تاریخ کے اوراق

ظالم ہندو راجاؤں پر قہر ڈھانے والا بت شکن: سلطان محمود غزنوی

خاندان غزنویہ کے سب  سے عظیم سپوت سلطان محمود غزنوی کو بڑے طمطراق کیساتھ ہمارے عظیم قومی رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے '' ڈاکو '' کے خطاب سے نوازا

فاروق حارث العباسی

ظالم ہندو راجاؤں پر قہر ڈھانے والا بت شکن: سلطان محمود غزنوی

ایک بار حضرت عمرؓ نے ایک سیاح سے ہندوستان کے بارے میں پوچھا تو سیاح نے جواب دیا: ”وہاں کے دریا موتی، پہاڑ یاقوت اور درخت عطر ہیں۔ ”
فاتح عالم سکندر اعظم بھی ہندوستان تک پہنچا۔
انگریز نے بھی اسے” سونے کی چڑیا” قرار دیا۔ چنگیز خان ہو یا محمد بن قاسم، ہندوستان سب کی نگاہ کا مرکز و محور رہا۔
آئیے اب ایک نگاہ دوڑاتے ہیں خاندان غزنویہ کی طرف جس کے سب  سے عظیم سپوت سلطان محمود غزنوی کو بڑے طمطراق کیساتھ ہمارے عظیم قومی رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ” ڈاکو ” کے خطاب سے نوازا۔
اور معید پیرزادہ نے تو ہندو کی پیروی کرتے ہوئے حدہی کراس کر ڈالی یہ کہہ کر کہ محمود غزنوی (نعوذباللہ) ایک بدکردار شخص تھا اور جس ایاز کی باتیں علامہ اقبال نے گھڑ رکھی ہیں کہ ” ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز ” در حقیقت سطان محمود کو بدفعلی کی علت تھی اور اس نے ایاز کو اس نجس کام کے لیے رکھا ہوا تھا ورنہ کونسا بادشاہ یا سلطان ایسا ہے جو ایک غلام کو اپنے اتنے قریب رکھے۔
(نعوذباللہ من ذالک)

مجھے ان کے مسلمان ہونے پر شک ہی نہیں بلکہ مکمل یقین ہو چلاہے کہ یہ یا تو کیمونسٹ ہیں یا پھر مرتد اس لئے کہ سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ جیسی عظیم المرتبت ہستی جنہوں نے اپنی ساری زندگی دین اسلام کا پرچم بلند کرنے، قرآن کریم کے احکامات کی پیروی، عشق رسولﷺ اور اللہ رب العزت کے حضور رکوع و سجود میں گزار دی، ان کے متعلق ایسی بیہودہ و لغو گفتگو کرنے کی جرات کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔
اب ہم عظمت والے اس بابرکت خاندان کی طرف بڑھتے ہیں تاکہ قارئین اس سے مستفیدہوسکیں۔
خاندان غزنویہ:
(1):الپتگین:

سلطنت کے بعد الپتگین نے اپنے ترک غلام سبکتگین کو اپنی افواج کا سربراہ مقرر کیا۔ سبکتگین اوائل عمری ہی سے بے حد پھرتیلا اور بہادر ہونے کی وجہ سے الپت گین کی نظروں میں آچکا تھا۔

