مشرق ایکسکلوزیو

تھرپارکر کی سیر – پارٹ 3

رات ہی گیسٹ ہاؤس والوں کو بتا دیا گیا تھا کہ صبح ساڑھے سات بجے ناشتہ تیار ہو۔ سب دوستوں کو تاکید کر دی گئی تھی کہ ناشتے پر بالکل تیار ہو کر آئیں تاکہ کھانے کے بعد فوراً روانہ ہوا جا سکے۔

90 / 100 SEO Score

تھرپارکر کی سیر – پارٹ 3

سی
عبدالباسط
رات ہی گیسٹ ہاؤس والوں کو بتا دیا گیا تھا کہ صبح ساڑھے سات بجے ناشتہ تیار ہو۔ سب دوستوں کو تاکید کر دی گئی تھی کہ ناشتے پر بالکل تیار ہو کر آئیں تاکہ کھانے کے بعد فوراً روانہ ہوا جا سکے۔ مقررہ وقت پر سب لوگ تیار ہو کر پہنچ گئے۔ دسترخوان پر آلو کی ترکاری، پراٹھے، انڈوں کا آملیٹ اور چائے سجی تھی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم فوراً گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس دن ہمارے ساتھ ایک مقامی گائیڈ، طاہر بھی موجود تھا۔
سب سے پہلا پڑاؤ "ساردھڑو” تھا۔ شہر کے بازار سے گزرتے ہوئے ہم کارونجھر کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں پہنچے۔ کچھ ہی آگے جا کر گائیڈ نے گاڑی ایک مخصوص مقام پر روک دی۔ یہاں ایک بلند مقام تک جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ سیڑھیاں اوپر ایک ایسے ویو پوائنٹ تک لے جاتی تھیں جہاں سے پہاڑوں اور اردگرد کے مناظر کو ایک وسیع زاویے سے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ جگہ ایک طرح سے پکنک اسپاٹ بن چکی تھی۔
جیسے ہی ہم وہاں پہنچے، نیچے دو مقامی فنکار تھری لوک گیت گا رہے تھے۔ ایک ڈھول بجا رہا تھا اور دوسرا ہارمونیم پر ساز چھیڑ رہا تھا۔ تھر کے یہ گیت اپنی الگ ہی سحر انگیزی رکھتے ہیں۔ ہم سب نے شوق سے ان کا کلام سنا، داد دی اور پھر حسبِ روایت ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
کچھ دوست اوپر چلے گئے، کچھ پہاڑوں کے قریب ادھر ادھر تصویریں بنانے لگے۔ موسم اس وقت خاصا گرم ہو چکا تھا، اور ہوا میں ایک عجیب سی شدت تھی جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید بارش ہونے والی ہے۔
کر
"ساردھڑو مندر”
تھوڑی دیر بعد ہم آگے بڑھے اور اترائی میں جا کر گاڑی رک گئی اس سے آگے گاڑی کا راستہ نہیں تھا کچھ سیڑھیاں اتر کر ہم لوگ نیچے اتریں یہ ایک چھوٹی سی وادی تھی، جہاں دونوں طرف بلند و بالا پہاڑ کھڑے تھے۔
"ساردھڑو” مندر کارونجھر پہاڑ کی گود میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مذہبی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اپنی قدرتی خوبصورتی کے باعث بھی مشہور ہے۔ ہر سال فروری اور مارچ کی درمیانی تاریخوں میں یہاں مہاشو راتری کا بڑا میلہ لگتا ہے۔ قریب ہی گئو مکھ جھرنا اور بھیم سر کا تالاب بھی انہی پہاڑوں میں موجود ہیں۔ لوگ یہاں اپنے پیاروں کی استھیاں بہانے آتے ہیں اور اس جگہ کو مقدس سمجھتے ہیں۔
پہاڑ کے ایک طرف ایک مندر تھا۔ بیچ میں ایک بڑا برگد کا درخت سایہ کیے کھڑا تھا۔ قریب ہی ایک تالاب سا بنا ہوا تھا، جہاں پہاڑوں سے برساتی پانی آ کر جمع ہوتا تھا۔ یہ منظر بہت ہی دلفریب اور پر سکون تھا۔
"برگد کے گھنے درخت کے نیچے سایہ ٹھنڈا اور پرسکون تھا، لیکن جیسے ہی ہم نے اردگرد نظریں دوڑائیں تو درختوں کے بیچ پہلی مرتبہ مور دکھائی دیے۔ وہ اپنی مخصوص آواز میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ہم سب کی کوشش تھی کہ کسی طرح یہ مور ہماری کیمروں کی آنکھوں میں قید ہو جائیں۔ تب ہی گائیڈ طاہر کی آواز آئی: ‘آپ فکر نہ کریں، آگے جس جگہ جا رہے ہیں وہاں آپ کو بے شمار مور دیکھنے کو ملیں گے۔’
