مشرق ایکسکلوزیو

تھرپارکر کی سیر – پارٹ 4

ہرے بھرے کھیتوں اور لہلہاتی فصلوں نے آنکھوں کو تازگی بخشی۔ کاسبو نہ صرف اپنی سرسبزی اور باغات کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اپنے قدیم مندروں اور ہر سو بکھرے موروں کے باعث بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے

90 / 100 SEO Score

تھرپارکر کی سیر – پارٹ 4

کی
عبدالباسط
نگرپارکر کے قریب کاسبو، ہندوستانی سرحد کے نزدیک واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ گاؤں اپنی فطری خوبصورتی، موروں کی دلکش آوازوں اور پرکیف فضا کے باعث ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ ننگرپارکر شہر سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود یہ بستی مقامی لوگوں کے نزدیک "تھر کا سوئٹزرلینڈ” کہلاتی ہے۔
آدھے گھنٹے کے اس دلکش سفر میں دونوں طرف ہرے بھرے کھیتوں اور لہلہاتی فصلوں نے آنکھوں کو تازگی بخشی۔ کاسبو نہ صرف اپنی سرسبزی اور باغات کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اپنے قدیم مندروں اور ہر سو بکھرے موروں کے باعث بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ سندھی شعراء نے بھی اپنی شاعری میں کاسبو کو حسن اور دلکشی کی علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ کی
اسی گاؤں میں واقع بابا رام دیو کا مندر ایک تاریخی و ثقافتی مقام ہے۔ یہ مندر نہ صرف تھرپارکر کی ثقافت کا حصہ ہے بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ دور دراز سے آنے والے یاتری بھی یہاں عقیدت و احترام کے ساتھ آتے ہیں۔
راستے میں ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ کاسبو میں پانی زیادہ گہرائی میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کھیتی باڑی بڑی آسانی سے ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہ گاؤں تھر کے دوسرے دیہات کے مقابلے میں زیادہ سرسبز اور خوشحال نظر آ رہا تھا۔کی
ہم لوگ کاسبو کے مندر کے احاطے میں داخل ہوئے تو یہ منظر واقعی حیران کن تھا۔ یہ ایک وسیع و عریض احاطے پر مشتمل مندر تھا جس کے چاروں طرف مضبوط دیوار کھینچی گئی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی نیم اور برگد کے درختوں کا جھنڈ نظر آیا، گھنی چھاؤں بعض جگہ اتنی گہری تھی کہ اوپر آسمان تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔ گیٹ سے سیدھا دیکھیں تو آخری سرے پر ایک گنبد نما مندر کھڑا تھا۔ میرے لیے یہ منظر نیا تھا کیونکہ اپنی زندگی میں پہلی بار میں نے گنبد والا مندر دیکھا۔
