دنیا کی بدترین اور بد بخت قوم!
وحشتناک و دلدوز واقعات کو جنم دینے والی سرزمین۔ انسانیت سے عاری اور حد سے تجاوز کی ہوئی قوم، جو اپنے گریبان میں جھانکنے اور توبہ کرنے کی بجاۓ دوسروں کو خود سے بدتر و بدترین قرار دینے میں ذرہ برابر خوف نہیں کھاتی اور نہ ہی اپنی اصلاح کی طرف لوٹنے کو تیار ہے۔ ممتاز صحافی، تجزیہ و تحقیق نگار فاروق حارث العباسی کی سبق آموز تحریر

دنیا کی بدترین اور بد بخت قوم!
پاکستان کی سرزمین وحشت و بربریت، ظلم و تشدد،جبر و استبداد اور انسانیت سوز واقعات سانحات سے بھری پڑی ہے۔ یہ سب دیکھ سُن کر یقین نہیں آتا کہ ہم واقعی کسی انسانوں کی بستی یا سر زمین میں آباد ہیں۔ انسانوں کی صورت میں دندناتے خونی درندے وطن عزیز کے لئے ایک بدنما، تعفن زدہ اور غلیظ داغ ہیں۔ جس نے انسانیت کی عظمت و حرمت کو گلے سڑے بدبودار مردار کی مانند کر دیا ہے۔ ایسے بدبودار اور تعفن زدہ ماحول کو نہ صرف پروان چڑھانے بلکہ اسے قائم رکھنے میں ہمارے تمام حکمرانوں کا بنیادی کردار ہے جنہوں نے ملک و ملت سے آنکھیں چراتے اور بدترین غفلت برتتے ہوئے وہ تمام تر قیمتی لمحات و اوقات فقط دولت سمیٹنے اور اپنی عیاشیوں پر عیاشیاں کرنے میں صرف کر دیئے۔ 77 برسوں میں ہونے والے اگر ان ہولناک جرائم کو دیکھا جائے تو ہمیں بیتے ہوئے 7700 برسوں میں بھی ایسے گھناؤنے و مکروہ جرائم پڑھنے سننے کو نہیں ملیں گے۔ تاریخ کے اوراق کھنگال ڈالیں، آپ کو کہیں پر بھی یہ دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ کسی وحشی سے وحشی شخص یا کسی اُجڈ سے اُجڈ قوم و قبائل کے افراد نے معصوم و پاکبار عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بے خرمتی کی ہو، مگر ہمارے ملک اور معاشرے میں آپ کو ایسا سب کچھ دیکھنے سننے کو ملے گا جس پر آپ شائد کبھی یقین بھی نہ کریں۔ 10نومبر 2011ء میں ایسا ہی وحشتناک اور دلدوز ایک واقعہ منظر عام پر آیا جب سرگودھا کا ایک 27 سالہ نوجوان ریاض روزگار کی تلاش میں کراچی پہنچا۔ تلاش بسیار کے بعد اسے پاپوش کے علاقے میں قبرستان کے اندر قبروں پر مٹی ڈالنے اور انہیں پانی لگانے یا ٹھیک وغیرہ کرنے کی ملازمت مل گئی۔ کئی برس گزر گئے اور وہ اپنی ڈیوٹی انجام دیتا رہا۔ اس دوران اس سے ہٹ کر وہ کیا کرتا رہا، کسی کے علم میں کچھ نہ تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اُس کے اِس گھناؤنے اور بھیانک عمل نے عالم اسلام اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کو دنیا کی نگاہوں میں تار تار کر کے رکھ دیا۔ قبرستان میں جس بھی خاتون کی میت آتی چاہے وہ کوئی عورت ہوتی یا لڑکی، وہ رات کی تاریکی میں پاؤں کی طرف سے قبر اُکھاڑتا اور قبر کے اندر جاکر اس میت کے ساتھ بدفعلی کرتا اور پھر باہر نکل کر قبر کو دوبارہ اپنی اصل حالت پر لے آتا یعنی اسے ٹھیک حالت میں کرکے اس پر پانی وغیرہ چھڑک دیتا تاکہ اگلے دن اُس کے لواحقین آئیں تو انہیں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہ گذرے۔ اس بدبخت کا یہ سلسلہ دو اڑھائی سال تک یوںہی جاری رہا۔ حسب معمول ایک شام ایک عورت کی میت لائی گئی اور اس کے گھر والے اسے دفنا کر چلے گئے۔ یہ شخص یعنی ریاض حسب عادت میت کی قبر کھود کر اس میں داخل ہوا۔ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا۔ وہ ابھی قبر میں داخل ہوا ہی تھا کہ مارے خوف کے چیختا چلاتا قبر سے نکل کر باہر کی طرف دوڑا۔ قدرتی طور پر کچھ لوگ قبرستان کے راستے سے باہر کی طرف جارہے تھے۔ انہوں نے جب اس شخص کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو اس کے پیچھے دوڑے اور اسے جالیا۔ اس کے اس طرح بھاگنے اور خوفزدہ ہونے کی وجہ پوچھی مگر جب وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پایا تو انہیں شک گزرا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ لوگ اسے پولیس سٹیشن لے گئے۔ پولیس والوں نے بھی اس سے پوچھ گچھ کی مگر اس نے کوئی معقول جواب نہ دیا بس یہی کہتا رہا کہ میں قبروں پر پانی ڈال رہا تھا کہ ڈر گیا لیکن جب اگلی صبح میت کے گھر والے قبر پر آئے کہ فاتحہ خوانی کرسکیں۔ انہیں قبر اکھڑی ہوئی ملی۔ وہ حیران و پریشان گورکن کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا لیکن اسے بھی کچھ معلوم نہ تھا اور وہ بھی حیرانگی کے عالم میں وہاں پہنچا۔ قبر واقعی اکھڑی ہوئی تھی۔ اب گورکن ریاض کو تلاش کرنے لگا تاکہ معلوم کر سکے مگر وہ کہیں نہ ملا۔ کچھ لوگ پولیس کو اطلاع دینے کے لئے تھانہ پاپوش گئے تو معلوم ہوا کہ اس شخص یعنی ریاض کو حوالات میں رکھا ہوا ہے لیکن اصل بات کا ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ پولیس کو جب قبر کی صورتحال کے بارے میں بتایا گیا تو تفتیش کا رخ اب بالکل بدل گیا اور ایک ہولناک اور ناقابل یقین داستان سامنے آئی۔ بقول اس شخص یعنی ریاض کے اسے یہ کام کرتے ہوئے دو اڑھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ اب تک یعنی 10 نومبر 2011 تک 60 عورتوں یا لڑکیوں کے ساتھ یعنی ان کی میتوں کے ساتھ بدفعلی کر چکا ہے۔ پھر اس نے خوف زرد ہونے اور قبر سے نکل کر بھاگنے کی وجہ بتائی۔ اُس نے بتایا کہ ”حسب معمول میں تقریباً آدھی رات کے وقت پاؤں کی طرف سے قبر کھود کر اُس میں داخل ہو گیا۔ جوںہی میں نے کفن کھولنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس خاتون کے ہونٹوں میں جنبش پیدا ہوئی اور اس کے دانت دکھائی دینے لگے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں کھلی اور ان میں سے تیز روشنی نکلی۔ یہ منظر دیکھ کر میں خوف کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور مجھے ایسے لگا کہ میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا، میں چیختا چلاتا قبر سے نکل کر بھاگ کھڑا ہوا اور پھر لوگوں نے مجھے پکڑ لیا”
اس واقع کے بعد بالکل ایسا ہی ایک اور واقعہ اوکاڑہ کے چک (گاؤں) جوئیہ میں 2019 میں سامنے آیا۔ لیکن یہاں پر بدبخت گورکن خود اس جرم میں ملوث تھا اور عرصہ تین چار سال مسلسل اس گھناؤنے فعل کا مرتکب ہو رہا تھا۔ کافی عرصہ سے اہل علاقہ اس بات سے پریشان تھے کہ اکثر قبریں اکھڑی ہوتی ہیں، ان کو شک گزرا کہ ہو سکتا ہے کہ رات کے وقت چونکہ قبرستان میں کوئی نہیں ہوتا لٰہذا کوئی جانور وغیرہ ہے جو قبریں اکھاڑتا ہے۔ لوگوں نے گورکن کو بھی تنبیہ کی کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ قبروں کو خراب کون کرتا ہے جس پر گورکن نے قبروں کی نگرانی کرنے کا وعدہ کیا لیکن اس کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو اس پر غور و فکر کیا گیا۔ اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ اب تک جتنی بھی قبریں خراب ہوئی ہیں وہ سب کی سب عورتوں ہی کی قبریں ہیں۔ اس بات پر لوگوں کے اندر شکوک پیدا ہوئے کہ یہ کسی جانور وغیرہ کا کام نہیں بلکے معاملہ کچھ اور ہے لہذا لوگوں نے چھپ کر قبرستان کی نگرانی شروع کر دی۔ ایسی ہی ایک رات تھی، لوگ ادھر اُدھر چھپے بیٹھے تھے کہ ایک شخص کو قبر کے اندر سے نکلتے دیکھا گیا۔ دو آدمی جو قبر سے کچھ دور بیٹھے تھے، یہ دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے کہ شاید قبر کے اندر سے کوئی جن بھوت نکل رہا ہے لیکن جب غور سے دیکھا تو وہ گورکن تھا۔ ان لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور پوچھ گچھ کی مگر اس نے کوئی مثبت جواب نہ دیا اور یہی کہتا رہا کہ وہ قبر کو ٹھیک کر رہا تھا لیکن قبر پوری طرح ایک طرف سے اکھڑی ہوئی تھی اور وہ سل بھی ہٹی ہوئی تھی جس کے باعث نعش کو باآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ قبر بھی ایک خاتون کی تھی جسے اسی شام دفنایا گیا تھا۔ لوگوں نے اسے پولیس کے حوالے کرتے ہوئے سارا معاملہ بیان کیا بعد ازاں اس درندے نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ عرصہ تین چار سال سے ایسا کر رہا ہے اور جس کسی خاتون کی میت آتی وہ رات کو قبر کھود کر اس کے اندر جاتا اور اس خاتون کی میت کے ساتھ بد فعلی کرتا۔ اس گورکن کی عمر جس وقت وہ پکڑا گیا 60 سال کے لگ بھگ تھی۔ اس معاملہ میں جب گاؤں کے یو سی چیئرمین سے بات ہوئی تو اس نے نہایت حیرت اور شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بدترین گھناونے جرم کی پاداش میں سزا دینے کے لیے کوئی قانون ہی موجود نہیں۔ پولیس نے بھی اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی ایسا قانون موجود نہیں جس کے تحت ہم مقدمہ درج کریں۔ یو سی چیئرمین نے بتایا کہ جو دفعات اس مردود پر لگائی گئیں وہ قابل ضمانت ہیں اور دو تین ماہ بعد اس کی ضمانت ہو جائے گی۔ اس نے حکومت وقت اور تمام ممبران قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”خدارا اس کے لیے باقاعدہ کوئی قانون سازی کریں تاکہ ایسے مجرموں کو سخت ترین سزائیں دی جا سکیں” مگر تاحال ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ اسمبلی کے اندر کوئی ایسا قانون لایا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی عدم دلچسپی، لاپرواہی اور بے حسی کے باعث قوم کے افراد غلط راستوں پر چل نکلے بلکہ بعض نے تو بدترین اور خوفناک جرائم کو جنم دے دیا جس سے پوری انسانیت کانپ اٹھی۔ اسی طرح ایک اور ناقابل یقین واقعہ چند سال قبل فیصل آباد کے ایک علاقہ میں پیش آیا۔ ایک اوباش آوارہ نوجوان ایک لڑکی کے پیچھے پڑ گیا اور اس سے اپنی محبت کے دعوے کرنے لگا۔ وہ ہر وقت اس کی ٹوہ میں رہتا، جب بھی وہ گھر سے کسی کام کے لیے نکلتی تو اس کا پیچھا کرتا، لڑکی نے اسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ایسی لڑکی نہیں جیسا تم اسے سمجھ رہے ہو لیکن وہ باز نہ آیا۔ چار و ناچار اس لڑکی نے اپنے گھر بات کی اور ساری صورتحال سے انہیں آگاہ کیا۔ اس کے والدین اور بھائی اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے لیکن ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا ڈر بھی تھا کہ معاملہ سنگین صورت اختیار نہ کر جائے لہذا انہوں نے اس خبیث کو سمجھانے کی کوشش کی تاکہ معاملہ خاموشی سے سلجھ جائے مگر اس کے باوجود وہ ان حرکات سے باز نہ آیا۔ تنگ آ کر انہوں نے پولیس کو اطلاع دی، پولیس نے کہا کہ وہ جب بھی اس لڑکی کے پیچھے آئے یا اسے تنگ کرے تو آپ ہمیں فوراً فون پر اطلاع کریں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اسے تنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ تھانے لے جا کر اس کی خوب چھترول کی گئی اور آئندہ ایسی حرکت سے باز رہنے کی وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔ کچھ عرصہ سکون سے گزرا۔ اب وہ نہ تو اسے تنگ کر رہا تھا اور نہ ہی اس کا پیچھا۔ گھر والوں نے سکھ کا سانس لیا کہ معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن پھر ایک دن کیا ہوا کہ وہ لڑکی اپنے کام سے شام کے وقت اپنے گھر آ رہی تھی کہ اسے قتل کر دیا گیا۔ قاتل موقع سے فرار ہو گیا، گھر میں قیامت برپا ہو گئی، ہر کسی کا خیال تھا کہ یہ اسی آوارہ اوباش لڑکے کا کام ہے۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی، پولیس اس لڑکے کے گھر پر گئی مگر وہ گھر پر موجود نہ تھا بقول اس کے گھر والوں کے کہ وہ دو روز سے کام کاج کے سلسلہ میں سیالکوٹ گیا ہوا ہے۔ لیکن کسی کو بھی اس بات پر یقین نہ تھا اور سب کا شک ہی نہیں بلکے یقین تھا یہ کام اسی کا ہے اس لیے کہ کسی کے ساتھ بھی اس لڑکی کی دشمنی تو کجا معمولی سی رنجش بھی نہ تھی بہر کیف! انسان ماسوائے صبر کے اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ بیٹی کو نہلا دھلا کر اگلی دوپہر دفنا دیا گیا مگر یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس رات اُن پر اُس سے بھی بڑی قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ رات کا کچھ پہر جب بیت گیا تو وہ قاتل یعنی وہی آوارہ درندہ جو لڑکی کو تنگ کیا کرتا تھا، قبرستان پہنچا۔ اس کی قبر اکھاڑی اور لڑکی کی لاش کو قبر سے باہر نکال لیا۔ اس کا کفن اتار کر ایک طرف پھینکا اور ساری رات اس لاش کے ساتھ بدکاری کرتا رہا پھر اس کی برہنہ لاش کو ایک درخت کے ساتھ لٹکا کر فرار ہو گیا۔ صبح صبح کچھ لوگ قبرستان اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے آئے تو یہ بھیانک منظر دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ بھاگے بھاگے قبرستان سے باہر نکلے اور راہگیروں کو اکٹھا کر کے قبرستان لے آئے۔ یہ ایک ایسا ناقابل یقین منظر تھا جو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے چند لوگ ہمت کر کے آگے بڑھے اور لڑکی کی نعش کو درخت سے اتارا جو الٹی لٹک رہی تھی۔ اس کے پاؤں باندھ کر اسے درخت کے ایک تنے سے الٹا لٹکا دیا گیا تھا۔ لوگوں نے اس بےکفن لاش پر کفن ڈال کر اسے ڈھانپ دیا۔ صبح سورج نکلنے تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل چکی تھی۔ لوگ جوق در جوق وہاں پہنچ رہے تھے۔ پولیس بھی پہنچ گئی اور اس بد نصیب لڑکی کے بدنصیب گھر والے بھی۔ وہاں کہرام مچ چکا تھا، یہ ایک ایسی درندگی تھی جس پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا مگر ایسا ہو چکا تھا۔ پوری پنجاب پولیس حرکت میں آگئی اور جگہ جگہ چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس گندگی کے مجسمے کے گھر والوں کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ عزیزوں رشتہ داروں کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے۔ بالآخر وہ خنزیر نما انسان گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کی حراست میں جب اس سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کسی قسم کا کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا صرف اتنا کہا کہ میں نے یہ سب کچھ انتقام لینے کے لیے کیا۔ یہ کیسا انتقام تھا؟ دنیا کی تاریخ کا انوکھا، بدترین، مکروہ، بھیانک، ہولناک اندوہ ناک انتقام، اسے کوئی بھی نام دیں مگر یہ انتقام نہیں انسانیت کی بدترین تذلیل اور بدترین گھناؤنا فعل ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔
کیا یہ دکھ، یہ غم، یہ کرب، یہ اذیت ان گھر والوں کو کبھی بھول پائے گی؟ کہا جاتا ہے کہ روۓ زمین پر دنیا کی وحشی اور ظالم ترین اگر کوئی قوم تھی تو وہ منگول تھی جن کے ظلم و بربریت اور وحشت اور دہشت کی داستانیں آج بھی تاریخ کے اوراق پر خون سے رنگین دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو زندہ جلا ڈالا، بوڑھوں بچوں عورتوں کو بے دریغ نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کیا، کھوپڑیوں کی مینار بنا ڈالے لیکن اس وحشی ترین قوم نے بھی اپنی مردہ عورتوں کے ساتھ ایسا وحشتناک اور گھناؤنا کوئی فعل و عمل نہیں کیا جو ہمارے ان پاکستانی مسلمانوں نے کر دکھایا۔
1999ء میں ہونے والا مشہور و معروف ایک اور حیرتناک، افسوسناک اور وحشت ناک واقعہ بھی ملاحظہ فرما لیں جو صوبائی دارالحکومت لاہور میں رونما ہوا۔ یہ واقعہ بھی اپنی طرز کا ایک الگ گھناؤنا اور وحشت ناک واقعہ تھا جو آج کی نوجوان نسل کے لیے بطور یادداشت یہاں درج کیا جا رہا ہے۔ لاہور کا رہائشی جاوید اقبال نامی ایک شخص جو "سو بچوں کا قاتل” کے عنوان سے پوری دنیا میں معروف ہوا۔ یہ شخص نہ تو کوئی ذہنی مریض تھا اور نہ ہی کوئی وحشی یا اجڈ بلکہ ایک دولت مند اور پڑھا لکھا شخص تھا جو مکمل طور پر نارمل تھا لیکن ابلیس لعین نے چونکہ اس کے دل و دماغ پر ڈیرے ڈال رکھے تھے لہذا اس نے ایک ایسا کام کر دکھایا جو اس سے قبل کوئی نہ کر پایا۔ بقول اس کے وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا جو دنیا میں بالکل الگ تھلگ ہو لہذا بجائے اس کے کہ وہ انسانیت کی بھلائی کے لیے کوئی کام کرتا یا کوئی کارنامہ انجام دیتا، اس نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس نے بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے معصوم بچوں کو پہلے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر ایک ایک کر کے انہیں قتل کیا۔ اپنے اس وحشیانہ کھیل کی سنچری مکمل کرنے کے بعد اس نے خود کو پولیس کے سامنے پیش کر دیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے بقول اس مجرم جاوید اقبال کہ ”میں نے گھر کے کام کاج اور اپنے دفتر کے لیے ایک دس بارہ سال کی لڑکے کو ملازم رکھا۔ ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ اس لڑکے نے میرے اوپر حملہ کر دیا اور مجھے شدید ضربیں لگائیں۔ میرے جسم اور سر پر سخت چوٹیں لگیں جس کے باعث میں بے ہوش ہو گیا اور وہ لڑکا میری الماری میں پڑی ایک خطیر رقم لے کر فرار ہو گیا۔ میں نے اپنا علاج وغیرہ کروایا اور چند دنوں بعد ٹھیک ہو گیا۔ اب میں نے بدلہ لینے کے لیے اپنے ذہن میں مختلف پلان تیار کرنے شروع کئے اور پھر فائنل وہ پلان تیار ہوا جسے میں نے مکمل کیا۔ پلان کے مطابق میں نے ایک ایسے نوجوان کو تلاش کیا جو گھر سے بھاگ کر داتا دربار آیا ہوا تھا۔ وہ کئی دنوں سے وہیں رہ رہا تھا، وہیں دربار کے اندر سو جاتا، وہیں سے اسے کھانے پینے کے لیے سب کچھ مل جاتا اگر پیسوں کی ضرورت ہوتی تو وہ لوگوں سے خیرات مانگ لیتا۔ میں نے اسے دربار کے قریب ہی چائے کے ایک کھوکھے پر لگوا دیا اور وہ وہاں جائے بیچنے لگا جس سے اسے خاصی آمدنی ہونے لگی۔ ساتھ ہی میں نے اس کی یہ ڈیوٹی بھی لگا دی کہ وہ نظر رکھے کہ آٹھ دس سال کے بچے جو گھر سے بھاگے ہوں یا آوارہ گردی کے لیے نکلے ہوں تو مجھے اطلاع کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ ادھر ادھر پھرنے والے بچوں پر نظر رکھتا اور پھر انہیں اپنے پاس بلاتا چائے وغیرہ پلاتا، اور باتوں باتوں میں ان سے سب کچھ پوچھ لیتا اور مجھے اطلاع کر دیتا۔ میں اس بچے کو بازار لے جاتا، جوتے کپڑے لے کر دیتا، اچھے ہوٹل میں کھانا وغیرہ کھلاتا اگر کوئی فلم دیکھنے کا شوقین ہوتا تو اسے فلم وغیرہ بھی دکھاتا۔ اس طرح میں انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لیتا اور پھر گھر لے جا کر سب سے پہلے اس کے ساتھ بدفعلی کرتا۔ بعدازاں اسے قتل کر کے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر تیزاب والے ڈرم میں پھینک دیتا جو آدھے گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں مکمل طور پر گل سڑ کے باریک باریک ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے جسے میں گھر کے فلش میں بہا دیتا۔ کئی سال تک یونہی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جب بچے غائب ہو رہے تھے تو بچوں کے والدین سخت پریشانی میں مبتلا تھے۔ ایسے بچوں کی تصاویر کے ساتھ اخبارات میں اشتہارات بھی دیے جا رہے تھے۔ تھانوں میں الگ سے رپورٹس درج کروائی جا رہی تھیں۔ پولیس کی سر توڑ کوششوں کے باوجود بھی غائب ہونے والا کوئی بچہ بھی بازیاب نہیں ہو رہا تھا۔ پولیس کی ناکامی اور بے بسی سے مجھے اور تسکین ملتی اس لیے کہ میں اپنی کامیابی پر خوش تھا۔ بالآخر ان معصوم بچوں کے قتل کی سنچری مکمل ہونے کے بعد میں نے پاکستان کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اور معروف ترین اخبار روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر کو ایک خط تحریر کیا جس میں بچوں کے اغوا یا غائب ہونے کی اطلاع دی اور ساتھ ہی دن اور وقت بھی لکھا کہ فلاں دن اور فلاں وقت پر میں آپ سے ملنے کے لیے آپ کے آفس آؤں گا اور اس بارے میں آپ کو مطلع کروں گا چنانچہ میں اپنے بتائے ہوئے دن اور وقت پر روزنامہ جنگ کے آفس پہنچ گیا” ایڈیٹر صاحب کو اطلاع دی گئی، انہوں نے اسے اپنے آفس بلا لیا جہاں اس نے یہ ساری تفصیلات سے انہیں آگاہ کیا۔ اسی لمحے پولیس کو بھی طلب کر لیا گیا۔ پولیس اور جنگ کے رپورٹرز اور ایڈیٹر صاحبان اس کے ساتھ اس کے گھر گئے جہاں تیزاب سے بھرے ہوئے ڈرم موجود تھے۔ تیز دھار چھری، ٹوکا اور لکڑی کی وہ مڈھی بھی جس پر رکھ کر وہ بچوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتا تھا، سب کی نشاندہی کی، ان تمام چیزوں کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اگلے روز جنگ کی شہ سرخی یہی تھی کہ "سو معصوم بچوں کا قاتل گرفتار” اس کے بعد دیگر اخبارات میں یہ خبریں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔ یہ واقعہ دنیا بھر کے خبارات کی زینت بنا، اس درندہ نما انسان نے دنیا بھر میں کتنا نام کمایا اور پاکستان کا کتنا نام گنوایا، یہ فیصلہ آپ پر ہے۔ ممکن ہے اس کے شیطانی ذہن میں یہ بات ہو کہ اس عجیب اور انوکھے طرز کی قتل و غارت گری چونکہ اس سے قبل دنیا میں کہیں دیکھی اور نہ سنی گئی لہذا اس کا نام ” گنز بک کا ورلڈ ریکارڈ ” میں بحیثیت ” انوکھا قاتل” کے لکھا جائے گا۔ ایسا تو نہ ہو سکا مگر قدرت کے ریکارڈ میں شائد اس کا نام ابلیس لعین کے ساتھ جہنم کے سخت ترین مقام میں ضرور لکھ دیا گیا ہوگا۔ ان 77 برسوں میں وطن عزیز میں درندگی کی ایسی ایسی ہولناک اور لرزہ خیز وارداتیں، واقعات اور داستانیں دیکھنے سننے میں آئیں جنہیں دیکھ سن کر نہ اپنے کانوں پر یقین آیا، نہ آنکھوں پر اور نہ ہی ذہن انہیں تسلیم کرنے پر آمادہ ہوا۔ بس یوں محسوس ہوا کہ فقط خیالاتی یا تصوراتی کہانیاں ہیں جو لوگوں کے ذہن بدلنے یا ان کی اصلاح کے لیے بیان کی جا رہی ہیں تاکہ آئندہ لوگ اس قسم کے گھناؤنے جرائم سے باز رہیں اور اپنے اندر خوف لائیں مگر یہ کوئی تصوراتی یا خیالاتی کہانیاں نہیں بلکہ حقائق ہیں جنہیں تسلیم کرنے پر دنیا مجبور ہے۔
