مشرق ایکسکلوزیو
تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
نواز شریف پاکستان کو سلطنت اتفاقیہ کا روپ دینے کی جدوجہد کر رہا تھا جنرل مشرف سے بمشکل جان بچا کر کان لپیٹ کر سعودی عرب کیلئے جلاوطن ہونا پڑا۔ خود جنرل مشرف پارلیمنٹ میں دونوں مکے لہرا کر اپنی طاقت کی نمائش کرتا رہا لیکن بالآخر پردیس میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی کی موت مرا۔

تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
انسان دنیا میں بنیادی طور پر دو قسم کی بھوک لیکر آیا، خوراک کی بھوک اور طاقت کی بھوک۔ خوراک کی بھوک کا اظہار تو اس نے جنت میں ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کر دیا اور طاقت کی بھوک کا اظہار اس نے دنیا میں آکر کیا جب قابیل نے اپنی بہن کو ہابیل کے عقد میں جانے سے روکنے کیلئے ہابیل کو قتل کر ڈالا۔
یہ اپنی طاقت کے اظہار اور اپنی خواہش پوری کرنے کے عزم کا پہلا اظہار تھا۔ اس کے بعد دنیا پھیلتی گئی، تہذیبیں آتی اور مٹتی گئیں، حکمران اپنا نام تاریخ میں بناتے بھی گئے اور مٹی میں ملاتے بھی رہے۔ شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ انسان میں طاقت حاصل کرنے اور دوسروں سے برتر ہونے کا احساس مضبوط جڑ پکڑتا گیا۔
معاشرے میں جنم لینے والی اس خواہش نے حکمرانی کے صیغوں میں پنپنا شروع کر دیا اور یوں دنیا آمریت سے متعارف ہوئی۔ یوں تو تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے جس سے ثابت ہو سکے کہ آمریت کا آغاز کب ہوا لیکن مختلف دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں کہ سن ۵۰۱ قبل مسیح میں رومن سینٹ نے ٹائٹس لارٹیس کو بیرونی خطرات اور اندرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے عارضی طور پر حکومت سونپی جس نے چھ ماہ بعد شرافت سے استعفیٰ دے دیا لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں، سولا اور جیولیس سیزر نے اسے مطلق العنانی میں تبدیل کردیا۔
جیولیس سیزر نے تو خود کو تاحیات حکمران کا عہدہ تفویض کیا اور روم کو جمہوریہ سے رومن ایمپائر میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کے ساتھ بروٹس نے جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
Power tends to corrupt, and absolute power corrupts absolutely.
ہر نیا آنے والا یہ تلخ حقیقت بھولتا رہا کہ اس سے پہلے بھی اک شخص یہاں تخت نشیں تھا۔ وہ یہی سمجھتا رہا کہ میں مختار کل ہوں اور دنیا نہ صرف میرے سامنے بچھی جائے گی بلکہ سر تسلیم بھی خم کریگی اور اسی زعمم میں مبتلا وہ مسند نشین ہوکر نئے سرے سے عوام کو اپنی حیثیت کا یقین دلاتا تاوقتیکہ کوئی دوسرا یہ نہ کہتا کہ جناب آپ کا وقت ختم ہو گیا اب میری باری ہے۔
سیانے کہہ گئے ہیں کہ ہم نے تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر ہم تاریخ سے ایسےآمروں کی مثالیں اکٹھی کرنی شروع کر دیں جنہوں نے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے اور پھر اسی عوام کے غیض وغضب کا شکار ہوئے توکتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ آمریت اور فسطائیت کا انجام بھی اتنا ہی دردناک ہوتا ہے جتنا آمریت کی ابتدا دردناک ہوتی ہے۔
اٹلی کے آمر بنیتو میسولینی کو کون بھول سکتا ہے جو اتحادیوں کے اٹلی پر حملے کے بعد اپنی داشتہ کے ہمراہ سوئیزرلینڈ کی جانب فرار ہونے کی کوشش میں کومو جھیل کے نزدیک اشتراکی پیروکاروں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا جنہوں نے اسے فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر میلان کے ایک چوک میں دونوں کی لاشیں الٹی ٹانگی گئیں اور عوام نے ان لاشوں کی کھل کر بے حرمتی کی اور اپنی بھڑاس نکالی۔
رومانیہ کے مطلق العنان کیمونسٹ حکمران نکولائی چاؤشسکو کس کو یاد نہیں جو ایک مدت تک اپنے ملک کے عوام کیلئے دہشت کی علامت بنا رہا لیکن بالآخر دسمبر ۱۹۸۹ میں عوام کے مظاہروں اور نفرت کی تاب نہ لاتے ہوئے اقتدار چھوڑ کر بخارسٹ سے فرار ہوتے ہوئے فوج نے گرفتار کر لیا ۔ سرعام تیز رفتار مقدمہ چلایا گیا اور کرسمس والے دن فائرنگ سکواڈ کے ذریعے دونوں کو نہ صرف گولی مار دی گئی بلکہ فلم بندی بھی کی گئی جو بعد میں براڈکاسٹ بھی کی گئی۔ کوئی بھی آمر جس شدت سے عوام پر ظلم کرتا ہے اتنی ہی سرعت سے اسے اس کے انجام سے دوچار کیا جاتا ہے۔