چاروں طرف موروں کی آوازیں گونج رہی تھیں جو نیم کے درختوں میں چھپے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ احاطے میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے سٹال لگے تھے جہاں لوگ جڑی بوٹیاں اور ہربل دوائیں فروخت کر رہے تھے۔ ایک طرف دری بچھا کر لوک فنکار اپنے فن کا جادو جگا رہے تھے اور کئی لوگ انہماک سے انہیں سن رہے تھے۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک اور طائفہ ملا جو بھجن گا رہا تھا، جس سے ماحول اور بھی روحانی اور پرکیف ہو گیا۔
بارش اب بھی ہو رہی تھی لیکن ہلکی پھوار کی شکل میں، جو موسم کو اور خوشگوار بنا رہی تھی۔ یہاں کے سبزے کی تازگی اور درختوں کی مہک نے دل موہ لیا۔ میں نے بڑی کوشش سے  اپنی اور ایک مور کی تصویر کھینچی جو نیم کے درخت پر بیٹھا تھا، لیکن وہ صرف تصویر کوزوم کرنے سے نطر آتا ہے ۔
 ہم سب نے گروپ میں اور الگ الگ بے شمار تصویریں بنوائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کا سبزہ منفرد اور آنکھوں کو بھلا لگنے والا تھا۔ کچھ دیر یہاں گھومنے اور سستانے کے بعد ہم اس خوبصورت جگہ سے آگے روانہ ہو گئے۔کی
تھر کے زیادہ تر لوگ کچے، اگلو نما کمروں میں رہتے ہیں، چھتیں گھاس سے بنی ہوتی ہیں۔ یہ گھاس گرمی میں ٹھنڈک فراہم کرتی ہے اور ایک یا دو سال کے بعد ان پر نئی گھاس ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مکانات سیمنٹ اور مٹی سے تیار کیے جاتے ہیں جنہیں مقامی زبان میں "لانڈھی” کہا جاتا ہے۔
واپسی کے سفر میں جب ہم گاؤں سے گزر رہے تھے تو ہم نے اپنے گائیڈ طاہر سے فرمائش کی کہ ہمیں یہ اگلو نما گھر اندر سے دیکھنے ہیں۔ اس نے فوراً گاڑی ایک گھر کے سامنے روک دی اور کہا کہ میں اجازت لے کر آتا ہوں۔ ہم سب گاڑی میں ہی بیٹھے رہے جبکہ وہ اندر گیا اور گھر کے مرد سے بات چیت کرنے کے بعد خوشخبری لے کر واپس آیا کہ اجازت مل گئی ہے۔
گھر کے آگے ایک چھوٹی سی باڑ تھی جس کے درمیان سے ایک دروازہ کھلتا تھا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہ ایک بڑا گھر تھا جس کا زیادہ تر حصہ ایک کھلے صحن پر مشتمل تھا۔ صحن کے ایک طرف تین اگلو نما کمرے بنے ہوئے تھے جبکہ ایک کمرہ سیدھے ہاتھ پر تھا۔ گھر میں مرغیاں بھی گھوم رہی تھیں اور ایک بھینس بھی بندھی ہوئی تھی۔ ہم نے اگلو نما کمرے اندر سے دیکھے تو حیرت ہوئی کہ ان میں ہوا کے لیے چھوٹے چھوٹے سوراخ بنے ہوئے تھے۔ گھر کے مالک نے بتایا کہ شدید گرمی میں بھی یہ کمرے ٹھنڈے رہتے ہیں۔ ہم نے یہاں کئی تصاویر کھینچیں، کچھ تصاویر میزبانوں کے ساتھ بھی بنوائیں اور ان کا شکریہ ادا کر کے رخصت لی۔
