حریت رہنما مقبول احمد بٹ کی داستان شجاعت
بھارتی حکومت و فورسز کے لیے خوف و دہشت کا دوسرا نام '' مقبول بٹ شہید'' 11 فروری 2025 - 41 واں یوم شہادت ''مقبوضہ وادئ کشمیر میں گوریلا کارروائیوں کے بانی، عظیم مجاہد و حریت رہنما کی داستان شجاعت'' سینئر صحافی / تجزیہ نگار و کشمیر لبریشن موومنٹ کے سابق سپریم کمانڈر فاروق حارث العباسی کی زبانی


حریت رہنما مقبول احمد بٹ کی داستان شجاعت
1964ء کا وہ زمانہ جب مسئلہ کشمیر کی باگ ڈور مکمل طور پر پاکستان کے ہاتھ میں تھی۔ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے پاکستان اپنی پالیسی کے تحت سرگرم عمل تھا۔ دوسری طرف کشمیر کے دونوں حصوں میں بسنے والے ارباب سیاست اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے میں مصروف تھے۔ یہ تمام تر جد و جہد سیاسی نوعیت کی تھی۔ گفت و شنید کی اس صورت کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکلتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انہی دنوں شیخ عبداللہ کا پہلی مرتبہ پاکستان آنا اور مسئلہ کشمیر پر بات کرنا گو کہ پیش رفت دیکھائی دیا۔ بعد ازاں یہ معاملات وہیں کے وہیں دب گئے جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ چنانچہ اس صورت حال کے پیش نظر آزاد کشمیر کے کچھ جوشلے نوجوانوں نے اس سیاسی عمل سے دل برداشتہ ہو کہ مسلح جدوجہد کے متعلق غور و فکر شروع کیا۔ لہذ اگلے ہی سال یعنی اپریل 1965ء میں سیالکوٹ میں ”محاذ رائے شماری آزاد جموں وکشمیر“کا قیام عمل میں لایا گیا۔
جانثاروں کا عہد
مقبول بٹ اس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ مقبول بٹ کے اصولوں میں یہ بات ہرگز شامل نہ تھی کہ گھر سے ایک بار نکلا ہوا حریت پسند دوبارہ گھر لوٹ آئے۔ مقصد یہ کہ تادم حیات میدان کار زار میں رہے۔ اپنے ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس مرد مجاہد نے سیالکوٹ میں جموں کے مقام پر جنگ بندی لائن کے قریب وطن کی مٹی اپنی مٹھی میں لی اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا عہد کیا۔ مقبول بٹ کی تقلید میں بے شمار جاں نثاروں نے بھی وطن کی مٹی اپنے اپنے ہاتھوں میں لی۔ سب نے قسم اُٹھائی کہ کشمیر کی آزادی تک دشمن کے ساتھ جنگ رہے گی، جنگ رہے گی۔ بس یہیں سے مقبوضہ وادی میں گوریلا جنگ کی تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔
مقبول احمد بٹ کی سیاسی و عسکری جدوجہد کا آغاز

مقبول بٹ کی سیاسی جدو جہد کے ساتھ ساتھ عسکری کارناموں کی ایسی ایسی داستانیں ہیں جن پر کشمیری قوم بالخصوص صدیوں ناز کرتی رہے گی۔ مقبوضہ وادی کے اندر گوریلا جنگ مقبول بٹ کی پالیسی کا مرکز محور تھی۔ آپ نے نوجوانوں کو مسلح تربیت دینا شروع کی اور آزادی کشمیر تک حرمت پسندانہ زندگی گزارنے کا درس دیا۔ اس درس کے ساتھ وہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت ایک کمانڈر اور قائد کی حیثیت سے میدان جنگ میں کود پڑے۔ اس مسلح جدو جہد یا گوریلا جنگ کی منصوبہ بندی کا آغاز جن دنوں آپ نے کیا،اتفاق سے وہ شب و روز گوریلا تحریک کے لیے نہایت موزوں اور سازگار تھے اس لیے کہ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے اثرات مقبوضہ کشمیر میں عوامی سطح پر بڑے نمایاں اور جاندار تھے۔ ایثار و قربانی کے جذبات اور آزادی کی تڑپ ہر کشمیری کو بے چین و بے قرار کر چکی تھی۔ پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ ان حالات میں ایک منظم موثر اور طاقت ور تحریک چلانے کے عوامی سطح پر زمین پوری طرح زر خیز اور ہموار ہو چکی تھی چنانچہ قائد حریت مقبول احمد بٹ 1966ء کے اوائل میں اپنے ایک طاقتور گروپ کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتے ہیں تاکہ بھارتی فوج کے خلاف گوریلا کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کرسکیں۔ اس گروپ میں گلگت کے ایک ریٹائرڈ میجر امان اللہ خان، مظفر آباد کے ریٹائرڈ صوبیدار کالا خان اور ایک مضبوط و خوبرو نوجوان اور نگ زیب بھی شامل تھے۔