الپتگین نے پہلے سبکتگین کوامیر الامرا پھر وکیل مطلق مقرر کیا اور اپنی فوج کا سپہ سالار مقرر کرنے کے بعد اپنی بیٹی کی شادی سبکتگین سے کردی۔ الپتگین نے 15سال حکومت کی،9 ستمبر 976ء میں الپتگین کی وفات کے بعد اسکا بیٹا اسحاق جانشین ہوا مگر وہ حد درجہ نااہل ثابت ہوا اور محض دوسالہ اقتدار کے بعد ہی انتقال کرگیا اور یوں حکمرانی کا قرعہ سبکتگین کے نام نکلا۔
(2): امیر ناصرالدین سبکتگین:
امیر ناصر الدین سبکتگین، الپتگین کا زر خرید غلام تھا۔ جس نے سبکتگین کی فہم و فراست و شجاعت کو دیکھ کر بلند مرتبے پر فائز کیا اور لشکر کا سالار مقرر کردیا اس کے ساتھ دربار میں بھی بلند مقام پر بٹھایا۔سبکتگین کو الپتگین کا بیٹا ہی تصور کیاجاتا تھا۔ سبکتگین کے دور حکومت (977ء) میں ہندوستان میں کوہ بندھیاچل کے شمال میں تین راجے حکمران تھے۔مدھیا پردیش میں راجپوتوں کی حکومت تھی، گنگا کی زیریں وادیوں میں بالکے خاندان اور بمبئی کے ساحلی علاقوں مالوہ وغیرہ پر بکرماجیت کا ڈ نکا بج رہا تھا۔جو ہندو راجاؤں کا آفتاب کہلاتا تھا۔بکرماجیت کا دور علم و فضل کا دور تھا اور کوہ بندھیاچل کے جنوب میں آریا قوم کے تین گروہ تھے۔چیرا، جولا اور پانڈیا۔ بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کی صورت میں یہ تمام گروہ متحد ہوکر حملہ آور کو مغلوب کر لیتے تھے،یہی وجہ تھی کہ یہاں اسلام سست روی سے پھیلا۔ جب سبکتگین پہلی دفعہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس وقت لاہور سے لمغان اور ملتان سے کشمیر تک راجہ جے پال کی حکمرانی تھی۔
پہلا معرکہ پشاور اور کابل کے درمیان لمغان کے میدان میں ہوا۔گھمسان کی لڑائی جاری تھی کہ برف
اور باد و باراں کا طوفان امڈ آیا، سردی سے راجہ جے پال کے گھوڑے اور سپاہی تک اکڑ گئے۔ سبکتگین کے سپاہی اس سردی کے عادی تھے جبکہ ہندوؤں کے لیے یہ ایک مصیبت تھی۔جے پال نے سبکتگین کو پیغام بھیجا:
”سنو! راجپوتوں کا دستور ہے کہ جب مایوسی اور اضطراب میں کوئی راہ گریز دشمن سے نہ رہے تو ان کے پاس جو نقد و جنس ہوتا ہے آگ میں جھونکتے ہیں اور مویشیوں کو اندھا کردیتے ہیں۔اہل وعیال کو آگ میں ڈالتے ہیں پھر سب مر کر خاک ہوجاتے ہیں اور اسی کو دین و دنیا کی سرخروئی مانتے ہیں۔ سمجھ لو! اگر تمہارے لشکر کو بھاری طمع بھی صلح کرنے پر مجبور نہیں کرتا تو نقد و جنس کی جگہ راکھ پاؤ گے اور پچھتاؤ گے۔”
سبکتگین کا بیٹا اور سپہ سالار، محمود فیصلہ کن شکست دینا چاہتا تھا، لیکن جب جے پال نے تمام قیمتی سامان جلانے کی دھمکی دی تو اسے تسلیم کرنا پڑا۔ دس لاکھ شاہی درہم اور پچاس جنگی ہاتھیوں کے جنگی معاوضے پر اتفاق ہوا اور کچھ سرحدی قلعے غزنویوں کے حوالے کر دیے گئے۔ اس کے مطابق، جے پال نے چند غزنوی کمانڈروں کے ساتھ واپسی کا راستہ اختیار کیا جنہوں نے قلعوں کی ذمہ داری سنبھالنی تھی، جب کہ اس کے کچھ رشتہ داروں اور اہلکاروں کو سبکتگین کے پاس یرغمال بنا کر چھوڑ دیا گیا۔ جب جے پال اپنے علاقوں میں پہنچ گیا، تو اس نے معاہدہ منسوخ کر دیا اور کمانڈروں کو جیل میں قید کر دیا، غالباً وہ سبکتگین کو یرغمالیوں کے تبادلے پر مجبور کرنا چاہتا تھا۔
جے پال کی بد عہدی کے غصہ میں سبکتگین ایک آندھی و طوفان کی طرح دوبارہ پشاور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال ایک متعصب ہندو راجہ تھا اس نے مذہب کے نام پر دوسرے تمام راجاؤں سے مدد مانگی اور ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلے پر نکل آیا، مگر جلد ہی ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ سبکتگین کی افواج نے راجہ جے پال کے لشکر کا اٹک تک پیچھا کیا۔اس کے بعد لمغان تک سبکتگین کی حکومت قائم ہوگئی۔اس کی اولاد میں چودہ بادشاہ پیدا ہوئے جنہوں نے لاہور اور اسکے نواح پر حکومت کی۔999ء میں جب سبکتگین بیمار ہوا تو تبدیلی آب و ہوا کے لیے وہ غزنی روانہ ہوا مگر راستے میں ترمذ کے مقام پر پچپن برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور غزنی میں مدفن ہوا۔

(3):محمود غزنوی یلین الدولہ:

 

