تاریخ کے اوراق

تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی! بنی اسرائیل کے لیے اہم کیوں؟

تابوت سکینہ میں کیا ہے؟۔ یہ صندوق یہودیوں کے لئے زندگی موت کا مسئلہ کیوں بنا ہوا ہے؟۔ یہودی تابوت سکینہ سے کیا فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ تحقیق پر مبنی شہزاد عابد خان کی تحریر

تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی! بنی اسرائیل کے لیے اہم کیوں؟

تابوت سکینہ میں کیا ہے؟۔ یہ صندوق یہودیوں کے لئے زندگی موت کا مسئلہ کیوں بنا ہوا ہے؟۔ یہودی تابوت سکینہ سے کیا فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟۔
ان کی نظر میں ”تابوت سکینہ“ کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے ایک مثال سامنے رکھتے ہیں۔ یہودی اپنی قوم میں ”تابوت سکینہ“ کی اہمیت اور یاددہانی کے لیے اپنی فلموں میں بھی یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ”تابوت سکینہ“ خاص اُن کے لیے ہے اگر کسی دوسری قوم یا مذاہب کے لوگوں نے اُس کو تلاش کر بھی لیا تو وہ اس کی برکات سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ جیسا کہ
1981 میں ہالی ووڈ کے فلم پروڈیوسر،ڈائریکٹر سٹیون سپل برگ جو ایک کٹر یہودی ہے نے ”ریڈرز آف دی لوسٹ آرک“ کے نام سے ایک بنائی۔ فلم میں نازیوں کو تابوت سکینہ کی تلاش کرتے اور پھر اس کی وجہ سے موت کا لقمہ بنتے دکھایا گیا ہے۔ صرف یہ ایک فلم نہیں بلکے یہودی تابوت سکینہ کے اوپر بہت سی ڈاکومنٹریز بھی بنا چکے ہیں، فلمیں اور ڈاکومنٹریز بنانے کی اس جسارت سے آپ یہودیوں کی ذہنی سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ تابوت سکینہ کو حاصل کرنے کے لیے کس حد تک بے چین ہیں۔ یہودیوں کی یہ بے چینی آج سے نہیں ہے اس کا اندازہ قرآن پاک کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

”اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانیاں ہیں“۔ (سورۃالبقرہ: آیت 248)