گوریلا کارروائیوں میں میر احمد خان کی شمولیت
مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کے بعد آپ کے گروپ میں ایک اور مجاہد میر احمد خان شامل ہوا اور یہی وہ مجاہد تھا جو تادم حیات آپ کی تحریکی سرگرمیوں میں مرکزی کردارادا کرتا رہا۔ مقبول بٹ کی قیادت میں مقبوضہ وادی میں چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ بھارتی فوج ان اچانک حملوں اور خفیہ کارروائیوں سے شدید بوکھلاہٹ کا شکار تھی۔ کشمیر کے اندر مزید نفری طلب کی گئی مگر ان گوریلوں نے بھارتی فوج کا ناک میں دم کیے رکھا۔ بھارتی فوج جب ان حریت پسند گوریلوں کو پکڑنے یا شہید کرنے میں ناکام رہی تو انہوں نے نہایت بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بزدلانہ کارروائیاں شروع کیں۔ ان بزدلانہ بے حمیت کارروائیوں کا پلان بھارتی انٹیلی جنس کے ایک ”انسپکٹر امر چند“ نے ترتیب دیا جو حریت پسندوں اور پاکستان کا شدید مخالف و دشمن تھا۔ مقبول بٹ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کامیاب گوریلا کارروائی کرتا اور بھارتی فوجیوں کا حصار توڑ کر اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکال لے جاتا۔ اب بھارتی فوج نے جو بزدلانہ حربہ استعمال کیا وہ یہ تھا کہ جہاں کہیں ایسی گوریلا کارروائیاں ہوتیں بھارتی فوجی اس علاقے کے لوگوں کو گھروں سے نکال لیتی، انہیں مارتی پیٹتی اور عورتوں کی عصمت دری کرتی۔ یہ صورت حال مجاہدین اور حریت پسندوں کے لیے نا قابل برداشت تھی چنانچہ کچھ وقت کے لیے گوریلا کار روائیاں روک دی گئیں اور اس کا حل تلاش کیا جانے لگا۔
انٹیلی جنس انسپیکٹر امر چند کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام
فیصلہ ہوا کہ سب سے پہلے امر چند کو ٹھکانے لگایا جائے جو اس غلیظ اور بزدلانہ پلان کا بھیا تک کردار ہے چنانچہ ایک رات جب امر چند اپنے گھر میں موجود تھا، مقبول بٹ کی قیادت میں گوریلا فورس نے اس کے گھر کو گھیرے میں لے لیا اور پھر مقبول بٹ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ دیوار پھلانگ کر گھر کے صحن میں کود گیا۔ امر چند اپنے بیوی بچوں کے ساتھ صحن میں سویا ہوا تھا۔ کودنے کی آواز سن کر فورا تکیے کے نیچے سے پستول نکالا، اس سے قبل کہ امر چند اپنا پستول سیدھا کرتا، مقبول بٹ اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ مقبول بٹ نے اس کی کنپٹی پر اپنا ریوالور رکھ دیا اور حکم دیا کہ اگر کوئی حرکت کی تو کھوپڑی اُڑا دوں گا۔ امر چند بے بس تھا فوراً ہی پستول پھینک دیا اور اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ مقبول بٹ کے ساتھیوں نے پستول اپنے قبضے میں لے لیا۔ شور سن کر امر چند کے بیوی بچے بھی جاگ پڑے اور دہائی دینے لگے کہ ہمیں مت مارنا۔ ساتھیوں نے امر چند کی بیوی بچوں کو ایک کمرے میں بند کیا اور امر چند کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکل آئے۔ مقبول بٹ امر چند کو اپنے ساتھ زندہ لے جانا چاہتے تھے تاکہ اس سے اہم معلومات حاصل کی جا سکیں چنانچہ گھر کے باہر موجود ساتھی اور مقبول بٹ امر چند کو لے کر رات کی تاریکی میں نامعلوم منزل کی طرف چل پڑے۔
امرچند کی دھوکہ دہی