محمود غزنوی کی پیدائش سے پہلے سبکتگین نے خواب دیکھا تھا کہ اس کے گھر کے آتش دان سے ایک بڑا درخت ظاہر ہوا اور ایسا بڑھا کہ اس کے زیر سایہ ساری خلقت خدا بیٹھ گئی۔
سلطان محمود غزنوی (پیدائش یکم نومبر 971ء۔ وفات 30,اپریل 1030ء) کا پورا نام یلین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین ہے۔ 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنت غزنویہ کے حکمران رہے۔ انہوں نے غزنی کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کیا۔ ان کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخِ اسلامیہ کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔محمودغزنوی 971ء میں پیدا ہوئے۔ چھ برس کے تھے جب والدامیر ناصرالدین سبکتگین غزنی کے بادشاہ بنے۔محمود غزنوی پندرہ سال کی عمر میں اپنے والدکے ساتھ جنگوں میں شریک رہے اور ان کی بہادری اور جرأت کے چرچے ہونے لگے، چنانچہ سبکتگین نے اُن کو خراسان کا حاکم بنا کر بھیج دیا۔ تعلیم نہایت عمدہ پائی تھی، فقہ، حدیث، تفسیر کی کتابیں پڑھیں، قرآن مجید حفظ کیا۔ ابتدائی عمر میں فقہ پر خود بھی ایک کتاب بھی لکھی۔
ان کا گرز فوج میں محض چند لوگ ہی چلا سکتے تھے۔ان کا انصاف بے لچک تھا۔ ابوالفضل کے مطابق، کوئی بادشاہ ایسا نہیں گزرا جس کے پاس اسکے دربار میں محمود کے مقابلے میں علماء فضلاء زیادہ ہوں۔ جب سبکتگین کا انتقال ہوا تو اس وقت محمود غزنوی نیشاپور میں تھے ان کے چھوٹے بھائی اسماعیل کو تخت پر بٹھا دیا گیا جس کی عمر اس وقت صرف سولہ سال تھی جب محمود کو اس بات کا پتہ چلا تو
انہوں نے چھوٹے بھائی کے نام ایک خط روانہ کیا جس میں لکھا تھا کہ:
”امیر سبکتگین تمہارا پشت پناہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔ مجھے اس دنیا میں تم سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں۔ تمہاری عمر بڑی ہوتی اور تم تجربہ کار ہوتے تو میری یہی آرزو ہوتی کہ تم تخت نشین رہتے۔ باپ نے تمہیں جانشین مقرر کیا یہ ان کی مصلحت تھی اس لیے کہ تخت خالی رہتا تو معلوم نہیں کیسا فساد برپا ہوتا؟ وقت کا تقاضا ہے کہ اب انصاف اور شریعت کے مطابق دولت اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کئے لیتے ہیں، دارلسلطنت تم میرے حوالے کرو جبکہ بلخ و خراساں کی حکومت تم اپنے پاس رکھو” مگر اسمعیل نے بڑے بھائی کی اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے پیچھے درحقیقت چند امراء سلطنت اسمعیل کا حق فائق سمجھتے تھے کیونکہ اسکی ماں امیر الپتگین کی بیٹی تھیں جبکہ محمود کی ماں ایک زابلی سردار کی بیٹی تھیں۔ جب اسماعیل نے محمود کی حکم عدولی کی تو دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجہ میں محمود نے اسماعیل کو شکست فاش دی اور غزنی پر قبضہ کر لیا، محمود نے چھوٹے بھائی اسماعیل کو گرفتار کرنے کے بعد زندگی کی تمام آسائشیں مہیا کرتے ہوئے جرجان کے قلعے میں قید کر دیا۔یہ وہ وقت تھا جب سامانیوں کا ستارہ تقریبا” ڈوبنے کے قریب تھا۔ ان کے قافلے شاہراہ ریشم پر خال خال ہی دکھائی دیتے لیکن دوسری طرف ترکستان کے سردار ایبک خان کا ستارہ خوب چمک رہا تھا۔997ء میں محمود نے ہرات، بست، بلخ اور خراسان کو فتح کرنے کے بعد اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا۔ عباسی خلیفہ قادر بااللہ (991ء۔1031ء) نے محمود غزنوی کو خلعت اور عین الدولہ کے خطاب سے نوازا۔
محمود نے ایبک خان کی بیٹی سے شادی کرکے ایبک خاندان سے اچھے تعلقات کی بنیاد ڈالی اور دریائے آمو کو سرحد تسلیم کرکے ایبک خان کی سرحد بھی الگ کر دی۔ اس طرح ایک طرف کی سرحد سے مطمئن ہوکر اس نے ہندوستان کی طرف توجہ مبذول کی۔
سلطان محمود نے 33سال حکومت کی۔ اس نے اپنی سلطنت کو ایک طرف کاشغر تو دوسری طرف ملتان، سندھ اور لاہور تک وسیع کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں ہندو راج کا طوطی بولتا تھا۔ محمود غزنوی سب سے پہلے اگست 1001ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور شمالی ہند کے چند اضلاع پر قبضہ کر کے واپس غزنی چلے آئے۔