اس آیت مبارکہ میں لفظ تابوت کا مطلب صندوق اور سکینہ کا مطلب ایسا سامان جس سے دل کو سکون اور راحت ملنا ہے۔ یعنی اس صندوق میں رکھے تبرکات دلوں کی مضبوطی اور تسکین کا باعث ہیں۔ تابوتِ سکینہ کے بارے مختلف آرا ہیں جن میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہ صندوق حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کیا گیا جو جنت سے اتارا گیا تھا، ”شمشاد”نامی لکڑی سے بنا صندوق آپ علیہ السلام کے بعد نسل در نسل چلتے چلتے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر بنی اسرائیل کے انبیاء میں چلتا ہوا یہودیوں کے پہلے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیر استعمال بھی رہا۔ اس میں آپ علیہ السلام اپنا عصا مبارک اور آپ پر نازل ہونے والی تورات کی لوحیں رکھا کرتے تھے یعنی اس صندوق میں انبیا کے معجزات کی اشیا محفوظ ہوتی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے پر ان کے لباس، عصا مبارک، عمامہ مبارک اور آسمان سے اتارا جانے والا من و سلویٰ بھی اس صندوق میں محفوظ کر دیا گیا اور یہ صندوق قوم کے سرداروں کی تحویل میں چلا گیا۔ یہ معجزات اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیا پر اتارے گئے تھے چناچہ ان کی برکت سے اس صندوق کو خاص فضیلت حاصل تھی۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس صندوق کا بے حد احترام کرتے اور اپنے لیے کامیابی کا باعث گردانتے۔ بنی اسرائیل جسے پہلے اللہ تعالیٰ کی لاڈلی قوم ہونے کا شرف حاصل رہا مگر اپنی ہٹ دھرمی، نافرمانی اور انبیاء کے ساتھ ظلم و ستم کی وجہ سے دہتکاری قوم قرار پائی۔ یہودی دنیاوی فوائد کی وجہ سے تابوت سکینہ کا تو احترام کرتے مگر ساتھ ہی اللہ کے احکامات سے مکمل روگردانی کرنا ان کا معمول بن چکا تھا۔ یہ نہایت ضدی اڑیل مغرور اور سرکش لوگ تھے۔ اپنے انبیاء اور علماء کی روک ٹوک پر ان کو خوفناک اذیتیں دیا کرتے تھے۔ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھنے لگی تو اللہ نے ان کو عذاب دینے کے لئے ان پر قوم عمالقہ مقرر کر دی۔ اس قوم کا بادشاہ جالوت انتہائی ظالم اور جابر انسان تھا، اس نے یہودیوں پر حملہ کر دیا اورjaloot بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں، شہروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا، بے شمار لوگوں کا قتل عام کیا اور تابوت سکینہ چھین کر ساتھ لے گیا۔ علماء کے مطابق جالوت نے تابوت کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ تابوت کی اس بے حرمتی پر اللہ کی طرف سے قوم عمالقہ پر عذاب نازل ہوا۔ جس شہر میں صندوق کی بے حرمتی کی گئی تھی اس شہر میں ایک وبا پھوٹ پڑی جس کا علاج کسی حکیم یا معالج کے پاس نہیں تھا۔ اہل شہر تیزی سے لقمہء اجل بننے لگے۔ جالوت نے کاہنوں کو جمع کیا اور ان سے اس عذاب کی وجہ معلوم کرنا چاہی۔ کاہنوں نے بتایا کہ اس عذاب کی وجہ تابوت سکینہ کی بے حرمتی ہے۔ جالوت کسی صورت صندوق بنی اسرائیل کو واپس نہیں کرنا چاہتا تھا چناچہ صندوق دوسرے شہر میں پہنچا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے اس صندوق کی وجہ اس قوم کے پانچ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ مختلف آفات اور امراض نے قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس پر فیصلہ کیا گیا کہ تابوت کو اپنی آبادیوں سے نکال دیا جائے۔ لہٰذا صندوق کو ایک بیل گاڑی پر رکھ  کر شہر سے باہر ہانک دیا گیا۔
دوسری جانب یہودی تابوت سکینہ کے چھین جانے کی وجہ سے انتہائی پریشان حال تھے انہوں نے اس وقت کے نبی حضرت شموئیل علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارا کوئی بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم میں کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ

” کیا آپ نے ( حضرت ) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں ۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالٰی ظالموں کو خوب جانتا ہے”۔ (سورۃ البقرہ: آیت 246)

آپ نے اللہ کے حکم سے  حضرت طالوت کو بادشاہ بنا دیا جو بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑے عالم تھے، لیکن بہت ہی غریب اور مفلس چراوہے تھے اس پر بنی اسرائیل کو اعتراض ہوا کہ طالوت کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں ہے اس سے زیادہ حق ہمارے لوگوں کا ہے، ایک غریب اور مفلس انسان بھلا تخت شاہی کے لائق کیونکر ہو سکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت شموئیلؑ نے کہا یہ فیصلہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے ۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح بیان ہے کہ

”ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے، انہوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہوسکتی ہے اس سے تو ہم ہی سلطنت کے زیادہ مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی کشائش نہیں دی گئی، پیغمبر نے کہا بے شک اللہ نے اسے تم پر پسند فرمایا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے” (سورۃ البقرہ: آیت نمبر 247)

بنی اسرائیل حسب معمول سرکشی اختیار کرتے رہے اور ایک غریب اور چرواہے کو اپنا بادشاہ ماننے سے انکار کردیا وہ اپنے نبی کی کسی بات پر عمل کرنے کو تیار نہیں تھے۔ آخرکار قوم کے سرداروں نے جان چھڑانے کی خاطر حضرت شموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اللہ کے سچے نبی ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا حکم مانا جائے تو وہ دعا کریں کہ ان کا قیمتی اور مقدس تابوت سکینہ ان کو واپس مل جائے اگر ان کی دعا قبول ہوگئی تو وہ ان کی ہر بات تسلیم کر لیں گے۔ اس پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے حکم ربی سے ان کے ساتھ وعدہ کر لیا کہ تابوت سکینہ اگلے روز صبح تک خودبخود ان کے پاس پہنچ جائے گا۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

اور ان کے نبی نے بنی اسرائیل سے کہا کہ ساؤل کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سلامتی ہے اور جو کچھ موسیٰ اور ہارون کی اولاد نے پیچھے چھوڑا ہے اس کی کچھ باقیات کو فرشتے اٹھا کر لے جائیں گے، یقیناً اس میں تمہارے لیے نشانی ہے اگر تم مومن ہو۔ (سورۃ البقرہ: آیت نمبر 248)

چنانچہ اللہ کے حکم سے فرشتوں نے بیلوں کو تابوت سمیت حضرت طالوت علیہ اسلام کے سامنے لا کر کھڑا کیا۔ تابوت کو دیکھ کر تمام بنی اسرائیل نے حضرت طالوتؑ کی بادشاہی کو تسلیم کر لیا۔ جب حضرت طالوتؑ بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے تو آپؑ نے بنی اسرائیل کو کافر بادشاہ جالوت کے خلاف جہاد کے لئے تیار کیا اور جب روانہ ہوئے تو آپؑ نے اپنے لوگوں کو خبردار کیا کہ اللہ تعالی راستے میں تم لوگوں کو اردن اور فلسطین میں واقع  ایک نہر جس کا نام نہر الشریعہ تھا سے آزمانے والا ہے۔ حضرت طالوتؑ نے اپنے سپاہیوں کو  اس نہر کا پانی پینے سے منع کیا لیکن نہر کے قریب پہنچتے ہی اسی ہزار کے اس لشکر کے زیادہ تر لوگوں نے پیٹ بھر کے پانی پی لیا اور لڑنے کے قابل نہ رہے صرف چار ہزار سپاہی آپ کا حکم بجا لائے۔ حضرت طالوتؑ نے اللہ کے حضور گڑ گڑا کے دعا کی جو قبول ہوئی اور اللہ نے انھیں فتح سے ہمکنار کیا۔ جالوت بہت طاقتور تھا،  حضرت طالوتؑ نے اپنے لشکر میں اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے گا میں اس کے ساتھ اپنی شہزادی کا نکاح  اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔ جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو جان سے مار دیا جس سے اس کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور کفار کو شکست ہوگئی حضرت طالوتؑ نے  اپنی شہزادی کا نکاح حضرت داؤدؑ سے کردیا اور انھیں اپنی آدھی سلطنت کا بادشاہ بھی بنادیا۔ اس  کے چالیس سال بعد جب حضرت طالوتؑ کا انتقال ہوگیا بعد میں حضرت شموئیلؑ کی بھی وفات ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو بادشاہت عطا کر دی۔ اُس وقت تک بنی اسرائیل خانہ بدوشوں کی سی زندگی گذارتے تھے اور تابوت سکینہ بھی ایک خیمہ میں ہی رکھا جاتا تھا۔ 640px Jerus n4iحضرت داؤد علیہ السلام نے ان کے لئے ایک عبادت گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جسے ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کے مقام پر عظیم الشان عبادتگاہ کی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تابوت سکینہ کو خیمے سے نکال کر اس عبادتگاہ میں رکھ دیا گیا۔ اس عبادت گاہ کے تابوت سکینہ والے حصے میں سوائے انبیا اور سب سے بڑے عالم کے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کی انگوٹھی مبارک بھی اسی تابوت میں محفوظ کر دی گئی۔ جب حضرت زکریا علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اس وقت تک یہ قوم اس قدر گمراہی میں ڈوب چکی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کی تذلیل و تحقیر ان کا معمول بن چکا تھا ان پہ ظلم و تشدد ان کے لئے عام سی بات تھی۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو زندہ آرے سے چیرا گیا اور بعد میں ان کے بیٹے حضرت یحیٰ علیہ السلام کو انتہائی بے رحمی سے شہید کر دیا گیا تو اللہ تعالی ان سے سخت ناراض ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 586 سال قبل حضرت یحیٰ کے قتل کے تھوڑے ہی عرصہ بعد بابل کے ظالم ترین بادشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر حملہ کیا اور اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لاکھوں یہودی قتل کئے اور لاکھوں کو غلام بنایا، بیت المقدس کو مکمل تباہ کر دیا۔ اس افراتفری میں تابوت سکینہ غائب ہوگیا اور آج تک اسکا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ کہا جاتا ہے کہ بخت نصر تابوت سکینہ کو اپنے ساتھ لے گیا تھا مگر اس بات کے سچ ہونے کی دلیل موجود نہیں ہے، مختصر تابوت سکینہ بنی اسرائیل کی نافرمانی اور بداعمالی کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر چھین لیا گیا اور آج تک یہودی تابوت سکینہ کی تلاش میں پورے کراہ ارض پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہودی قوم جو تاریخ کی سب سے بہترین قوم تھی۔ جسے اللہ کی لاڈلی قوم ہونے کا شرف حاصل تھا اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ملعون قرار پائی اور دنیا میں رسوا ہو کر رہ گئی۔5f190dbd 48f5 4f54 8d29 e402aa60ed2b 16x9 1200x676
دو ہزار سال بعد دوبارہ یہودیوں کو اسرائیل کی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع ملا ہے۔ مگر اس قوم کی وہی عادات و اطوار ہیں۔ ظلم و جبر، غرور و تکبر، خود کو ساری دنیا سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے کا خناس ان کے اندر آج بھی موجود ہے۔ اللہ کی طرف سے لعنت زدہ ہونے کے باوجود بھی ابھی تک اللہ کی لاڈلی قوم ہونے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہیں۔ صیہونی دوبارہ اسی جگہ جہاں ہیکل سلیمانی موجود تھا اس کی نئے سرے سے تعمیر کرکے تابوت سکینہ کو پھر ہیکل سلیمانی میں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہودی مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار جو ٹائٹس کے حملے میں بچ گئی تھی جسے دیوار گیریہ کہتے ہیں، ہیکل سلیمانی کی آخری نشانی سمجھ کر اس سے لپٹ لپٹ کر دھاڑیں مار کر روتے ہیں۔ اپنی عظمت کے دنوں کو یاد کرکے رونا ان کی عبادت بن چکی ہے لیکن ابھی تک ناسمجھ ہیں۔

تابوت سکینہ کے لیے ان کے جنون کا یہ عالم ہے کہ پورے کرہ ارض کو کھود کر اس میں سے تابوت تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کو اپنے مسایا (دجال) کا بے صبری سے انتظار ہے اور اس خیال میں مبتلا ہیں کہ دجال کے جھنڈے تلے ایک بار پھر ان کو پوری دنیا پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرقان حمید میں فرماتا ہے کہ

”اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو تمہارے پاس (اللہ کا) فیصلہ آچکا اور اگر اب بھی تم باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم پھر یہی کرو گے تو ہم بھی یہی کچھ دوبارہ کریں گے اور تمہاری یہ جمعیت تمہارے کسی کام نہیں آسکے گی خواہ کتنی ہی زیادہ ہو اور یہ کہ اللہ اہل ایمان کے ساتھ ہے” (سورة الأنفال: آیت نمبر 19)

تابوت سکینہ کی موجودگی کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اس پر بڑی ریسرچ کی ہے۔ لیکن حتمی طور پر کوئی بھی ایک نقطے پر متفق نہیں ہوسکا۔
کہا جاتا ہے کہ یہودیوں نے 1981 میں اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پہلے محل سے کھدائی کے دوران نکال کر کہیں نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ کھدائی کرنے والے یہودیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس صندوق کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ لیکن حکومت اسرائیل نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے پریشر میں آکر  کھدائی روک دیا۔ اسلئے انہیں یہ کام نامکمل ہی چھوڑنا پڑا۔ یہودی ابھی تک اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح تابوت سکینہ کو حاصل کرکے وہ کامیابیاں دوبارہ حاصل کرلیں جو کبھی اُن کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملیں تھیں مگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنا فیصلہ سنا چکا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button