ایک مقام پر پہنچ کرامر چند نے رفع حاجت کی درخواست کی۔ مقبول بٹ نے میر احمد خان کی زیر نگرانی اسے اجازت دے دی۔ امر چند جو نہی رفع حاجت کے لیے ایک طرف بیٹھنے لگا مگر موقع غنیمت جان کر وہاں سے بھاگا۔ میر احمد خان بھی اس کے پیچھے بھاگ پڑا۔مقبول بٹ نے چیخ کر کہا کہ اسے گولی مت مارنا، زندہ پکڑنا۔ دونوں برق رفتاری کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے، امیر چند کی پوری کوشش تھی کہ وہ کسی فوجی چوکی تک پہنچ جائے مگر یہ اس کی قسمت میں نہ تھا۔ میر احمد خان نے جلد ہی اسے دبوچ لیا۔ مقبول بٹ اور باقی ساتھی بھی پیچھے بھاگے چلے آرہے تھے۔ اس سے پہلے کہ مقبول بٹ قریب پہنچتے، میراحمد خان امیر چند کا پیٹ چاک کر چکا تھا۔ مقبول بٹ اور باقی ساتھی جب قریب پہنچے تو امر چند کے پیٹ سے آنتیں باہر اور چاروں شانے چت پڑا تھا۔ مقبول بٹ نے خوشی اور افسوس کے ملے جلے جذبات میں میر احمد خان سے استفسار کیا کہ تم نے اسے قتل کیوں کیا؟ ہم اس سے بہت سی معلومات حاصل کر سکتے تھے۔ میر احمد خان نے جواب دیا، اس سے قبل کہ یہ چیختا چلاتا، شور مچاتا اور اس کی آواز بھارتی فوجیوں تک پہنچ جاتی، میں نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ یہ 1966ء کے سال کا اختتام ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس انسپکٹر امر چند مقبول بٹ کی قیادت میں گوریلا فورس کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا۔ یہ خبر کشمیر سمیت پورے بھارت میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
کشمیری نوجوانوں کی جوق در جوق گوریلا کارروائیوں میں مشولیت
کشمیری نوجوانوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور نوجوان جوق در جوق گوریلا کارروائیوں میں شامل ہونے لگے۔ مقبول بٹ نے مقبوضہ کشمیر کے اندر باقاعدہ گوریلا جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی جس کے باعث بھارتی حکومت اور بھارتی فوج شدید دباؤ وپریشانی کا شکار تھی۔ کشمیر میں ان گوریلا کارروائیوں کو روکنے اور مقبول بٹ کو ساتھیوں سمیت گرفتار یا ہلاک کرنے کے لیے کشمیر میں مزید پولیس اور فوج کی نفری پہنچادی گئی۔ مقبول بٹ اور ان کے ساتھی بہت محتاط ہو چکے تھے۔ بھارتی پولیس اور فوج شکاری کتوں کی طرح مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ ایک روز آپ چند ساتھیوں کے ساتھ قویل کے مقام پر عبداللہ میر کے گھر ٹہرے۔ چند دن قیام کیا اور نئی حکمت عملی طے کی۔گوریلا مجاہدین کو مختلف گروپوں میں تقسیم اور ان کا الگ الگ کمانڈر مقرر کرتے ہوئے انہیں مختلف علاقوں میں پھیلا دیا گیا۔
نام نہاد مجاہد ڈار نامی شخص کی غداری
انہی دنوں محمد ڈار نامی ایک شخص کو مقبول بٹ کے ساتھ ملوایا گیا کہ یہ مجاہد ہر مقام پر ہماری مدد کر سکتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد کچھ ساتھیوں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس شخص پر یقین اور اعتماد نہیں کر سکتے مگر کچھ ساتھیوں کا خیال تھا کہ جن کے توسط سے اسے یہاں لایا گیا ہم ان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ مقبول بٹ نے دونوں اطراف کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ بہر حال ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے لہذا ہم جلد یہ مقام چھوڑ دیں گے مگر اس سے اگلے ہی روز پولیس اور فوج کی بھاری نفری نے مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ مقبول بٹ اور ساتھی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ فرار کا کوئی راستہ نہ تھا، صرف ایک ہی راستہ تھا کہ مقبول بٹ دیگر ساتھیوں کو بچانے کے لیے اپنی گرفتاری دے دیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔
مقبول احمد بٹ کی گرفتاری
گرفتاری کے بعد مقدمہ چلا اور مقبول بٹ کو انسپکٹر امر چند کے قتل کی پاداش میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ جس وقت یہ حکم سنایا جارہا تھا، مقبول بٹ سیشن جج کی بائیں جانب کٹہرے میں کھڑے تھے۔ حج نے حکم سنانے کے بعد فخریہ انداز میں مقبول بٹ کی جانب دیکھا۔ مقبول بٹ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری اور جج سے مخاطب ہو کر کہا ”ابھی وہ پھندا نہیں بنا جو مقبول بٹ کی گردن میں آسکے“ بھری عدالت میں موت کا سکوت چھا گیا۔ ہر شخص مقبول بٹ کی جرات اور اعتماد پر حیران و ششدر کھڑے کا کھڑارہ گیا۔ مقبول بٹ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ چلتے ہوئے پولیس کے ہمراہ کمرہ عدالت سے باہر نکل گئےاور بیچ کی نگاہیں اس وقت تک مقبول بٹ پر جمی رہیں جب تک کہ وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئے۔ مقبول بٹ کو سری نگر کی سنٹرل جیل میں قید کر دیا گیا۔ تقریبا دو سال تک مقبول بٹ کا یہ مقدمہ لڑا گیا۔
مقبول بٹ کے لیے سزائے موت کا حکم
1966ء سے 1968ء کے آخر تک اور جب سزائے موت سنادی گئی تب مقبول بٹ نے جیل سے فرار کا منصوبہ بنایا۔ جیل کے کمرے میں ان کے ہمراہ صو بیدار کالا خان اور میر احمد خان بھی موجود تھے۔ مقبول بٹ نے اپنے دل کی بات میر احمد اور صوبیدار کالا خان سے کہہ دی۔ میر احمد فوراً اس بات پر تیار ہو گیا مگر صوبیدار کالا خان بوڑھا اور ناتواں ہونے کے باعث اس پر راضی نہ ہوا۔ سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور اگلے ماہ رمضان شروع ہونے والا تھا۔ پلان کے مطابق ایک موٹے کیل کے ساتھ پچھلی دیوار کو گھر چنا شروع کر دیا۔ یہ کام رات کے وقت ہوتا۔ دیوار پر ایک کمبل لگا دیا گیا تھاتا کہ جہاں سے دیوار کھرچی جارہی ہے اس کا پتا نہ چلے۔ تقریباً ایک ہفتہ کی کوشش کے بعد اینٹیں نظر آنے لگ گئیں۔ یہ کام میر احمد کرتا تھا۔ پھر اس نے اینٹوں کے درمیان لگے سیمنٹ کو کھر چنا شروع کیا۔ اس طرح ہفتے دس دن کے بعد میر احمد نے ایک اینٹ کا سیمنٹ نکال لیا۔ اپنی اس کامیابی پر وہ بہت خوش تھا۔ دوسرے تیسرے روز اس نے نہایت احتیاط کے ساتھ اینٹ کو دھکا دے کر نکال لیا اور جب جھانک کر دوسری طرف دیکھا تو وہ ایک سٹور ٹائپ کمرہ تھا جس میں پرانی اور بے کار قسم کی چیزیں پڑی تھیں۔ اب اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اینٹ کو دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا اور اگلے روز کا انتظار کیا جانے لگا۔ رمضان شروع ہو چکا تھا۔
9دسمبر 1968ء کو رات تقریباً دو بجے مقبول بٹ اور میر احمد کا جیل سے فرار
دسمبر کی نو تاریخ سردی اپنے پورے زوروں پر تھی۔ خدا خدا کرکے دن گذرا، رات آئی تو میر احمد نے باقی آٹھ دس اینٹیں بآسانی نکال لیں۔ اب وہاں سے فرار کی تیاری مکمل تھی۔ مقبول بٹ اور میر احمد سٹور میں داخل ہوئے جس کے آگے کوئی دروازہ وغیرہ نہ تھا۔ کچھ دیر رکنے کے بعد حالات کا جائزہ لیا، آگے کھلی جگہ اور جیل کی دیوار تھی جسے پھلانگ کر چند لمحوں بعد وہ آزاد ہونے والے تھے چنانچہ نہایت خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے وہ جیل کی دیوار کے ساتھ آن لگے۔ مقبول بٹ میر احمد کے کندھوں پر سوار ہو کر جیل کی دیوار پر ہاتھ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر میر احمد مقبول بٹ کا سہارا لے کر جیل کی دیوار پر چڑھ آیا۔ جیل سے باہر کھلا میدان تھا۔ رات کی تاریکی اور ہو کا عالم، دونوں نہایت پھرتی کے ساتھ جیل کی دیوار سے باہر کود گئے اور محتاط انداز میں ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔ اب وہ جیل کی حدود سے بہت دور نکل چکے تھے۔
