تاریخ کے اوراق

حق و باطل کی آخری جنگ؟ ملحمۃ العظمیٰ

حق و باطل کے خیمے الگ الگ نظر آنے لگ گئے ہیں اور ایسا دور کہ جب مسلمانوں کا رعب کفار کے دلوں سے نکل چکا ہے تو امر ضروری ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کیا جائے اور تیاری شروع کر دی جائے کہ اس طرح اہل باطل کے دلوں پر پھر سے رُعب طاری کریں

حق و باطل کی آخری جنگ؟ ملحمۃ العظمیٰ

تحریر:رضوان اللہ خان
موجودہ بدلتے حالات کا رخ جس جانب بڑھ رہا اس نے دنیا کے سکالرز، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا وہ وقت قریب آگیا ہے جب حق و باطل کی آخری خون ریز جنگ ہوگی؟ حق و باطل کا پہلا معرکہ میدان بدر میں وقوع پذیر ہوا، اس کے بعد ایسے کئی معر کے تاریخ کا حصہ بنتے رہے۔ حضور ﷺ نے مستقبل میں ہونے والے بہت تو سے معرکوں کے متعلق پہلے ہی صحابہ ؓ کو تفصیل سے بیان کر دیا ان معرکوں میں ایک معرکہ وہ بھی جو حق و باطل کا آخری ٹکراؤ ہوگا، حق غالب آجائے گا اور باطل پاش پاش ہو جائے گا۔ یعنی غزوہ بدر سے شروع ہونے والے جہاد کا آخری فیصلہ کن معرکہ۔ یہ معرکہ دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے شروع ہو جائے گا، مسلمانوں کا ایک گروہ اس کے انتظار میں ہوگا جبکہ کفار ہر طرح سے اس کی تیاری کر چکے ہونگے۔ مسلمانوں کے اس گروہ کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میری امت کی ایک جماعت قیامت تک قتال (جہاد) کرتی رہے گی، یہ لوگ حق پر قائم ہونگے ” (مسلم)۔ یہ حدیث ایک اور جگہ اس اضافے کے ساتھ مذکور ہے کہ یہاں تک کہ دجال کا ظہور ہو جائے۔ دجال کے آنے سے پہلے کے حالات بیان کرتے ہوے فرمایا:”دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھو کہ و فریب کے ہوں گے، سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار بنایا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں رویبضہ بات کریں گے، پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں؟ فرمایا گھٹیا (فاسق وفاجر) لوگ، وہ لوگوں کے اہم معاملات میں بولا کریں گے“(مسند احمد: ۲۳۳۱)
کتاب الملائم سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے قریب بڑی بڑی جنگیں ہوں گی۔ ان جنگوں کے دو ادوار ہوں گے۔ پہلے دور میں مسلمانوں کو زبردست ہزیمت ہوگی۔ پورا مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا لیکن کچھ عرصہ بعد پانسا پلٹے گا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہونا شروع ہو جائیگی اور ان کا غلبہ ہو جائیگا۔ آخری دور کی جنگوں کے پہلے دور کے بارے میں فرمایا گیا کہ”عربوں کیلئے بڑی ہلاکت ہے، اس شر کی وجہ سے جو قریب آچکا ہے“۔ ایک موقع پر حضرت اُم سلمٰی ؓنے حضور اکرم سے دریافت کیا کہ جب یہ ہو رہا ہوگا تو عرب کہاں ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عرب بہت کم رہ جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ عربوں کیلئے جنگ کا پہلا دور بہت تباہ کن ہے۔ آج فلسطین،شام اور عراق کے حالات دیکھے جاسکتے ہیں اس ضمن میں احادیث آگے بیان کی جائیں گی۔ جوں جوں امت ایک ہونے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ایک جسم بننے کی کوشش کرئے گی کفار بھی اپنی سازشوں میں اضافہ کرتے جائیں گے اور امت کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی سر توڑ کوشش کر میں لگے رہیں گے،چند سال قبل بنگلہ دیش میں کئی لوگوں کو پاکستان سے تعلق کی بنیاد پر سزائے موت دی گئی،
پاکستان سے افغانیوں کو نکالنے کے حکومتی اعلانات ہوئے، لبنان میں شامی پناہ گزینوں پر حملے کر کے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمی پیدا کی گئیں، یہی کام اردن میں موجودہ شامی پناہ گزینوں کے ساتھ بھی ہوا، مصر نے فلسطین کے ساتھ اپنی سرحدی اور رفح میں موجود سرنگوں کو بند کر دیا اورفلسطینیوں کو نکال دیا، ترکی نے فلسطینیوں کے لیے ویزے کی شرائط سخت کر دیں، اسرائیل نے فلسطین پر حملوں میں بے گناہ بچوں، بزرگوں اور خواتین کی نسل کشی کی، کئی ماہ تک جاری اس نسل کشی میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، جب کہ عالم اسلام کی جانب سے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ کیا گیا پھر شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے جس کے بعد وہاں پر بھی مظالم کی کئی داستانیں منظر عام پر آئیں، ہر جگہ یہ امریکی احکامات اور آشرباد پر ہوا،اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فلسطین بارے بیان سب کے سامنے ہے، یورپی یونین نے مشتر کہ کرنسی یورو بنالی مغرب اپنے لیے اتحاد کو پسند کرتا ہے ہمارے لیے تقسیم اور اختلاف کو، اسکاٹ لینڈ کے برطانیہ کے ساتھ رہنے کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے جبکہ انڈو نیشیا اور سوڈان کو تقسیم کر دیا گیا، عراق، لیبیا، شام، یمن اور پاکستان کو مغرب تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ ان جنگوں میں شام کی لڑائی بھی ہے حدیث میں بیان ہوا: قیامت سے پہلے یہ واقعہ ضرور ہو کر رہے گا کہ اہل روم اہل اسلام سے اعمان یا دابق (حلب کے آس پاس) جنگ نہ کرلیں (مسلم)۔ ایک اور جگہ فرمایا: ہجرت کے بعد ہجرت ہوگی پس بہترین شخص وہ ہوگا جو اس جگہ ہجرت کر کے جائے گا جہاں حضرت ابراہیم نے ہجرت کی (یعنی شام) (ابو داؤد)۔ سرزمین شام جسے بلاد الشام یا اخبار الشام کہا جاتا تھا۔ یہ خطہ دریائے فرات سے ارض فلسطین تک پھیلا ہوا ہے جس میں موجودہ دور کے اسرائیل، لبنان اردن اور شام کے ممالک آتے ہیں۔ دمشق اور حلب کے وہ علاقے جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہاں مسلمانوں کا دجال کے ساتھ آخری معرکہ ہوگا۔ یہیں غوطہ کے پاس سیدنا امام مہدی کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔ یہیں حضرت عیسی کا نزول ہو گا اور وہ دجال کو قتل کریں گے۔ یہ سب علاقے گزشتہ کئی سالوں سے مستقل لڑائی کا شکار ہیں۔
جمعی ساروٹ کہتا ہے: ”میں چاہتا تھا کہ میں کہہ سکوں کہ ہماری صلح ہونے والی ہے۔ مگر میں آنے والے ہر مجدون کے معر کے پر ایمان رکھتا ہوں۔ بے شک ہر مجدون آ کر رہے گا۔ وادی مجید و میں گھمسان کا رن پڑے گا اور وہ آکر رہے گا۔ صلح کے جس معاہدے پر وہ دستخط کرنا چاہتے ہیں کر لیں معاہدہ بھی پورا نہیں ہوگا تاریک دن آنے والے ہیں“۔ اسی طرح پیسٹر کن باؤ جس کا تعلق میکلن چرچ سے ہے کہتے ہیں:”دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور اس حادثے کا وقوع ہماری زندگی ہی میں کسی وقت ہو سکتا ہے۔ واضح تعین کر دیا ہے میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک نسل کے ختم ہونے سے پہلے یہ باتیں ہو جائیں گی“۔
آج کے دور میں مسلمان جن مشکلات و مصائب کا شکار ہیں یہ حدیث مبارکہ اس پر صادق آتی ہے۔ افغانستان، فلسطین، عراق،شام، پاکستان ہر طرف مسلمان ہی مصائب کی چکی میں پس رہے ہیں۔ نیٹو اور اسرائیل کی افواج ان سب پر ایسے ٹوٹی پڑ رہی ہیں جیسے کھانے کے پیالے پر بھوکا ٹوٹتا ہے۔ پچھلے سالوں پیرس میں چالیس ممالک کے سربراہان کا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گستاخ کارٹون بنانے والوں کے حق میں مظاہرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ایک نئے اتحاد اور”تجدید عہد“ کا مسلمانوں پر نشانی کے طور پر واضح کرنا تھا۔ وہ مسلمانوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ تمہاری دنیا سے محبت کی وجہ سے ہمارے دلوں سے تمہارا رعب نکل چکا ہے اور اب تمہیں ایک اور درندگی کا سامنا کرنا ہوگا۔ چلتے چلتے ایک حدیث اور ملاحظہ فرمائیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرناتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آخری زمانے میں زمین کا دھنسنا اور بہتان بازی اور مسخ ہو گا جب گانے بجانے اور موسیقی کے آلات زیادہ ہو جائیں گے اور شراب کو حلال کر لیا جائے گا“(صحیح الجامع 3665)۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کے آلات موسیقی اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ لوگ اپنے سروں پر ان آلات کو اٹھائے پھیریں گے۔ دنیا کے باکمال اسکالرز نے اس کا اشارہ آج کل کے ”ہیڈ فون“ اور”ہینڈ فری“ وغیرہ کی جانب قرار دیا ہے، اور اگر دیکھا جائے تو یہ بات سچی بھی ہے کہ آج ہر طرف شراب اور موسیقی کا زور و شور نظر آتا ہے۔ بہر حال آخری جنگوں کا نقطہ آغاز خراسان کا علاقہ ہے، معروف پاکستانی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد اور مصر کے سکالر شیخ عمران حسین کی ریسرچ کے مطابق خراسان میں موجودہ مکمل افغانستان جبکہ پاکستان، ایران، عراق اور روس سے جڑے ازبکستان کے کچھ علاقوں پر محیط ہے۔ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ نے روایت کیا ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ”جب تم دیکھو کہ خراسان سے سیاہ جھنڈے والے لشکر آرہے ہیں تو ان میں شامل ہونے کے لئے ان کی طرف دوڑ پڑنا خواہ تمہیں برف پر پیٹھ کے بل گھسیٹ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے“۔ امریکا اور اس کے سٹرٹیجک پارٹنر بھارت نے حضور ﷺ کے اس فرمان پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے خراسان سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔ تبھی تو علامہ اقبال بڑے فخر سے فرماتے ہیں:

میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

یہود و ہنود کا پختہ یقین ہے کہ حق و باطل کے آخری معر کے میں خراسان سے بھیجی گئی فوجی کمک سے مسلمان دنیا پر غالب ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کو یہود و ہنود نے ہمیشہ ختم کرنے کا موقع ڈھونڈا ہے۔ خراسان کا یہ لشکر پہلے روس کو پاش پاش کر چکا ہے اور اب امریکہ اڑتالیس ممالک سمیت شکست فاش کے ساتھ دنیا کے سامنے ہے۔ اسی دوران عراق میں جنگ برپا کی گئی اور پھر رخ شام کی طرف کیا گیا جہاں پچھلی دہائی میں امریکہ نے چار دن میں سو سے زائد فضائی حملے کئے۔ حضرت عبداللہ ؓبن عمرو سے روایت میں ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب بنو قنطو را یعنی اہل مغرب تمہیں عراق سے نکال دیں گے، میں نے پوچھا ہم دوبارہ واپس آسکیں گے،
حضرت عبداللہؓ نے فرمایا، آپ ایسا چاہتے ہیں، میں نے کہا ضرور، انھوں نے فرمایا ہاں عراق واپس لوٹ آئیں گے اور ان کے لیے خوشحال اور آسودگی کی زندگی ہوگی (الفتن۔ نعیم بن – حماد)۔ عراق پر جنگ جس طرح مسلط کی گئی اور جس طرح تمام اہل مغرب نے مل کر وہاں کی ہر بستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انھیں ہجرت پر مجبور کیا، اس کی کہانی بار بار بیان ہو چکی۔ اس کے بعد کی ترتیب کے مطابق، مصر میں انتشار اور خرابی کا ذکر ہے اور ٹھیک اسی ترتیب سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔
حضرت وہب ابن منبہؓ فرماتے ہیں کہ”جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے“ (السنن الواردہ فی الفتن)۔ مصر کے پہلے جھنڈوں کا بھی احادیث میں ذکر ہے جس کا تذکرہ پچھلے مضمون میں کیا جا چکا۔ شام آخری جنگ میں جسے رسول اللہ ﷺ نے ملحمۃ الکبریٰ کہا ہے مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر ہو گا اور اسی جگہ مغرب سے جنگ برپا ہوگی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی نصرت یمن سے کی جائے گی۔ حضرت کعبؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا ”جب رومی جنگ عظیم (ملائم) میں اہل شام سے جنگ کریں گے تو اللہ تعالیٰ دو لشکروں کے ذریعے اہل شام کی مدد کرے گا۔ ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ اسی ہزار، اہل یمن کے ذریعے، جو اپنی بند تلواریں لٹکائے ہوئے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے کہ ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں۔ ہم اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے طاعون، ہر قسم کی تکلیف اور تھکاوٹ اٹھا لیں گے“ (الفتن، نعیم بن حماد)۔ مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پرلڑی جائے گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ترکی کے قریب ہیں۔ موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے خراسان یعنی افغانستان کے بعد مصر میں ظلم کا بازار گرم کیا گیا، اور جن پہلے جھنڈوں کا احادیث میں ذکر ہے وہ اخوان المسلمین کے ہاتھوں میں نظر آئے۔ شام میں امریکہ کی پشت پناہی میں پہلے بشار الاسد نے ظلم رواں رکھا اورپھر ایک نئے اتحاد نے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے وہاں کا رخ کیا، اب شام میں بشارالاسد کی حکومت ختم ہوچکی ہے،ان دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے، کیاجن لوگوں کا اُوپر حدیث مبارکہ میں ذکربیان ہوا یہ وہ ہی لوگ ہیں؟ یہ جنگ انگڑائی لیتی ہوئی پوری دنیا کو لپیٹ میں لے گی اور اسلام کے فرزند ہندوستان پر دھاوا بول دیں گے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور فرمایا”ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتی کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ اس جہاد عظیم کی برکت سے ان مجاہدین کی مغفرت فرمادے گا پھر جب وہ مسلمان واپس پلیٹیں گے تو عیسی ابن مریم علیہ سلام کو شام میں پائیں گے“۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا: ”اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پُر انا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا جب اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطا کر دی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں گا اور اگر شہید کر دیا گیا تو افضل الشہداء میں ہوں گا“۔ راوی کا بیان ہے کہ حضور ﷺ مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا: بہت مشکل، بہت مشکل (نعیم بن حماد، کتاب الفتن غزوۃ الہند) یعنی مسلمانوں کے لشکر ہر جانب کفر سے نبرد آزما نظر آئیں گے اور سب سے بڑی بات کہ یہ سب اچانک نہ ہو گا بلکہ یہ میدان آہستہ آہستہ سجتے چلے جائیں گے اور جب یہ معر کے ہو رہے ہونگے اس دوران ہی امام مہدی اس منزل کے لئے آئیں گے جس میں مسلمانوں کے لشکر کا ٹکراؤ د جال سے ہوگا۔ دوسری جانب نظر دوڑائی جائے تو یہود کے عقیدے کے مطابق آخری جنگ سے پہلے جن خونی چاند گرہنوں کا ذکر ہے اس کا آخری حصہ بھی تقریبا پورا ہو چکا۔ اور احادیث کے مطابق اس آخری معرکہ حق و باطل میں یہود کا خوب قتل عام ہوگا، وہ جس پتھر کے پیچھے بھی چھپے گا وہ بول اٹھے گا کہ میرے پیچھے یہودی ہے اس کو قتل کر دو مگر ایک درخت ”غرقد“ یہودیوں کو پناہ دے گا۔ جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہودیوں نے اسرائیل اور ایران میں یہودی اکثریتی علاقوں میں اس درخت کو بہت زیادہ لگایا ہے اس کے علاوہ جہاں جہاں بھی نیٹو افواج نے حملہ کیا وہاں بھی غرقد اُگائے گئے۔ میدان سجتے نظر آ رہے ہیں، حق و باطل کے خیمے الگ الگ نظر آنے لگ گئے ہیں اور ایسا دور کہ جب مسلمانوں کا رعب کفار کے دلوں سے نکل چکا ہے تو امر ضروری ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کیا جائے اور تیاری شروع کر دی جائے کہ اس طرح اہل باطل کے دلوں پر پھر سے رُعب طاری کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہے: ترجمہ:

”اور اے مسلمانو! تم سے جس قدر ہو سکے کافروں کے مقابلہ کے لئے ہر قسم کے سامان جنگ سے اور پلے ہوئے گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے تیاری کرتے رہو تا کہ اس آمادگی اور تیاری کے باعث تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو اور ان کے علاوہ اور دوسرے کافروں پر بھی جن کوتم نہیں جانتے پر اللہ ان کو جانتا ہے”۔ (الانفال)

 

قرآن و سائنس، حقائق اور مشاہدات

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button