
متحرک، مہذب اور باصلاحیت معاشرے کا قیام؟
رپورٹ : اصغر علی کھوکھر
صحت مند، متحرک اور باصلاحیت معاشرے کے قیام میں ماؤں کا کردار بنیادی حیثیت و اہمیت کا حامل ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں اس پر توجہ نہیں دی جاتی، ہم اپنی تحریروں اور تقریروں میں ماں کی شان تو بڑی شد و مد سے بیان کرتے ہیں، اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں عملاً سماجی رویے ان دعووں سے متصادم نظر اتے ہیں۔ یہ سر پیٹنے کا مقام ہے کہ ہم مرد حضرات جس ماں کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کی آغوش میں پرورش پاتے ہیں، دنیاوی معاملات میں اسی کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔ جنم دینے والی ماں کی رہائش، خوراک اور لباس سمیت صحت کی سہولتوں تک اس کے حقوق پامال کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال برقرار رہی تو صحت مند اور باصلاحیت معاشرے کا قیام محض خواب رہے گا۔
اس تناظر میں ادارہ ہمدرد پاکستان (وقف) کی روح رواں محترمہ آپا سعدیہ راشد کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ انہوں نے اپریل 2025 کے شوریٰ ہمدرد کے اجلاس میں مقررین کو اس اہم سماجی مسئلے پر گفتگو کی دعوت دی تاکہ ملک بھر میں زچہ بچہ کے بنیادی حقوق پر نہ صرف سیر حاصل گفتگو کی جا سکے بلکہ ایسی تجاویز بھی مرتب کی جائیں جن پر عمل پیرا ہو کر مستقبل میں ماں اور نومولود کے حقوق کے حوالے سے معاشرے میں پائی جانے والی اجتماعی بے حسی اور بے رحمی کا ازالہ ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔
اس موقع پر سابق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر سعید الہی نے گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ملک میں دعوؤں اور وعدوں کے باوجود تاحال کسی بھی حکومت نے ایسے بھرپور اقدامات نہیں اٹھائے جن سے زچہ و بچہ کے مسائل پر توجہ دی گئی ہو۔ ہمارے ہاں افرادی قوت اور وسائل کی کمی نہیں۔ اس حوالے سے منصوبہ سازی بھی ہوتی ہے مگر ان فیصلوں پر عمل نہیں ہوتا۔ زچہ بچہ کی صحت کے لئے مختص رقم کا بڑا حصہ انتظامی شعبے پر خرچ ہو جاتا ہے، جو بچتا ہے کرپشن کی نزر ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں مگر سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اکثر منصوبہ جات حکومتوں کے خاتمے کے نتیجے میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہمارے ہاں ارباب نشاط کو تو ہر سال قومی اعزازات کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے مگر جو ورکر بچوں کو صحت مند رکھنے کے لیے شہروں سے لے کر دیہات حتی کہ پسماندہ علاقوں میں جا کر پولیو کے قطرے پلانے کے دوران حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں یا بوجوہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان کی خدمات کا کبھی کسی نے اعتراف نہیں کیا حالانکہ وہ انتہائی معمولی معاوضہ لے کر اپنی جان خطرے میں ڈال کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مسائل کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، یہ ایسا سماجی مسئلہ ہے جس کی ذمہ داری براہ راست انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے مگر انہیں خدمات کے عوض اعزاز ملنا تو دور کی بات ہے ان ورکروں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ تک کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
ورلڈ ہیلتھ پروگرام سے منسلک ڈاکٹر جمشید نے کہا کہ پاکستان کا نظام صحت ناکارہ ہو چکا ہے۔ زچہ بچہ کے سماجی اور طبی مسائل پر توجہ نہ دینا ناقابل تلافی جرم ہے۔ ہمارے ہاں تو منصوبہ بندی بھی کاغزی ہوتی ہے، بچے کی پیدائش کے بعد پہلے 100 دن بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس دوران ماں اور بچے کی ذہنی، روحانی، جسمانی اور نفسیاتی پرورش ہوتی ہے۔ جس ماں کو متوازن غذا میسر نہ ہو وہ بچے کی صحت کا کیسے خیال رکھے گی۔ مائیں بھوکی رہ کر بچوں کو دودھ پلاتی ہیں جس سے اس کی صحت بگڑ جاتی ہے۔ مسائل در مسائل کی وجہ سے پاکستان میں زچہ اور بچہ کی اموات کی شرح ہوش ربا ہے یہ مسائل صرف ماں کی شان بیان کرنے سے نہیں اس کی جسمانی اور سماجی ضروریات پوری کرنے سے کم ہوں گے۔ اس ضمن میں باتوں کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
جناب قیوم نظامی نے کہا کہ ہم صحت کا عالمی دن تو ہر سال مناتے ہیں مگر اس ماں اور بچے کی صحت پر توجہ نہیں دیتے جن سے صحت مند معاشرے کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ صحت اور تعلیم ایسے شعبے اشرافیہ کے لیے مخصوص قرار پا چکے ہیں یہ وہ شعبے ہیں جو مشن سمجھ کر چلائے جانے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جہاں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہ ہو وہاں زچہ بچہ کی صحت کیسے مثالی ہو سکتی ہے۔ ہم نے 1947 ؑ میں جغرافیائی لحاظ سے تو آزادی حاصل کر لی مگر انگریز کا وہ نظام نہیں بدل سکے جو ہماری سماجی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، یہاں تک کہ نظریہ پاکستان کے فروغ میں بھی رکاوٹ ہے اچھی صحت کے لیے صفائی کی اشد ضرورت ہے، ہمارے ہاں جگہ جگہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر نظر اتے ہیں، ہسپتالوں میں بھی صفائی کی صورتحال ابتر ہے، جب تک حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نہیں ہوگا ہماری انفرادی اور اجتماعی صحت مثالی نہیں ہوگی، ماں اور بچے کا لباس اور خوراک بہتر ہوگی تو دونوں ذہنی طور پر خوشحال ہوں گے۔
جناب ثمر جمیل نے کہا کہ ہمارے سماجی مسائل اور دستیاب وسائل میں بہت تفاوت پائی جاتی ہے، ہم 75 برسوں میں ابادی پر کنٹرول نہیں کر سکے، ہم سے آزادی حاصل کرنے والے بنگلہ دیش نے بڑھتی آبادی پر قابو پا کر اپنے سماجی اور اقتصادی مسائل حل کر لیے ہیں، مگر ہم کچھ نہیں کر سکے ہمارے حالات جوں کے توں ہیں۔ جس ملک میں صحت کے لیے مختص رقم سے فی کس حصہ ایک روپیہ اتا ہو، آبادی کے تناسب سے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف موجود نہ ہو وہاں ماں اور بچے کی صحت کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔
رانا امیر احمد خان نے کہا کہ زچہ بچہ کی صحت کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ محترم راشد منہاس نے کہا کہ ہمارے ہاں خاندانی تنازعات اور مالی مسائل ماں کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ گھروں میں جھگڑے ماں اور بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت بگاڑ دیتے ہیں، مرد عورت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے مگر جب اس کی بیوی دوسری یا تیسری بیٹی پیدا کرتی ہے تو وہ بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ مائیں بستر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے برآمدوں کے ٹھنڈے یا گرم فرش پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ سردی ہو یا گرمی ان کی صحت کا کسی کو خیال نہیں ہوتا، مالی دشواریاں غربت کی شکار ماؤں کو موت سے ہمکنار کر دیتی ہیں، جس معاشرے میں مائیں ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی راستے میں رکشوں اور گاڑیوں میں بچوں کو جنم دیں اس معاشرے کو اسلامی معاشرہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ان مسائل در مسائل کی بڑی وجہ قومی وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے مگر ارباب اختیار ہیں کہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ محترمہ فرح ہاشمی، پروفیسر خالد پراچہ، پروفیسر شفیق جلندھری، ڈاکٹر ابصار احمد اور برگیڈیر ریاض طور نے بھی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے زچہ بچہ کو یکساں سہولتیں فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