ہندوستان پر حملے
پہلا حملہ: محمود غزنوی 1004ء میں دوبارہ پشاور پر حملہ آور ہوئے اور اپنے باپ کے دیرینہ دشمن والیء لاہور راجہ جے پال کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔ اس شدید معرکہ آرائی میں راجہ جے پال کے پانچ ہزار سے زائد سپاہیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا جبکہ راجہ کو اس کے متعدد عزیزوں و جنگجوؤں سمیت زندہ گرفتار کر لیا۔ خراج دینے کا وعدہ کرکے راجہ نے اپنے عزیزوں و جنگجوؤں سمیت رہائی پائی۔ شکست کھانے کے بعد جب راجہ اپنے دارالخلافہ (لاہور) پہنچا تو ندامت و شرمندگی اور مذہبی روایت کے ہاتھوں مجبور ہو چکا تھا لہٰذا رواج کے مطابق راجہ چونکہ دو مرتبہ شکست کھانے کے بعد اب راج کرنے کا حقدار نہ رہا تھا چنانچہ جے پال نے راج پاٹ اپنے بیٹے آنندپال کے حوالے کیا اور رواج کے مطابق خود چتا میں جل مرا۔
دوسرا حملہ: 1004ء میں سلطان نے اگلا حملہ بھیرہ پر کیا جس کے اردگرد فصیل بنا کر خندق کھود دی گئی تھی۔ وہاں کے راجہ بیجے راؤ کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ وہ لشکر جرار کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلا۔ چار دن کی اس خونریزی میں دونوں فوجوں کا پلڑا برابر رہا۔ سلطان اللہ کے حضور سجدے میں گر کر گڑ گڑائے اور فتح و نصرت کی دعا کی۔ فتح و شکست کا یہ معرکہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ راجہ بیجے راؤ پیچھے ہٹتا ہٹتا بالآخر حصار میں آگیا، رات کچھ ڈھلی تو فرار کی کوشش کی مگر پکڑے جانے پر اس نے خنجر مار کر خود کو ختم کر لیا۔
تیسرا حملہ: والیء ملتان ابوالفتح داؤد بن نصر، شیخ حمید کا پوتا تھا۔ جس نے سبکتگین کی اطاعت قبول کرتے ہوئے خراج دینا شروع کر دیا تھا اور اس نے بھی بھیرہ کے محاذ پر راجہ بیجے راؤ کی ناکام مدد کی تھی۔ اگلے سال سلطان نے اس کو سزا دینے کے لئے اس پر لشکر کشی کی۔ اسلامی فرقوں میں ایک فرقہ قرامطی بھی تھا۔ سلطان کو خبر ہوئی کہ والیء ملتان ابوالفتح داؤد بھی اصل دین سے ہٹ کر قرامطی ہوگیا ہے اور وہ اہل ملتان کو بھی اسی باطل فرقے قرامطی میں شامل کرنا چاہتا ہے، جس پر سلطان کو شدید طیش آیا اور وہ 1006ء میں ملتان پر چڑھ دوڑے۔ ہندو راجہ آنند پال کا علاقہ راستے میں پڑتا تھا چنانچہ سلطان نے راجہ آنند پال سے اس کے علاقے سے گزرنے کی اجازت چاہی۔ راجہ آنند پال نے نہ صرف سلطان کو انکار کیا بلکہ ابو الفتح داؤد سے اپنے لیے مدد بھی مانگ لی اور آگے بڑھ کر بھنڈپور کے مقام پر سلطان کی فوج کا راستہ روک لیا۔ برسات کا مو سم تھا، تمام دریاؤں، ندی، نالوں کی روانی زوروں پر تھی مگر سلطان کی فوج راجہ آنند پال پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔ راجہ آنند پال اس شدید حملے کی تاب نہ لا کر کشمیر کی طرف بھاگ نکلا۔ جب ابوالفتح نے آنند پال کا یہ حال دیکھا تو اس نے عجیب چال چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سارا مال و اسباب اونٹوں پر لاد کر سراندیپ جانے کا ارادہ کر لیا مگر جونہی سلطان کو اس بارے علم ہوا اس نے ملتان کا محاصرہ کر لیا۔ والیء ملتان نے ہر سال بیس ہزار درہم دینے، کفروالحاد سے توبہ کرکے شرعی احکامات جاری کرنے کی شرائط پر صلح کی پیشکس کی جسے قبول کرتے ہوئے سلطان نے اسے والیء ملتان کے عہدے پر برقرار رہنے دیا اور بھٹنڈہ کا حاکم سیوک پال کو مقرر کر دیا۔ اس مہم کے دوران سلطان کو خبر ملی کہ ایلک خان کی فوجیں سرحدی علاقوں میں خرابی کررہی ہیں تو سلطان نے یہ مہم سیوک پال یا نواسہ شاہ کے سپرد کی اور واپس چلے گیے۔ (سیوک پاگ ایک نو مسلم سکھ تھا جس کا اصل نام نواسہ شاہ کے نام سے ملتا ہے)
چوتھا حملہ: 1007ء میں جب سلطان کو خبر ملی کہ نواسہ شاہ یا سیوک پال پھر سے مرتد ہو کر باغی ہو گیا ہے تو سلطان نے دوبارہ لشکر کشی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا اور عمر قید کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا۔

