مشرق اردو ادب

رخِ بے کل (برائی اپنے ہی دلدل میں خود آ پھنسی)

عمل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ جانتی تھی اسامہ ہوگا۔ جب اس کی ہمت جواب دے گئی تو اس نے ہی اسامہ کو فون کر کے بلایا تھا۔ اسامہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ ایک ہاتھ میں کپڑوں کا بیگ تھا اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ

رخِ بے کل

تحریر: ڈاکٹر فرح زاہد

عمل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ جانتی تھی اسامہ ہوگا۔ جب اس کی ہمت جواب دے گئی تو اس نے ہی اسامہ کو فون کر کے بلایا تھا۔ اسامہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ ایک ہاتھ میں کپڑوں کا بیگ تھا اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھا۔ عمل اسامہ کو دیکھتے ہی روہان سی ہو گئی۔ شائد یہ ضبط کی سب سے کمزور گھڑی تھی۔۔۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ تھک چکی ہے۔ وہ دوڑ کر اسامہ سے لپٹ گئی۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر اسامہ کا بھی ضبط ٹوٹ گیا۔ بکھرے بال۔۔ آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے۔۔۔ دامن ایک کونے سے پھٹا ہوا جیسے کسی نے قینچی سے کاٹا ہو۔۔
’میں کہتی تھی نا! کوئی مانتا نہیں تھا۔۔۔ دیکھو اب بتاؤ! یہ خون کے چھینٹے دیکھو۔۔

تمھارے دامن پہ کیوں نہیں ہیں؟

عمل بہت ڈری ہوئی تھی۔۔مگر لگاتار یہی جملہ اس کی زبان سے ادا ہو رہا تھا۔۔ وہ پریشان تھی مگر مسلسل ہمت سے کام لے رہی تھی۔۔ پاس کھڑا اسامہ بھی سہما ہوا تھا۔۔ اس کی بہن کس اضطراب میں مبتلا تھی۔۔ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔ کوئی اتنا بھی ظالم ہو سکتا ہے۔۔ کسی کو عمل سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔۔ وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ امی جان ’عطیہ‘ کا فون آگیا۔
بیٹا! کیسے ہو۔۔ تمہارا بزنس ٹؤور کہاں تک پہنچا۔۔ اسامہ عمل کی جانب دیکھنے لگا۔۔ لاعلمی اور بے یقینی کے عالم میں۔۔ بس ہوں ہاں کی حد تک جواب دے سکا۔۔ اماں سمجھیں کسی میٹنگ میں مصروف ہے تو انہوں نے بعد میں فون کرنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نمل کی پیدائش کسی کرشمے سے کم نہ تھی

قربان اور عطیہ کے گھر ننھی سی پری نازل ہوئی تھی۔۔ بیٹے کے بعد بیٹی سے گھر مکمل ہو گیا تھا۔۔ دونوں بہت مطمئن تھے۔۔اسامہ کے بعد جب ڈاکٹروں نے انکار کردیا تھا تو نمل کی پیدائش کسی کرشمے سے کم نہ تھی۔۔ مگر اللہ بہترین کارساز ہے۔۔ نمل ایک معمولی سے شکل و صورت کی سانولی سی بچی تھی۔۔۔عطیہ اپنی بیٹی کے نازک سے ننھے ہاتھوں کو اپنی ہتھیلی میں لے کر اس کے اچھے نصیب کی دعا کر رہی تھی۔۔قربان آس پاس گھروں میں لڈو بانٹنے گیا ہوا تھا۔۔ راستے میں ایک فقیر بیٹھا ہوا تھا جو ہر آنے جانے والے کو دعایئں دے رہا تھا۔۔ دبئی میں پاکستانی ریسٹورنٹ اور سویٹس شاپس کافی تھیں۔۔ قربان لڈو بانٹ کر واپس آرہا تھا کہ اچانک کوئی خیال آیا۔۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ درھم نکال کر فقیر کی جھولی میں ڈال دئے۔۔ فقیر شلوار قمیض دیکھ کر بہت خوش ہوا، تسبیح ایک طرف رکھ کر درھم پکڑ لیے اور قربان سے مخاطب ہوا۔۔ ’میاں نام کیا ہے تمھارا‘
’قربان‘ قربان نے جواب دیا۔
فقیر:’بڑی مٹھائی بانٹ رہے ہو۔۔ کیا خوشی آئی اس پردیس میں۔۔‘
قربان: بیٹی ہوئی ہے میری چاند سی۔۔
فقیر: اولاد تو سب کو چاند سی لگتی ہے مگر چاند میں تو داغ بھی ہے نا
قربان: اللہ رحم کرے۔۔ کیسی باتیں کرتے ہو بابا؟
’بڑی حسین نکلے گی دیکھنا!‘ فقیر نے پیش گوئی کی
’ہاں اپنی ماں سی۔۔‘
’ماں کا نصیب تو بہت اعلی ہے۔۔‘ فقیر نے جواب دیا۔