اُس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا تھا اسے روک کر میں ٹی وی چینل سٹی 42 پر چلنے والا ایک پروگرام دیکھنے لگ گیا جس میں دکھایا جا رہا تھا کہ کس طرح 24 سالہ نوجوان نے اپنی دونوں پھوپھیوں کو قتل کر کے کمرے میں آگ لگا کر وہاں سے فرار ہو گیا۔ گرفتاری کے بعد اس 24 سالہ قاتل نے 42-C کے رپورٹر کے سامنے جو کہ اس وقت وہ پولیس کی تحویل میں تھا، بتایا کہ ” میں بالکل بیکار تھا، نہ کوئی نوکری اور نہ ہی کوئی کاروبار، مجھے گھر سے روز طعنے سننے کو ملتے، مجھے معلوم تھا کہ میری پھوپھیوں کے پاس کافی سونا اور پیسہ ہے لہذا میں نے پلان بنایا کہ وہ سونا اور پیسہ لے کر انہیں مار ڈالوں اور اپنا کوئی کام وغیرہ کر لوں۔ میری دونوں پھوپھیاں ایک ہی گھر میں رہتی تھیں اور دونوں کے کوئی اولاد نہ تھی۔ ایک کو طلاق ہو چکی تھی اور دوسری پھوپھی کے خاوند وفات پا چکے تھے۔ دونوں کی عمریں 65 برس سے اوپر تھیں۔ ایک پھوپھی جو کہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں، انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد خاصہ جی پی فنڈ ملا تھا جو لاکھوں میں تھا۔ ایک رات میں ان کے گھر گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ دونوں ایک چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ میں کچھ دیر ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا، اس کے بعد میں کچن میں گیا اور وہاں سے برف توڑنے والا سُوا اور ایک بڑی قینچی اٹھا لایا اور آتے ہی برف کے سُوئے سے ان پر وار کیے ( ان کے سر اور سینے پر میں نے کئی بار وار کیے ) جب وہ بے ہوش ہو گئیں یا مر گئیں تو میں نے کمرے میں رکھی ہوئی استری کو آن کرکے اسے میز پر سیدھا رکھ دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ استری کہیں آن رہ گئی اور اس وجہ سے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ استری آن کرنے کے بعد میں نے الماری کے اندر دراز کے تالے توڑے اور تمام سونا نکال لیا جو کہ 35 تولے تھا اور 10 لاکھ کیش۔ پھر میں نے ان کے بستر کو آگ لگائی اور چپکے سے نکل گیا ” بعد ازاں اس سے وہ سارا سونا بھی برآمد کر لیا گیا اور چار لاکھ کی رقم باقی چھ لاکھ رقم وہ کہیں خرچ کر چکا تھا۔
محترم قارئین ! اگر میں ایسے واقعات و سانحات لکھنا شروع کروں تو سیکڑوں صفحات سیاہ ہو جائیں مگر ایسے گھناؤنے واقعات ختم ہونے میں نہ آئیں۔ تو پھر کیا خیال ہے آپ کس بستی یا سر زمین پر رہ رہے ہیں، کیا اسے انسانوں کی بستی کہا جا سکتا ہے؟
سب سے تکلیف دہ بات جو ہے وہ یہ کہ آج تک کسی حکمران یا حکومت نے ایسے وحشت ناک اور دل ہلا دینے والے جرائم کی روک تھام کے لئے نہ تو کوئی اقدامات کیے، نہ ہی اس پر کوئی قانون سازی کی گئی اور نہ ہی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔ کمزوروں کے لیے سزا کا عمل بلاشبہ ضرور ہوا اور بڑی شد و مد کے ساتھ لیکن امیروں و طاقتوروں کے لیے قانون خود منہ چھپائے پھرتا رہا۔ اسلام اور اسلامی ریاست جسے "ریاست مدینہ” کہا جاتا ہے، اس کی سب سے بڑی پہچان ہی عدل و انصاف تھا یعنی یکساں عدل و انصاف۔ اس انصاف کے ترازو میں نہ کوئی امیر دیکھا جاتا نہ غریب، نہ عربی نہ عجمی، نہ دوست نہ احباب حتی کہ اگر حاکم خود یا اس کی سگی اولاد بھی کسی جرم میں ملوث پائی جاتی تو جرم کی نوعیت کے مطابق سزا ملتی۔ اسلام کے اندر ایسی سخت سزائیں نافذالعمل تھیں کہ انہیں دیکھ کر کسی کی جرات نہ ہوتی کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب یا جرم کا راستہ اختیار کرے۔ یہی وجہ تھی کہ اس عدل و انصاف اور حقوق کی بازیابی نے مسلمانوں کو پوری دنیا کا حکمران بنا دیا مگر بدقسمتی سے یہاں معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے اور الٹ معاملہ ہو جانے کے باعث آج پورا عالم اسلام یہود و نصاریٰ کا غلام بن چکا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ مسلمان ان کے غلامی میں نہ صرف خوش دکھائی دیتے ہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دوست اور بھائی ہیں, لعنت ہے ایسی قوم اور ایسے حکمرانوں پر جنہوں نے فقط اپنی عیاشیوں کے لیے اللہ, اس کے رسولﷺ اور اس کے دین کے بدترین دشمنوں کی غلامی کا طوق بصد شوق خود اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں ڈال لیا۔
جس قوم کے حاکم چور، ڈاکو، لٹیرے، بد دیانت، بدعنوان، بدکردار، خائن، فاسق، منافق، بد نیت، بدطینت اور قانون شکن ہوں لامحالہ اس قوم کا بھی ایسا ہو جانا ایک فطری عمل ہے۔ ایک مشن کے تحت پورے ملک کو تباہ و برباد اور پوری ملت کے اخلاق و کردار اور خلوص و اخلاص کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا گیا۔
سانحہ مری
آج سے ٹھیک تین سال قبل 7 اور 8 جنوری 2022ء میں "سانحہ مری” رونما ہوا۔ دنیا نے اسے حکمرانوں کی نا اہلی و بے اعتنائی، قومی بے حسی، رذالت و ذلالت اور حد درجہ انسانی گراوٹ کے طور پر دیکھا۔ 7 اور 8 جنوری (جمعہ ہفتہ) کی درمیانی شب برف باری کا سلسلہ شروع ہوا۔ لوگ جوق در جوق برفباری کا یہ منظر دیکھنے اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کے ہمراہ مری اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں پہنچ گئے۔ گلیات کے علاقہ میں باقی کی نسبت شدید برفباری ہوئی اور ہر طرف تین سے چار فٹ تک برف جم گئی جس کے باعث گاڑیاں وہاں پھنس کر رہ گئیں۔ کوئی گاڑی اپنی جگہ سے ہل تک نہ سکتی تھی۔ بہت سی گاڑیاں برف میں دب کر رہ گئیں جو دکھائی بھی نہ دے رہی تھیں۔ لوگوں نے بمشکل اپنی گاڑیوں کے دروازے کھولے اور پیدل ہوٹلوں کا رخ کیا۔ وہاں پر جو کچھ ہوا اس کی ویڈیوز پوری دنیا نے دیکھیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے اور کوئی چیز آج کے دور میں پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ لوگوں نے یہ ویڈیوز بنائیں اور وائرل کر دیں۔ کچھ مقامی لوگ ان گاڑیوں تک پہنچے جن میں موجود سب کے سب لوگ مر چکے تھے۔ ایک گاڑی میں چار دوست جو انجوائے کرنے وہاں پہنچے تھے، چاروں کے چاروں گاڑی کے اندر مردہ پڑے تھے۔ ایک فیملی جس میں چار معصوم بچے اور بچوں کے ماں باپ سب کے سب مردہ پاۓ گئے۔ وہاں قدرت کا ایک کرشمہ بھی دیکھنے کو ملا جب لوگوں کو شک گزرا کہ برف کے نیچے کوئی دبا ہوا ہے۔ یہ ایک بچی کا جوتا تھا جو تھوڑا سا دکھائی دے رہا تھا۔ لوگوں نے فوراً برف کو کھودنا شروع کر دیا اور پھر تین فٹ کی گہرائی سے ایک بچی برآمد ہوئی جو برف میں دب چکی تھی لیکن 24 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی وہ زندہ سلامت تھی۔ یقینا” یہ قدرت کا ایک بہت بڑا معجزہ تھا جو دیکھنے میں آیا "جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے” یہ تو چند ایک وہاں کے وہ مقامی لوگ تھے جنہوں نے انسانیت کا کچھ ثبوت دیا لیکن اکثریت نے کیا کیا اور جنہیں کچھ کرنا چاہیے تھا انہوں نے کیا کیا؟ اس ایک خط سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسے سوشل میڈیا پر شائع کیا گیا اور پوری دنیا نے اس خط کو پڑھا۔ بہت سے لوگوں نے اس پر اپنے اپنے تاثرات بھی دیے جو بہت متاثر کن تھے۔ یہ خط لفظ بہ لفظ کچھ یوں ہے کہ:-
