مشرق ایکسکلوزیو

کامیابی کا سبق سیکھیں! ناکامی سے خوف نہیں

عظیم کامیابی یہ نہیں کہ کبھی نہ گریں بلکہ ہر بار گر کر دوبارہ اٹھنے میں کامیابی ہے

کامیابی کا سبق سیکھیں!

رضوان اللہ خان

کیا آپ جانتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک عام تاجر کے بیٹے تھے ؟ سقراط ایک معمار کا بیٹا تھا، ہٹلر ایک موچی کا بیٹا تھا، نپولین ایک معمولی سپاہی تھا، امریکہ کا صدر لینکن ایک غریب کسان کا بیٹا تھا، امریکہ کا صدر جانسن بچپن میں بوٹ پالش کیا کرتا تھا، کوکا کولا کمپنی نے اپنے شروع کے ایک سال میں صرف چار سو بوتلیں فروخت کیں؟ آئن سٹائن کو اس لئے نالائق ہونے کے طعنے ملا کرتے تھے کہ سات سال کی عمر تک اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ تھامس ایڈیسن کو سکول سے اس لئے نکال دیا گیا کہ وہ نہایت سست تھا اور وہ اخبار بیچا کرتا تھا۔ نیوٹن ایک نالائق اور نکما سٹوڈنٹ تھا۔ مسٹر ہونڈا زندگی کی بے شمار نا کامیوں کے بعد ہنڈا کمپنی کی بنیاد رکھ پایا۔ آپ کو یہ سب بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ والٹر بروئل کہتا ہے کہ ”نا کامی وہ معاوضہ ہے جو آپ کامیابی کے لئے ادا کرتے ہیں”۔

ناکامی اور شکست پر فیصلہ آپ خود کرتے ہیں، آیا کہ اس سے کچھ سبق لے کر آگے بڑھنا ہے یا ساری زندگی اسی پر ماتم کر کے زندگی برباد کر لینی؟ بے شک ناکامی اور شکست میں درد کی ایک لہر ہوتی ہے جو انسان کو برباد بھی کر سکتی ہے لیکن اس لہر کے سامنے کسی مریض کی طرح لیٹ جانے سے صرف نقصان ہی ہوگا کہ وہ بہا کر لے جائے گی۔ ایسے میں خود کو ان دکھوں کی موجوں کے حوالے کرنے کی بجائے ان سے سبق لینا ہو گا ۔ وہ اسباق مختلف ہو سکتے ہیں، وہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں:

ہاں ! اس کام کو ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیوں نہ یہ طریقہ اپنایا جائے۔ یہ اپنایا

میری مہارت کا کام کوئی اور ہے

مجھے اب اپنی فیلڈ بدلنے کی ضرورت ہے۔

میں اس کام کے لئے بنا ہی نہیں ۔

میں یہاں وقت ضائع کر رہا ہوں ، میری منزل کچھ اور ہے

چلوا یہ ایک راسته تو دریافت ہو گیا جس سے یہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔

یہ سوچ کے مختلف زاویے ہیں لیکن کیا آپ نے سوچا ان میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو ذہن میں آئیں بھی تو انسان جھٹ سے انہیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ مجھے اپنی فیلڈ بدلنے کی ضرورت ہے میری مہارت کا کام کوئی اور ہے، میں یہاں وقت ضائع کر رہا ہوں، میری منزل کچھ اور ہے یہ وہ جملے ہیں جن کو ہم ہمیشہ نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ قدرت کی طرف سے اشارہ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں ہمیں بار بار قدرت سے اشارے ملتے رہتے ہیں، ناکامی اور شکست بھی ان اشاروں میں سے ایک ہے کہ اب تمہیں کیا کرنا ہے۔ اگر تم اس کام کے لئے بنے ہی نہیں اور تمہاری مہارت کچھ اور ہے تو اُس میں دماغ اور وقت کیوں نہیں کھپا دیتے؟ اگر آپ کی فیلڈ یہ نہیں ہے تو اُس فیلڈ میں کیوں نہیں جاتے جہاں آپ آگے بڑھ سکتے ہو، اگر آپ کی مہارت کمپیوٹر سوفٹ ویئرز میں ہے تو کال سینٹر میں وقت کیوں ضائع کیا جائے؟ تو کیا ناکامی میں قدرت کی جانب سے اشارہ نہیں؟