 تھر کے اکثر گاؤں میں یہ حسین پرندے آزادی سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ صبح کو یہ گھروں میں دانہ چگنے آتے ہیں اور پھر جنگلوں میں نکل جاتے ہیں، شام ڈھلے واپس لوٹ آتے ہیں۔ جہاں ہندو آبادی ہے وہاں ان موروں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ شری کرشنا اور سرسوتی دیوی سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ بعض دیہاتوں کی پنچائتوں نے تو یہاں تک اصول بنا رکھے ہیں کہ مور کو پکڑنے یا فروخت کرنے پر جرمانہ عائد ہوگا، تاکہ یہ قدرتی حسن ہمیشہ محفوظ رہے۔”کر
ہمارے زیادہ تر دوست مندر کی طرف چلے گئے، جبکہ میں اکیلا دائیں طرف بنے ایک قدرتی راستے پر اوپر کی جانب بڑھ گیا۔ یہ راستہ پہاڑ کی قدرتی سیڑھیوں سے بنا ہوا تھا۔ تقریباً سات منٹ کی چڑھائی کے بعد میں ایک نسبتاً اونچی جگہ پر پہنچا، جہاں ایک نیم کے درخت کے نیچے ایک چائے والا کھلے آسمان کے نیچے چائے بنا رہا تھا۔ قریب ہی دری بچھی تھی اور ماحول میں سادگی اور سکون رچا بسا تھا۔
یہاں سے ایک کچا راستہ مزید اوپر آبشار کی طرف جاتا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق وہاں تک پہنچنے کے لیے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا پیدل سفر درکار تھا، جو کافی مشکل تھا۔ میں یہیں کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ اس جگہ کی بلندی ایسی تھی کہ یہاں سے چاروں طرف کے پہاڑ نظر آ رہے تھے، اور ان کی ساخت ایک عجیب و منفرد تاثر چھوڑ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے پہاڑوں نے اپنے ہی انداز میں ایک کہانی ترتیب دی ہو۔
اس جنگل اور پہاڑوں کے بیچ ایک عجیب سا سکون چھایا ہوا تھا۔
کھلی ہوا کی ٹھنڈک، صاف ستھری آب و ہوا اور فطرت کی خاموشی ہم جیسے شہری لوگوں کے لیے ایک انمول نعمت تھی۔ ہر سانس میں مٹی اور پودوں کی خوشبو گھل کر ایک نرالی مہک پیدا کر رہی تھی، جیسے فضا خود ہمیں گلے لگا رہی ہو۔کر
کارونجھر کے پہاڑ بہت زیادہ بلند نہیں ہیں، لیکن ان کی ساخت، پھیلاؤ اور سطح پر بکھرے ہوئے گرینائٹ کے بڑے بڑے پتھر انہیں ایک شان اور جاذبیت بخشتے ہیں۔ یہ پہاڑ اتنے اونچے نہ ہوتے ہوئے بھی دل پر وہی رعب اور کشش ڈالتے ہیں جو کسی بلند و بالا چوٹی کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔
"اوپر سے دیکھنے پر کارونجھر پہاڑ اپنی پوری شان کے ساتھ نظر آتے تھے۔ یہ پہاڑ قریباً ایک ہزار فٹ بلند ہیں۔ گو یہ بلند و بالا ہمالیہ یا قراقرم کے پہاڑوں جیسے نہیں، لیکن اپنی وسعت اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے یہ کم بھی نہیں لگتے۔ ان کی بلندیاں ایک خاموش پیغام دیتی ہیں کہ پہاڑ عظمت صرف قد و قامت سے نہیں بلکہ اپنی کہانیوں اور صدیوں کی گواہی سے پاتے ہیں۔”
نیچے مندر کے قریب ہمیں ہندو یاتریوں کے کئی جتھے بھی نظر آئے، جو اپنی مذہبی رسومات کے لیے یہاں آئے تھے۔ ان کے رنگ برنگے کپڑے، گیت اور عقیدت اس منظر کو اور بھی منفرد بنا رہے تھے۔
"گرمی کی شدت نے وہاں زیادہ دیر ٹھہرنے نہ دیا۔”
ہم تالاب کے کنارے بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ برسات کے دنوں میں کیسا منظر ہوتا ہوگا —
کچھ ہی دیر بعد ہم گاڑی میں بیٹھے اور اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔”
تروٹ جی تھلو، لوہے کا لال پل
