دوائیاں چھوڑیں مطالعہ کی عادت اپنائیں
قدیم فرعونی ریاست نے جب پہلا کتب خانہ بنایا تو اس کے دروازہ پر لکھا گیا تھا کہ ''یہاں نفس کی غذا اور عقل کی دوا بانٹی جاتی ہے''۔

دوائیاں چھوڑیں مطالعہ کی عادت اپنائیں
رضوان اللّٰہ خان
انسان کی جسمانی بڑھوتری اس کی عمر، خوراک اور خاندانی جینز پر منحصر کرتی ہے لیکن اس کی صحت اور ایکٹیویٹی کا انحصار معیاری خوراک، صحت بخش آب و ہوا اور مناسب دیکھ بھال پر ہوتا ہے۔ ایسے ہی انسانی دماغ عمر کے ساتھ بڑھتا بھی جاتا ہے اور بے شمار صلاحیتوں کو اپنے اندر سموتا رہتا ہے۔ مگر یہ مثبت و منفی راستوں کو ماپنے کے قابل جب ہوتا ہے جب اس کو بھی باقی جسم کی طرح معیاری خوراک، صحت بخش آب و ہوا اور مناسب دیکھ بھال ملتی رہے۔ دماغ کے لئے معیاری خوراک سوچ بچار کرنا، کامیابی کے خواب دیکھنا نئی نئی باتیں سوچنا اور عمدہ علمی، ادبی، تاریخی، اور اصلاحی کتب کا مطالعہ ہے۔ دماغ کے لیے صحت بخش آب وہوا بڑوں کی محفلیں راہ، اہلِ علم و عمل کے ساتھ تعلق، علمی و عملی محافل میں شرکت اور اچھے دوست بنانا ہے جبکہ اس کی مناسب دیکھ بھال اس کو بری باتوں کو جمع کرنے والا پیالا بننے سے روکنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح کھانا جسم کی اور عبادت روح کی غذا ہے، بالکل اسی طرح مطالعہ عقل کی غذا ہے، مروی ہے کہ قدیم فرعونی ریاست نے جب پہلا کتب خانہ بنایا تو اس کے دروازہ پر لکھا گیا تھا کہ ”یہاں نفس کی غذا اور عقل کی دوا بانٹی جاتی ہے”۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ مطالعہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت وسیع اور انسان کی سوچ کو آزاد کرتا ہے، تاکہ زندگی کو بہتر طریقہ سے سمجھا اور گزارا جا سکے۔
ایک وقت تھا جب صرف قرطبہ شہر میں تین ہزار کے قریب کتب خانہ تھے، اس وقت یورپ کے بادشاہ، قرطبہ کے مسلمانوں سے تعلیم حاصل کرنے کو سعادت سمجھتے تھے، آج بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مطالعہ کا رجحان بہت زیادہ ہے اور ہم اس چیز سے دور ہیں، حالانکہ مطالعہ وقت کو قیمتی بنانے کا آسان ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان مختلف قوموں کی ثقافت، مختلف فنون کی معلومات اور دینی و دنیوی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ یقیناً انسان کی معلومات کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور جتنا آدمی کا مطالعہ اتنی آدمی کی شخصیت مضبوط ہوتی ہے۔ مطالعہ نہ کرنے کے لئے بہانہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہم تو فلاں اور فلاں زبان نہیں سمجھتے، دنیا میں جن زبانوں میں سب سے زیادہ ادب میں کام کیا گیا اور سب سے زائد کتب مرتب کی گئی ہیں ان میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ اردو ادب میں ادیبوں نے خوب کام کیا، کئی مصنفوں نے خوب کتابیں لکھیں لیکن ان سب کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ ان سب ادیب و مصنف اور علم اور قلم کار قابل تحسین ہیں جن کے قلم اُٹھانے کا مقصد معاشرے کو مثبت اور ترقی کی راہ پر لگانا ہو۔
لکھنو کے بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر کی جانب سے کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق اردو زبان کے اشعار کا مطالعہ ناصرف آپ کی روح کو سرشار کرتا ہے، بلکہ یہ آپ کے دماغ کے لیے بھی اکسیر ہے۔ اس سے پتہ چلا ہے کہ اردو ادب کے اقتباسات دماغ کی ترقی میں مدد دیتے ہیں۔ اس تحقیق کو ایک بین الاقوامی سائنسی جریدے نیورو سائنس لیٹرز نے اپنی اشاعت میں بھی شامل کیا،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبان وادب کے مطالعے میں فرنٹل برین کی اہم شمولیت ہوتی ہے، دماغ کا یہ حصہ فیصلہ سازی، بھلے میں سے بُرے کی شناخت کی صلاحیت جذبات پر قابو، کشیدگی کے ساتھ نمٹنے، اطلاعات کا تجزیہ کرنے جیسے بہت سے کاموں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اردو سیکھنے سے بھی دماغی خلل کو روکنے میں مدد ملتی ہے، اس یہ عمل سیکھنے میں مشکلات کا شکار بچوں کی مدد میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کے علاوہ یہ عمل سیکھنے میں مشکلات کا شکار بچوں کی مدد میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