خط کا متن
” سب سے پہلے میں اپنا تعارف کرا دوں۔ میرا نام چوہدری امیر علی ورک ہے اور فیصل آباد میں میری رہائش ہے۔ پچھلے 32 سال سے میں میاں نواز شریف کا کارکن، دوست اور عہدے دار ہوں۔ میرا چھوٹا بھائی فیصل آباد کا ناظم رہا ہے۔ میری بیوی فوت ہو چکی ہے اور میں اکیلا اپنے بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ میرے دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور وہ میرے ساتھ رہتے ہیں۔ اور اب آتے ہیں جمعہ ہفتہ کی درمیانی شب یعنی 7 اور 8 جنوری 2022ء کی قیامت کی رات کی طرف۔ میں، میرا بڑا بیٹا، میری بہو اور ان کے دو بچے یعنی گھر کے پانچ افراد بدھ کی رات نتھیا گلی (مری) پہنچ گئے۔ جمعرات اور جمعہ کو بچوں نے خوب انجوائے کیا۔ ارادہ تھا کہ جمعہ کے دن چونکہ رش بڑھ جائے گا لہذا ہم جمعہ کی شام واپس اپنی بہن کے گھر چلے جائیں گے جو اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ہم نے نتھیا گلی سے دو بجے دوپہر چیک آؤٹ کیا اور واپسی کی تیاری شروع کی۔ ہوٹل سے نکلے اور تھوڑی دور جا کر جہاں ایک گراؤنڈ آتا ہے، جس میں سیکڑوں بچے کھیل رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کے والدین یا دیگر افراد بھی انجوائے کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر اقراء اور حمزہ نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہم نے بھی یہاں کھیلنا ہے حالانکہ ارادہ تو یہی تھا کہ یہاں سے جلدی نکل جائیں مگر بچوں کی ضد اور خوشی سے دمکتے چہرے دیکھ کر میں نے بیٹے سے کہا کہ بچوں کی خوشی ہے انہیں کھیلنے دو۔ بس اس فیصلے نے زندگی کی بھیانک ترین رات دکھائی۔ میرے بیٹے کی بیوی یعنی میری بہو بھی بچوں کے ساتھ کھیلنے اور انجوائے کرنے لگی۔ برف نہایت تیزی کے ساتھ گرنا شروع ہو چکی تھی۔ مغرب ہونے لگی تو میں نے کہا کہ اب شام ہونے کو ہے لہذا جلدی کریں اور یہاں سے نکل چلیں۔ ہم وہاں سے نکلے تو باڑیاں سے آگے کلڈنہ سے کچھ پہلے گاڑیوں کی رفتار سست ہونے لگی۔ اس وقت اندھیرا چھا چکا تھا اور برف گرنا مزید تیز ہو چکی تھی۔ اب میری پریشانی بڑھنے لگی۔ میرے بیٹے نے میری پریشانی کو بھانپ لیا اور کہا کہ ابو آپ پریشان نہ ہوں ہم یہاں سے بخیریت نکل جائیں گے۔ اس وقت پک اپ، سوزوکیوں اور مزدے والے جاہلوں کی طرح لائنیں توڑ کر آگے راستہ بلاک کر رہے تھے۔ اسی دوران شدید قسم کا برفانی طوفان شروع ہو گیا جس کے بعد گاڑیاں جو سست روی چل رہی تھیں وہیں پر رک گئیں۔ رات 12 بجے تک ہماری گاڑی پر تقریباً تین فٹ یا اس سے بھی زیادہ برف پڑ چکی تھی۔ اب بچوں کو بھوک نے ستانا شروع کیا۔ ان کی ڈیمانڈ تھی کہ ہمیں کھانے کے لیے کچھ دیں۔ بچے چونکہ اس گراؤنڈ میں کھیلتے کودتے بھی رہے اور پھر سردی برداشت کرنے میں بھوک بھی کچھ زیادہ ہی لگتی ہے۔ دوسرا یہ کہ رات کے 12 بج چکے تھے لہذا بھوک کا لگنا لازمی اور ایک فطری عمل تھا۔ اتنے میں ہمیں باہر سے کچھ آوازیں سنائی دیں جیسے ہماری گاڑی کو کوئی چھیڑ رہا ہے۔ بیٹا باہر نکلا تو دیکھا کہ وہاں کے کچھ مقامی لوگ جن کی تعداد پانچ یا چھ تھی، ہماری پراڈو کی چھت سے پٹرول کے کین اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (ہم نے پٹرول کے کچھ کین اضافی طور پر گاڑی کی چھت پر رکھ لیے تھے کہ راستے میں اگر کہیں پٹرول ختم بھی ہو جائے تو گاڑی میں ڈال لیا جائے) بہرحال بیٹے نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے آگے سے اسے چھڑی کی نوکیں مار کر دور رہنے کو کہا اور زبردستی کین اتار کر لے گئے۔ یہ قیامت خیز رات کسی طرح خدا خدا کر کے گزری۔ ساری رات عورتوں اور بچوں کے رونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آتی رہیں جو وہاں پھنس چکے تھے۔ صبح سات بجے کے قریب ہم گاڑی سے نکل کر بہت مشکل سے پیدل ایک ہوٹل پر پہنچے۔ ہوٹل والوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ایک روٹی کی قیمت 800 روپے اور چائے کا ایک کپ 1200 روپے میں دیا گیا اس طرح ہم نے ایک ناشتہ ہزاروں روپے میں کیا۔ آپ کو یہ سن کر اور بھی حیرت ہوگی کہ مرغی کا ایک انڈا ایک ہزار روپے میں فروخت کیا گیا۔ لوگ مر رہے تھے، ایک مثال ہے کہ "مرتا کیا نہ کرتا” لہذا لوگوں نے مجبورا” آٹھ آٹھ سو روپے کی روٹی، بارہ بارہ سو روپے چاۓ کا کپ اور ایک ہزار روپئے کا ایک انڈہ خریدا اس طرح اپنا اور اپنے بچوں کو ناشتہ کرایا یہ درندگی نہیں تو اور کیا تھی؟
یہاں سے فارغ ہوئے تو پٹرول ختم ہو گیا۔ صبح کے نو بج چکے تھے مگر بادلوں اور برف باری کے باعث ابھی تک دور دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا پٹرول ختم ہونے پر ہم شدید خوفزدہ ہوئے کہ اب کیا بنے گا۔ کچھ لوکل یعنی مقامی لوگ ہاتھوں میں پٹرول کے کین اٹھائے دکھائی دیے۔ انہیں بلایا اور پٹرول ڈالنے کے لیے کہا۔ انہوں نے فی لیٹر تین ہزار روپے مانگے۔ انہیں بہت کہا کہ خدا کا کچھ خوف کریں 142 روپے لیٹر پٹرول ہے تم لوگ زیادہ سے زیادہ 500 روپے لٹر لے لو مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ لینا ہے تو لو، 3 ہزار روپے لٹر ملے گا ورنہ اپنا راستہ لو۔ مجبورا” چار لٹر پٹرول 12 ہزار روپے میں خریدا۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ہمیں سامنے سے اچانک فوجی جوان آتے دکھائی دیے۔ انہیں دیکھتے ہی 2018 کا الیکشن ذہن میں آگیا جب میں نے ایک فوجی جوان کو تھپڑ مارا دیا تھا اور وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے اور ایم پی او کے تحت دو ہفتے مجھے حوالات میں گزارنے پڑے تھے مگر اس وقت وہ فرشتے دکھائی رہے تھے۔ آتے ہی انہوں نے بسکٹ اور پانی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد پراٹھے اور چائے پیش کی۔ ایک جوان جس کی عمر بمشکل 20 سال ہوگی، بھاگ بھاگ کر ہر گاڑی کے پاس جا رہا تھا اور اس کے اس خلوص پر مجھے بہت پیار آ رہا تھا۔ انہوں نے قریب ہی ایک مسجد، ایک سکول، ایک دینی مدرسہ اور ایک خالی پولٹری فارم میں سیکڑوں لوگوں کو شفٹ کیا ہوا تھا۔
ہمیں بھی وہیں پر لے گئے۔ مٹی کے تیل کے چولہے، لکڑیاں، کریٹوں کی پھٹیاں وغیرہ جلا کر انہوں نے ماحول کو گرم کر رکھا تھا اور لوگ اپنے اندر ایک نئی زندگی محسوس کرنے لگے تھے۔ اس کے بعد فوجی افسران جن میں کرنل، میجر، کیپٹن اور دوسرے جوان بھی شامل تھے، سب نے مل کر لوگوں میں کھانا تقسیم کرنا شروع کیا۔ کچھ فوجی افسران و جوان بوڑھوں کو اٹھا اٹھا کر اندر لا رہے تھے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ بزرگ مرد اور عورتیں ان فوجیوں کو بلا بلا کر ان کے ماتھے چوم رہے تھے اور یہ سب کچھ دیکھ کر میں، میرا بیٹا اور میری بیوی ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے کہ ان پچھلے پانچ برسوں سے جنہیں ہم گالیاں دے رہے تھے آج وہ ہمارے لیے فرشتہ بنے ہمارے سامنے تھے۔ رات گہری ہونے سے پہلے ہی گدے، کمبل، رضائیاں، تکیے اور چادریں پہنچ گئیں اور تمام لوگوں کو جو سردی سے ٹھٹھر رہے تھے، دے دی گئیں۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ جنہیں ہم طنزاً اور نفرت کے طور پر "خلائی مخلوق” کہتے تھے وہ واقعی ہی کسی خلائی مخلوق ہی کی طرح نازل ہوئی مگر رحمت بن کر۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس خلائی مخلوق کے پاس نہ جانے ہر چیز کا حل کیسے موجود ہوتا ہے۔ سنا کرتے تھے کہ زلزلے کی تباہی میں فوج کی امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، سیلاب کی تباہ کاریاں، فوج نے سیکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا مگر آج سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اگلے دن اتوار کو ہم وہاں سے نکلنے لگے تو فوجی افسروں و جوانوں نے ہمیں نہایت خوش دلی کے ساتھ بغیر ماتھے پر کسی شکن یا تھکان کے ہمیں الوداع کہا۔ اتوار کی صبح ہم وہاں سے نکلے اور شام تک ہم اپنی ہمشیرہ کے گھر اسلام آباد پہنچ گئے۔ تمام گھر والے شدید پریشانی کے عالم میں تھے۔ رات گئے تک ہم یہی باتیں کرتے رہے۔ قوم کی بے حسی اور پاک فوج کا حسن سلوک۔ اس وقت رات کے دو بجے ہیں زندہ بچ جانے کی مبارکیں لینے کے بعد یہ تحریر لکھ رہا ہوں، اگر فوجی جوان وہاں نہ پہنچتے تو یقینی بات تھی کہ اموات ایک ہزار سے بڑھ کر ڈیڑھ دو ہزار تک جا پہنچتیں۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج کے بعد فوج کے خلاف میرے دل میں رائی برابر بھی کوئی گلا کوئی شکوہ نہیں۔ میں اور میری پوری فیملی فوج کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انسانیت کا ثبوت دیتے اور ملک و ملت کے محافظوں کا کردار ادا کرتے ہوئے سینکڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ میری تمام لیگیوں اور پوری پاکستانی قوم سے گزارش ہے کہ پاک افواج کی عزت اور قدر کریں۔ "پاک فوج زندہ باد”
(یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب نواز شہباز کی قیادت میں قوم کے اندر پاک فوج کے خلاف شدید نفرت بھر دی گئی تھی اور یہ تاثر عام کر دیا گیا تھا کہ فوج ہی وہ ادارہ ہے جو نہ تو کسی کو سیاست کرنے دیتا ہے اور نہ ہی ملک کو ترقی کی طرف گامزن ہونے دیتا ہے۔ ان تمام لیگیوں کی اگر وہ ویڈیوز نکال کر دیکھیں تو قوم کو فوج کے خلاف وہ تمام تقاریر اور استعمال کی گئی وہ زبان سننے کو ملے گی جو شائد دشمن نے بھی کبھی استعمال نہ کی ہو۔ فوج کے لئے "خلائی مخلوق” کا لفظ شریف خاندان ہی کا تخلیق کردہ ہے، لیکن کمال حیرت کی بات ہے کہ ماضی کی وہی قابل نفرت خلائی مخلوق آج شریف خاندان کو گود لئے ہوۓ ہے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے)
بہر کیف!
جب یہ سانحہ مری پیش آیا تو ایک شخص نے بتایا کہ اس کے پاس 35 ہزار روپے تھے مگر ہوٹل والا اس سے ایک رات رکنے کا کرایہ 50 ہزار مانگ رہا تھا۔ میں نے اس کی منت سماجت کی کہ دیکھو بھائی میرے ساتھ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہیں اور رات سر پر آنے والی ہے یہ سردی اور بھوک سے یہیں مر جائیں گے مگر اس نے صاف انکار کر دیا کہ 50 ہزار سے ایک روپیہ بھی کم نہیں لوں گا، رکنا ہے تو رکو ورنہ اپنا راستہ لو۔ مرتا کیا نہ کرتا، اپنی بیوی کا زیور اور پیسے اس کو دیے اور ایک رات ہم نے وہاں گزاری۔ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے اوپر قیامت گزر رہی تھی مگر وہاں کے مقامی لوگوں کے لیے عید کا دن تھا۔ ہماری گاڑیاں برف میں دھنسی ہوئی تھیں مگر مقامی لوگوں نے صرف دھکا لگانے کے لیے ہم سے پانچ پانچ سو روپے وصول کیے۔ یہی نہیں بلکہ ایک شخص نے گاڑی سے ہوٹل تک ہمارا بیگ اٹھا کر پہنچانے کا ایک ہزار روپیہ لیا۔ یہ بیگ چونکہ بھاری تھا اور ہر جگہ برف ہی برف تھی جس پر چلنا مشکل تھا اور ہم چونکہ لوگ اس کے عادی نہیں تھے لہذا اس نے ہماری مجبوری کا بدترین فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ پانی کی ایک بوتل جس کی قیمت 50 یا 60 روپے ہوتی ہے، تین تین چار چار سو روپے میں فروخت کی گئی۔ لوگ مجبور تھے لہذا ان مقامی لوگوں نے ڈاکوؤں کی طرح ہمیں لوٹا۔ اس لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کا سلسلہ رات بھر اور اگلی صبح تک جاری رہا مگر کسی عوامی نمائندے اور سیاسی مہذب کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ان حالات کے پیش نظر پاک فضائیہ نے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے مری اور گلیات میں امدادی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی خصوصی ہدایات پر فوج نے کالا باغ اور لوئر ٹوپہ بیسز متاثرہ علاقوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مری اور گلیات میں سیاحوں اور پھنسے ہوئے لوگوں کی سہولیات کے لیے دونوں بیسز پر کرائسز مینجمنٹ سیل قائم کر دیا گیا۔ پی اے بیس کالا باغ کے کرائسز مینجمنٹ سیل سے 03239418252 اور 03218838444 پر فوری رابطہ کرنے کے لیے نمبر جاری کر دیے گئے تاکہ لوگ ان نمبروں پر رابطہ کر کے اپنی معلومات دے سکیں کہ وہ کہاں پر ہیں اور ان کی کیا پوزیشن ہے۔ اسی طرح پی اے بیس لوئر ٹوپہ کے کرائسز سیل سے 03239417015 اور 051954555 پر مدد کے لیے نمبر جاری کئے گئے۔ پاک فضائیہ نے برف باری میں پھنسے افراد کو رہائش، خوراک، گرم کپڑے اور طبی سہولیات فراہم کیں اور متعدد خاندانوں کو مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ دور دراز علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح لا تعداد افراد کی زندگیوں کو بچا لیا گیا۔ کرائسز مینجمنٹ سیل کے یہ نمبر سوشل میڈیا، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے بھیجے گئے جس کے باعث لوگوں نے رابطہ کیا اور اپنی پوزیشنز سے انہیں آگاہ کیا۔
کیا کسی سیاسی نمائندے نے یا کسی وزیر مشیر کو بھی یہ توفیق ہوئی کہ وہ اپنے نمبرز لوگوں تک پہنچائیں تاکہ ان کی مدد کو پہنچا جا سکے؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ وہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر بکواس کرتے دکھائی دیے کہ جب لوگوں کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ موسم خراب ہے تو پھر اتنی تعداد میں یہ لوگ وہاں کیوں گئے؟