پانچواں حملہ: ملتان کی مہم کے وقت آنند پال نے سلطان کے ساتھ جو رویہ رکھا تھا، سلطان اس کی گوشمالی کے لیے دسمبر 1008ء میں دوبارہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ راجہ آنند پال بھی غافل نہ تھا اس نے سارے ہندوستان کالنجر، گوالیار، قنوج، دہلی اجین اور والیء ملتان سے بھی مدد مانگ لی۔سب راجاؤں نے اس بار مل کر سلطان کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ ہندو لشکر کی مدد کے لیے خواتین بھی پیچھے نہ رہیں انہوں نے زیور بیچ کر اورچرخہ کات کر پیسے لشکر کی مدد میں لگا دئیے۔ راجہ آنند پال اس معاملے میں اپنے باپ جے پال سے بھی دو ھاتھ آگے نکل چکا تھا، مسلمانوں کا لشکر پشاور کے قریب خیمہ زن تھا کہ راجہ جے پال نے اسے آلیا۔ چالیس روز تک دونوں افواج آمنے سامنے اپنے اپنے سپہ سالار کے حکم کی منتظر بیٹھی رہیں، سلطان کوئی نئی چال چلنے کی تدبیر میں تھا چنانچہ اس نے اپنے لشکر کے گرد خندق کھدوانے کا حکم جاری کیا۔
یہ کام مکمل ہونے کے بعد اعلان جنگ ہوا مگر ہر طرح سے لیس بیس ہزار گکھڑوں کا لشکر مسلمانوں کے لشکر میں گھسنے میں کامیاب ہوگیا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ سلطان کے چار ہزار سے زائد سپاہی مارے گئے۔ یہ معرکہ جاری تھا کہ اچانک مٹی کے تیل کا گولہ پھٹنے سے آنند پال کا ہاتھی بدک کر پیچھے کو بھاگا، جس سے آنند پال کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔ سلطان نے موقع غنیمت جانا اور بھگدڑ مچی فوج پر کاری ضرب لگائی جس سے دشمن کے حوصلے ٹوٹ گئے اور میدان کارزار سے فرار ہونے ہی میں عافیت جانی اس طرح اللہ تعالیٰ نے سلطان کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ دسمبر1008ء میں شروع ہونے والا معرکہ 3 مارچ 1009ء میں پایہء تکمیل کو پہنچا۔ہندو راجاؤں کی باہمی چپقلشیں ان کے اتحاد میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوئیں۔ اس معرکے میں سلطان کو مال غنیمت کی صورت میں بے پناہ دولت، نگر کوٹ (کانگڑہ) کا قلعہ اور تیس ہاتھی ملے۔اس کے بعد سلطان 1010ء میں اور پھر 1013ء میں بھی ہندوستان پر حملہ آور ہوا جس کے نتیجہ میں راجہ بھیم پال کا قلعہ نندنا ہاتھ لگا جبکہ تھانیسر پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ 1010ء میں ملتان پرکیے حملے میں اسماعیلیوں اور ہندوؤں کا قتل عام کیا۔ ابوالفتح کو گرفتار کرکے غور کے قلعے میں بند کردیا گیا جو بعد میں وہیں پر مر گیا۔ اس کے بعد سلطان نے محمد بن قاسم کی مسجد کو دووبارہ کھلوا دیا۔لیکن 1015ء میں کشمیر پر حملہ آور ہو کر سلطان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس وقتی شکست کے بعد سلطان نے1021ء میں کشمیر پر دوبارہ قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔
چھٹا حملہ: آنند پال بھی ہار ماننے والا نہ تھا محمود نے اس سے صلح کا معاہدہ کیا۔ آنند نے محمود کو تھانیسر پر حملہ کرنے سے باز رہنے کو کہا مگر محمود نہ مانا اور 1012ء میں تھانیسر پر بھر پور حملہ کیا۔ تھانیسر اس وقت دہلی کے ماتحت تھا، وہاں کے مندر میں ایک چکر سوامی نام کا بت تھا ہندوؤں کو اس سے بہت زیادہ عقیدت تھی۔ سلطان نے فتح کے بعد وہ بت وہاں سے اٹھوایا اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے غزنی بھجوا دیا گیا تاکہ اسے گلی کوچوں میں عبرت کے طور پر گھمایا جاسکے اور لوگوں دکھایا جاسکے کہ یہ ہے وہ جھوٹا خدا جس پر لوگ اندھا اعتقاد کیا کرتے تھے آج وہ خود اپنے ٹوٹے وجود کے ساتھ لوگوں کے رحم و کرم پرہے۔
سلطان کے حملے کے خطرے کے پیش نظر دلی کے بادشاہ نے بھی ارد گرد کے بہت سے راجاؤں کی مدد سے اپنی تیاریاں مکمل کر لی تھیں مگر سلطان کو وزیروں نے مشورہ دیا کہ جب تک پنجاب میں آنند پال کی حکمرانی موجود ہے دلی پر حملے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہئیے۔ سلطان نے مشورے سے اتفاق کیا اور بہتر جنگی حکمت عملی کی طرف توجہ دینے لگا۔ اسی اثناء میں 1012ء میں آنند پال کی اچانک موت واقع ہو گئی۔ اس کابیٹا ترلوچن پال اور پوتا بھیم پال ہندو شاہی سلطنت کے وارث بنے۔ بھیم پال چونکہ نہایت دلیر اور نڈر جنگجو تھا لہٰذا اس کی اس بہادری کی وجہ سے ہندو اسے ”نڈر بھیم” بھی کہا کرتے تھے۔
ساتواں حملہ: راجہ نند پال کے مرنے کے بعد 1013ء میں ترلوچن پال ہندو شاہیہ کا شاہ بنا اور اس نے اپنا پایہ تخت نندنہ کو بنایا۔ نندنہ کو قلعہ بالناتھ بھی کہا جاتا تھا۔ راجہ بنتے ہی ترلوچن پال نے محمود کو خراج دینا بند کردیا اور سلطان کے مقابلے کے لیے بھیم پال کو اپنی جگہ متعین کیا اور خود کشمیر کے راجہ سے مدد کے لیے روانہ ہو گیا۔ سلطان نے اس کی عدم موجودگی میں قلعہ بالناتھ پر چڑھائی کر دی اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ ایک خونریز جنگ کے بعد آخرکار 1013ء میں قلعہ فتح ہوگیا۔بھیم پال خفیہ راستے سے نکل کر کشمیر کی طرف فرار ہو گیا۔ اس محاذ پر ہندو راجاؤں نے شکست کھائی اور ترلوچن سرہند (مشرقی پنجاب) بھاگ نکلا اور اسی کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ ترلوچن اور بھیم پال مسلسل اپنی فوجوں کی تعمیر نو اور پیش آنے والی جنگوں کی حکمت عملی طے کرتے رہے۔
آٹھواں حملہ: دو سال بعد سلطان نے چند باغی سرداروں کو سزا دینے کے لیے کشمیر پر زبردست حملہ کیا۔سلطان کی نظر لوکوٹ کے قلعے پر تھی جو اپنی بلندی اور حدود اربعہ کی وجہ سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ موسم گرما میں سلطان لوکوٹ پر حملہ آور ہوا۔ برفباری شروع ہو چکی تھی جس کے باعث سلطان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا سلطان بغیر کسی نفع نقصان کے واپس لوٹ گیا۔
نواں حملہ: سلطان 1017ء میں ایک لشکر جرار لے کر براستہ کشمیر قنوج کی طرف بڑھا۔ قنوج کا راجہ نہایت شان و شوکت کا مالک تھا مگر دفاع سے قطعی غافل تھا چنانچہ اس نے بغیر جنگ کے سلطان کی اطاعت قبول کر لی۔ اس کی دیکھا دیکھی میرٹھ کے راجہ ہردیت رائے بھی مطیع ہوگیا۔ مہاون شہر کے راجہ کیل چند نے خوف اور مایوسی میں پہلے اپنے بیوی بچوں کو ذبح کیا اور پھر خنجر کی تیز دھار سے اپنی شہہ رگ کاٹ ڈالی۔ یوں یہ شہر بھی بغیر کسی لڑائی کے تسخیر ہوگیا۔سلطان لگ بھگ بیس دن انہی شہروں میں رکا رہا اور بیشمار مال غنیمت اکٹھا کرکے غزنی کی طرف بھجوا دیا۔ غزنی پہنچ کر سلطان نے ایک عالیشان مسجد تعمیر کرائی جسے وہ آسمانی دلہن کہا کرتا تھا۔ عظیم مصنفین کی کتب پر مشتمل ایک دارالمطالعہ اور ایک عجائب گھر بھی بنایا۔1019ء میں سلطان نے اپنی فتوحات کی سرگزشت لکھ کر بغداد کے عباسی خلیفہ ابوالعباس القادر بااللہ کے پاس بھیجی جسے پڑھ کر وہ انتہائی خوش ہوا اور اس سرگزشت کو ایک عظیم اجتماع کے سامنے بھی پڑھا گیا۔
دسواں حملہ: ہندوستان کے دوسرے راجاؤں کو اس بات کا بہت قلق تھا کہ قنوج کے راجہ کنور رائے نے سلطان کی اطاعت کیوں کی؟ چنانچہ انہوں نے متفقہ فیصلے کے بعد متحد ہو کر قنوج پر حملہ کر دیا۔ سلطان کو خبر ملی تو سلطان نے بھی قنوج کی طرف پیش قدمی شروع کر دی مگر اس کی آمد سے پہلے ہی کالنجر کے راجہ نندا نے قنوج پر قبضہ کر لیا اور کنور رائے کو قتل کر ڈالا۔

