مشرق ایکسکلوزیومشرق اردو ادب
مجازی سے حقیقی تک کا سفر
تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو ؟ کیا میری محبت تمہارے لئے کم ہے ؟ میرا غریب ہونا کیا میری سب خوبیوں پر بھاری ہے ؟ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔ تم نہیں ملو گی تو میں زندہ کیسے رہوں گا ؟


مجازی سے حقیقی تک کا سفر
لیکن میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو ؟ کیا میری محبت تمہارے لئے کم ہے ؟ میرا غریب ہونا کیا میری سب خوبیوں پر بھاری ہے ؟ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔ تم نہیں ملو گی تو میں زندہ کیسے رہوں گا ؟ خدارا! میرے ساتھ ایسا مت کرو۔ میری محبت کی تذلیل نہ کرو۔ ” روحیل محبت میں دھتکارے جانے پر ایک روایتی عاشق کی طرح مقدس سے محبت کی بھیک مانگ رہا تھا۔ لیکن مقدس کی آنکھوں پر بندھی دولت کی پٹی اُسے روحیل کی محبت دیکھنے ہی نہیں دے رہی تھی۔ مقدس روحیل کو وہاں سے چلے جانے کا کہتی ہے۔ وہ روحیل کو منع کرتی ہے کہ آئیندہ کبھی بھی اُسے اپنی شکل نہ دکھائے۔ روحیل مایوس ہو جاتا ہے اور اُسے یقین ہو جاتا ہے کہ اب اُس کی کوئی التجاء کوئی فریاد کام نہیں آئے گی۔ روحیل نے جب سے ہوش سنبھالا تھا صرف مقدس سے محبت کی تھی۔ وہ مقدس کے بغیر زندگی جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ دسمبر کی سرد شام تھی اور روحیل تھر تھر اتا ہوا سڑک پر چل رہا تھا۔ اُس کے کانوں میں ابھی تک مقدس کے وہ الفاظ گونج رہے تھے جس میں اُس نے روحیل کی محبت کی تذلیل کی تھی۔
وہ چلتا چلتا نہ جانے کہاں نکل آیا تھا کہ اچانک اُس کے کانوں میں آواز آتی ہے ” اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! ” یہ عشاء کی اذان کی آواز ہوتی ہے جو اُس کے سامنے موجود مسجد سے آ رہی ہوتی ہے۔ وہ مسجد کے اندر جاتا ہے۔ وضو کر کے نماز ادا کرتا ہے اور نماز کے بعد کافی دیر وہیں بیٹھا اللہ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔
"اے اللہ ! تو میرے دل کے حال سے واقف ہے۔ تو جانتا ہے کہ میری محبت کس قدر سچی اور پاکیزہ ہے۔ یا رب ! اگر وہ میری قسمت میں نہیں ہے تو اسے میرے دل سے بھی نکال دے۔ تو میرے دل کو سکون عطا فرما۔ ” سب نمازیوں کے جانے کے بعد اس اکیلے کو وہاں کافی دیر تک بیٹھا دیکھ کر ایک باباجی اس کے پاس آکر بیٹھتے ہیں۔ ” لگتا ہے تمہیں دنیا کی ٹھوکروں نے مالک حقیقی کے در پہ پہنچایا ہے۔ ” باباجی روحیل سے مخاطب تھے جو کافی دیر سے سر جھکائے بیٹھا تھا اور اب باباجی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ "کوئی بات نہیں پتر ! تم بلکل صحیح جگہ آئے ہو۔ اللہ سے مدد مانگو وہ تمھیں سکون عطا کرے گا۔ اللہ کو پالو گے تو سب مل جائے گا۔ اللہ سے اُس کا ساتھ مانگو پھر دیکھنا کتنی آسانی سے تم اپنی منزل پالوگے۔
” روحیل باباجی کی باتیں بہت غور سے سنتا ہے اور مسجد سے نکل کر گھر کی جانب چل دیتا ہے۔ روحیل گھر پہنچ جاتا ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُس کا سارا غم دور ہو گیا ہو۔ جیسے اس کے دل پر برسوں سے لگا ہوا اللہ سے دوری کا زنگ اتر گیا ہو۔ وہ راحت محسوس کرتا ہے۔ مقدس کو کھونے کا درد بھی اپنی شدت کھو بیٹھتا ہے۔ وہ خود سے وعدہ کرتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اب کبھی نماز ترک نہیں کرے گا۔ وہ خود سے کیے ہوئے وعدے پر پورا اترتا ہے۔ نمازیں باقاعدگی سے پڑھنے لگتا ہے۔ قرآن پاک پڑھنے کو اپنے معمول کا حصہ بنا لیتا ہے۔ اللہ سے معافی مانگتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے اتنا عرصہ غافل رہا۔ اپنے حقیقی مقصد سے ہٹا تو دنیا نے اسے اپنی ٹھوکروں پر رکھنا شروع کر دیا۔ وہ اب دنیا کو یا مقدس کو نہیں بلکہ اللہ کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگ چکا تھا۔ وہ اللہ سے لو لگا بیٹھا تھا۔ روحیل کو اللہ سے باتیں کر کے اطمینان ملنے لگا تھا۔ وہ مقدس کے عشق کو تو کہیں پیچھے چھوڑ آیا تھا.