’میری نمل کا نصیب بھی بہت اعلی ہو گا بابا دعا کرنا‘

فقیر: دعا کرونگا۔۔ بہت دعا مگر اسے لوگوں سے بچا کر رکھنا۔۔ یہ کہہ کر فقیر نے پھر تسبیح پکڑ لی۔
قربان کا فون بجا ’ہاں جی!‘ قربان نے پہلی ہی بیل پر اٹھا لیا
’کہاں رہ گئے آپ؟ عطیہ پوچھ رہی تھی۔۔
’بس آرہا ہوں‘
’آجائیں کھانا تیار ہے‘
قریب دیڑھ بج را تھا۔۔ موسم خوشگوار تھا۔۔ فروری کا مہینہ تھا۔۔ بہار کی آمد آمد تھی۔۔ رات کھانے کے بعد قربان کی طبیعت میں کچھ تلخی کا عنصر تھا۔۔ جانے اس فقیر سے ملاقات کے بعد طبیعت بوجھل سی کیوں ہو گئی تھی۔۔ قربان صاحب بستر پر نیم دراز ہو کر سوچنت لگے۔۔ پتہ نہیں کب نیند نے انہیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔
(خواب: مالی پودوں کو پانی دے رہا ہے۔۔کیاریاں سجی ہوئی ہیں جن میں چار گلاب کے پھول ہیں۔۔ اچانک پائپ سے پانی کی بجائے بال بکلتے ہیں۔۔ اور چاروں گلابوں کی ٹہنیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔۔ مالی پریشان ہے۔۔۔ ایک گلاب جو کونپل سا ہے۔۔مرجھا جاتا ہے۔۔ ایک کونپل بچ جاتی ہے۔۔ تیسرا گلاب جو کھلا ہوا ہے اس کا رنگ کالا ہونے لگتا ہے۔۔۔۔ چوتھا گلاب ٹھیک رہتا ہے۔۔بالوں کی گرفت مرجھائی ہوئی کونپل کو مکمل طور پر لپیٹ کر چھپا لیتی ہے۔۔ اتنے میں کہیں سے فقیر کی آواز گونجتی ہے۔۔’لوگوں سے بچانا‘۔۔ اس آواز پر قربان کی آنکھ کھل گئی)
قربان پسینے میں شرابور تھا اور فقیر کا حلیہ اس کے ذہن میں گھومنے لگا۔۔ گلے میں سبز پٹی۔۔ جگہ جگہ سے پیوند لگا لباس۔۔ہاتھ میں تسبیح۔۔داڑھی میں کچھ سفید بال۔۔قریب پڑی جوتی جس میں سے ایک پیر کا تلوا ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔۔اس کی آنکھوں کی چمک۔۔ قربان نے سر کو جھتکا دیا اور ماتھے سے پسینہ صاف کر کے عطیہ کو آواز دی۔۔’عطیہ! عطیہ!‘
’جی جی کیا ہوا۔۔‘ عطیہ نیم وا آنکھوں کو ملتے ہوئے اٹھی۔
’پانی۔۔‘
’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘
’ہاں۔۔ پانی‘