مطالعہ میں کمی کی ایک وجہ ٹی وی اور جدید میڈیا، انٹرنیٹ، فیس بک، کمپیوٹر وغیرہ بھی ہے۔ حالانکہ یہ ذرائع مطالعہ کرنے میں بھی مفید و معاون ہو سکتے ہیں، پہلے کسی کتاب کو حاصل کرنے کے لیے لائبریری جانا پڑتا تھا، اب انٹرنیٹ پر لائبریریاں موجود ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ مطالعہ نہ کرنے والوں کا ایک عذر وقت کی تنگی کا ہے، تاہم اگر ہم اپنے اوقات کا جائزہ لیں تو گھنٹوں فضولیات میں برباد کر دیتے ہیں۔ مثلا رات کو دیر تک TV پر مختلف پروگرام دیکھتے رہنا ، فیس بک پر دوستوں سے Chat کرتے رہنا یا عصر کے بعد دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کرنا، اس کے علاوہ صبح بھی دیر سے اُٹھتے ہیں اور اچھا خاصا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ ملازمت ہو یا تجارت عام طور پر شہروں میں صبح 9 یا 10 بجے ہی کام شروع ہوتا ہے، لہذا ایک مسلمان اگر فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے تو گرمیوں میں چار گھنٹہ اور سردیوں میں تین گھنٹہ اس کے پاس وقت رہتا ہے جس میں سے ایک گھنٹہ با آسانی مطالعہ کے لیے فارغ کیا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بات یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر میں بہت سی کتابیں جیلوں اور کال کوٹھریوں میں بیٹھ کر بھی لکھی گئی ہیں۔ سماج سے کٹ کر رہنا انسان کی فطرت میں شامل نہیں، اس کے لیے کسی سزا سے کم نہیں کہ اسے اپنوں سے اور معاشرے سے الگ تھلگ کر کے رکھا جائے۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون و حکمران سزا کا نفاذ قید تنہائی کی صورت میں مجرموں کو دیتے آئے ہیں۔ ان قیدیوں میں خطر ناک مجرموں کرپٹ اور آپسی نفرتوں کی وجہ سے جیلوں میں آنے والے سیاستدانوں سے لے کر وہ سب شامل ہوتے ہیں جو حق کی آواز اُٹھانے کے جرم میں جابر حکمرانوں سے ٹکر لے بیٹھے۔ جیل کی چار دیواری میں محسوس یہ لوگ اپنی ذات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ قیدیوں کا مشاہدہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ سوچ و فکر تو ادیبوں کا خاصہ ہوتی ہے اور پس زنداں یہ لوگ بھی تخلیقی صلاحیتوں کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے قلم و قرطاس کا سہارا لیتے ہیں اور پس زنداں رہنے والوں کی تخلیقات پوری آب و تاب کے ساتھ ادب کی دنیا میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہیں۔
آخری مغل بادشاہ کی قید تنہائی میں لکھی گئی شاعری بھی اسب ضمن میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی نے جیل میں ” مشاہدات زندان“ کے عنوان سے کتاب لکھی جو کہ ادب میں اہم درجہ رکھتی ہے۔ مولانا علی جو ہر نے اپنی کتاب کلام جو ہر کا کافی حصہ اسیری میں ہی لکھا۔ شورش کا شمیری کی قید خانے میں لکھی کتاب ” پس دیوار زنداں“ معروف سندھی ہی اپنی جگہ ایک نام رکھتی ہیں۔ شاعر شیخ ایاز کی ساہیوال جیل میں لکھی ڈائری ہو یا پھر سید علی گیلا نی کی روداد اسیری کا حال سنائی ان کی کتاب ” روداد قفس ہو سب ہی اپنی جگہ ایک نام رکھتی ہیں ۔
ہاں میں باغی ہوں“ بھی جیل میں لکھی گئی جو اس آپ بیتی کا تذکرہ ہے جسے مخدوم جاوید ہاشمی "پسِ زنداں” کی صورت لکھتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی نے بھی زندگی کے تلخ تجربوں کو جھیلتے قید کی تنہائیوں میں چاہ یوسف سے صدا قلم بند کی۔ ایک منفرد اور حریت پر مبنی کتاب "آئینہ” کشمیری حریت پسند ڈاکہر افضل گورو شہید نے بھی لکھی جن کو بھارت نے چند سال قبل انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے جھوٹے الزام میں پھانسی پر چڑھا دیا، اس کتاب کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں محمد افضل نے اپنی آپ بیتی یا خود پر ہونے والے ظلم کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا بلکہ عقوبت خانے میں پڑا یہ نوجوان اپنی کتاب میں اپنی کشمیری عوام کو دینے کے لیے حریت کا تحفہ قلم بند کرتا رہا۔