لیکن در حقیقت اس کے عشق نے ہی بھٹکے ہوئے روحیل کو پھر سے اللہ سے جوڑا تھا۔ اسے اللہ کے نزدیک رہنا اچھا لگ رہا تھا۔ وہ عشق مجازی کے دریا سے عشق حقیقی کے سمندر میں گرنا شروع ہو گیا تھا۔ روحیل دوبارہ مسجد والے باباجی کے پاس جاتا ہے اور انہیں اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی کے بارے میں بتاتا ہے۔ باباجی کہتے ہیں کہ ” پتر ! تم نے عشق حقیقی کی راہ پر چلنا شروع کر دیا ہے اور بے شک تمہارا مجازی عشق ہی تمھیں اس راستے پر لے کر آیا ہے۔ ” روحیل باباجی سے کہتا ہے ، ” بابا جی ! عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے ؟ ” جس کے جواب میں بابا جی کہتے ہیں ” پتر ! دونوں عشق ہی ہیں۔ ایک ہی طرح کے دورستے ہیں۔ لیکن ان دورستوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عشق مجازی کی منزل صرف محبوب ہے جبکہ عشق حقیقی کی منزل اللہ ہے۔ مجازی عشق میں ب کو پالینا ہی کمال ہوتا ہے اس کے بعد اس عشق کا اختتام ہو جاتا ہے۔ لیکن عشق حقیقی کا تو منزل کو پا کر اللہ کو پا کر آغاز ہوتا ہے۔”
محبوب کی محبت کو اک روز زوال ہے مگر پتر ! اللہ کی محبت تو دائمی ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والی؛ اسی لئے تو عشق حقیقی کہلاتی ہے۔ مجازی محبوب بے رخی اور شوخی دکھاتا ہے لیکن اللہ ! اللہ تو اپنی طرف آنے والے سے محبت کرتا ہے۔ دنیاوی محبت نفرت اور رقابت کے جذبات ابھارتی ہے مگر مالک حقیقی سے عشق تو فقط محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اللہ سے محبت کرنے والا ہر اُس شخص سے محبت کرتا ہے جو اُس کے محبوب اُس کے پیارے اللہ کا نام لیتا ہے۔
پتر ! اللہ سے محبت کرنے والا نفرت کے جذبے سے عاری ہوتا ہے۔” لیکن باباجی ! میں تو ایک عام سا بندہ ہوں ، ایک عورت کی محبت میں گرفتار، میں کیسے عشق حقیقی کو پا سکتا ہوں ؟ ” روحیل کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ” پتر ! عشق حقیقی کی پہلی منزل ہی عشق مجازی ہے۔ عشق مجازی انسان کو محبت کے قرینوں سے آگاہ کر دیتا ہے ، محبوب کو منانے کے قاعدے سکھا دیتا ہے۔ پھر عشق حقیقی کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ اُس عورت نے تمہیں تمہاری غربت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے دھتکارا تھا کیوں کہ اللہ تمہارے دل کو اپنی محبت سے سیراب کرنا چاہتا تھا۔
اللہ دنیا کی محبتوں کی اصلیت دکھا دیتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ بتا تیرا کون ہے میرے سوا؟ پتر ! اللہ انسان کے دل کو مجازی عشق کے چند قطروں سے نم کر کے پھر اپنی بیش بہا محبت سے انسان کے دل کو سیراب کر دیتا ہے۔ ” وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روحیل کی اللہ سے محبت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اس محبت نے اس کا اللہ پر یقین بھی مزید پختہ کر دیا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ اللہ ساتھ ہو تو انسان با آسانی ہر آزمائش سے نکل سکتا ہے۔ اب روحیل کی ڈگری بھی مکمل ہو گئی تھی۔ اور اب وہ نوکری کی تلاش میں تھا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اُسے جلد ہی ایک بہت بڑی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اللہ پر یقین اور اپنی محنت سے وہ تیزی سے کامیابی کہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ لوگ اُسے جاننے لگے ، اُس کی عزت کرنے لگے۔ کچھ ہی وقت میں اس نے اس قدر ترقی کر لی کہ وہ ملک کا نامی گرامی بزنس مین بن گیا۔ روحیل ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا تھا۔
وہ مساجد تعمیر کرواتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ دینے والے کو جتنا یاد رکھا جائے عطا اتنی ہی بڑھ جاتی ہے اور اتنے کم عرصے میں اس قدر ترقی اللہ سے قربت کی بدولت ہی تو تھی۔ روحیل کے ماں باپ نے اُس کا رشتہ ایک بہت اچھے گھرانے کی نہایت نیک لڑکی فصیحہ سے طے کر دیا۔ اور وہ دونوں شادی کر کے خوشی خوشی زندگی گزار نے لگے۔ وہ دونوں شادی کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے عمرے پر گئے۔ روحیل جان گیا تھا کی جب اللہ مل جاتا ہے تو سب مل جاتا ہے۔ اللہ کے بغیر انسان دنیاوی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے لیکن جب اللہ ساتھ ہو تو دنیا کی ہر چیز خود چل کر انسان کے پاس آتی ہے۔ اللہ سے دوری انسان کو پستی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ اللہ ساتھ ہو تو کامیابی کے زینے پر باآسانی چڑھا جا سکتا ہے۔ اللہ تو اپنے سے محبت کرنے والے سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور اس انسان پر اپنا خاص کرم فرماتا ہے۔