گیارواں حملہ: سلطان لاہور سے کالنجر کے راجہ کو سزا دینے کا ارادہ لے کر نکلا جس پر عمل کرنے کے لئے اسے دو سال تک انتظار کرنا پڑا۔ دو سال بعد سلطان نندا رائے پر حملہ آور ہوا جس نے بغیر لڑے اطاعت قبول کرلی، قیمتی تخائف وغیرہ دے کر جان بخشی کروائی۔

سومنات کا تاریخی مندر

بارھواں حملہ: سلطان محمود غزنوی کا بارھواں حملہ مشہور زمانہ سومنات کے مندر پر تھا جو کاٹھیا واڑ کے ساحلی علاقے میں واقع تھا۔ سلطان ستمبر 1024ء میں ترکستان اور ہمسایہ ممالک کے تیس ہزار جوانوں کے ساتھ حملہ آور ہوا۔سومنات کے مندر سے ہندوؤں کو بہت عقیدت تھی جو سوما ”دیوتا” کے نام سے منصوب تھا۔ یہ ” شو دیوتا ” کا ایک لقب ہے کیونکہ وہ سوم رس کا رسیا سمجھا جاتا تھا۔ سوم بھنگ یا اسی قسم کی نشہ آور بوٹی تھی جو شو دیوتا کو بہت مرغوب تھی اسی مناسبت سے شو دیوتا کو سوم ناتھ یعنی سنم کا مالک بھی کہتے ہیں، سوم رس دیوتاؤں کو بہت زیادہ مرغوب تھا۔
سلطان کا لشکر ملتان کے صحرا کو عبور کرتا ہوا سومنات جا پہنچا۔ تین دن کی جنگ میں سلطان کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ سلطان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوا پھر اپنے جرنیل ابوالحسن کا ہاتھ تھام کر اللہ اکبر کے دل شگاف نعرے بلند کئے اور پھر انہی نعروں کی گونج میں لشکر اسلام دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ ہزاروں کی تعداد میں دشمن دین کو تہہ تیغ کر دیا گیا، کچھ کشتیوں میں سوار ہوکر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ سلطان سومنات کے مندر میں داخل ہوا جہاں شو دیوتا مندر کے اندر ہوا میں معلق تھا۔ سلطان کے ہمراہ اس کا معتمد ساتھی ہارون موجود تھا۔ عرض کیا سلطان معظم میں پوری طرح جانچ کر لوں کہ کوئی باریک تار یا کوئی ایسی چیز تو نہیں جس کے ذریعے یہ بت اس طرح ہوا میں معلق کھڑا ہے؟ سلطان نے کہا ہاں دیکھو۔ ہارون آگے بڑھ کر بت کے قریب جا کھڑا ہوا اور تلوار میان سے نکال کر بت کے چاروں طرف اور اوپر نیچے چلائی مگر کوئی چیز بھی تلوار سے مس نہ ہوئی۔ اب ہارون کی حالت یہ تھی کہ حیرت سے منہ پھٹے کا پھٹا رہ گیا۔ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کے ساتھ بت لٹکایا گیا تھا بلکہ وہ بغیر کسی چیز یا سہارے کے ہوا میں معلق تھا۔ سلطان محمود اس کی یہ حالت تحیر دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا! کہو امتحان کر لیا تم نے؟

سومنات مندر کا اندرونی منظر

 

