مشرق ایکسکلوزیو
تھرپارکر کا سفر — ایک یادگار تجربہ
بدین کے دونوں طرف کا منظر دل موہ لینے والا تھا۔ کہیں کیلے کے باغات، کہیں مرچوں کی کھیتیاں، کہیں چاول کے کھیت اور کہیں سبزہ زار یہ سب دیکھ کر طبیعت سرشار ہو گئی

تھرپارکر کا سفر — ایک یادگار تجربہ

جمعہ کی صبح ہم آٹھ دوست ہائی ایس میں سوار ہو کر تھرپارکر کے تین روزہ سفر پر نکلے۔ کراچی سے نگر پارکر تقریبا چار سو کلو میٹر دور ہے اور یہ سفر سات گھنٹے کا ہے جو راستے میں ناشتہ، کھانا اور چائے کو ملا کر دس گھنٹے کا ہو جاتا ہے۔
صبح سات بج کر بیس منٹ پر میں راستے میں ملیر سٹی سے ان کے ساتھ جا ملا۔ ہماری پہلی منزل گھارو میں کیفے عمران تھی، جو ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے اور واقعی کسی فائیو سٹار ریسٹورنٹ سے کم نہیں۔ یہاں کے باتھ روم، ڈائننگ ہال اور اوپن ایریا سب کچھ نہایت شاندار اور وی آئی پی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ناشتہ اگرچہ مہنگا تھا لیکن ذائقے نے دل جیت لیا۔ ہم نے ہاف فرائی انڈے، آملیٹ، چنے کا سالن، پراٹھے، سلیمانی پراٹھے، ابلے انڈے اور چائے منگوائی اور جی بھر کر ناشتے سے لطف اندوز ہوئے اور کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر کہ چالیس فیصد ڈسکائونٹ حاصل کیا۔

تھر کے سفر کو مزید مزے دار بنانے کے لیے ہمارے ساتھ ایک بڑا آئس باکس بھی تھا۔ اس میں ٹھنڈی پانی کی بوتلیں، کولڈ ڈرنکس اور ساتھ ہی سفر کے دوران کھانے کے لیے مختلف بسکٹ، کیلے، سیب ،انگور, چھالیہ, چاکلیٹ، نمکو اور دال موٹ, کھجور وافر مقدار میں موجود تھے۔ یوں راستے بھر ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ ہم ان چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے بھی مستفید ہوتے رہے۔
اے سی گاڑی میں سفر مزید خوشگوار تھا اور ہم دوست آپس میں مختلف موضوعات پر گپ شپ لگاتے رہے۔ ہم نیشنل ہائی وے سے ہوتے ہوئے ٹھٹھہ بائی پاس پر چڑھے اور پھر سجاول کے راستے بدین پہنچے۔ سڑک شاندار بنی ہوئی تھی اور بدین کے دونوں طرف کا منظر دل موہ لینے والا تھا۔ کہیں کیلے کے باغات، کہیں مرچوں کی کھیتیاں، کہیں چاول کے کھیت اور کہیں سبزہ زار یہ سب دیکھ کر طبیعت سرشار ہو گئی۔ جیسے ہی بدین کا علاقہ ختم ہوا تو زمین کی ساخت بدل گئی اور تھر کے مخصوص ریتیلی خطے کا آغاز ہو گیا۔ بارش کے بعد ہر طرف ہلکا سا سبزہ چھا گیا تھا لیکن وہ گھنا سبزہ نہیں تھا جو بدین میں دکھائی دیا تھا۔

اس علاقے کی سڑک خاص طور پر دل کو بھا گئی۔ کہیں یہ سیدھی تو کہیں اچانک اونچائی پر جاتی اور پھر نیچے اترتی۔ بالکل ویسی ہی جیسے پہاڑی یا جنگلی راستوں پر ہوتا ہے۔ مجھے سویڈن کی سڑکوں کی یاد آ گئی جہاں پہاڑوں کے بیچ ایسی ہی ڈھلوانوں والی سڑکیں ہیں۔ راستے میں ہم نے رک کر تصویریں بھی کھینچیں اور سفر کے لمحے قید کیے۔
میرا تھر کا یہ پہلا سفر تھا اور مجھے بلکل امید نہیں تھی کہ راستے اور سڑک اتنے اچھے ہوں گے۔ دوپہر کے وقت ہم مٹھی پہنچے اور سڑک کے ساتھ کیفے تھر کھانے کے لیے رکے۔ یہ ریسٹورنٹ بالکل سڑک کے کنارے واقع ہے، اوپر چھپڑا ڈال کر بیٹھنے کا انتظام تھا، تخت اور جھولے لگے ہوئے تھے اور سامنے ریت کے پہاڑ سبزہ اوڑھے کھڑے تھے۔ موسم گرم تھا پر سائبان کے نیچے کھلی جگہ پر ہوا چل رہی تھی۔ یہاں میں نے پہلی بار مشروم کی کڑاہی کھائی۔ حیرت انگیز طور پر اس کا ذائقہ گوشت کی کڑاہی جیسا لگ رہا تھا۔ ساتھ میں دال تھی، گرم گرم روٹیوں نے مزید لطف دیا۔ کھانے کے دوران تھر کے بچوں نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول
کروائی۔ شروع میں وہ خاموش کھڑے دیکھتے رہے، پیسے نہیں مانگے، مگر کچھ دیر بعد آئے تو پتوں کی بنی ہوئی چپلیں پہن رکھی تھیں۔ دیکھنے میں وہ چپلیں تازہ پتوں سے بنی ہوئی لگتی تھیں اور ہمیں اندازہ ہوا کہ شاید یہ ہمدردی جگانے کا طریقہ تھا۔ بہرحال ہم نے ان سے بات بھی کی اور ہنسی مزاق بھی کیا اور تھوڑے بہت پیسے بھی دیے۔

کھانے کے بعد ہم نے چائے منگوائی۔ یہ چائے چھوٹی کٹوریوں میں پیش کی گئی، اس کا رنگ و خوشبو لاجواب تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ چائے گائے اور بھینس کے دودھ کو ملا کر بنائی گئی تھی، ذائقہ واقعی کمال کا تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی ایسی چائے تھی جس میں یہ امتزاج دیکھا۔

یہ تو تھا تھر کے سفر کا پہلا حصہ۔ آگے نگرپارکر کی کہانی ایک الگ دنیا ہے، جسے میں دوسری قسط میں بیان کروں گا۔