نوشہرہ میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر حکومت سیدھی نہیں ہوتی تو کل اسرائیل مردہ باد ریلی میں حکومت کا مردہ باد کردیں گے، حکومت سے اتفاق ہوا تھا کہ مدارس جس وفاق میں چاہیں رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں۔
فضل الرحمان نے کہا کہ بلاول صرف پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں، پیپلز پارٹی پارلیمٹیرین کے صدر آصف زرداری سے اتفاق ہوا تھا، اب ایوان صدر سے اعتراضات آرہے ہیں، آصف زرداری لاہور کے اجلاس میں خود موجود تھے، تمہارے اعتراضات پر غور تو درکنار انہیں چمٹے سے پکڑنے کے قابل بھی سمجھتا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ میں قدیم اور جدید تعلیم کہنے کے خلاف ہوں، علم، علم ہے، تمام دینی مدارس کو دباؤ میں رکھا گیا ہے، ہم حکومت کے نظام میں رہنا چاہتے ہیں، ہم ریاست سے تصادم نہیں مدارس کی رجسٹریشن چاہتے ہیں، مدارس کی رجسٹریشن کرو، بینک اکاؤنٹ کھولو، آپ بند کرتے ہیں، آپ ہمارے بینک اکاؤنٹس بند کرواتے ہیں، ہم کہتے ہیں کھولیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میری بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ میرے ساتھ ہمدردی کے الفاظ استعمال کرے، کہتے ہیں ہم تو دینی مدارس کو مین اسٹریم میں لارہے ہیں، آپ نے ہمارے خلاف اعلان جنگ کیا ہم نے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جدیدیت کے نام پر الحاق اور ارتداد کا راستہ روکنا مدارس کی ذمے داری ہے، میڈیا پر زور ہے زبردستی اصلاحات گھڑے جا رہے ہیں اور ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ 26ویں ترمیم پر بل پیش کیا گیا، وہ بل ایکٹ بن گیا، اب بھی پی پی پی اور شہباز شریف سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، پی ڈی ایم حکومت سے طویل مشاورت کے بعد مدارس رجسٹریشن پر اتفاق ہوا تھا، آپ سمجھتے ہیں ہم تھک جائیں گے، ہم ڈٹے ہوئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ینی مدارس کو حکومت انتہا پسندی اور شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے، مدارس سے متعلق آپ کے اعتراضات پر کسی طور غور نہیں کریں گے، 26ویں ترمیم کے مسودے میں اس پر اعتراضات نہیں اُٹھائے گئے، اب دوبارہ اعتراضات کرنا بدنیتی ہے، مدارس کو دباؤ میں رکھنا ہے تو ہم بتائیں گے کہ آپ کا دباؤ چلتا ہے یا ہمارا، اصل شدت پسند تخریب کار وہ ہوئے جو ملک کو فساد کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، ہم تو پرامن طریقے سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بندوق اٹھائی نہ ڈنڈا، دلائل سے معاملات طے کیے، بات چیت چلتی رہے گی، ہمیں مذاکرات سے اب بھی انکار نہیں، دشمن سے ہمارا سامنا ہوچکا اب ہم ڈڈتے ہوئے ہیں، آپ سمجھتے ہو ہم تھک جائیں گے؟ ہم تو جدوجہد کے قائل ہیں۔