رخِ بے کل

عطیہ سائڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے جگ سے گلاس میں پانی اڈیلتے ہوئے بولی۔۔’طبیعت ٹھیک ہے نا آپکی؟
’ہاں۔ پانی۔۔‘ کہہ کر قربان نے کانپتے ہاتھوں سے عطیہ کے ہاتھ سے گلاس پکڑ لیا اور سارا ایک ہو سانس میں پی گیا۔۔ کچھ پانی گرتا گیا مگر گھبراھٹ میں قربان کو اہنے دامن میں گرتا ہوا پانی بھی محسوس نہیں ہوا۔۔
عطیہ کے لاکھ استفسار پر بھی قربان بیان نہ کر سکا۔۔اور وہ آیت الکرسی پڑھتا رہا۔۔
عطیہ سو گئی تو اس کے بھرے ہوئے خوب صورت بال جنہیں وہ محبت کی رسی۔۔کبھی عشق کا شکنجہ کہتا تھا۔۔پیار سے۔۔ وہی زلفیں اس وقت اسے پریشان کر رہی تھیں۔۔
اس سوچ میں ہی مبتلا تھا کہ نمل کے رونے کی آواز آئی اور عطیہ پھر اٹھ کر نمل کو سلانے کے لیے نمل کو گود میں اٹھا کر کممرے میں چکر کاٹنے لگی۔۔قربان عطیہ کو دیکھتا رہا اور آہستہ آہستہ اسے پھر نیند آگئی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’اڑتا ہوا جہاز۔۔ قربان عطیہ، اسامہ اور نمل سمیت پاکستان پہنچ چکا تھا)
قربان تین سال بعد پاکستان آیا تھا۔۔ گھر خوب سجا ہوا تھا۔۔اس کے چھوٹیبھائیفرحان کی شادی جو تھی۔۔۔عطیہ ایک ماہ کی نمل کو گود میں اٹھائے ادھر ادھر کے چکر کاٹ رہی تھی۔۔ نمل کی الٹیاں نہیں رک رہی تھیں۔ وہ پیدائش کے فورا بعد بیمار ہو گئی تھی۔۔ ہر طرح کے گھریلو ٹوٹکوں سے لے کر بڑے ہسپتالوں میں بھی چیک کرایا تھا۔۔مگر دوائیوں نے بھی اثر نہ کیا تھا۔۔نمل دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی تھی۔۔ ادھر قربان اسامہ کو لیکر ڈاکٹر کا پتہ کرنے گیا تھا۔ اسامہ تین سال کا تھا تو باپ کے ساتھ مزے سے ضد کر کے چلا جاتا تھا۔ قربان بھی اس کی کوئی جائز خواہش پوری کرنے میں کوئی کمی نہ لاتا تھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی مغرب کی نماز ادا کر کے اٹھے ہی تھے۔۔۔۔

بلآخر ڈاکٹر قریشی جو خاص بچوں کے ڈاکٹر تھے۔۔ انہوں نے گھر آنے کی حامی بھر لی۔۔ اور فورا ساتھ آگئے۔ عطیہ نمل کے کپڑے بدل رہی تھی۔۔ اس نے پھر الٹی کی تھی۔۔۔ ڈاکٹر قریشی ڈاکٹر کم اور ملا زیادہ معلوم ہوتے تھے۔ ماتھے کے عین بیچوں بیچ محراب تھا۔۔داڑھی تھی۔۔ اخلاق بھی بہت اعلی تھا۔۔
ڈاکٹر نے آتے ہی بچی کو گود میں اٹھا لیا۔۔ کچھ صورتیں پڑھ کر پھونکیں اور دوائی بھی پلا دی۔۔ پھر دو دن بعد شام میں ملنے کا کہا۔
دو دن عطیہ باقاعدگی سے بچی کو دوائی پلاتی رہی۔ دو دن بعد قربان شام کے وقت مٹھائی کا ڈبہ لے کرڈاکٹر کی طرف پہنچ گیا۔سلام دعا کے بعد مٹھائی کا ڈبہ پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔ بچی کہی طبیعت کافی سنبھل گئی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے پاس بٹھا لیا اور چونکہ وہ ابھی مغرب کی نماز ادا کر کے اٹھے تھے تو ہاتھ میں تسبیح تھی۔ پھر مخاطب ہوئے۔
بچی کا کیا حال ہے؟
قربان: اب بہتر ہے؟ ہم تو اس کی بیماری سے بہت پریشان ہو گئے ہیں۔
’قربان صاحب! آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔‘ ڈاکٹر نے کچھ جھجتکے ہوئے کہا
قربان نے سر اثبات میں ہلایا اور جاری رکھنے کا اشارہ کیا
ڈاکٹر: بچی کا نام نمل ہے؟

