تھر کی سیر – پارٹ 2
پاکستان میں ہر علاقے کی اپنی تہذیب، اپنا حسن اور اپنی پہچان ہے۔ کہیں برف پوش شمالی علاقے ہیں، تو کہیں میدانی زرخیز زمینیں۔ کہیں صدیوں پرانی تاریخ اور ثقافت ہے، تو کہیں قدرتی مناظر کی انوکھی جھلک

تھر کی سیر – پارٹ 2

پاکستان میں ہر علاقے کی اپنی تہذیب، اپنا حسن اور اپنی پہچان ہے۔ کہیں برف پوش شمالی علاقے ہیں، تو کہیں میدانی زرخیز زمینیں۔ کہیں صدیوں پرانی تاریخ اور ثقافت ہے، تو کہیں قدرتی مناظر کی انوکھی جھلک۔ انہی میں دو علاقے مجھے سب سے زیادہ منفرد لگے: ایک چترال کا کیلاش اور دوسرا تھر کا نگرپارکر۔ چترال کا کیلاش قبیلہ اپنی جداگانہ ثقافت،محل وقوع، رسم و رواج، لباس اور تہواروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کی وادیاں برف پوش پہاڑوں میں گھری ہوئی ہیں، جہاں رنگ برنگی ثقافت اور قدرتی حسن ایک ساتھ ملتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مگر ایک بالکل مختلف زاویے سے نگرپارکر اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ یہاں آپ کو برف پوش پہاڑ نہیں ملیں گے، بلکہ سرخ و سفید گرینائٹ کے پہاڑ ہیں، جن کا رنگ سورج کی روشنی کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہ وہ منظر ہے جو پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں دیکھنے کو ملتا۔ اکثر لوگ تھر کو صرف قحط، بھوک اور غربت سے جوڑتے ہیں۔
لیکن نگرپارکر اس تاثر کو بدل دیتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو یہ خطہ یکدم ایک ہل اسٹیشن کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ خشک پہاڑ سبزے سے ڈھک جاتے ہیں، برساتی ندیاں بہنے لگتی ہیں، جھرنے اور آبشاریں وجود میں آ جاتی ہیں۔ یہ تجربہ پاکستان کے کسی اور حصے میں اس شدت سے دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ثقافتی اعتبار سے بھی یہ دونوں علاقے الگ الگ دنیا ہیں۔ کیلاش ایک منفرد غیر مسلم ثقافت ہے جو شمالی پاکستان میں اپنی روایات کے ساتھ زندہ ہے، جبکہ نگرپارکر وہ خطہ ہے جہاں ہندو تہذیب کے قدیم مندر، مسلمانوں کی صدیوں پرانی مساجد اور مقامی تھری ثقافت ایک ساتھ جلوہ گر ہیں۔
یوں یہ مقام ایک ایسا سنگم ہے جہاں مختلف تہذیبیں اور مذاہب ہزاروں سال سے اپنے اپنے رنگوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ: 🌿 کیلاش اور نگرپارکر دونوں اپنی اپنی جگہ انوکھے ہیں۔ ❄️ کیلاش برف پوش پہاڑوں میں ایک رنگین تہذیب ہے۔ ⛰️ نگرپارکر گرم اور خشک خطہ ہے جو بارش کے بعد اچانک ایک سرسبز وادی اور ہل اسٹیشن میں بدل جاتا ہے۔ یہی تضاد اور یہی تنوع پاکستان کی اصل خوبصورتی ہے۔ ہم لوگوں کے لیے ایک ریزورٹ بک کیا گیا تھا جو نگرپارکر شہر سے صرف تین کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ بالکل روڈ کے ساتھ واقع تھا۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ایک طویل سبز لان دکھائی دیا، جس کے بعد خوبصورت کاٹیجز قطار میں بنے ہوئے تھے۔ یہ گیسٹ ہاؤس چھ کاٹیجز پر مشتمل تھا، اور ہم آٹھ افراد نے چار کاٹیجز لیے، ہر کاٹیج میں دو دو لوگ ٹھہرے۔ کاٹیجز کشادہ تھے، دو کمروں، ایک چھوٹے