آج تک کوئی بھی ڈکٹیٹر کبھی بھی کسی مقدمے میں باعزت طور پر رہا ہوکر عوام میں واپس نہیں آیا۔ لیبیا کے مرد آھن معمرالقذافی کے خلاف جب لیبیا کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے یا انہیں کھڑا کیا گیا تو اکتوبر ۲۰۱۱ میں اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد قذافی نے اپنے قافلے پر نیٹو کے فضائی حملے کے بعد اپنے آبائی شہر شرطے میں پناہ لی لیکن مخبری ہونے پر باغیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ اس موقع پر بننے والی شارٹ فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بپھرے ہوئے عوام نے کس طرح ایک جاہ و جلال سے رہنے والے آمر کی درگت بنائی۔ کس طرح اسے قتل کرنے سے قبل مخالفوں نے سڑکوں پر گھسیٹا، زدوکوب کیا اور غلیظ گالیاں نکالیں۔
الغرض تاریخ اٹھا کرکسی بھی ڈکٹیٹر کا انجام دیکھ لیں، سب عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے ہونگے۔ جنہیں قتل نہیں کیا گیا ہوگا انہون نے خود کشی کر لی ہوگی اور جنہوں نے اتنی ہمت بھی نہیں کی وہ اللہ کی پکڑ میں آگئے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی ڈکٹیٹر خود کو آمر نہیں سمجھتا بلکہ وہ خود کو عوام کا نجات دھندہ تصور کرتا ہے جو عوام کے پر زور اصرار پر مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ سدا مقبول رہے گا۔ کسی بھی آمر کے اقتدار کا پہلا آدھا ھصہ شوق میں اور آخری آدھا خوف میں گذرتا ہے۔ جارج اورویل نے کہا ہے کہ ’’آمریت ، انقلاب کے بچاؤ کیلئے قائم نہیں کی جاتی بلکہ انقلاب، آمریت کے تحفظ کیلئے برپا کیا جاتا ہے‘‘۔ دور کیوں جائیں اپنے وطن عزیز پاکستان کی سقوط ڈھاکہ سے پہلے اور بعد کی تاریخ ہی دیکھ لیجئے۔ سکندر مرزا کون تھا؟
ایک سول سرونٹ جو اقتدار کے ایوانوں میں گھومتا جھومتا ایوان صدر تک جا پہنچا۔ طاقت کا نشہ اتنا کہ خود کو میجر جنرل کا رینک دے ڈالا لیکن بالآخر اپنے ہی ایک ساتھی ایوب خان کے ہاتھوں سڑک پر پھینکا گیا اور آخری عمر لندن کے ہوٹلوں میں معمولی ملازمت کرتے گذری۔ بھٹو نے مخالفین کو دلائی کیمپ میں اذیتیں پہنچائیں۔ مخالف جماعتوں کی خواتین کو رسوا کرنے کیلئے نتھ فورس بنائی اور جس دن وزیراعظم ہاؤس کی کرسی پر ہاتھ مار کر بولا کہ کوئی مائی کا لال اس کرسی کو نہیں چھین سکتا تو چند ہی دنوں بعد جنرل ضیا الحق نے اتار کر پس زنداں پھینک دیا اور ایک معمولی سے مقدمہ میں سزائے موت دے ڈالی۔
خود ضیا الحق کا انجام بھی جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مجیب الرحمنٰ بنگلہ بندھو بن کر انقلاب لیکر آیا اور پاکستان سے آزادی حاصل کرلی۔ بس یہیں سے دماغ میں خناس سوار ہوا اور تین سال میں ہی وہ شخص جس کے مجسمے پورے بنگلہ دیش میں کھڑے کئے جا رہےتھے اپنی ہی فوج کے ہاتھوں گھر کی سیڑھیوں پر قتل ہوگیا۔ موجودہ انقلاب کے بعد وہاں کوئی اس کا نام لینے والا نہیں رہا۔
نواز شریف پاکستان کو سلطنت اتفاقیہ کا روپ دینے کی جدوجہد کر رہا تھا جنرل مشرف سے بمشکل جان بچا کر کان لپیٹ کر سعودی عرب کیلئے جلاوطن ہونا پڑا۔ خود جنرل مشرف پارلیمنٹ میں دونوں مکے لہرا کر اپنی طاقت کی نمائش کرتا رہا لیکن بالآخر پردیس میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی کی موت مرا۔
اللہ کا فرمان ہے کہ عقل والوں کیلئے اس میں نشانیاں ہیں لیکن یا تو بے پناہ طاقت کے گھمنڈ میں حکمران عقل کے اندھے بن جاتے ہیں یا نشانیاں دیکھنے کیلئے بصارت باقی نہیں رہتی۔ امریکی صدر ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ ’’سختیاں اور مشکلات کوئی بھی مرد برداسشت کر سکتا ہے لیکن اگر آپ نے کسی مرد کا حقیقی کردار جانچنا ہے تو اسے طاقت سونپ کر آزمایئے‘‘۔ شاعر انقلاب حبیب جالب مرحوم کیا خوب کہہ گئے ہیں:
تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اس شہر میں تنہا لئے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
لیکن ہمارے حکمرانوں کو شاید جالب کا یہی ایک شعر یاد رہ گیا ہے کیونکہ اس میں دستور کو نہ ماننے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا!
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس

نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔






