قبر میں ایک رات اور ایک گدھے کا حساب
قومی و ریاستی حقوق و فرائض سے چشم پوشی اختیار کئے ہوۓ حکمران، کیا ان ہزاروں راتوں میں سے کسی ایک رات کا حساب دے پائیں گے؟ تجزیہ و تحقیق نگار فاروق حارث العباسی کی چشم کشا تحریر


قبر میں ایک رات اور ایک گدھے کا حساب
ہزاروں سال پرانی تاریخ کسی بھی لحاظ یا اعتبار سے اپنی انفرادیت اور دلچسپی سے خالی نہیں ۔ دور جہالت کا یہ زمانہ جہاں ہر سو ظلم و جبر اور وحشت و بربریت کا راج تھا۔ وہاں گروہوں اور جتھوں میں منقسم جنگلوں، بیابانوں اور غاروں میں رہنے والوں نے بھی اپنی اپنی حکمرانی قائم کر رکھی تھی۔ ان کے بھی چند اصول اور قوانین تھے ۔ سرداروں کے سائے میں پلنے والے یہ گروہ یا جتھے اپنے علاقوں پر نہ تو کسی کو قابض ہونے دیتے اور نہ ہی کسی کی حاکمیت تسلیم کرتے۔ حکمرانی کا طرز انتخاب کسی شخص کی قوت بازو، دلیری، بے خوفی اور جنگجویانہ صلاحیتوں کے باعث عمل پذیر ہوتا۔ یہ وحشیانہ طرز عمل اور طرز زندگی انکے علاقائی و خونی ماحول کی ایک پہچان تھی مگر جوں جوں انسان شعور پکڑتا گیا، اس میں تبدیلیاں آتی گئیں اور پھر ہونے والی یہ تبدیلیاں اس مہذب، تعلیم یافتہ اور جامع قوانین کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو آج بھی وہی ظلم و جبر، وحشت و بربریت، حقوق کی پامالی، انسانیت سوز سلوک ہمیں اُسی طرح دیکھنے کو ملے گا۔
گو کہ حکمرانی کا طریقہ کار بدل چکا لیکن حاکموں کا چناؤ اسی طرز طریق یعنی زور بازو ہی پر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ جہاں نام "سردار” استعمال کیا جاتا تھا وہاں اب ”صدر“ استعمال کیا جانے لگا۔ سردار کے ساتھ جہاں چند طاقتور اور وحشی افراد اس کا دست و بازو ہوا کرتے تھے، وہاں صدر کے ساتھ اب ہزاروں مہذب وحشی اور درندے اس کا تحفظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آج کے اس جدید و ترقی یافتہ دور میں اگر دیکھا جاۓ تو دنیا کا سب سے طاقتور اور خوفناک وحشی (امریکی صدر) جو دنیا کے کسی قانون، کسی آئین اور کسی اخلاقیات کو تسلیم نہیں کرتا، وہ ایسا کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے جو اس کی انا کو تسکین پنہچانے کا باعث و موجب ہو۔ اس کی نگاہ میں دنیا کی چیخ و پکار کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی۔ یہی آج کی جدید ترین دنیا کا مہذب ترین وحشی سردار ہے جس سے ہزاروں سال قبل کے درندہ نما وحشی سردار کی روحیں بھی شرمسار ہیں۔ بہرکیف ! قانون قدرت کے تحت حساب تو ہوگا اور ہر ایک کا ہوگا، چاہے وہ آج کے جدید دور کے مہذب وحشی ہوں یا ہزاروں سال قبل کے حقیقی وحشی۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان اور یقین کامل ہے کہ ہماری زندگی کے گزرے ہوئے ایک ایک لمحے کا ہمیں پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ اپنی ذات تک محدود اپنی زندگی کا الگ حساب اور بطور حاکم اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کروڑوں عوام کا بھی حساب جن کی جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ اور آرام و آسائش کا وہ ذمہ دار ہے۔ جتنے بڑے اختیارات، اتنے بڑے حسابات۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا! کہ "دریائے دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر کو اس کا بھی جواب دینا پڑے گا” مگر اس کے برعکس یہاں تو لاکھوں نہیں کروڑوں انسان کتوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہزاروں بھوک ننگ اور افلاس کے باعث اپنے بچوں سمیت خودکشیاں و خود سوزیاں کر چکے مگر ہمارے یہ بے خوف حکمران پھر بھی بلند و بانگ دعوے کرتے اور خود کو اعلی ترین حاکم کہلوانے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔
ایک واقعہ بطور خاص اپنے قارئین کی نذر ھے کہ "حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رحلت کے سیکڑوں سال بعد تاریخ کا ایک طالب علم حضرت عمرؓ کا دور حکومت پڑھ کر آپ کا عاشق ہو گیا۔
وہ روزانہ پنجگانہ نماز کے بعد دعا کرتا کہ ”اے پروردگار خواب میں میری ملاقات حضرت عمرؓ سے ہو جائے” دعا کرتے کرتے چالیس برس گزر گئے ۔ وہ نوجوان بوڑھا ہو گیا ۔ بالآخر دعا قبول ہوئی اور ایک رات حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے خواب میں تشریف لائے۔ آپ کی پیشانی مبارک پر پیسنے کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ وہ شخص انتہائی خوش ہوا اور عرض کی کہ حضرت مجھے چالیس سال گزر گئے دعائیں کرتے ہوئے آپ اتنی دیر بعد تشریف لائے؟ آپ نے فرمایا! کہ میں جب سے دنیا سے گیا ہوں اپنی امور سلطنت کا حساب دے رہا تھا، اب فارغ ہوا ہوں اور بحکم ربی تم سے ملاقات کیلئے آگیا ہوں” یاد رہے کہ یہ وہ ہستی ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی جنہیں آپ کی زندگی ہی میں جنتی ہونے کی بشارت دے دی گئی۔ جن کے متعلق حضور نبیء کریمﷺ نے فرمایا کہ ” اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو میرے بعد آنے والا نبی عمر ہوتا ” ایک اور مقام پر فرمایا کہ "عمر شیطان تمہارے سائے سے بھاگتا ہے” پھر فرمایا ! "عمر تم جس علاقے سے گزرتے ہو شیطان وہ علاقہ چھوڑ جاتا ہے” حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا دور حکومت نہ کبھی دنیا میں آیا اور نہ کبھی تا قیامت آئے گا۔ اگر آپ کے امور سلطنت کے حساب کتاب کا یہ عالم ہے تو ذرا سوچئیے کہ پھر ہمارے ان حکمرانوں کے حساب کتاب کا کیا عالم ہوگا ؟
خراساں کے نیک سیرت بادشاہ ابراہیم ادھم (جو بعد میں ولائت کی بلندیوں پر فائز ہوئے) ایک روز آرام کی غرض سے اپنے محل کے کمرے میں داخل ہوئے۔ دیکھا کہ نوکرانی ان کے بستر پر لیٹی سو رہی ہے۔ آپ چونکہ بادشاہ تو تھے ہی لہذا یہ گستاخی اور بے ادبی دیکھ کر غصے کی انتہائی کو پہنچ گئے۔ پاس پڑی ایک چھڑی اٹھائی اور برے طریقے سے اسے پیٹنا شروع کر دیا۔
آپ جوں جوں اسے مارتے جاتے وہ آگے سے ہستی چلی جاتی ۔ اس کے کپڑے جگہ جگہ سے ادھڑ گئے اور اس ننھی کے نرم و نازک جسم سے خون بہنے لگا۔ یہ حالت دیکھ کر آپ یک لخت رک گئے، چھڑی پھینک دی اور اسے پیار کے ساتھ اپنے پاس بیٹھا لیا۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا! میں نے تمہیں اس برے طریقے سے مارا کہ تم لہولہان ہو گئی، بجائے چیخنے چلانے یا رونے کے تم آگے سے ہنستی رہی، کیوں؟ اس نے کہا بادشادہ سلامت! میں نے چند لمحوں کے لئے اس نرم و گداز بستر پر آرام کیا اور مجھے اتنی مار پڑی اور جو شخص مدتوں اس پرتعیش بستر پر آرام کرتا آرہا ہے اس کا کیا حال ہوگا؟ یہ سننا تھا کہ آپ غش کھا کر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔
لیکن آج اگر ہم اپنے حکمرانوں کی عیاشیاں اور ان کے طور طریقے دیکھیں تو ان کی یہ بے خوفی اللہ کے احکامات سےکھلی بغاوت دکھائی دیتی ہے۔
ایک مشہور ترک کہاوت ہے کہ "کسی ملک کے ایک بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ میرے مرنے کے بعد جو شخص مجھے دفنانے سے قبل ایک رات میری قبر میں گزارے گا میں اپنی آدھی سلطنت اس کے نام کر دوں گا۔ کئی روز گزر گئے مگر کوئی اس کیلئے تیار دکھائی نہ دیا۔ یہ خبر پھیلتے پھیلتے ایک کمہار تک بھی پہنچی۔ اس نے سوچا کہ میری یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے، نہ گھر نہ بار، نہ آل نہ اولاد، آجا کے ایک گدھا ہی تو ہے، اگر میں قبر میں مر بھی گیا تو اس کا کیا جائے گا۔ آزاد گھومے پھرے گا، کھاتا پھرے گا اور اگر بچ گیا تو آدھی سلطنت کا مالک بن جاؤں گا۔ یہ سوچ کر اگلے روز وہ محل کی طرف چل پڑا۔ محل کے قریب پنہچا تو محافظوں نے پکڑ لیا۔ بتایا کہ میں بادشاہ سلامت کی وصیت کے سلسلہ میں آیا ہوں چنانچہ اسے بادشاہ سلامت کے روبرو پیش کر دیا گیا۔
عرض کیا کہ بادشاہ سلامت میں آپ کی اس شرط کیلئے تیار ہوں چنانچہ باشادہ کے حکم سے وصیت تحریر کی گئی کہ میرے مرنے کے بعد یہ کمہار پہلی ایک رات میری قبر میں گزارے گا۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک روز بادشاہ مر گیا۔ وصیت کے مطابق فوج کے جوان گئے اور کمہار کو پکڑ لاۓ۔ قبر کھود دی گئی۔ رات ہوئی تو کمہار سے کہا گیا کہ چلو قبر میں لیٹ جاؤ۔ کمہار خاموشی سے قبر میں اترا اور لیٹ گیا۔ قبر کو تختوں وغیرہ سے ڈھانپ دیا گیا مگر چند ایک سوراخ رکھ چھوڑے کہ سانس لینے میں آسانی رہے۔ جونہی رات کی تاریکی چھائی ”منکر نکیر” آن پہنچے اور کہا کہ بادشاہ سلامت بیٹھ جائیں اور اپنی سلطنت کا حساب دینا شروع کریں۔ اس نے کہا جناب میں کوئی بادشاہ وادشاہ نہیں میں تو معمولی سا ایک کمہار ہوں اور یہ سارا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا اچھا! چلو پھر تم اپنا حساب دینا شروع کرو۔ فلاں دن تم نے اپنے گدھے پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال رکھا تھا جس کے باعث اس کا چلنا محال ہو گیا تھا، کیا وہ جاندار نہیں تھا، تمہیں اس پر ذرا برابر بھی رحم نہیں آیا؟ کمہار نے سوچا کہ یہ تو فرشتے ہیں، ان کے سامنے تو جھوٹ بھی نہیں بول سکتا، کہنے لگا! ہاں جناب ایک روز ایسا ہوا تھا۔ فرشتوں نے کہا، اچھا تو لیٹ جاؤ اور پھر اس کی خوب ٹھکائی کی۔ اب دوسرب سوال ہوا، فلاں دن تم نے بھوکا پیاسا سارا دن اس سے کام لیا اور ساتھ اس پر ڈنڈے بھی برساتے رہے، تمہیں اس پر ذرا ترس نہیں آیا؟ کمہار نے کہا جی جناب ایک دن یہ غلطی بھی مجھ سے ہوئی تھی۔ فرشتوں نے پھر اسے الٹا لٹا لیا اور خوب کوڑے برسائے۔ تیسرا سوال ہوا کہ فلاں دن تم اسے دھوپ میں باندھ کر خود سارا دن سائے میں آرام کرتے رہے، کیا تمہیں اس کا خیال نہیں آیا کہ وہ جاندار ہے، وہ دھوپ اور گرمی میں سڑتا رہا؟ کمہار نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ جناب عالی بس مجھے نیند نے آ لیا تھا اسے ساۓ میں کرنا یاد نہیں رہا۔ فرشتوں نے کہا کہ ابھی تمہیں یاد کراتے ہیں، یہ کہہ کر انہوں نے اس کی خوب دھلائی کی۔ اس طرح کمہار کی ساری رات حساب دیتے اور کوڑے کھاتے گزر گئی۔ صبح ہوئی تو بادشاہ کے وزیر مشیر آن پہنچے اور قبر کھولنے کا حکم دیا۔ قبر کھولی گئی تو کمہار زندہ سلامت قبر سے باہر نکلا آیا۔ وہاں پر موجود تمام ویزروں، مشیروں اور لوگوں نے اسے خوب مبارکیں دیں۔ وزیر خاص نے وصیت پڑھ کر سناتے ہوۓ اعلان کیا کہ اب تم بادشاہ سلامت کی اس آدھی سلطنت کے مالک ہو۔ اعلان سنتے ہی کمہار نے زور زور سے رونا شروع کر دیا اور یہ کہہ کر دوڑ لگا دی کہ
”مجھے کوئی سلطنت ولطنت نہیں چاہیے، میں تو ایک رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا، اس آدھی سلطنت کا حساب کیسے دونگا” سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے حکمران جو ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہوۓ برس ہا برس سے اقتدار پر قابض ہیں، ذرا اس پر بھی غور کریں کہ ان کے دور حکمرانی میں رعایا کی حالت زار کیا تھی، کیا ہے یا کیا رہی؟
قومی و ریاستی حقوق و فرائض یا حقوق العباد سے غفلت اور قرآن و سنت کے احکامات سے چشم پوشی اختیار کئے ہوۓ ہمارے یہ حکمران، اپنی حکمرانی میں گزاری ہوئی ان ہزاروں راتوں میں سے کیا کسی ایک رات کا بھی حساب دے پائیں گے؟