16 دن برف پوش پہاڑوں میں سفر
صبح ہونے والی تھی مگر شدید سردی اور دھند کے باعث سورج نکلنے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا اور یہ بات ان کے لیے سود مند تھی۔ روشنی پھیلنے سے پہلے پہلے وہ کسی محفوظ مقام پر پہنچ جانا چاہتے تھے، بالآخر ایک گاؤں میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ دن کی روشنی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ ایک طرف وہ کسی کے گھر میں پناہ لینے کی سوچ رہے تھے تو دوسری طرف سری نگر کی سنٹرل جیل کے سائرن بج چکے تھے مگر مقبول احمد بٹ اور میر احمد خان بھارتی فوج کی دسترس سے دور اور خطرے سے دو چار صورت حال سے باہر نکل چکے تھے۔ ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک بزرگ نکلے۔ مقبول بٹ نے کہا کہ ہم فلاں فلاں گاؤں کے رہنے والے ہیں اور فلاں گاؤں جا رہے تھے کہ راستہ بھٹک گئے، سردی کے مارے ہمارا برا حال ہے، اگر آپ کچھ دیر کے لیے یہاں رکنے کی اجازت دیں تو ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔ بزرگ نے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا اور کہا کہ تم لوگ کشمیری نہیں ہو کیونکہ تمہاری زبان کشمیریوں والی نہیں۔
بقول مقبول بٹ کی وقتی گھبراہٹ
بقول مقبول بٹ کے میں اس وقت خاصا پریشان ہوا اس لیے کہ میں خود کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا کہ میرا اور میرے ساتھی کا تعلق مقبوضہ نہیں بلکہ آزاد کشمیر سے ہے چنانچہ میں نے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرلیا اور بتا دیا کہ ہم مجاہد ہیں اور آزاد کشمیر سے آئے ہیں۔ اس بزرگ نے کہا کہ آپ فورا اندر آجائیں۔ ہم اس کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ دھاتی نے دروازے کی چٹخنی لگا دی اور پھر پاکستان اور مقبوضہ وادی کے حالات پر گفتگو کرنے لگا۔ اس کا انداز بتاتا تھا کہ وہ پاکستان سے والہانہ عقیدت رکھتا ہے اور ہندوستان سے شدید نفرت۔اس کی گفتگو میں سچائی تھی لہذا ہم مطمئن ہو گئے کہ یہاں ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ہم دو دن اس گھر میں رہے۔ تمام گھر والوں نے ہماری خاطر مدارت کی۔ اب ہم ذہنی و جسمانی طور پر کافی سنبھل چکے تھے لہذا اجازت چاہی۔ بزرگ اور اہل خانہ نے ہمیں بہت سی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور ہم رات کی تاریکی میں ایک بار پھر منزل کی طرف نکل پڑے۔ مقبول احمد بٹ اور میر احمد خان کے یہ شب وروز انتہائی تکلیف اور مشقت کے شب وروز تھے۔ شدید سردی و برف باری اور بعض دنوں میں بارش میں بھی کھلے آسمان تلے اپنا سفر جاری رکھا۔ رات کبھی کسی کھائی میں گزار لی تو کبھی کسی گھنی جھاڑی میں چھپ کر،ہاتھ اور پاؤں کا یہ عالم تھا گو یا ساتھ ہی نہیں۔ جسم دن بہ دن اکڑتا جا رہا تھا۔
مقبول احمد بٹ ایف آئی یو کی تحویل میں
دوسری طرف وادی کشمیر میں کوئی گاؤں ایسا نہ تھا جہاں بھارتی فوجی تلاشیاں لینے میں مصروف نہ تھے۔ مقبول بٹ اور میر احمد خان پہاڑوں، کھائیوں اور برف کی چٹانوں سے لڑتے لڑاتے 24 دسمبر کی شام”ساون کچھ“کی چوکی پر پہنچ گئے۔ بقول مقبول بٹ ساون کچھ کے بٹالین ہیڈ کوارٹر میں ہم رات کے وقت پہنچے۔ اگلے روز صبح سویرے راستے پر میس کے اندر آزادکشمیر فوج کے کچھ افسروں سے میری بات چیت ہوئی۔25 دسمبر 1968ء۔ ایف آئی یو کے ایک جے سی او میرے کیمپ میں آئے اور چند سوالات کیے۔ یہیں پر آرمی کے ایک ڈاکٹر نے ہمیں ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائی۔ کچھ دیر کے بعد وہی جے سی او ایک جیپ لے کر واپس آئے اور ہمیں مظفر آباد اپنے ساتھ لے گئے۔ مظفر آباد پہنچ کر ہمیں سیدھا گوجر کے قلعہ میں لے جایا گیا جسے عرف عام میں بلیک فورٹ یا سیاہ قلعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر ہمیں پاکستان آرمی کی 611 فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ کے حوالے کر دیا گیا جہاں پر مختلف ایجنسیاں تقریباً چھ ماہ تک ہم سے تفتیش کرتی رہیں بالآخر عوامی احتجاج پر ہمیں وہاں سے رہائی ملی۔ تفتیش کا یہ مرحلہ اس لیے بھی تھا کہ 65ء کی جنگ کے بعد بہت سے بھارتی ایجنٹ مجاہدین کے بھیس میں آزاد کشمیر وغیرہ میں داخل کیے گئے تھے لہذا پاکستان اس سلسلہ میں بہت محتاط تھا۔ اس کے بعد مقبول بٹ پھر اپنے مشن میں جت گئے۔
سانحہ 71ء کے بعد کے ناگفتہ بہہ حالات

71 ء تک پاکستان کے سیاسی و عسکری حالات نہایت نہ گفتہ بہہ ہو چکے تھے۔ 71ء کے سانحہ کے بعد مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں میں بھارت کے خلاف نفرت اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ محاذ رائے شماری آزاد جموں و کشمیر تنظیم مزید منظم و فعال ہوئی جس کے صدر خود مقبول بٹ تھے۔ ذو الفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے تھے اور انہیں لمحہ لمحہ کی خبر دی جارہی تھی چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ کو ملاقات کا پیغام بھجوایا جسے مقبول بٹ نے قبول کیا۔ ملاقات کا وقت طے پایا۔ اپریل 1976 ء کی اس ملاقات میں عبد الحفیظ پیرزادہ کے علاوہ میر علی حسین گردیزی،چوہدری نور حسین اور شیخ محی الدین بھی شامل تھے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے بارے میں تبادلہ خیال ہوتا رہا مگر بھٹو صاحب کی طرف سے کوئی ایسارد عمل دیکھنے میں نہ آیا جس سے ظاہر ہوتا کہ وہ اس تنظیم یا ہماری کاوشوں و قربانیوں سے خوش نہیں تھے۔ بعد ازاں بھٹو صاحب نے نہ صرف تنظیم کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا بلکہ مقبول بٹ کو ان غیر سیاسی وعسکری کارروائیوں سے روکنے کا بھی عندیہ دے دیا۔
مقبول احمد بٹ کی مقبوضہ کشمیر میں واپسی و گوریلا کارروائیوں میں شدت
مقبول بٹ نے اس بات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ”ملاقات کے بعد بجائے اس کے کہ میرے حوصلوں کو تقویت ملتی، میں مایوسی کے سمندر میں جاگرا مگر میرے اندر جو ایثار و قربانی اور آزادی وطن کا سمندر موجزن تھا وہ بھلا کیسے تھم سکتا تھا“ مقبول نے فیصلہ کر لیا کہ وہ دوبارہ مقبوضہ وادی میں جائے گا اور اپنے مشن کو مزید جانفشانی کے ساتھ جاری رکھے گا چاہے اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے چنانچہ اگلے ہی ماہ دوستوں سے مشاورت کرنے کے بعد مئی کے وسط میں وہ اپنے دو جانثاروں عبدالحمید اور ریاض احمد کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گئے اور گوریلا کارروائیوں کا پھر سے آغاز کر دیا مگر بد قسمتی سے اگلے ہی ماہ جون 1976 ء میں اپنے دونوں ساتھیوں سمیت گرفتار ہو گئے۔
تنظیم الفتح کی بھارتی فوج کے خلاف جوابی کارروائیاں
1964ء میں مقبوضہ کشمیر کی ایک تنظیم ”الفتح“ جو اُن دنوں اپنی مجاہدانہ کارروائیوں میں مصروف تھی جس کے معروف حریت راہنماء سید عبدالحمید دیوانی نہایت متحرک مجاہد تھے، بھارتی حکومت نے انہیں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث کرکے گرفتار کرلیا۔ اُن کا مقدمہ ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا لیکن بھارتی حکومت اُن کے خلاف کسی قسم کی دہشت گرد کارروائیوں کا ثبوت فراہم نہ کرسکی جس کے باعث ہائی کورٹ نے اُن کی رہائی کاحکم جاری کردیا۔ سید عبدالحمید دیوانی چونکہ ایک حریت رہنماء اور وہ مقبول بٹ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے لہذا انہوں نے اپنی خفیہ کارروائیاں جاری رکھیں تاآنکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں محمد احسن راتھر، ملک عبدالرشید، غلام رسول شاہین، محمد رفیق اور غلام نبی کے ہمراہ 10ستمبر 1976کو بھارت کا بوئنگ 737 طیارہ اغوا کیا اور سے لاہور ایئر پورٹ لے آئے۔ سید عبد الحمید دیوانی کے مطالبات میں اہم مطالبے یہ بھی تھے کہ”اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کورٹ والڈ ہائیم 1948ء اور 1949 ء کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے پاکستان آئے، بھارت رائے شماری کا وعدہ پورا کرے، بھارت کشمیری حریت پسندوں کو رہا کرے اور مقبول بٹ کو پاکستان بھجوایا جائے،اگر ایسا نہ ہوا تو ہم مسافروں سمیت جہاز کو اُڑا دیں گئے“ پاکستان اور بھارت کےحکمرانوں کے درمیان ایک خفیہ پلان تیار کیا گیا۔ اس خفیہ پلان کے تحت مقبول بٹ کو سری نگر کی سنٹرل جیل سے انتہائی خفیہ طور پر خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان لایا گیا۔
سید عبدالحمید دیوانی کے ساتھ حکومت وقت کی بدعہدی 
بقول سید عبد الحمید دیوانی ہمیں اطلاع دی گئی کہ آپ کے مطالبات پر کام شروع ہو چکا ہے۔ کشمیری حریت پسند رہا کر دیئے گئے ہیں اور مقبول بٹ کو بھی آپ کے مطالبے کے مطابق لاہور پہنچا دیا گیا ہے لہذا آپ جہاز کا دروازہ کھولیں تا کہ مقبول بٹ کو آپ سے ملوا دیا جائے اور آپ سے مزید گفت و شنید ہو سکے۔ ہم حکمرانوں کے دھوکے میں آگئے اور جہاز کا دروازہ کھول دیا گیا۔ مقبول بٹ کو دیکھ کر گو ہمیں اطمینان ہوا مگر جونہی مقبول بٹ اور دیگر کمانڈوز اندر داخل ہوئے ہمیں گرفتار کر لیا گیا اور پھر اسی خفیہ انداز میں مقبول بٹ کو اسی خصوصی طیارے سے واپس بھجوا دیا گیا۔ سید عبدالحمید دیوانی کے اس دعویٰ کے حق میں ہفت روزہ ”معیار“ لند ن کی ایک رپورٹ جو اُس نے جرمن خبر رساں ایجنسی ”DPA“ کے حوالے سے ستمبر 1978ء میں شائع کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ”مسافروں کی جان بچانے کے لیے بھارتی حکومت نے کشمیری حریت رہنماء مقبول احمد بٹ کو سری نگر جیل سے رہا کرتے ہوئے اُسے لاہور میں طیارہ اغواہ کرنے والوں کے حوالے کردیا گیا“ سید عبدالحمید دیوانی کے ساتھ دونوں حکومتوں نے باقاعدہ ایک کھیل کھیلا اور گرفتاری کے بعد جیل میں اُن سے انتہائی براسلوک کیا گیا۔
سید عبدالحمید دیوانی کی قید اور پھر رہائی

مختصر یہ کہ بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد 1980ء لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مسٹر جسٹس عامر رضا نے سید عبدالحمید دیوانی اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی پاداش میں تین ماہ کی سزا سنائی اور پھر تین ماہ مکمل ہونے کے بعد سید عبدالحمید دیوانی اور اُن کے ساتھیوں کو رہا کردیا گیا۔ سید عبد الحمید دیوانی کے ساتھ راقم الحروف کے نہایت قریبی تعلقات اور گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے میرے پاس رہے۔ میری شادی میں باقاعدہ شریک ہوئے۔ ایسے لا تعداد واقعات ہیں جو انہوں نے میرے ساتھ شیئر کیے، ان کی بہت سی یادیں میرے پاس محفوظ ہیں۔
سید عبدالحمید دیوانی کی سٹوڈنٹ لیڈر امیر زمان طاہر سے ملاقات اور کشمیر سٹوڈنٹس فریڈم موومنٹ کی بنیاد

