صحت و غذا

کیا آپ یا آپ کا بچہ ’’ڈپریشن“ کا شکار ہیں؟

ڈپریشن کیا ہے؟ کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے؟ آئیے جانتے ہیں! امریکن ماہر نفسیات کی رائے اور تحقیق پر مبنی شہزاد عابد خان کی تحریر

کیا آپ یا آپ کا بچہ ’’ڈپریشن“ کا شکار ہیں؟

خواہ آپ نوکری کی تلاش میں در بدر گھوم رہے ہوں یا اپنے قرض خواہوں سے پریشان،20 سال کی عمر میں پہنچنے تک آپ کو اپنی زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لئے بہت سی مشکلا ت کا سامنا کرنا پر سکتا ہے۔ اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ اس عمر کو ہم جوائے منٹ سے منسلک کرتے ہیں لہٰذا اس عمر میں کسی قسم کی فکر لاحق ہونا یا نظر آنا ایک عام بات نہیں ہے۔
نئے بالغ ہونے والے اپنے بچپن اور نوجوانی کی دہلیز سے باہر آچکے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں اپنا راستہ بنانے کی کوشش میں ہیں،جو نئی نئی تبدیلوں اور غیر یقینی ماحول سے ان کا تعارف کروانے والی ہے جس سے ان کی طبیعت میں اُداسی اور چڑچڑے پن کا عنصر پیدا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر سٹیورٹ گولڈمین بوسٹن چلڈرن ہسپتال کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ”دنیا کی بھیڑ میں شامل ہونا مطلب،اپنی ایک شناخت اپنانا،ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے خود کو تیار کرنا اور اپنے مستقبل کے لئے مظبوط بنیادوں پر کام شروع کرنا ہے“۔اُن کامزید کہنا ہے کہ ”ایک نوجوان کو ان تمام مسائل کا سامنا زندگی کے 20 ویں سال سے شروع ہو جاتا ہے جو ان کو ڈپریشن کا شکار کر کے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے“۔ ان تمام چیلنجز کا سامنا ایک بالغ اُس دور میں کرتا ہے جب کہ اُس کا دماغ ابھی مکمل طور پر پختہ نہیں ہوا ہوتا۔دماغ کا وہ حصہ جو ان تمام مسائل کو محسوس کر رہا ہوتا ہے وہ ایک انسان کی عمر کے 25ویں سال تک اپنی گروتھ کو مکمل کرتا ہے۔ ڈاکٹر سٹیورٹ گولڈمین کے مطابق زیادہ تر لوگ جو جنیاتی طور پر ڈپریشن کے معاملے میں کمزور ہوتے ہیں وہ اس کا پہلی دفعہ شکار 14سے 24 سال کی عمر میں ہوتے ہیں۔
کیا آپ ڈپریشن کا شکار ہیں؟ اس بات کو چانچنے کے لئے ڈاکٹر سٹیورٹ گولڈمین نے کچھ ایسے اشارے مرتب کئے ہیں جن کو سمجھ کر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ایک نوجوان کی دماغی کیفیت کیسی ہے۔

مشاغل سے دور رہنا:

زندگی کے مشاغل سے دور بھاگنا ڈپریشن کی نشانی ہوتی ہے۔اس عمر کے لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر تو جاتے ہیں مگر وہ سوشل معاملات سے خود کو دور کرلیتے ہیں،عام مشاغل میں حصہ نہیں لیتے اور اپنے آپ کو لوگوں سے دور کرتے ہوئے اکیلے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

خود کو کمزور تصور کرنا:

ڈپریشن کے شکار لوگ اُمید کھونے لگتے ہیں اور جب امید کو ختم کرلیتے ہیں تو کسی قسم کا مشورہ قبول نہیں کرتے۔خود کودوسروں کے مقابلہ میں کمتر تصور کرنا شرورع کرلیتے ہیں اور کمزوری کا شکا ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک ایسی کیفیت ہے کہ وہ بستر سے خود اُٹھنے کے قابل نہیں رہتے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔

توجہ کھو لینا:

ایک ایسا ذہن جس میں منفی خیالات آنے شروع ہو جائیں تو وہ کسی ایک بات پر مکمل توجہ نہیں دے پاتا۔خاص طور پر اُس وقت جب کریئر کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو،کسی دوسرے شہر میں شفٹ ہونے کے بارے میں سوچنا،اپنے روزگار کے معاملے میں خود کفیل ہونا یاجیون ساتھی جیسے فیصلے کرنا پڑیں۔ایسے ہی عدم توجہی یا جانتے ہوئے زندگی کے مسائل سے نظر چرانا آپ کی خود اعتمادی کو تباہ کر دیتیہیں۔

نیند کا نہ آنا:

ڈپریشن کے شکار نو جوان اکثر صبح 4یا5 بجے کے بعد سو نہیں سکتا۔ڈاکٹر سٹیورٹ گولڈمین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے شکار افراد میں ایک خاص قسم کے ہارمونزمیں ایسی تبدیلی ہوتی ہے جو صبح کے وقت اُن کو سونے نہیں دیتی۔

منشیات کا استعمال کرنا:

اپنی سوچوں اور تکالیف سے چٹکارہ پانے کی غرض سے اکثر ایسے نوجوان الکوحل یا دوسری منشیات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں،اُن کے خیال میں و ہ اپنی تکالیف اور پریشانیاں کم کر رہے ہوتے ہیں۔

وزن میں تبدیلی:

ڈپریشن کے مریض اکثر ایسی حالت میں اپنی خوراک کی طرف توجہ نہیں دیتے اور وہ بہت تیزی سے اپنا وزن کم کر بیٹھتے ہیں جبکہ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسی حالت میں زیادہ کھانے لگتے ہیں اور فربہ مائل ہو جاتے ہیں۔وہ ایسا اپنی ذات کو سکون دینے کی غرض سے کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سٹیورٹ گولڈمین نے اپنی تحقیق میں والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کو چاہئے کہ جب اُن کے بچے 18 سال کے ہو جائیں تو وہ اُن پر خاص توجہ دیں اور یہ توجہ 25 سال کی عمر تک کے لئے ہونی چاہیے کیونکہ یہ وہ دور ہوتا ہے جب اُن کے بچوں کو بہتر فیصلوں کے لئے کسی بڑے یا سمجھ دار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں پر ڈاکٹر نے یہ بھی کہا کہ اس عمر میں بچوں کو اُس حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے فیصلے خود سے کرسکیں۔ آخر میں ڈاکٹر سٹیورٹ گولڈمین نے کہا ہے کہ ڈپریشن ایسا مرض نہیں ہے کہ اس کا علاج نہ کیا جاسکتا ہو، ایسی صورت حال میں بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اپنے بچے پر خصوصی توجہ دیں یا کسی ماہر نفسیات کی رہنمائی حاصل کریں اوراس مرض سے نجات پائیں۔

رائی کے دانوں کا استعمال صحت کی ضمانت

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button