قومی خبریںتاریخ کے اوراقمشرق ایکسکلوزیو

سید علی گیلانی جدوجہد و استقامت کا لازوال کردار

دنیا بھر میں کشمیری اور اہلِ پاکستان یکم ستمبر کا دن اس بطلِ حریت کی یاد میں مناتے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی

87 / 100 SEO Score

سید علی گیلانی جدوجہد و استقامت کا لازوال کردار

تحریر: محمد عارف ملک

سید علی گیلانی
عارف ملک
دنیا بھر میں کشمیری اور اہلِ پاکستان یکم ستمبر کا دن اس بطلِ حریت کی یاد میں مناتے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی۔ سید علی شاہ گیلانیؒ 2021 میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے مگر ان کی شخصیت، افکار اور قربانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ وہ نہ صرف کشمیری عوام کے لیے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک مثالی رہنما تھے جنہوں نے مرتے دم تک ظلم و جبر کے سامنے کبھی سر نہ جھکایا۔

سید علی گیلانیؒ 29 ستمبر 1929 کو وادیٔ کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک گاؤں زوریمانز میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کرنے کے بعد لاہور کے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا جہاں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ نوجوانی ہی سے ان میں اسلام اور آزادی کا جذبہ موجزن تھا، اسی جذبے کی بنیاد پر ان کی بعد کی پوری زندگی آزادی کی جد وجہد میں گزری۔

سید علی گیلانی
سید علی گیلانی
 سید علی گیلانیؒ نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ وہ کئی بار مقامی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انیس سو بہتر سے انیس سو ستاسی کے دوران وہ حلقۂ انتخاب سوپور سے تین بار کامیاب ہوئے۔ لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ بھارتی پارلیمانی نظام کشمیری عوام کے حقیقی مسائل کا حل ہونا ممکن نہیں تو انہوں نے اپنی سیاست کو مکمل طور پر تحریکِ آزادی کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ جدوجہدِ آزادی کی علامت سمجھے گئے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں جب کشمیری عوام نے مسلح مزاحمت کا آغاز کیا تو سید علی گیلانیؒ نے سیاسی محاذ پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ذریعےفعال قیادت کا کردار ادا کیا۔ 2004 میں انہوں نے اپنی جماعت "تحریکِ حریت” قائم کی تاکہ خالصتاً جدوجہدِ آزادی پر توجہ دی جا سکے۔ سید علی گیلانیؒ کو "بابائے حریت” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے کبھی مصلحت یا ذاتی فائدے کو ترجیح نہیں دی اور ہمیشہ اصولی مؤقف پر ڈٹے رہے۔
سید علی گیلانیؒ کا بنیادی مؤقف یہ رہا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دیا جانا چاہیے۔ ان کا مشہور نعرہ "ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” ہر کشمیری کے دل کی آواز بن گیا۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت آزادی کے مقصد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اسی پختہ نظریے نے انہیں عوامی سطح پر بے پناہ مقبولیت دی۔
سید علی گیلانیؒ کی زندگی کا بیش تر حصہ بھارتی جیلوں اور نظر بندیوں میں گزرا۔ عمر کے مختلف ادوار میں انہیں کئی بار گرفتار کر کے گھروں میں قید رکھا، سفری پابندیاں عائد کی گئیں اور یہاں تک کہ علاج معالجہ کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ مگر انہوں نے ہر کڑے وقت میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ان کی شخصیت اس بات کی مثال ہے کہ ظلم و جبر بھی عزم و ایمان کو شکست نہیں دے سکتا۔
یکم ستمبر 2021 کی رات سید علی گیلانیؒ طویل نظر بندی کے دوران اپنے گھر حیدرپورہ، سرینگر میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کے بعد بھارتی حکام نے وادی بھر میں کرفیو نافذ کر کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بند کر دی، اور ان کے جنازے میں عوامی شرکت کو جبراً روکا۔ ان کی میت کو رات کے اندھیرے میں قابض فوج کے سخت پہرے میں دفن کیا گیا جبکہ ان کے اہلِ خانہ کو سید علی گیلانیؒ کی آخری خواہش کے مطابق تدفین کرنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ قابض فوج کا یہ عمل کشمیری عوام کے دلوں میں مزید زخم چھوڑ گیا لیکن ساتھ ہی سید علی گیلانیؒ کی قربانیوں کو اور زیادہ اجاگر کر گیا۔
پاکستان نے 2020 میں انہیں "نشانِ پاکستان” جیسے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا۔ پاکستانی قیادت ہر برس ان کی برسی پر خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں موجود کشمیری کمیونٹی سیمینارز، ریلیاں اور دعائیہ اجتماعات منعقد کرتی ہیں تاکہ ان کے افکار کو زندہ رکھا جا سکے۔سید علی گیلانیؒ کی استقامت نے انہیں نہ صرف کشمیر بلکہ عالمی سطح پر بھی جدوجہدِ آزادی کی علامت بنا دیا۔
سید علی گیلانیؒ کی پوری زندگی کا یہی پیغام ہے کہ ظلم کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے۔ انہوں نے نوجوان نسل کو ہمیشہ تعلیم، کردار اور قربانی کے ذریعے جدوجہد کرنے کی تلقین کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی قربانی مانگتی ہے اور جب تک کشمیری اپنی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے، آزادی کی شمع کبھی نہیں بجھ سکے گی۔
سید علی گیلانیؒ کی برسی صرف ایک یادگار ہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم اور کشمیری عوام کے لیے تجدیدِ عہد کا دن ہے۔

حریت رہنما مقبول احمد بٹ کی داستان شجاعت

سید علی گیلانی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button