کچن اور ایک معیاری باتھ روم پر مشتمل۔ ہر کمرے میں اے سی نصب تھے اور پورا گیسٹ ہاؤس سولر انرجی پر چل رہا تھا۔ چونکہ ابھی مغرب میں وقت تھا، اس لیے ہم نے وقت ضائع نہ کیا۔ بیس منٹ میں نہا دھو کر فریش ہوئے اور فوراً گاڑی میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ موسم خوشگوار تھا۔ نگر ایک سرحدی علاقہ ہے، یہاں کے زیادہ تر گھومنے پھرنے کے مقامات شہر کے بازار سے نکلتے ہیں۔ راستے میں چرچ، اسکول، عدالت اور تھانے سے گزرتے ہوئے ہم نگر کے بازار میں داخل ہوئے۔
سب سے پہلے چیک پوسٹ پر انٹری کرائی گئی۔ سامنے ایک چھوٹا مگر پررونق بازار تھا جہاں سبزی، پھل، میڈیکل اسٹور اور کرانے کی دکانیں دونوں جانب نظر آ رہی تھیں۔ روڈ اچھی حالت میں اور بازار صاف ستھرا تھا۔ سب سے پہلے بھوڈیسر کے تاریخی مندر گئے جو جین دھرم کے پیروکاروں کا بتایا جاتا ہے۔ آج بھی اس کا وجود شاندار دکھائی دیتا ہے۔ ننگرپارکر شہر کے بیچ شاہی بازار میں واقع جین مندر کی 500 سالہ تاریخ ہے۔ اس مندر کے گنبد کے اندر بنے دائروں میں دھرمی کہانیوں کو نقش کی زبان میں رقم کیاگیا ہے۔ اگرچہ جین مت ختم ہو چکا ہے لیکن یہ مندر آج بھی اپنی خوبصورتی اور مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے، گویا اپنے بیتے دنوں کا نوحہ سناتا ہو۔ مندر سے باہر نکلے تو سامنے کارونجھر کے پہاڑ ہمیں اپنی طرف بلا رہے تھے۔
یہ بھی ایک خاص بات ہے کہ پورے تھرپارکر کے وسیع خطے میں جہاں دور دور تک ریت کے ٹیلے اور مٹی کے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں، وہاں صرف نگرپارکر ہی واحد مقام ہے جہاں یہ شاندار کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ موجود ہے۔ یہی ان پہاڑوں کی انفرادیت ہے جو نگرپارکر کو باقی تھر سے جدا اور نمایاں کرتی ہے۔ "یہ پہاڑ اور مندر آج بھی سیاحوں کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ یہ خطہ کبھی ایک زبردست تہذیب اور ثقافت کا مرکز رہا ہے. پہاڑ کی طرف جانے والا چڑھائی کا راستہ حیران کن حد تک اچھا تھا۔ زِگ زیگ کی صورت میں پکی سڑک ہمیں مرکزی پہاڑ کی طرف لے جا رہی تھی۔ دونوں طرف چھوٹے چھوٹے گرینائٹ کے پہاڑ شروع ہو گئے تھے۔ مجھے زندگی میں پہلی بار گرینائٹ کے پہاڑ دیکھنے کا موقع ملا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے بڑے بڑے چٹانیں ایک دوسرے کے اوپر ترتیب سے رکھ دی ہوں۔ ان پہاڑوں پر اگا سبزہ منظر کو اور بھی دلکش بنا رہا تھا۔
مرکزی پہاڑ کے قریب پہنچے تو ایک دل فریب نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ سیدھے ہاتھ پر سرخ رنگت والے پہاڑ تھے اور بالکل سامنے سفید جھلک والے پہاڑ۔ دونوں کا امتزاج ایک منفرد اور خوبصورت کنٹراسٹ پیش کر رہا تھا۔ جیسے ہی ہم گاڑی سے اترے اور پہاڑ قریب آگئے تو بالکل بچوں جیسی کیفیت طاری ہوگئی۔ سب چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئے۔ جس کو جو زاویہ اچھا لگتا وہ اسی لمحے دل کے جذبے کے ساتھ جا کر تصویریں کھینچ لیتا۔ پہاڑ بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں، صرف دیکھنے سے ہی دل چاہتا ہے کہ انہیں تسخیر کیا جائے اور ان کی خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے قید کر لیا جائے۔ ایک اور چیز جس نے ہمیں حیران کیا وہ یہ تھی کہ تقریباً ہر بڑے پتھروں میں سوراخ نظر آ رہے تھے۔