یہاں پر ایک بات نہایت قابل ذکر ہے کہ 1980ء میں رہائی پانے کے بعد سید عبدالحمید دیوانی آزاد کشمیر روانہ ہوئے اور وہاں کے سٹوڈنٹ لیڈر امیر زمان طاہر سے ملاقات کی یہ ملاقات دیگر طالب علم کے ہمراہ نہایت اہمیت کی حامل قرار دی گئی جس کے نتیجے میں سید عبدالحمید دیوانی اور امیر زمان طاہر کی سربراہی میں 1981ء میں ”کشمیر سٹوڈنٹس فریڈم موومنٹ“ کی بنیاد رکھی گئی اس سٹوڈنٹ تحریک نے آگے چل کر ایک بڑی سیاسی جماعت کو جنم دیا چناچہ 1989 ء شیزان ہوٹل مال روڈ لاہور میں ایک بڑی پریس کانفرنس کے دوران ”کشمیر لبریشن موومنٹ“KLM کی بنیاد رکھی گئی جس کے چیف آرگنائزر امیرزمان طاہر اور سپریم کمانڈر راقم الحروف کو منتخب کیا گیا۔ کشمیر لبریشن موومنٹ کا مقبول بٹ کی تنظیم کے ساتھ باقاعد ہ الحاق کیا گیا اور KLM کے مجاہدین نے مقبوضہ وادی میں مشترکہ کارروائیاں شروع کیں۔
76ء سے 84ء تک بدترین تشدد و تکالیف کے ماہ و سال
اب چونکہ مقبول بٹ نہ صرف انسپکٹر امر چند کے قتل میں مطلوب تھے بلکہ ان پر دہشت گردی اور ایک بنک منیجر کے قتل کا مقدمہ بھی ڈال دیا گیا۔ 1976ء سے 1984ء تک کا یہ آٹھ سالہ دور مقبول بٹ پر بدترین تشدد اور انسانیت سوز سلوک کا عرصہ تھا۔ مقبول بٹ چونکہ اس سے قبل سری نگر سنٹرل جیل سے فرار ہو چکے تھے اور سید عبدالحمید دیوانی کے طیارہ اغوا کرنے سے قبل وہ سری نگر سنٹرل جیل ہی میں تھے لہذا طیارہ اغوا کے بعد انہیں فوری طور پر سری نگر جیل سے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں ان پر بہیمانہ سلوک اور بدترین تشدد کیا جاتا رہا مگر اس مرد مجاہد نے بھارتیوں کے ان تمام مظالم اور جبرو تشدد کو نہایت جواں مردی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ مقبول بٹ کو معلوم تھا کہ انہیں ہر حال اور ہر حالت میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا تھا اور سبھی لوگ بشمول حریت پسند اس بات سے آگاہ تھے کہ قائد حریت کی زندگی کی شمع بجھنے والی ہے لیکن حقیقت میں یہ شمع بجھ کر بھی کئی چراغ روشن کرنے والی تھی۔ مقبول بٹ ملاقاتیوں کواکثر یہ شعر سناتے کہ ”ہمیں خبر ہے کہ ہم میں چماغ آخرِ شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے“
مقبول احمد بٹ کی پھانسی کا اعلان
9 فروری 1984ء کو بھارت نے اعلان کر دیا کہ 11 فروری کو مقبول احمد بٹ کو پھانسی دے دی جائے گی۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے صدر ذیل سنگھ گیانی سے اپیل نا منظور کرا کر پھانسی کا حکم صادر کروا دیا۔ پھانسی کے لیے کلو رام جلاد کے ساتھ فقیر نامی جلاد کو بھی تیار کیا گیا۔ مقبول احمد بٹ نے جیل سے ایک خط کے ذریعے اپنے آخری پیغام میں قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دے کر لکھا کہ ”تم نہ ڈرو لکھا کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ، تمہی غالب رہو گے اگر تم سچے مومن ہو“۔ 11 فروری 1984ء کی صبح کاذب کے وقت اللہ کا یہ سپاہی بغیر کسی ڈر غم اور خوف کے باطل قوتوں اور سچائی کے منکروں کے خلاف ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تختہ دار کی طرف چل پڑا۔ پھندا تیار تھا، چند لمحوں کے بعد موت مقبول بٹ سے گلے ملنے والی تھی۔ مقبول بٹ ایک پر عزم اور پُر شکوہ انداز میں پھانسی کے پھندے کی طرف بڑھا، ادھر ادھر کھڑے فوجی و پولیس افسروں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بلند آواز میں کہا”اے میرے کشمیر!تو جلد آزاد ہوگا، جب میں نہیں ہوں گا تو یہ آنکھیں مجھے تلاش کریں گی،یہ اجنبی اور مجھے تختہ دار پر لٹکا ہوا دیکھتی آنکھیں“اور پھر نہایت استقامت کے ساتھ آگے بڑھ کر پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا۔ تاریخ اُسے قائد حریت، مجاہد کشمیر اور شہید کشمیر کے نام سے ہمیشہ یادر کھے گی لہٰذا مقبول بٹ شہید کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