میدان ادب کا ہو، کہانی کا ہو، افسانہ نگاری کا ہو، تاریخی ہو یا تعمیری، حقیقت یہ ہے کہ کتاب لکھنا بھی ایک فن ہے اور اس فن میں کامیاب وہ ہیں جنہوں نے اپنے دل کو نکال کر قارئین کے سامنے کتاب کی صورت میں پیش کر دیا۔ مصنفین کتابیں لکھتے رہے اور لوگ پڑھتے رہے۔ ان کتابی تخلیق کے کاموں میں ہر ایک نے اپنے فن اور احساس کو دوسروں کے سامنے پیش کر دیا۔ بہت سی کتب اور ان کے مصنفین باعث تنقید رہے ہیں اور بہت سی کتب اور ان کے مصنفین لوگوں کے دلوں میں راج کرنے لگے۔ پاکستانی مصنفین میں سعادت حسن منٹو کو کافی نام ملا مگر بدنام بھی کم نہ ہوئے، بہت سے اہل علم ہی ان کی کتب کو فحاشی پر مبنی کہنے پر مجبور ہوئے جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے۔ دوسری جانب قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، عمیرہ احمد، قرۃ العین جیسے لکھاری سامنے آئے جن کو پڑھنے والے ہمیشہ ان کے متعلق مثبت گفتگو کرتے نظر آئے۔ کسی دانا نے کتابوں کی 3 اقسام بیان کی تھیں:
وہ جنہیں صرف سونگھا جاتا ہے
د وہ جنہیں چکھا جاتا ہے
وہ جنہیں چبایا یا ہضم کیا جاتا ہے۔
یوں تو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے اپنی طویل کتابوں میں معاشرے کی برائیوں سے بچنے کی ترغیب دی ہے لیکن حال ہی میں زندہ لکھاریوں میں سے معروف مصنف اور افسانہ نگار جناب اختر عباس کہ جن کی ہر کتاب سونگھنے کے بعد خود ہی چکھنے اور پھر اس کو ہضم کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں نے بھی ایسا ہی فرض اپنی ان مختصر کتابوں میں ادا کر دیا ہے لیکن ان موضوعات پر جن پر بات کرنا دشوار ہو چکا۔ اختر عباس نے حال ہی میں نوجوانوں اور ان کے والدین کو وہ باتیں کرنے، سننے اور سمجھنے کی طرف زور دیا ہے جو باتیں عموماً معاشرے میں اس لئے نہیں کی جاتیں اور اپنے بچوں سے چھپائی جاتیں ہیں کہ شائد یہ بے شرمی ہو حالاں کہ اگر وہ پہلے اپنے بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کردیں تو کل کو بدنامی اور بچوں کی زندگی عذاب بننے سے بچ سکتی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے Wake Up Series کے نام سے 4 مختصر مگر جامع کتا بیں شائع کیں ہیں، جنہیں اردو ادب میں شاہ کار کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ یہ سیریز نوجوان نسل اور ان کے والدین کو اللہ سے محبت کی طرف رغبت دلانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہم جنس پرستی، نوجوان لڑکیوں کی زندگیوں کا برباد ہونا اور الیکٹرانک میڈیا کے کردار سے آگاہ کرتی ہیں تو ساتھ ساتھ ان برائیوں سے بچنے کی خوبصورت انداز اور محبت بھرے لفظوں میں تلقین بھی۔ اس سیریز کے بعد وہ Save The Next Generation کے نام سے سیریز جاری کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
میری نظر میں ایسی تمام کتب کا مطالعہ آج کی نوجوان نسل کی لئے بے حد ضروری ہے اور مطالعہ کے بعد جو کچھ آپ نے پڑھا ہے اسے اپنے آس پاس کے افراد، اہل خانہ، دوستوں سے Share کریں، اس سے آپ کو یاد بھی رہے گا اور دوسروں تک بات بھی پہنچ جائے گی۔ مطالعہ مثبت اور تعمیری فکر کے ساتھ ہو۔ کوشش کریں کہ جو کتاب مطالعہ کرنا ہے اسے خرید لیں۔ اس طرح آپ کی اپنی لائبریری قائم ہو جائے گی۔ ایک مسلمان کو اپنے مطالعہ میں قرآن مجید، سیرت مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، تاریخ اسلام کو ضرور شامل کرنا چاہیے، اس کے بعد حسب ضرورت و صلاحیت مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
rizwan.akhi606@gmail.com