کچھ دیر کا فاصلہ طے کر کے ایک حیرت انگیز مقام ہمارا منتظر تھا۔ ایک بلند پہاڑ پر لوہے کا مضبوط اور خوبصورت برج بنا ہوا تھا، جو دونوں پہاڑوں کو آپس میں جوڑتا تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی سامنے یہ لمبا سا لوہے کا سرخ برج نظر آیا، جو نیچے بہتی ہوا میں جھولتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہی ہم برج پر چڑھے، یوں لگا جیسے ہم پہاڑوں کے بیچ ہوا میں معلق ہو گئے ہوں۔ ایک طرف گہرائی اور دوسری طرف سرسبز پہاڑی ڈھلوانیں — یہ منظر واقعی دل کو موہ لینے والا تھا۔ کر
"برج کی بلندی اور نیچے پھیلی گہرائی نے سب کو مسحور کر دیا۔ لیکن یہاں گرمی بھی خاصی تھی، اس لیے دل میں ایک ہی دعا اٹھ رہی تھی — کاش بارش ہو جائے۔ ہم سوچنے لگے کہ جب برسات کے دن آتے ہوں گے تو یہ پل کے نیچے بہتا نالہ پانی سے لبریز ہو جاتا ہوگا، اور اوپر پہاڑوں سے برسنے والا پانی جھرنوں اور آبشاروں کا روپ دھار لیتا ہوگا۔ ابھی تو سامنے خشک پہاڑ اداسی کی طرح کھڑے تھے، مگر بارش کے دنوں میں یہی پہاڑ زندگی اور تازگی سے بھر جاتے ہوں گے۔ ذرا تصور کریں، آپ اس لوہے کے برج پر چل رہے ہوں اور نیچے سے پانی کا ریلا گزر رہا ہو، جبکہ سامنے پہاڑوں سے بارش کے جھرنے بہتے چلے آ رہے ہوں۔ یہ سوچ ہی ہمارے دلوں میں ٹھنڈک بھر گئی اور پل کی خوبصورتی کو اور بڑھا گئی۔”
دوستوں نے یہاں سب سے زیادہ تصویریں بنائیں، اور کچھ دیر ہم سب بس خاموش کھڑے ہو کر انسان اور قدرت کے اس حسین امتزاج کو دیکھتے رہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو سفر کی یادوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔”
بند اور چھپی ہوئی ندی کر
"گاڑی پہاڑی راستوں سے گزر رہی تھی کہ ہمارے گائیڈ نے اچانک ایک جگہ گاڑی رکوائی اور بتایا کہ یہ ایک چھوٹا سا ڈیم ہے جہاں پہاڑوں اور بارش کے پانی کو روک کر ایک چھوٹی ندی بنائی گئی ہے۔ سڑک سے یہ منظر نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ ڈیم نسبتاً اونچا تھا۔ جیسے ہی ہم اوپر چڑھے تو ایک خوبصورت منظر نے ہمارا استقبال کیا — پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹی سی ندی، جس کا پانی بالکل شفاف اور ٹھنڈا لگ رہا تھا۔
ہم سب ندی کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ موسم نے اچانک کروٹ لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھٹا چھا گئی اور ہلکی ہلکی پھوار برسنے لگی۔ یہ ننگرپارکر میں پہلا منظر تھا جہاں ہم نے پانی کو اپنی آنکھوں سے بہتے دیکھا۔ وادی کے بیچ یہ سنسان سا پوائنٹ اور اوپر سے بارش کی بوندیں اس لمحے کو اور بھی حسین بنا رہی تھیں۔

تھر کی سیر – پارٹ 2

زرا سا پاؤں ہی رکھا تھا بس کنارے پر
کہ لہریں ہوگئیں بے چین لمس پانے کو
کسی نے کہا، ‘یہ موقع بار بار نہیں آئے گا!’ پھر سب نے ہنستے مسکراتے اپنے کپڑے بدلے، نیکر پہن لی اور ندی میں اتر گئے۔ پانی میں بھیگنے کا جو مزہ اس خوشگوار موسم اور خاموش وادی میں آیا، وہ ناقابلِ بیان تھا۔ کبھی ہم سب مل کر شور مچاتے، سیٹیاں بجاتے، کبھی پانی اچھالتے اور پھر ایک دم خاموش ہو کر صرف فضا کی ٹھنڈک اور بوندوں کی آواز سنتے۔
"یہ ندی نہ زیادہ بڑی تھی نہ ہی گہری، لیکن اس کی سادگی اور موسم کی رعنائی نے اسے بے حد دلکش بنا دیا تھا۔”
 کچھ دیر نہانے اور تصویریں بنانے کے بعد ہم سب پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔”
جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button