ہارون! جی سلطان معظم، سخت استعجاب ہے۔ سلطان نے پوچھا اب تم ہندوؤں کے عقیدے کے متعلق کیا کہتے ہو کہ یہ بت اپنے معجزے کی وجہ سے معلق ہے؟ ہارون نے عرض کیا میں اس بات کو نہیں مانتا۔
مسلمان مندر کی عمارت میں داخل ہو چکے تھے۔ جب انہوں نے اس کے ان عالیشان کمروں کو دیکھا جو درجہ بدرجہ تھے اور ان کی دیواروں میں ہیرے جواہرات و الماس کو جڑے ہوئے دیکھا تو انتہائی متعجب ہوئے۔ باہر کی روشنی اس مندر کے اندر نہیں آ سکتی تھی اگرچہ کمرے نہایت کشادہ، اونچے اور عالیشان تھے لیکن ان کے دروازوں کے سامنے دیواروں کے گھونگھٹ اس طرح قائم کئے گئے تھے کہ باہر کی روشنی کا عکس تک نہ آتا تھا۔ ان کمروں میں چھتیس ستون مرضع جواہرات کے لگے ہوئے تھے۔ سیکڑوں قندیلیں چھتوں میں آویزاں تھیں اور ان میں بھی ہزاروں جواہرات و الماس جڑے تھے۔ دیواروں میں نایاب ہیرے جواہرات نصب تھے اور ان الماس و جواہرات کی چمک سے کمروں میں رات میں بھی دن کی سی روشنی پھیلی رہتی تھی۔
اب سلطان محمود آگے بڑھ کر اس کمرے میں پہنچے جس میں سونے کی وہ موٹی زنجیر لٹک رہی تھی جس کا وزن دو سو من تھا اور جس میں بیشمار گھنٹے اور گھڑیال نصب تھے۔ سلطان نے انہیں دیکھا اور ان کی نظر چھت پر پڑی تو دیکھا کہ پورے کمرے میں سونے کی باریک تاروں کا جال بچھا ہوا ہے اور ان میں سونے کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں لٹک رہی ہیں۔
سلطان نے دریافت کیا کہ یہ گھنٹیاں، گھنٹے اور گھڑیال کس وقت بجائے جاتے ہیں؟
پاس کھڑے مہا پجاری نے عرض کیا! مہادیو سومناتھ جی کی پوجا اور غسل کے وقت۔
سلطان نے پھر پوچھا! کیا اس کے علاوہ کسی اور وقت بھی بجائے جاتے ہیں؟ مہا پجاری نے جواب دیا۔ جی نہیں بالکل نہیں۔
سلطان نے کہا جب یہ اکٹھے سب کے سب بجتے ہوں گے تب ان کی آواز تو بہت زیادہ اور دور دور تک جاتی ہو گی؟ مہاپجاری نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے۔
سلطان نے کہا اچھا! ایساہے تو بجا کر دکھاؤ ہم بھی سنیں۔
مہاپجاری نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس نے پنڈتوں کہ اشارہ کیا اور دو سو کے لگ بھگ پنڈتوں نے آ کر اس وزنی زنجیر کو پوری قوت کے ساتھ کھینچنا شروع کیا۔ زنجیر کے کھینچتے ہی گھنٹیاں، گھنٹے اور گھڑیال اسی پر شور آواز سے بجے کہ سلطان اور وہاں پر موجود دوسرے مسلمانوں نے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔ سلطان نے اشارے سے انہیں زنجیر کھینچنے سے منع کر دیا۔سلطان محمود غزنوی
پنڈت پیچھے ہٹ گئے۔ سلطان نے مہاپجاری سے کہا: تم تو کہتے تھے کہ گھنٹے گھڑیال صرف سومناتھ کی پوجا اور غسل کے وقت ہی بجائے جاتے ہیں اس کے علاوہ نہیں تو اس وقت پھر تم نے کیسے بجا دئیے؟
مہاپجاری نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا: حضور کے حکم کی تعمیل میں اس وقت بجائے گئے۔ سلطان نے کہا: مذہب کے سامنے کسی کے حکم کی تعمیل کوئی وقعت نہیں رکھتی اور یہ اگر سچ ہے تو سومناتھ سے زیادہ تم نے میرے خوف کے باعث میرا احترام کیا ہے جس سے ظاہر ہے سومناتھ سوائے پتھر کے بت کے اور کچھ نہیں۔
یہ کہہ کر سلطان آگے بڑھا اور اس چبوترے کے پاس جا کھڑا ہوا جس کے سامنے مہادیوجی کا بت ہوا میں معلق تھا۔داسیاں، پنڈت اور مسلمان سب با ادب اور خاموش کھڑے تھے۔ وسیع و عریض کمرے میں موت کا سناٹا چھایاہوا تھا، ہر ایک کی نگاہ سلطان پر تھی کہ اچانک سلطان کی آواز گونجی!
یہ وہ بت ہے جس کی عزت و عظمت ہندوستان بھر ہندوؤں کے دلوں میں روح کی طرح گھر کر چکی ہے جسے بچانے کے لئے بڑے بڑے راجہ مہاراجہ بڑے بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ آئے اور جی توڑ کر خوب لڑے لیکن نہ وہ اور نہ ان کا یہ خدا ان کی کوئی مدد کر سکا۔
میں آج اس نام نہاد باعظمت و جلال بت کا خاتمہ کرنے والاہوں۔ میرا گرز لایا جائے۔
یہ سن کر مہاپجاری، داسیاں اور تمام پنڈت خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔ مہاپجاری آگے بڑھ کر سلطان کے قدموں میں گر گیا اور گڑگڑا کر عرض کرنے لگا کہ عظیم سلطان رحم کیجئے ایسا ظلم نہ کیجئے کہ سارے ہندوستان کے ہندوؤں کے دل ٹوٹ جائیں۔
سلطان نے کہا کہ نہیں پجاری! اس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ پتھر کے ایک بیاصل بت کی پرستش کرتے رہے تھے اور صریح دھوکے میں پڑے ہوئے تھے۔
التونتاش نے گرز سلطان محمود کے سامنے پیش کیا۔ سلطان گرز لے کر چبوترے پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے کہا کہ ” اے پجاریو اے ہندوؤ! میں تمہارے اس معبود کے ٹکڑے کرنے والاہوں، تم اس سے کہو عمر بھر جس سے تم مانگتے رہے اور وہ تمہیں دیتا رہا کہ اب وہ میرے ہاتھوں سے خود کو بچائے یا میرا خاتمہ کر ڈالے”
مہاپجاری، تمام پنڈت اور داسیاں رونے اور گڑکڑانے لگے کہ ہم پر رحم کیا جائے۔ جتنی دولت آپ کو چاہیے ہم آپ کو دینے کے لیے تیارہیں۔تمام مال و زر ہیرے جواہرات سونا چاندی جو چاہیں لے جائیں لیکن ہمارے مہادیوجی کو نہ توڑیں۔ سلطان کی شدید غصے بھری آواز گونجی۔
خاموش!!! ہال نما کمرے میں پھر ایک دم موت کا سکوت طاری ہو گیا۔ سلطان کی آواز پھر گونجی!
تم نے غلط سمجھا کہ میں دولت کے حصول کے لیے یہاں تک پہنچا۔ میرے یہاں تک پہنچنے اور حملہ آور ہونے کی وجہ تمہارے راجاؤں مہاراجاؤں کو اچھی طرح معلوم تھی۔ میں نے اپنے قاصد کے ذریعے انہیں متنبہ کر دیا تھا لیکن انہوں نے میری عرضداشت پر توجہ دینے کی بجائے میرے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں تم سے بھی کہتاہوں کہ بت پرستی سے توبہ کر لو میں ابھی اور اسی وقت اپنی فوجوں کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا۔
مہاپجاری نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا سلطان معظم یہ ہمارے احتیار میں نہیں ہے۔
سلطان نے غضب ناک ہو کر کہا! ” تب تم اپنے معبود کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھو اور عبرت پکڑو ”
یہ کہتے ہی سلطان نے گرز اٹھایا اور ساتھ ہی بلند آواز سے یہ تاریخی الفاظ ادا فرمائے!
” ہیرے جوہرات سونا چاندی کا لالچ دے کر کیا تم مجھے بت فروش بنانا چاہتے ہو؟ میں بت فروش نہیں بت شکن ہوں ” یہ کہتے ہی سلطان محمود نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور گرز اٹھا کر پوری قوت کے ساتھ بت کے سر پر دے مارا۔
سلطانی ضرب سے لوہے کا بنا مضبوط بت کھل گیا اور چونکہ وہ اندر سے کھوکھلا تھا چنانچہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا۔
جونہی اس کا پیٹ پھٹا اس میں سے بیش بہا ہیرے، موتی، پکھراج، زمرد و لعل، سخ یاقوت، سنگ یمانی کے اتنے اتنے بڑے ٹکڑے برآمد ہوئے کہ ان کی چمک دمک سے تمام کمروں میں ایسی تیز روشنی پھیل گئی جیسے اچانک آفتاب چھت کو پھاڑ کر اندر کھس آیاہو۔
سلطان نے تمام زر و جواہر ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا اور سونے کی موٹی و پتلی تمام زنجیروں کو توڑا اور نکالا جانے لگا۔ سونے چاندی کی قندیلیں بھی اتار لی گئیں۔ در و دیوار میں لگے جواہرات اتارے جانے لگے۔ تہہ خانوں میں چھپائی گئی دولت نکال لی گئی۔ دو سو من وزنی سونے کی زنجیر کو سیکڑوں سپاہیوں نے مل کر اتارا۔ جب یہ سب کچھ ایک جگہ پر اکٹھاہو گیا تو چشم فلک نے شائد ہی کبھی ایسا منظر دیکھا ہو گا۔