بہرحال! یہ قوم کا اپنا قصور تھا یا حکمرانوں کی بے حسی و بے اعتنائی؟ اس کے بارے میں اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ ” اللہ اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف تبدیل نہ کر دے” اسی آیت مبارکہ کو مولانا ظفر علی خان نے شعر کی صورت میں اس طرح کہا کہ:
"خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا”
اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم کو اپنی حالت بدلنے کا خیال کب آتا ہے؟
سورہ بنی اسرائیل پارہ نمبر 15 آیت نمبر 16 تا 17 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
” اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوشحالوں پر احکامات بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں بے حکمی کرتے ہیں تو اس پر بات پوری ہو جاتی ہے تو ہم اسے تباہ کر کے برباد کر دیتے ہیں اور ہم نے کتنی ہی سنگتیں ( قومیں ) نوح کے بعد ہلاک کر دیں اور تمہارا رب کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار دیکھنے والا ”
ایک بات جو طے شدہ ہے وہ یہ کہ ہمارے سب کے سب سیاستدان ( چند ایک کے سوا ) ملک و قوم پر کسی بھی طرح عذاب سے کم نہیں اور ان سب کا تعلق ان علامات متوسطہ سے ہے جو حدیث شریف میں بیان فرمائی گئیں یعنی قیامت کی نشانیاں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین پر قائم رہنے والے کی حالت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے انگارے کو اپنی مٹھی میں پکڑ رکھا ہو، دنیاوی اعتبار سے سب سے خوش نصیب شخص وہ ہوگا جو خود بھی کمینہ ہو اس کا باپ بھی کمینہ ہو، لیڈر بہت ہوں گے اور امانت دار کم، قوموں اور قبیلوں کے لیڈر منافق، رذیل اور فاسق ہوں گے، بازاروں کے رئیس فاجر ہوں گے، پولیس کی کثرت ہوگی جو ظالموں کی پشت پناہی کرے گی، بڑے عہدے نااہلوں کو ملیں گے، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا، اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھا سمجھا جائے گا، نیک لوگ چھپتے پھریں گے اور کمینے لوگوں کا دور دورہ ہوگا، شراب کا نام نبید، سود کا نام بیع اور رشوت کا نام ہدیہ رکھ کر اسے حلال سمجھا جائے گا، شراب خوری کی کثرت ہوگی، مومن آدمی ان کے نزدیک باندی سے بھی زیادہ رذیل ہوگا، بے حیائی اور بغیر باپ کی اولاد کی کثرت ہوگی (یعنی حرامی اولاد) مومن ان کی برائیوں کو دیکھے گا مگر انہیں روک نہ سکے گا جس کے باعث اس کا دل اندر ہی اندر گھلتا رہے گا، لکھنے پڑھنے کا رواج بہت بڑھ جائے گا مگر تعلیم محض دنیا کے لیے حاصل کی جائے گی، فقہا کی قلت اور علماء کو قتل کیا جائے گا ”
یہ ہیں وہ علامات متوسطہ جن کا ظہور ہو چکا ہے اور ہم انہیں اپنے آس پاس، ارد گرد، ملک کے طول و عرض اور کونے کونے میں نہایت وسیع پیمانے پر کھلم کھلا دیکھ رہے ہیں۔ ان علامات میں سے کوئی ایک علامت بھی ایسی نہیں جو اس ملک میں دیکھی نہ جا سکتی ہو۔ ارض پاک پر یہ علامتیں سو فیصد ظہور پزیر ہیں اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ قیامت بہت قریب ہے، بس آئی کہ آئی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان عظیم ہے کہ "حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف تبدیل نہیں کر دیتی اور جب اللہ تعالی کسی قسم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی نہ اللہ کے مقابلے میں اس قوم کا کوئی مددگار ہو سکتا ہے”
( سورہ العادیات- آیت: 10 )
اور آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے کیا یہ ہماری شامت اعمال نہیں؟
” اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے
کیا زمانہ ہے کہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے ”
ما حاصل
اس میں کچھ شک نہیں کہ قوموں کو بنانے یا برباد کرنے میں حکمران اپنا کلیدی و بنیادی کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس نازک و حساس معاملہ میں قوموں کا اپنا کردار بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ حکمران بھی قوم ہی کا ایک فرد یا افراد ہوتے ہیں اور انہی میں سے منتخب ہو کر حاکم بنتے ہیں لہذا یہ ایک مشترکہ عمل ہے جس کے کرنے سے قومیں بنتی یا بگڑتی ہیں۔ اسی بناء پر اللہ تعالی نے سورہ العادیات کی آیت نمبر 10 میں فرمایا کہ "حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی” کسی حاکم کا عادل و منصف ہونا ایک بڑی شرط ہے۔ کرپٹ یا بدعنوان و بد کردار حاکم کبھی قوم کو ایک بڑی قوم نہیں بنا سکتا بلکہ وہ قوم بھی اسی قدر بد کردار اور کرپٹ ہو جاۓ گی جیسا کہ حکمران۔ اب قرآن کریم کے اندر قوموں کی تباہی کا جو ذکر فرمایا گیا وہ ایسی ہی بد فطرت، باغی و بد کردار اور بدعنوان قومیں تھیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جھٹلایا اور اپنی روش اور ہٹ دھرمی پر قائم رہیں مگر آج معاملہ کچھ اور ہے۔ اب چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی اور دین جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل ( مکمل ) کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کیا ”
سورہ المائدہ۔ پارہ- 6، آیت: 3 ) لہذا ہماری بقاء اسی میں ہے کہ ہم اس پر مکمل عمل کریں لیکن بدقسمتی اور بدبختی کے ساتھ ایسا نہیں ہو رہا۔ حکمرانوں کی بے عملی اور عدم دلچسپی نے پوری قوم برباد کر کے رکھ دی۔ جو نیک سیرت, شریف اور ملک کے اچھے شہری تھے وہ دب گئے اور اپنی عزتیں بچانے ہی میں عافیت جانی۔ عالم بے عمل ہو گئے، عالم یا تو حکمرانوں کی گود میں جا بیٹھے یا گوشہ نشیں ہو گئے۔ علم، انصاف، عدل، قانون سب کچھ بے وقعت ہو کر رہ گیا۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے انتہائی گھمبیر کہا جا سکتا ہے۔ ہر طرف ایک جمود طاری ہے اور ہر معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوۓ مجھے دو واقعات یاد آۓ جنہیں یہاں بیان کیے دیتا ہوں فیصلہ آپ خود کریں اگر آپ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ایک واقعہ یوں بیان کیا گیا کہ ” کسی بستی کے لوگ بگڑتے بگڑتے حد درجہ بگڑ گئے۔ اصلاح کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔ بستی کے کرتا دھرتا اپنی من مانیوں میں مگن کسی کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے۔ جرائم، بدکاریاں، بدفعلیاں، لوٹ کھسوٹ، ناصافیاں، جبر و ظلم، لاقانونیت، انسانیت سوز سلوک، ذخیرہ اندوزی، سود خوری، شراب خوری، حرام کاری، اقرباء پروری، بے عملی، بے علمی، بے حسی یعنی ہر برائی اور ہر جرم عروج پر تھا ( بالکل ہماری ریاست کی طرح ) اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو جا کر الٹا دو اور اسے تہس نہس کر دو۔ فرشتوں نے عرض کیا، اے ہمارے پروردگار! اس بستی میں تو ایک فلاں شخص بھی ہے جو ہر وقت تیری عبادت و ریاضت اور حمد و ثنا میں مصروف رہتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا کہ مجھے ایسے شخص کی ایسی عبادت و ریاضت اور حمد و ثنا سے کیا فائدہ جس کے ہوتے ہوئے اس کی بے عملی کے باعث پوری کی پوری قوم برباد ہو گئی اور جو انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں رہی، جو بندگی کے قابل نہ رہی لہذا جاؤ اور سب سے پہلے اس بے عمل عالم کو ہلاک کر دو جس کی عدم دلچسپی اور انسانییت سے دوری نے پوری قوم اور پوری انسانیت کو ہلاک کر ڈالا ”
