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہم، ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو کر مرغابیوں کا شکار نہ کھیلتے، مشرقی حصے کی اکثریت کو ان کا حق دینے کی بجائے آپریشن بلیو سٹار نہ شروع کرتے، قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے مشرقی پاکستان جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں نہ دیتے، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کو نہ دباتے اور وقت پر شائع کر دیتے توآج حالات مختلف ہوتے۔ یہی کام ہم نے گلگت بلتستان میں کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت جو ہماری اس بیوقوفی کو کیش کرانے کیلئے پہلے سے تیار بیٹھا تھا، اس کے تیور اور بلتستان کے عوام کی عزم و ہمت بھانپ کر ہم نے فی الحال اسی تنخواہ پر کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اب باری تھی آزاد جموں و کشمیر کی۔ کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے حل کرنے کی کوشش کی، نیتوں کا حال تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بظاہر یہی دکھائی دیتا تھا کہ پرویز مشرف کی خواہش تھی کہ کشمیر متحدہ آزاد ریاست کے طور پر سامنے آئے تاکہ دونوں ملکوں مابین یہ جنگ جنگ کھیلنا ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے۔ اس سے پہلے نواز شریف نے بھی ’’پولی پولی ڈھولکی‘‘ بجانی شروع کر دی تھی لیکن موصوف کے عزائم واضح ہو گئے تھے۔ انکی دلچسپی بھارت کو مشروط اور پاکستان کو تو بالکل بھی وارا نہیں کھاتی تھی۔ وہ صرف اپنے کاروبار، تعلقات اور پنجاب اور کشمیر کی حد تک دیکھتے تھے۔
انکی یہی ’’کاہلیاں‘‘ (بے صبری) انہیں لے ڈوبیں کیونکہ وہ پاک فوج کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے خود کو نالائق گھوڑا ثابت کرتےہوئے بم کو لات مارتے ہوئے مشرف کو راستے سے ہٹانے کی عملاً کوشش کر لی۔ اس کے بعد ایک اور نمونہ باجوہ کی صورت میں سامنے آیا۔
جنرل باجوہ جو ایک عامیانہ سطح کا افسر تھا اور جس کو اکیڈیمی میں بغلول کہا جاتا تھا، میجری کے بعد ہر اگلے رینک کیلئے ہمیشہ پچھلی گلی سے ہی داخل ہوتا رہا اور جب سامنے کا دروازہ کھلتا تو وہ رینک لگائے فتحمند نمودار ہوتا۔ موصوف کس طرح آرمی چیف بنے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن جب انہوں نے باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنی شروع کر دی تو کل عالم کو حیرانگی ہوئی اور ہوتی بھی کیوں نہ جب ٹین ڈبہ بیچنے والا سٹیل مل لگانے کا منصوبہ اور اس کی جزئیات پیش کرے تو یہ قدرتی بات تھی۔
یکایک جنرل باجوہ کے پیٹ میں کشمیر کا مروڑ اٹھا اور اس نے عمران خان کی حکومت وقت کے متوازی ایک دفتر خارجہ چلانا شروع کر دیا اور ایک خارجہ پالیسی ترتیب دے ڈالی جس میں بھارت ایک اچھا بچہ تھا اور جس سے ہماری کوئی دشمنی نہیں تھی کا بیانیہ پیش کر ڈالا۔ ابھی تک تو صرف موصوف کی عمران دشمنی کے ثبوت ہی سامنے آئے ہیں لیکن انتظار کیجئے آپ کے جبڑے تب لٹکیں گے جب آپکو یہ پتہ چلے گا کہ انہوں نے امریکی حکومت کو اس بارے کیا کیا یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ اللہ کو پاکستان کی بہتری منظور تھی سو باجوہ کو رونے پیٹنے کے باوجود مضبوط کرسی چھوڑنی پڑی۔
اب موجودہ دور میں اس معاملے پر عملدرآمد کا بیڑا پھر اٹھایا گیا۔ ذہن میں یہ مفروضہ رکھا گیاکہ چونکہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر بارے کھلی چھٹی دے دی گئی ہے لہٰذا پاکستانی کشمیرمیں جو بھی کیا جائے گا اس پر بھارت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس آپریشن پر کافی سالوں سے کام بھی ہو رہا تھا اور یہاں کی حکومتوں کو اکھاڑنے پچھاڑنے کی مہمات اسی سلسلہ کی کڑی تھیں لیکن فیصلہ ساز، کشمیریوں کا ذہن پڑھنے میں مار کھا گئے۔
کشمیریوں اور پاکستانیوں میں بنیادی فرق یہ رہا ہے کہ کشمیری جب کسی مہم کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو وہ قیادت کی طرف نہیں دیکھتے چنانچہ انہی میں سے قیادت پھوٹتی ہے جبکہ پاکستان میں کوئی موقعہ ملے تو عوام منہ اٹھا کر نام نہاد لیڈروں کی جانب دیکھتی ہے کہ ’’بھائی سانہوں دسو کیہہ کرئیے‘‘ (بھائی ہمیں بتاؤ اب کیا کریں)۔ رہ گئی لیڈرشپ تو وہ پہلے ہی بڑے گھروں سے پوچھ کر چلتی ہے۔
کشمیر کے موجودہ حالات نے کشمیری نام نہاد لیڈروں کو بری طرح بے نقاب کیا ہے۔ جب حکومت سے مذاکرات شروع ہوئے تو دہائیوں سے کشمیری عوام کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان مذاکرات کی میز پر حکومت کی جانب سے بیٹھےتھے اور عوام کی نمائندگی نہ صرف ان جیسے ہی ایک گمنام سے کتب فروش نے چند ساتھیوں کے ہمراہ کی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے کرعوام کو ان کا حق بھی دلوایا۔ جو عوام لیڈروں کی جانب دیکھتے ہیں وہ گویا سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈالے بیٹھے ہیں یعنی ان کا قائد قید ہوتووہ لاوارث ہو جاتے ہیں جبکہ جو وقت ضائع نہیں کرتے وہ کشمیریوں کی طرح خود میں سے کسی کو قائد تسلیم کرکے مقصد حاصل کرنے نکل پڑتے ہیں۔
قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ کبھی وقت ملے توغور کیجئے گا کہ ان دوباتوں میں کیا مماثلت ہے؟ اگر آپ کو اس کا جواب مل گیاتو ہر بات کا جواب مل گیا وگرنہ فلم ’’ٹرائینگل‘‘ کی ھیروئن کیطرح ہر چند ماہ بعد آپکو اسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑیگا۔ جیسے وہ دوستوں کے ساتھ سیر کو نکلتی ہے، کشتی الٹنے پر وہ ایک ویران سمندری جہاز کے عرشہ پر چڑھ جاتے ہیں جہان اسے لگتا ہے کہ وہ پہلے بھی آئی ہے، اچانک سمندر میں ایک اور کشتی نظر آتی ہے جس پر وہ اور اسکے دوستوں کے پرتو پھر سے سوار نظر آتے ہیں۔
وہ عرشہ پر موجود سب دوستوں کو قتل کردیتی ہے اور جہاں اپنی آخری ساتھی کو قتل کرتی ہے وہاں اس ساتھی کی ہم شکل پچیس تیس خواتین پہلے سے ہی قتل ہوئی پڑی ملتی ہیں۔ آپ خود فلم دیکھیں گے تو کہانی کامزہ بھی آئے گا اور آپکو یہ بھی پتہ چلے گا کہ اس کہانی میں آپ کہاں اور آپکے لیڈر کہاں کھڑے ہیں۔ اسرائیل پر بات پھر سہی۔
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس

نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔






