اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ آفاقی دین صرف عبادات پر ہی مشتمل نہیں، زندگی کے تمام معاملات میں خود کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھال لینے کا نام ہے۔ افسوس کہ اس پر توجہ نہیں دی جا رہی، ہمارے ہاں کچھ ایسی روایات پروان چڑھ چکی ہیں کہ بس دین داری صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی تک ہی محدود سمجھی جاتی ہے۔ روزمرہ کے معاملات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ معاشرے میں ہمارا طرز عمل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق ہے یا نہیں، ہم گھروں میں والدین کا احترام کرتے ہیں یا نہیں، ہمسائیوں کے ساتھ ہمارا میل جول اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا نہیں، ہم گھروں یا کام کرنے والی جگہوں پر آ تے جاتے وقت کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں، اپنے فرائض کی بجاآوری پر توجہ دیتے ہیں یا نہیں، کیا دوران سفر ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ دوسروں کو ہم سے کوئی شکایت تو نہیں، اسی طرح زندگی کے دیگر تمام معاملات میں ہم حقوق العباد پر توجہ دے رہے ہیں ہیں یا تمام تر توجہ اپنی ذات اور مفادات سمیٹنے تک ہی محدود ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ اسلامی تعلیمات کے بر عکس ہے، دین کے مطابق نہیں۔
اُف! یہ طرز زندگی
قرآن و احادیث کا مطالعہ جن لوگوں کا معمول ہے وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق یعنی عبادات کی بجائے حقوق العباد کی ادائیگی پر زیادہ زور دیا ہے، ہمسائیوں کے حقوق کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اگر تمہارا ہمسایہ بھوکا پیاسا رہا تو تمہاری نماز اور روزوں کو شرفِ قبولیت حاصل نہیں ہوگا۔
اُف! یہ طرز زندگی
باہم لین دین کے حوالے سے احکامات بھی واضح ہیں جن پر ہم توجہ نہیں دے رہے۔ ناپ تول کے بارے میں بھی ہم اخلاقی تقاضے پورے نہیں کر رہے، ہمارے باہمی معاملات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ خدا کی پناہ، ہمارا ایک دوسرے سے طرز گفتگو اخلاقیات سے اتنا ہٹ کر ہے کہ کوئی ہمارے ہاتھ سے محفوظ ہے نہ زباں سے، گفتگو میں ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالی دے کر بات کرنا معمول کی بات تصور کیا جاتا ہے۔ دوسروں کے حقوق سلب کرنا، راہ چلتی خواتین پر آوازیں کسنا، دوسروں کا نام بگاڑنا، چلتے پھرتے دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بننا، سڑکوں پر کرکٹ کھیلنا، فٹ پاتھوں کو رفع حاجت کے لیے استعمال کرنا اور ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنا اخلاقیات سے گری حرکت نہیں، بہادری سمجھا جاتا ہے۔
اُف! یہ طرز زندگی
دفتر لیٹ جانا، وقت سے پہلے چھٹی کر لینا، دورانِ ڈیوٹی فرائض منصبی پر توجہ مبذول رکھنے کے بجائے گپ شپ لگانا اور سرکاری وسائل کا بے جا استعمال، اب قباحتیں نہیں سمجھی جاتیں۔
اُف! یہ طرز زندگی
ایک اسلامی نظریاتی مملکت میں ایسے منفی رویوں کا پروان چڑھنا افسوس ناک ہی نہیں، تباہی کا راستہ ہے، اگر ہم اپنا اور اپنے وطن عزیز کا بھلا چاہتے ہیں تو ان تمام منفی رویوں کو ترک کرنا ہوگا ورنہ ہم صرف نام کے مسلمان تو کہلا سکتے ہیں، کام کے نہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں ہم خود کو انسان، مسلمان اور حضور ذات نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا امتی کہلانے کے قابل ہیں کہ انسان وہ ہوتا ہے جس میں انسانیت ہو، مسلمان وہ ہوتا ہے جو پورے کا پورا اسلام میں داخل ہو اور اپنی ذات کی نفی کر کے اپنے خالق و مالک کے سامنے سر تسلیمِ خم کرتے ہوئے اپنی پیدائش کے مقاصد پر غور کرے اور اپنے کردار سے خود کو ایسا بنالے کہ اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے۔