اسی طرح دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ” مسافروں سے بھری ایک بس ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہی تھی کہ راستے میں طوفان باد و باراں نے آن لیا۔ تیز آندھی اور طوفانی بارش کے باعث سامنے کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ بجلی خوفناک انداز میں کڑک رہی تھی۔ یہی نہیں بلکہ بجلی بس کے کبھی دائیں گرتی کبھی بائیں اور کبھی آگے تو کبھی پیچھے، لوگ یعنی مسافر خوف کے مارے سمٹے بیٹھے تھے۔ لوگوں کے اصرار پر بس کو ایک طرف روک لیا گیا مگر بجلی گرنے کی صورت جوں کی توں رہی۔ اب مسافر اس خوف میں مبتلا تھے کہ اگر بجلی بس پر گر پڑی تو پوری بس چل کر راکھ ہو جائے گی اور ایک مسافر بھی زندہ نہیں بچ پائے گا۔ اسی دوران ایک باریش بزرگ جو اس مسافروں کے ساتھ سفر کر رہے تھے، بولے کہ ہم میں کوئی ایک ایسا شخص ہے جو سخت گناہ گار یا بد بخت ہے جسے اللہ تعالی ہلاک کرنا چاہتا ہے مگر شاید وہ اس کے ساتھ دوسروں کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن اگر زیادہ دیر گزر گئی تو پھر ہم سب بھی اس کے ساتھ ہی ہلاک ہو جائیں گے۔ لوگ یہ سن کر مزید خوفزدہ ہو گئے، کہنے لگے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ گنہگار یا بدبخت شخص کون ہے؟ ان بزرگ نے کہا کہ ایک طریقہ ہے، ہر شخص ایک ایک کر کے بس سے اترے اور ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے ہاتھ لگا کر واپس بس میں آ جائے، اس طرح وہ جو کوئی بھی ہوا جونہی پس سے دور اس درخت کے پاس جائے گا بجلی اس پر گرے گی تو ہلاک ہو جائے گا اور باقی مسافر بچ جائیں گے۔ تمام مسافروں کو ان بزرگ کی یہ تجویز نہ صرف پسند آئی بلکہ نہایت معقول معلوم ہوئی۔ چنانچہ طے ہوا کہ ہر شخص بس سے اترے اور اس درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آۓ۔ اب ہر شخص خوفزدہ درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آتا اور صحیح سلامت واپسی پر اطمینان کا سانس لیتا اور شکر ادا کرتا کہ وہ گنہگار شخص میں نہیں تھا۔ اس طرح ہر شخص اتر کر درخت کو ہاتھ لگا کر صحیح سلامت واپس آ گیا۔ اب آخر میں ایک ہی شخص باقی بچا تھا جس نے جا کر درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آنا تھا۔ بس میں موجود ہر مسافر جو درخت کو ہاتھ لگا کر صحیح سلامت واپس آ چکا تھا، ان بزرگ کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑار رہا تھا کہ یہی وہ شخص ہے جس کی وجہ سے ہم سب موت کے منہ میں جانے کے قریب تھے، یہ نکلے گا تو ہم سب بخیر و عافیت اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے یعنی بجلی اس پر گرے گی اور پھر بجلی گرنے کا سلسلہ رک جائے گا۔
اب وہ بزرگ باہر جانے سے ہچکچا رہے تھے۔ کچھ مسافروں نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا کہ جناب اب آپ کی باری ہے آپ ابھی تک بیٹھے کیوں ہیں؟ دیکھیں ہم سب بلا جھجھک گئے اور ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اب آپ بھی اتریں اور درخت کو ہاتھ لگا کر آئیں۔ لیکن بزرگ افسردہ حالت میں خاموش اور معنی خیز نظروں سے مسافروں کی طرف دیکھتے رہے۔ اب لوگوں کو پکا یقین ہو گیا کہ یہ وہی گنہگار ہے جو بس سے اتر نہیں رہا۔ اب لوگوں نے زور زور سے اسے کہنا شروع کر دیا کہ بس سے اترو اور جاؤ ہاتھ لگا کر آؤ۔ اتنے میں بجلی ایک مرتبہ پھر شدید دھماکے کے ساتھ بس کے سامنے گری جس سے لوگ سخت خوفزدہ ہو گئے۔ اس دوران ایک شخص اپنی سیٹ سے اٹھا اور ان بزرگ کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور انہیں بس کے دروازے پر لا کر کھڑا کر دیا کہ جناب اتریں اور اس درخت کو ہاتھ لگا کر آئیں۔ بزرگ نے حسرت بھری ایک نگاہ تمام مسافروں پر ڈالی اور بس سے اتر کر درخت کی طرف چل دیئے۔ تمام مسافر اب وہ نظارہ دیکھنے کے لیے بے چین تھے کہ جونہی یہ شخص جو بظاہر بڑا بزرگ دکھائی دیتا ہے، درخت کے قریب پہنچے گا بجلی کیسے اس پر گرے گی اور اس کا کیا انجام ہو گا۔ بزرگ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے درخت کے پاس پہنچ گئے اور اس کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنا منہ بس کی طرف کر کے کھڑے ہو گئے۔ تمام مسافر انہی کی طرف بغیر پلکیں جھپکائے دیکھ رہے تھے کہ اچانک شدید ترین دھماکے اور کڑک کے ساتھ بجلی بس پر گری اور دیکھتے ہی دیکھتے بس جل کر راکھ ہو گئی، بس میں موجود ایک شخص بھی زندہ نہ بچ سکا۔
درس
اس قوم یا ایسی قوموں کے لیے جو حد سے تجاوز کر چکی ہوں، ان دونوں واقعات میں ایک بڑا درس یا سبق موجود ہے۔
نمبر-1 : ایسی قوم میں موجود وہ لوگ جو بزرگ و نیک ہیں یعنی عبادت گزار تو ہیں مگر عملا” اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان کی موجودگی میں قوم خرافات کی بھینٹ چڑھ کر تباہ ہو گئی، ایسے علماء و بزرگ بگڑی ہوئی قوم کے ساتھ ہی تباہ کر دیے جائیں گے اس مثل کے مصداق جیسا کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
نمبر-2 : یا پھر ایسی ہستیوں کو تو بچا لیا جائے گا جنہوں نے اپنے طور پر قوم کو راہ راست پر لانے کے لئے بھر پور کوششیں کیں اور پوری طرح اپنا فرض نبھایا مگر قوم راہ راست پر نہ آئی ( بنی اسرائیل کی طرح ) مجھے تو اس قوم کا انجام ( خدانخواستہ ) بس کے ان مسافروں جیسا دکھائی دے رہا ہے جو اپنے گریبان میں جھانکنے اور توبہ کرنے کی بجائے دوسروں کو خود سے بدتر قرار دینے میں ذرہ برابر بھی خوف نہیں کھاتے اور نہ ہی اپنی اصلاح کی طرف لوٹتے ہیں۔
اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ:
” جب کسی علاقے میں برائی عام ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اُس علاقے میں اپنا عذاب بھیج دیتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس علاقے میں اللہ کے فرمابردار لوگ بھی ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ”ہاں پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف چلے جائیں گے۔”
(سلسلہ صححیہ، حدیث نمبر: 2516)
"حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” تم میں بہتر وہ ہے جس سے اس کی بھلائی کی امید رکھی جاتی ہو اور اس سے برائی کا اندیشہ نہ ہو”
( صحیح بخاری- 2263 )
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
"مجھے تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو اپنے اوپر والی ذات سے تو رحم و کرم کی امید رکھتا ہے لیکن خود اپنے ماتحت لوگوں پر رحم نہیں کرتا ”
( غور الحکم- 60255 )