یہاں پر ایک چیز واضح کرتا چلوں کہ یہ بت پتھر کا نہیں بلکہ لوہے کا تھا اور وسیع ہال کے وسط میں بغیر کسی سہارے کے معلق تھا جس کے باعث ہندوؤں کا ایمان اور پختہ ہو چکا تھا کہ مہادیوجی یا شودیو جی کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں اور اس دور میں واقعی یہ ایک انتہائی انوکھی بات تھی۔
اس کی حقیقت یہ تھی کہ پورے کمرے کی دیواروں، اس کی چھت اور فرش پر مقناطیس کے بڑے ٹکڑے اس طریقے پر نصب کئے گئے تھے جس کی کشش یکساں تھی اور جب لوہے کا وہ بت کمرے کے اس مقام پر لایا گیا جہاں اسے معلق کرنا تھا تو وہ مقناطیسی قوت کے سہارے آسانی کے ساتھ معلق ہو گیا جو ہندوؤں اور دیکھنے والوں کے لئے انتہائی حیرت انگیز تھا جس نے ان کے ایمان کو از حد مضبوط کر دیا تھا۔
المختصر سلطان نے سیم و زر اور جواہرات قلعہ میں لے جانے کا حکم دیا۔مسلمانوں نے اس بیشمار دولت کو مندر سے قلعہ میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔
اتنی دولت سلطان محمود کو کسی مہم میں ہاتھ نہ آئی تھی۔ سلطان نے دولت کا کچھ حصہ مدینہ منورہ بجھوا دیا۔ کچھ فوج میں مال غنیمت کے طور پر تقسیم کیا اور کچھ غرباء و مساکین میں تقسیم کیاگیا۔ باقی قومی خز

سلطان محمود غزنوی

انے میں ریاست کی فلاح و بہبود کے استعمال میں لایا جاتا رہا۔
سلطان کو علم و ادب انتہائی شغف تھا اس لئے ان کے دربار میں جس قدر اہل علم، شعراء اور دیگر مشاہیر روزگار جمع ہوتے تھے شائد ہی کسی اور شاہی دربار میں جمع ہوتے ہوں اسی لئے پروفیسر براؤن نے انہیں اغوا کنندہء علماء قرار دیا۔تہ حدیث نعمت کے طور پر ایک جامع مسجد اور ایک عظیم الشان مدرسہ بنوایا اور مدرسے کے ساتھ نہایت قیمتی و نادر کتب پر مشتمل ایک کتب خانہ قائم کیاگیا۔
وہ نہ صرف ایک سلطان تھے بلکہ بہت بڑے عالم دین بھی تھے۔ بقول امام مسعود بن شعبہ سلطان وقت کے بہت بڑے فقیہہ تھے۔ انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں سے ایک ”التفرید” فقہ کی کتاب ہے جو غزنویہ اور اس کے گرد و نواح میں متداول رہی۔سومنات کی فتح کے بعد غزنی کی طرف روانہ ہونے سے پہلے سلطان نے ایک نگاہ مندر پر ڈالی اور پھر ہارون کی طرف دیکھتے ھوئے فرمایا! ” کبریائی خدا کی چادر ہے، جو غرور و تکبر کرتاہے اس سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوجاتا ہے اور اس کا انجام ایسا  ہی ہولناک ہوا کرتا ہے”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button