وہ سوراخ اس انداز میں تھے کہ لگتا تھا جیسے کسی نے چہرے کی شکل تراش دی ہو—آنکھیں، ناک اور ہونٹ جیسے خد و خال نمایاں ہو رہے ہوں۔ ہم سب نے یہاں رک کر بے شمار تصویریں لیں۔ یہ پہاڑ کسی ایک عظیم چوٹی کی طرح نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کے جُھرمٹ سے مل کر ایک منفرد سلسلہ بناتے ہیں۔ کچھ پہاڑ آگے ہیں، کچھ ساتھ اور کچھ پیچھے کھڑے ہیں، جیسے سب مل کر ایک قدرتی تصویر بناتے ہوں۔ ان پر جابجا گرینائٹ کے بڑے بڑے پتھر ایسے لگتے ہیں جیسے کسی ماہر ہاتھ نے باقاعدہ ترتیب سے ان پہاڑوں پر رکھ دیے ہوں۔ یہی منظر دیکھنے والے کو عام پہاڑوں کے بجائے ایک بالکل نیا اور منفرد احساس بخشتا ہے۔ سورج ڈوبنے کو تھا۔ اس کی نارنجی کرنیں جب پہاڑوں پر پڑیں تو وہ منظر ایسا تھا جو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے—قدرت کی ایک ایسی پینٹنگ جو صرف نگرپارکر میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
مغرب کا وقت ہونے والا تھا، اس لیے ہم سب نے فیصلہ کیا کہ پہاڑوں اور اطراف کے مقامات کو کل صبح دریافت کیا جائے گا۔ فی الحال شہر کی زندگی دیکھنے کے لیے ہم نیچے بازار میں اتر گئے۔ بازار کے ساتھ واقع ایک خوبصورت مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد بازار کی گہماگہمی میں نکل پڑے۔ چھوٹا سا شہر اور چھوٹا سا بازار تھا، مگر رونق زندگی سے بھرپور تھی۔ لوگ خرید و فروخت میں مصروف تھے، دکانوں پر روشنی جگمگا رہی تھی، اور ماحول میں ایک خاص سی تیزی اور تازگی تھی۔ ہم نے بھی چند چھوٹی موٹی چیزیں خریدیں اور بازار کی گلیوں میں گھوم پھر کر خوب لطف اٹھایا۔ واپس اپنے ریزورٹ کی طرف روانہ ہوئے تو دن بھر کی تھکن صاف جھلک رہی تھی۔ لیکن کھانے کا شوق تھکن پر بھاری تھا۔
جب ہم نکلے تھے تب ہی کچن کے عملے کو بتا دیا تھا کہ رات آٹھ بجے کھانا تیار ہو۔ اس وقت پہنچے تو گرم گرم کھانا ہمارا منتظر تھا۔ دال چاول، بھنڈی، اور ساتھ میں چکن کڑھائی — یہ سب کھلے آسمان کے نیچے دسترخوان پر سجا ہوا تھا۔ تازہ روٹیاں بھی ساتھ ساتھ بنتی رہیں۔ ہم نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ "دن بھر کی مسافت کے بعد یہ کھانا ہمیں کئی گنا مزیدار لگا” — اس کے بعد چائے پیش کی گئی اور سب نے اپنے اپنے انداز میں باتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر تھکن نے جلد ہی اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ طے پایا کہ صبح ساڑھے سات بجے ناشتہ کر کے نگرپارکر کو دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ کمرے میں پہنچے، اے سی آن کیا، کپڑے بدلے اور جیسے ہی بستر پر لیٹے، نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔ یوں پارٹ ٹو اپنے اختتام کو پہنچا، اور اصل دریافت کا سفر — پارٹ تھری — اگلی صبح سے شروع ہونا ہے۔