ہونڈا موٹر کمپنی کی بنیاد رکھنے سے پہلے مسٹر ہونڈا ٹیوٹا موٹر کمپنی میں ملازم تھے جہاں وہ ایک پسٹن ڈیزائن کر رہا تھا اور اس کا بنایا پہلا پسٹن یہ کہہ کر اس کی طرف غصہ سے پھینک دیا گیا کہ یہ وہ نہیں ہے جو ہم چاہ رہے ہیں ۔ اس کی عزت نفس مجروح ہوئی لیکن اس نے خود سے کہا میں یہ بنا کر رہوں گا۔ مسٹر ہونڈا نے اپنی بیوی کے زیورات اس لئے بیچ دیئے کہ وہ تحقیق کر سکے اور بالآخر وہ اس معیار کا پسٹن تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا جو کہ ٹیوٹا کو مطلوب تھا۔ آپ اوپر کی باتوں کو پھر سے پڑھ سکتے ہیں کیونکہ جو بات آپ کو بتانے جا رہا ہوں اس میں وہی قدرت کا اشارہ پوشیدہ تھا۔ اس معیار کا پسٹن تیار کر لینے کے بعد مسٹر ہونڈا نے ایک عجیب فیصلہ کیا اور خود سے مخاطب ہوا کہ اب میں اپنی ٹیکنالوجی ٹیوٹا کو فروخت نہیں کروں گا اور اپنی ذاتی کمپنی کی بنیاد رکھوں گا۔ اس طویل قصے کی جانب اس لئے نہیں جاؤں گا کہ آج آپ ہونڈا موٹر کمپنی کا نام بخوبی جانتے ہیں۔ ناکامی سے خوف مت کھائیں، ناکامی کے خوف سے کوئی کام روکیں مت اور اگر کسی موڑ پر نا کامی آپ کے راستے میں آہی جائے تو ہمت کا بلڈوزر اس کے اوپر سے گزارنے کو تیار رہیں کیونکہ جیتنے کے لئے ہارنے کا خوف دل سے نکالنا ضروری ہوتا ہے۔

دیکھیں کسی کام کے کرنے سے پہلے ہی ناکامی کو اپنا وہم نہ بننے دیں کیوں کہ انسان جو سوچتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔ آپ جیت کا یقین رکھیں، کامیابی کے خواب دیکھیں اور ناکامی کے وہم کا گھونسلا بننے سے پہلے ہی ابتدا میں دور پھینک دیں۔

ہماری سوچ اور وہم کس قدر اثر رکھتا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہی لگا لیں۔ نکولس جو کہ فرانس کی فوج کے ان فیلڈ مارشلز میں سے تھا جس نے کئی جنگوں میں فتح حاصل کی تھی لیکن اسے ایک وہم لاحق تھا اور وہ وہم یہ تھا کہ اگر کھانے کے دوران نمک گر گیا تو وہ مر جائے گا، اسی خوف سے وہ ہمیشہ نمک دانی کو خود سے دور رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ ڈنر کے دوران کسی مہمان کا ہاتھ میز پر پڑی نمک دانی پر لگا جو کہ لڑھک گئی اور نمک بکھر گیا۔ نکولس نے جیسے ہی یہ منظر دیکھا اس کی آنکھیں پھٹ پڑیں اور اگلے ہی لمحوں میں وہ مر گیا۔

صرف ایک وہم ایک فاتح کی موت کا سبب بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مضبوط اور بہادر انسان وہ نہیں جو روئے نہیں بلکہ مضبوط اور بہادر انسان وہ ہے جو اپنے آنسو پونچھ کر پھر سے تلوار تھامتا ہے اور لڑنے کے لئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ جہاں نکولس ایک وہم کی وجہ سے اپنی جان دے گیا وہیں آئر لینڈ کے معروف سیاست دان ڈی ویرا کے متعلق آتا ہے کہ ایک بار وہ تقریر کے دوران گرفتار ہو گیا اور اس کی تقریر ادھوری رہ گئی۔ ڈی ویرا نے ایک سال قید کائی اور جب جیل سے رہا ہوا تو سیدھا اسی ہال میں پہنچا جہاں سے اسے گرفتار کیا گیا تھا اور حاضرین کو کچھ یاد دلاتے ہوئے خطاب کا آغاز اس طرح کیا حاضرین جیسا کہ میں اس روز کہہ رہا تھا۔ کامیابی کی کمٹمنٹ، ناکامی کا خوف زیرو کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے اور پھر ایک بار کی رکاوٹ، تکلیف، دُکھ اور ناکامی کو بھلا کر وہیں سے زندگی اور جیتنے کی کوشش کا آغاز کریں جہاں آپ پہلے مسکراتے ہوئے کھڑے تھے۔ یاد رکھیں دنیا میں اب مفلوج، معذور اور اپاہج کا مطلب بدل چکا ہے، اب اپاہج اس کو نہیں کہا جاتا جس کی ایک آنکھ نہ ہو، جس کی بینائی نہ ہو، جو سن نہ سکتا ہو، جو ہاتھ یا ٹانگوں سے معذور ہو بلکہ اب معذور اسے کہا جاتا ہے جس کی سوچ منفی ہو اور وہ مکمل جسم ہونے کے باوجود بھی ڈرتا ہو اور مثبت نہ سوچتا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو (سورہ البقرہ)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ‘‘اگر اللہ میری آنکھوں سے نور لے لے تو میری زبان اور کانوں میں تو روشنی ہے، میرا دل شکی ہے، عقل میں کجہی نہیں، میرے منہ میں تلوار کی طرح چلتی زبان ہے”۔ یعنی جو بھی تکلیف لاحق ہوتی ہے اس میں کچھ خیر ضرور ہوتی ہے۔ ولیم جیمس کہتا ہے: ”بہت سی آفتیں غیر متوقع حد تک ہماری مددگار ہوتی ہیں، اگر وسکی اور ٹالسٹائی نے المناک زندگی نہ گزاری ہوتی تو وہ اپنے معروف ناول نہ لکھ سکتے۔ یتیمی، اندھا پن، اجنبیت اور فقر، ابھرنے اور ترقی کرنے اور دین و دنیا کی کامیابی کا سبب بن سکتے ہیں۔

اگر آپ کسی قدرتی معذوری کی وجہ سے ناکامی سے خوف کھاتے ہیں یا صحیح سالم جسم کے ہوتے ہوئے بھی کسی ایک ناکامی کے باعث قدم پیچھے ہٹا چکے ہیں تو اب وقت ہے آگے بڑھنے کا، پھر سے قدم اُٹھانے کا، جیت کا جذبہ لے کر بڑھتے جانے کا اور جیت کر دکھانے کا۔ ذرا غور کریں کہ تاریخ میں لوگوں نے بڑی بڑی مصیبتوں کے ساتھ بڑے بڑے کام کر ڈالے، امام سرخسیؒ کو ایک اندھے کنویں میں بندکر دیا گیا تھا انہوں نے اس وقت کو غنیمت جانا اور اپنی کتاب المبسوطؒ کی پندرہ جلدیں وہیں لکھیں ۔ امام قرطبیؒ نے مسلم کی شرح کشتی کے اوپر لکھی اور ابن تیمیہؒ نے تمام فتاویٰ گرفتاری اور قید کے دور میں لکھے۔ کیا اگر یہ لوگ بھی اپنی اس معذوری کو ذہنی طور پر قبول کر لیتے تو اتنے بڑے کام کر پاتے؟ ابھی کچھ نہیں بگڑا، نہ کبھی کچھ بگڑے گا، اُٹھیں اور پھر سے زندگی اور جیت کی اس دوڑ میں شامل ہو جائیں جس کا راستہ پھولوں اور خوشبو سے آراستہ ہے۔ کنفیوشس نے کیا خوب کہا ہے: "ہماری عظیم کامیابی یہ نہیں کہ ہم کبھی نہ گریں بلکہ ہر بار گر کر دوبارہ اُٹھنے میں کامیابی ہے۔ ناکامی کو ذہن پر سوار کرنے کی بجائے ان باتوں کو دماغ کی الماری میں سجالیں:

(1) ناکامی قدرت کی جانب سے اشارہ ہے۔

(2) ناکامی ہمیں کچھ نیا سکھانے آتی ہے۔

(3) اگر چلتے ہوئے ٹھو کر کھا کر گر جائیں تو کیا چلنا چھوڑ دیں؟

(4) ناکامی، درخت کے زر دیتے ہیں، تو کیا باقی درخت کو نظر انداز کر دوں؟

(5) کرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں۔

(6) ناکامی تو قبول کرنے کا نام ہے۔

(7) کوشش ترک کرنا حقیقی ناکامی ہے۔

(8) ناکامی وہ سپرنگ ہے جو نیچے کو آئے تو زور سے اوپر کامیابی کی جانب اچھال دیتی ہے۔

ناکامی کو مثبت ذہنی رویے سے کامیابی میں بدلیں، منفی سوچوں کو تھیلی میں بند کر دیں۔ نیا سوچیں، پھر سے پلاننگ کو دیکھیں، اگر کہیں پلاننگ میں Gap تھا تو اس گیپ کو پُر کیجیے، اگر ضرورت پڑے تو پھر سے پلاننگ کیجیے۔ یاد کیجیے سیکلز، مہارتیں، خوبیاں، Experties، شوق، جنوں، سوچیں، امیدیں آخر یہ سب کس فیلڈ میں آپ کو اوپر سے اوپر لے جاسکتی ہیں، یہ سب باتیں آپ میں موجود ہیں لیکن ان سے مطابقت رکھنے والی فیلڈ کون سی ہے؟ شکست کو صرف اس لئے تسلیم کریں کہ پھر سے سفر شروع کیا جا سکے، نہ کہ اس لئے کہ اسی جگہ ڈھیر ہو جائیں۔ اپنے اندر جھانکیں اور سوئی ہوئی کامیابی کو جگائیں، اقبال فرماتے ہیں:

موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا، وہ کیسا دہقان

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اس بندے کی دہقانی پہ سلطانی قربان

 

شکر گزاری کا جادو اور کامیابی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button