رخِ بے کل

قربان: جی
ڈاکٹر: اور ماں کا نام؟
قربان: عطیہ
ڈاکٹر: بچی کی پیدائش کا وقت اور تاریخَ
قربان: 8 فروری صبح 4:10
ڈاکڑ نے چشمہ لگایا اور وہ جو ہاتھ میں قلم لیے بیٹھا تھا کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ کچھ حساب نکالنے کے بعد اس نے چشمے کے اوپر سے قربان کی طرف دیکھا: یہ بچی پیدائش سے ہی بیمار ہے؟
قربان: جی بالکل
ڈاکٹر: اس کا نام کب رکھا تھا؟
قربان: پیدائش سے پہلے ہی رکھا تھا۔۔ سوچا تھا لارکا ہوا تو ارحم لڑکی ہوئی تو نمل رکھیں گے۔
ڈاکٹر:اس کا نام اس کے لیے بھاری ہے۔۔ جانتے ہیں آپ؟؟
قربان حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتا رہا
ڈاکٹر: کیا ہوا؟
قربان: پھر کیا کروں اب۔۔ قربان فکرمند ہو گیا
ڈاکٹر: نام تبدیل کرلیں۔
قربان: اپکے ذہن میں ہے کوئی بہتر نام؟
ڈاکٹر: امل رکھ لیں۔
قربان: عمل یا امل؟
ڈاکٹر: جو آپکو ان میں سے ٹھیک لگے۔
قربان: عمل کر لیتے ہیں میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلیتا ہوں۔۔ آر یو شور۔۔ نام کا ہی مسئلہ ہے؟
ڈاکٹر: جی۔۔ آپ تبدیل کر کے دیکھیں۔۔ پھر ہفتے بعد ملتے ہیں۔
قربان: ٹھیک ہے۔ آپ کی تجویز بڑی انوکھی ہے مگر اس پر غور کرتا ہوں۔
ڈاکٹر: بہتر رہے گا ان شاء اللہ
قربان: جی اجازت؟
دونوں نے ہاتھ ملایا اور قربان گھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچ کر عطیہ سے ذکر کیا تو وہ بھی حیران ہو گئی۔۔ بڑی بحث اور سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ بچی کا نام تبدیل کر کے عمل رکھا جائے گا۔
ایک ھفتے بعد قربان دوبارہ ڈاکٹر سے ملنے گیا۔
ڈاکٹر صاحب: جی تو کیسی ہے بیٹی اب؟ آپ نے نام تبدیل کرلیا؟
قربان: آپ ہمارے بزرگ ہیں ڈاکٹر صاحب، ّپ کی تجویز کیوں کر عمل نہ کرتے؟اب تو عمل نے ماں کا دودھ بھی پینا شروع کردیا ہے؟
ڈاکٹر: دیکھا آپ نے؟ آگے بھی سب اچھا ہو گا، ان شاء اللہ۔۔ چائے منگواؤں؟
قربان: جی بالکل ہمارے مشترکہ دوست مفتی صاحب بھی پہنچ رہے ہیں۔ میں ان کا بڑا ممنون ہوں کہ آپ سے ملوا دیا۔
(دستک)
ڈاکٹر: جی جی آئیے!
مفتی صاحب: السلام علیکم

ڈاکٹر اور مفتی صاحب مصافہ کرتے ہوئے گلے ملے۔

ڈاکٹر: وعلیکم السلام
قربان نے بھی سلام کا جواب دیا۔
’آپ تو پاکستان والوں کو بھول ہی گئے ہیں‘ مفتی صاحب نے قربان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’اگر فرحان کی شادی نہ ہوتی تو آپ اب بھی نہ آتے‘
قربان: ارے نہیں یار! ایسا نہیں ہے۔۔ نوکری کرنے والے نخرہ کرنے کے مجاز نہیں ہوتے۔اب العزت نے روزی روٹی لگائی ہوئی ہے جب تک جہاں ہم بھی وہاں
ڈاکٹر: اب تو چائے ہو جانی چاہئے۔
انہوں نے میز پرخاموشی سے پڑی ہوئی گھنٹی دبائی اور ملازم حاضر ہو گیا
ڈاکٹر: تین چائے۔۔ ساتھ نمکو بھی لے آنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحان کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ قربان نے فیملی سمیت واپسی کا راستہ لیا۔ اتنے عرصے بعد پاکستان آئی تھے تو رشتہ داروں نے بڑی آؤ بھگت کی اور کیسے نہ کرتے بھر بھر کے تحائف جو آئے تھے دبئی سے۔ فرحان ائرپورٹ پر ڈراپ کرنے آیا تھا۔
قربان بلآخر بیگم اور بچوں سمیت دو ماہ پاکستان میں گزار کرفیملی کے ساتھ واپس دبئی روانہ ہو گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہی سے بارش کے آثار تھے، بادل بار بار گرج کر۔۔۔۔

