آج کا کالممشرق ایکسکلوزیو
ماڈرن بھکاری
جمعرات کا روز ہے بابا۔ فقیر کو کچھ ملے گا‘‘؟ اور ایک اور صدا دور سے سنائی دیتی، آہستہ آہستہ گھر کے قریب سے آتی اور پھر دور ہو جاتی

ماڈرن بھکاری
یادش بخیر بچپن کی دیگر تلخ و حسین یادوں کے ساتھ ساتھ ایک یاد فقیروں اور بھکاریوں کی صدا کی بھی ہے۔ عمر کے مختلف حصوں میں کچھ وکھری ٹائپ کے بھاریوں کی صدائیں ایسی تھیں جو آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں جس سے انکی فنکاری عیاں ہوتی تھی اورہم ان آوازوں سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ امی سےزبردستی چند سکے اگلوا کرانہیں دان کر دیتے تھے۔ ایک فنکار کی آواز صرف جمعرات کے روز گونجتی تھی، ’’اللہ ایمان دے۔ جمعرات کا روز ہے بابا۔ فقیر کو کچھ ملے گا‘‘؟ اور ایک اور صدا دور سے سنائی دیتی، آہستہ آہستہ گھر کے قریب سے آتی اور پھر دور ہو جاتی۔ ان کے ساتھ ایک نوعمر بچہ یابچی ہوتی جس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اندھے ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے یہ حضرت نہایت پرسوز آواز میں گاتے، ’’بچیاں والیو، بھائیو! سن لو میری فریاد۔ اکھیاں والیو، بھائیو! سن لو میری فریاد‘‘ ذرا بڑے ہوئے اورعزیزوں کے ہاں دوسرے شہروں میں جانا ہوتا تو نوٹ کیا کہ یہ فقیر وہاں بھی موجود ہیں۔ ہم عجیب مخمصے کا شکار ہوتے کہ کیا یہ ان شہروں میں بھی مانگنے آتے ہیں۔ وہ تو ہوش سنبھالنےپر عقدہ کھلا کہ بھکاری تو مختلف ہوتے ہیں لیکن مانگنے کاطریقہ جو مقبول ہویہ حضرات وہی اپناتے ہیں اوراس کیلئے وہ دوسرے شہروں میں گھوم پھر کر سروے کرتے ہیں۔ یہ بھانڈا ایسے پھوٹا کہ لاہورمیں خالہ کے گھرگئے ہوئے تھے تو گلی میں اسی فقیر کی آواز آئی، ’’بچیاں والیو، بھائیو! سن لو میری فریاد‘‘۔ ہم بھاگ کر کھڑکی میں گئے اور چک ہٹا کر دیکھی تو یہ حضرت وہ نہیں بلکہ کوئی اور خاصے مشٹنڈے سے تھے اور انکے ساتھ لڑکی بھی کوئی جوان تھی، صرف طریقہ وہی تھا کہ نابینا ہونے کی ایکٹنگ اور اس دوشیزہ کے کندھے پرہاتھ رکھا ہوا تھا۔
وقت گذرتا گیا اوراس کے ساتھ ساتھ مانگنے کے مروجہ طریقے بھی تبدیل ہوتے گئے۔ ہم نے مختلف کارروبار کی مشہوری اور فروخت کے طریقے تبدیل ہوتے دیکھے تھے لیکن یہ بھول گئے تھے گداگری بھی ایک پیشہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ طریقوں میں تبدیلی مانگتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ مانگنا سب سے آسان کام ہے لیکن جب کچھ فنکاروں سے آف دی ریکارڈ بات ہوئی تو علم ہوا کہ گداگری سب سے کٹھن پیشہ ہے جس میں ہاتھ پھیلانے کے علاوہ نہ صرف غیرت اور خودداری مارنی پڑتی ہے بلکہ کمال صبر کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر لوگ ایک روپیہ ہتھیلی پر رکھتے تھے لیکن وہ گئے وقتوں کی بات ہے اب تو دس روپے سے کم کوئی بھکاری بھی نہیں لیتا اور جو کوئی کہانی گھڑ کر آپ کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں وہ تو منہ پھاڑ کر دو تین سو سے کم کا مطالبہ نہیں کرتے۔
کافی عرصہ تک بسوں میں کہانیاں سنا کر امداد اینٹھنے والے بہت سرگرم رہے۔ پھر جب موٹر وے بن گئی اور کھٹارہ بسوں کی جگہ ماڈرن بسوں نے لی تو ان پر ان شعبدہ بازوں کی سواری ممنوع ہو گئی لیکن اس دوران ایک روز کسی اخبار میں تصویر دیکھی کہ ایک شخص سعودی عرب کیلئے کسی نجی ائر لائن پر سفر کرتے ہوئے جہاز میں بھیک مانگ رہا تھا۔ شاید وہ سعودی عرب عمرہ کرنے کی بجائے بھیک مانگنے جا رہا تھا۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے یعنی عمرے کا خرچہ بھی خیرات سے نکالنے کا پروگرام تھا۔ برادر ملک سعودی عرب نے پچھلے چند سالوں میں کافی عرصہ تک ایسے ننگ ملت لوگوں کو پکڑکر باجماعت واپس بھجوا دیا۔ یقیناً ان میں سے کئی ایک نے کوئی اور جگاڑ لگا کر واپس جانے کی کوشش کی ہو گی اور گئے بھی ہونگے اور جو نہیں جا سکے انہوں نے کوئی اور طریقہ ڈھونڈھ لیا ہوگا۔
اگر آپ کو انہیں ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش آئے تو میں آپ کی مدد کر دیتا انہیں تلاش کرنے میں۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ آپ فیس بک پر ایک عدد اکاؤنٹ کھول لیجئے اور پھر تماشہ دیکھیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کے پروفائل سے چند خصوصیات جھلکتی ہوں:
۱۔ اپنے پروفائل سے آپ خوشحال اور بااثر شخصیت نظر آتے ہوں۔
۲۔ آپکی گاڑی اورملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کی تصویریں پوسٹ ہوئی ہوں۔
۳۔ آپ ملک سے باہر بھی آتے جاتے ہوں یا رہائش رکھی ہو۔
۴۔ پاکستان میں آپکی رہائش کسی بڑے یا کارروباری شہر میں ہو۔
باقی تفصیلات وہ آپکی پوسٹوں میں سے ڈھونڈھ کر نکال لیں گے۔ آخر تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے آپکو فرینڈ ریکوئسٹ آئے گی۔ آپ اسے قبول کریں گے تو پھر آپکی خیر خیریت پوچھ کر آپکی تعریف میں زمین آسمان میں قلابے ملا دیئے جائیں گے۔ پھر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ آپ جو کام کرتے ہیں یہ کیسے کرتے ہیں ؟ میں نے تو بہت کوشش کی، بہت پیسہ ضائع کر چکا ہوں لیکن مجھ سے نہیں ہوا ۔ یہی وہ وقت ہے جب آپکو محتاط ہو جانا چاہیے اور اس کے بعد وہی کہانی، ’’بچیاں والیو بھائیو سن لو میری فریاد‘‘ لیکن ذرا مختلف ڈھنگ سے۔ مجھے جب کوئی اللہ رسول کا واسطہ دیتا تھا تو میں کانپ جاتا تھا اور فوراً اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کر دیتا تھا لیکن جب سے مجھے علم ہوا کہ یہ ایموشنل بلیک میلنگ ہے تو میں نے کم از کم فیس بک کی حد تک ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ مجھے پچھلے دس بارہ سالوں میں جن ’’ضرورت مندوں‘‘ کا سامنا کرنا پڑا ان کے چیدہ چیدہ بہانے آپکی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے:
۱۔ آغا جی بہت مجبور ہوں اس دفعہ بجلی کا بل بہت زیادہ آیا ہے میں فوٹو کاپی بھیج رہا ہوں۔ میری اتنی تنخواہ بھی نہیں ہے میری مدد کردیں اگلےمہینے لوٹا دوں گا۔ مدد کر دی گئی۔ اگلے مہینے لوٹانے کی بجائے پھر ایک اور قسط کا تقاضا۔
۲۔ ایک بچی کا میسج، ’’سر میرے ابو بیروزگار ہیں۔ تین چھوٹےچھوٹے بہن بھائیوں کی سکول فیس تین ماہ سے رہتی ہے۔ میری مدد کر دیں‘‘۔ فیس کل ۳۵ ہزار بنتی تھی۔ بہت عذر گھڑے لیکن جان نہ چھوٹی تو اپنے ایک دوست کے ساتھ ملکر اسے مطلوبہ رقم بھیجی تو اگلا پیغام آیا کہ میرے ابو کو کوئی نوکری دلوا دیں۔ پھر ایک دوست سے بات کرکے اس کے شہر میں ایک یوٹیلیٹی سٹور پر بندوبست کیا تو میسج آیا کہ سرآپکا کیا خیال ہے کہ میرے ابو یہ نوکری کریں گے؟ میں نے جواب نہ دیا کیونکہ میں انہیں ڈپٹی کمشنر تو لگوا نہیں سکتا تھا، تو کچھ دنوں بعد عید تھی پھر پیغام آیا کہ مجھے کپڑوں، جوتوں اور مہندی کیلئے ۲۵ ہزار چاہیئں۔ میں نے بلاک کر دیا۔
۳۔ ایک خاتون پر سارے گھر کا بوجھ تھا معذور ماں باپ اور ماموں ممانی تھے اسے کاروبار کیلئے دو لاکھ چاہیئے تھا۔ اللہ گواہ ہے میں نے کوشش کی لیکن بندوبست نہیں ہوا۔ اب میرا کیا قصور تھا؟
یہ میں نے آتے میں سے نمک کے برابر چند واقعات گوش گذار کئے ہیں ورنہ میری فیس بک پر ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی ایسے درخواست موجود ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب جھوٹ بولتے ہونگے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس مشکل اور مہنگائی کے دور میں ہم سب اپنے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے جتن کرتے ہیں اور خصوصاً مجھ جیسے سینکڑوں افراد جو محض پنشن پر گذارہ کرتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ اپنی کام والی یا مالی ڈرائیورکی تھوڑی بہت مدد ہی کر سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ فیس بک پر امداد طلب کرنے والے اپنے اپنے علاقوں، جاننے والوں اورعزیزوں سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہاں سے نادہندہ ہونے کے بعد یہ نئے دروازے دیکھتے ہیں؟
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