میں جب سب سے پہلے گاڑی میں آ کر بیٹھا تو دیکھا کہ سامنے والے گھر کے بچے تجسس کے ساتھ ہماری گاڑی دیکھ رہے تھے لیکن جیسے ہی میری نظر ان پر پڑی، وہ بھاگ گئے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ ہمارے پاس جو ٹافیوں تھی، وہ لے آؤں۔ میں نے اس میں سے چند ٹافیاں نکال کر بچوں کو دکھائیں، مگر وہ پھر بھی ڈر کے مارے بھاگ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بچی ہمت کر کے آگے آئی۔ میں نے مسکرا کر اسے دو ٹافیاں دیں تو وہ خوشی سے جھومتی ہوئی اندر بھاگ گئی۔ اس کے بعد جیسے سب بچوں کا ڈر نکل گیا۔ ایک ایک کر کے وہ سب میرے پاس آتے رہے اور میں ان کو ٹافیاں بانٹتا رہا۔کی
یقین کریں، ان معصوم بچوں کے چہروں پر ان ٹافیوں سے جو خوشی اور مسکراہٹ آئی تھی، وہ ناقابلِ بیان تھی۔ ان کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر کھلکھلاتی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے بے حد خوشی محسوس ہوئی۔ شاید ان لمحوں کی اصل قیمت وہی تھی جو ہمیں ان کے چہروں پر خوشی کے رنگوں میں نظر آئی۔
دوپہر ڈھل چکی تھی اور آج کے دن ابھی تین مقامات مزید دیکھنے باقی تھے۔ کھانے کا وقت ہو رہا تھا لیکن ہمارے امیرِ سفر نے فیصلہ کیا کہ کھانے میں زیادہ وقت لگ جائے گا اور جگہیں بھی دور ہیں، اس لیے وقت بچانے کے لیے بازار سے گزرتے ہوئے پکوڑے خرید لیے جائیں۔ موسم بہت خوشگوار تھا، بارش ہلکی ہلکی برستی رہی اور ہوا میں مٹی اور سبزے کی مہک گھل گئی۔ بازار سے گزرتے ہوئے ہم نے گیسٹ ہاؤس والے کو فون بھی کر دیا کہ ہم آرہے ہیں، چائے تیار رکھیں۔
پکوڑوں کے ساتھ ہم جلدی سے گیسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ امیرِ سفر نے سب کو کہہ دیا کہ ہمارے پاس صرف بیس منٹ ہیں، اسی میں نماز بھی پڑھنی ہے، فریش بھی ہونا ہے اور چائے کے ساتھ پکوڑوں کا لطف لے کر دوبارہ نکلنا ہے۔ سب نے جلدی جلدی وضو کیا، نماز پڑھی، فریش ہوئے اور پھر چائے کے ساتھ گرم پکوڑوں نے تھکن کو مٹادیا۔ یہ مختصر سا وقفہ واقعی دل کو سکون دے گیا۔
پکوڑے ختم ہوتے ہی ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اب ہماری منزل ایک قدیم مندر تھا، جسے ویراواہ جین مندر کہا جاتا ہے۔ یہ مندر سفید سنگِ مرمر سے بنا ہوا ہے اور کہا جاتا ہے کہ 500 قبل مسیح میں یہ علاقہ ایک بندرگاہ ہوا کرتا تھا۔ کبھی یہاں چھ مندر ہوا کرتے تھے مگر اب صرف ایک باقی رہ گیا ہے۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہم اس ویران اور متروک مندر کے قریب پہنچے۔ جگہ پر سنّاٹا طاری تھا، چاروں طرف عجیب سا سکوت اور سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی۔  مندر میں داخل ہوا تو یقین کریں میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہیں سے اچانک آواز نہ آ جائے:

تھرپارکر کی سیر – پارٹ 3

“مورکھ، آخر کار تو بھی ملنے آ ہی گیا!”
یہ مندر آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ حکومت نے اس کے اردگرد حفاظتی باؤنڈری بنا رکھی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو محفوظ رکھا جا سکے۔ مندر کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ ہم نے اس کے مختلف حصے دیکھے، کھڑکیوں،دروازوں اور دیواروں پر بنے نقش و نگار کو غور سے دیکھا اور مختلف زاویوں سے تصاویر بھی کھینچیں۔
ویراواہ مندر سے نکلنے کے بعد ہمارا اگلا پروگرام تھا رن کچ کے علاقے کی سیر کرنا۔ یہ وہ خطہ ہے جو پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کو چھوتا ہے اور اپنی انوکھی زمین کی بنا پر مشہور ہے۔ رن کچ دراصل ایک کیچڑ اور دلدلی میدان ہے جہاں زمین کے اوپر نمک کی سفیدی بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جو عام زمین سے بالکل مختلف اور اپنی ہی دنیا لگتا ہے۔کی
مندر سے نکلتے ہوئے جب ہم ایک مقامی بازار سے گزر رہے تھے تو ہمارے گائیڈ طاہر نے اپنے ایک دوست سے ملاقات کی ۔ وہ شخص بضد تھا کہ ہمیں چائے پلائے بغیر نہیں جانے دے گا۔ تھر کے لوگ واقعی اپنی مہمان نوازی میں مثال ہیں، لیکن وقت کی کمی کے باعث ہم نے بڑی مشکل سے معذرت کی اور اسے سمجھایا کہ ہمیں مغرب سے پہلے گیسٹ ہاؤس واپس پہنچنا ہے۔ آخرکار اس نے ایک مقامی شخص کو ہمارے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ رن کچ تک ہماری رہنمائی کرے۔
آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ایک کھلے اور بے کنار میدان میں پہنچے۔ نگاہ جہاں تک جاتی، بس چٹیل زمین پھیلی ہوئی تھی۔ زمین دلدلی تھی، گاڑی کسی بھی وقت دھنس سکتی تھی،آگے کا سفر صرف جیپ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ گائیڈ نے بتایا کہ مزید آگے وہ مقام ہے جہاں نمک بکھرا ہوا ہوتا ہے پر وہ سردیوں کی دھوپ میں برف کی طرح چمکتا ہے۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ وہاں تک پہنچیں لیکن وقت اور حالات نے اجازت نہ دی۔ ہم نے وہیں کھڑے ہوکر اس سنسان مگر دلکش منظر کو محسوس کیا، چند تصاویر لیں اور ایک عجیب سی کیفیت دل میں لیے واپس پلٹ گئے۔
واپسی پر ویراواہ کے بازار سے گزرتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ یہاں ایک حلوائی ہے جس کا ماوا (کھویا) دور دور تک مشہور ہے۔ ہم اس چھوٹی سی دکان پر پہنچے تو مالک نے ہمیں بے حد خوشی سے خوش آمدید کہا۔ مہمان نوازی میں اس نے فوراً ٹیسٹ کے لیے ایک پلیٹ ہمارے سامنے رکھی۔ دودھ اور خالص دیسی گھی سے بنا ہوا وہ کھویا زبان پر رکھتے ہی گھل گیا۔ واقعی ذائقہ لاجواب تھا۔
چھوٹی سی دکان رش سے بھری ہوئی تھی۔ ایک ہزار روپے کلو کے حساب سے لوگ اس حلوے کو دور دراز شہروں میں بھی لے کر جاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر نے اپنے گھروں کے لیے پیک کروایا اور یہاں بھی تصاویر بنائیں۔
اس کے بعد ہم روانہ ہوئے بھوڈیسر کی طرف جہاں ایک قدیم مسجد موجود ہے۔ یہ مسجد آثارِ قدیمہ کا حسین شاہکار ہے جسے گجرات کے حکمران محمود شاہ نے 1505ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اس کے ستون ایک ہی پتھر سے تراشے گئے تھے اور اس کی دیواروں پر جین فنِ تعمیر کے دلکش نقش و نگار اب بھی زندہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تعمیر میں جین دھرم کے ماہر کاریگروں نے بھی حصہ لیا تھا۔
جب ہم مسجد پہنچے تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا اور اچانک موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ ہم نے اس قدیم اور چھوٹی مگر بے حد خوبصورت مسجد میں نماز پڑھی۔ ویسے تو میں نے بہت سی قدیم اور تاریخی مساجد دیکھی ہیں، مگر یہ مسجد اپنی ساخت اور سادگی میں سب سے منفرد تھی۔ اتنی چھوٹی اور پرانی مسجد میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔کی
بارش کی بوندیں صحن میں گر رہی تھیں اور فضاء مسجد روح پرور لگ رہی تھی۔ دیواروں پر کندہ پرانی عبارتوں کو ہم نے قریب جا کر دیکھا اور ان کی تصویریں بھی لیں۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا لیکن مسجد کی خاموشی اور بارش کا شور دل کو ایک عجیب سکون بخش رہا تھا۔
گیسٹ ہاؤس واپس پہنچتے پہنچتے آٹھ بج گئے تھے۔ ہمارے آنے تک کھانا تیار تھا۔ آج کے دسترخوان پر مٹن کڑاہی، ابلے ہوئے چاول، دال اور سبزی موجود تھی۔ دن بھر کے سفر کی تھکن کے بعد یہ کھانا بے حد مزیدار لگا۔ سب نے شکم سیری کے بعد تھوڑی سی گپ شپ کی اور پھر اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے۔
جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button