5 فروری تھی۔ عمل کی پہلی سالگرہ کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ شام چھے بجے قربان صاحب کیک لینے گئے ہوئے تھے۔ عطیہ عمل کو انگلی پکڑ کر چلا رہی تھی۔ عمل نے اپنی عمر کے مطابق چلنا شروع کردیا تھا۔ بچے دونوں ہے ذہین لگتے تھے مگرعمل کی آنکھوں میں الگ سی چمک تھی۔۔ دنیا فتح کرلینے والی چمک۔۔
قربان نے بھی اپنے یار دوست مدعو کئے تھے۔
عمل کی سالگرہ کے لئے مہمان ساڑھے سات سے ہی آنا شروع ہو گئے۔ عطیہ بھی چاشنی لباس میں بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے عمل کو تیار کیا اور کان کے عین پیچھے کالا ٹیکہ بھی لگا دیا۔ صبح سے کچھ بارش کے آثار تھے۔ بادل بار بار گرج کر اپنا آپ منواتے تھے۔ سب مہمان آچکے تو کیک کاٹا گیا۔ ڈنر کا بھی انتظام خوب تھا۔ قربان چونکہ انجینئر تھا اور نوکری بھی اچھی کمپنی میں تھی اس لیئے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ عطیہ بھی بخوبی ہاؤس وایف کے فرائض بخوبی انجام دے رہی تھی۔ قربان نے ڈنر کے بعد عطیہ کو بڑی محبت سے دیکھا۔۔ وہ مسکراتی شرماتی مہمانوں میں جا کر بیٹھ گئی۔ آہستہ آہستہ مہمان رخصت ہونا شروع ہوئے۔ بجیہ آپا عطیہ کی بڑی بہن تھیں انہیں بھی جلدی تھی سو وہ بھی گھر کو نکل گئیں۔

عطیہ اور قربان نے ہمیشہ کی طرح مل کر کچن سمیٹنا شروع کیا۔

اگلے دن ویسے بھی آفس سے چھٹی تھی۔ اتنے میں اچانک دروازے پر آکر کچھ لگا۔ طوفان زوروں پر تھا۔ دونوں نے آواز سنی اور ایک دوسرے کو دیکھا۔ عطیہ کچھ خوف زدہ ہوئی مگر قربان نے اسے نظروں سے تسلی دی اور بولا ’طوفان ہے بیگم! ایسے ہی گھبرا جاتی ہو‘
عطیہ جس کا دل دہل گیا تھا زیر لب مسکرائی اور دونوں کام کرنے لگے۔ کچن سے فارغ ہو کر میز صاف کرتے ہوئے کیک وہیں ڈھک کر رکھ دیا۔ دونوں تھکے ہارے بستر کی جانب ہولیے نیند بھی گہری آئی ہوئی تھی۔۔آنکھیں بند اور یہ جا وہ جا۔۔
اسامہ اور عمل کا کمرہ عطیہ اور قربان کے کمرے کے ساتھ ہی تھادونوں بچے آرام سے سو رہے تھے۔ گھر کے مین دروازے پر دوبارہ آکر کچھ لگا اور آواز کی شدت سے میاں بیوی دھک سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’یہ کیا ہے؟ عطیہ گھبرا کر بولی۔

’طوفان ہے پریشان نہ ہو سو جاؤ‘ قربان نے عطیہ کو حوصلہ دیا۔

’عمل رو ہی ہے‘ عطیہ اٹھ ہر اس کے کمرے کو طرف چلی گئی۔
عطیہ نے عمل کو اٹھایا تو چیخ اٹھی عمل کو بہت تیز بخار تھا اور ہاتھوں پر خون لگا ہوا تھا
اس کی چیخ سن کر قربان بھی دوڑتا ہوا پہنچا ’بجلی کی آواز۔۔ گرج چمک)
بڑی بیچینی کے عالم میں عطیہ نے عمل کے ہاتھ دھلائے۔
اسکے بستر پر دیکھا تو کچھ بال پڑے تھے۔ قربان کی نظر کھڑکی سے باہر پڑی تو کوئی شخص کالی چادر میں بھاگتا نظر آیا۔ بارش تھی اور وہ کافی دور جا چکا تھا۔ اس وقت کون ہو سکتا تھا۔۔ قربان کچھ پریشان ہوا۔
اتنے میں عطیہ نے عمل کے سر کو ٹٹولا تو اس کے سر سے کچھ بال کٹے ہوئے تھے۔
’اسے بہت بخار ہے قربان‘
’کیا؟؟تو چلو جلدی ڈاکٹر کے‘قربان نے فورا کہا
عطیہ نے چادر اوڑہی اور قربان بھی لباس تبدیل کر کیلابی کی طرف آگیا۔عطیہ بھی عم کو اٹھئے اس کے پیچھے آگئی۔
قربان نے دروازہ کھولا تو دونوں کا سانس تھما کا تھما رہ گیا۔
دروازے کے باہر مرغی کے کٹے ہوئے پنجے پڑے تھے اور دروازے پر خون کے چھینٹے تھے کچھ ہڈیاں جو کسی جانور کی معلوم ہوتی تھیں ساتھ بکھری پڑی تھیں جیسے کسی نے دروازے پر ھڈیوں سمیت دے ماری ہوں دونوں نے ایک دوسرے کو تھام لیا۔

(جاری ہے)

ٹردے ٹردے قسط (2)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button