بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور تاریکی کے بعد روشنی ہے یہ قدرت کا قانون ہے۔ لہٰذا اللہ پاک نے اپنے محبوب ﷺ کوایسا سفر کروایا اور ایسے مشاہدات کروائے جن سے ماضی کے وہ زخم مندمل ہوگئے، وہ زخم ختم ہو گئے اور ساتھ ہی اس سفر سے یہ بتا دیا کہ آپ ﷺ دونوں قبلوں کے امام، امام الانبیاء، پورے عالم کے رہنما، اور قیامت تک کے پیغمبر اور پیشوا ہوں گے۔ ساتھ ہی فرش سے عرش تک کا یہ سفر کرانے میں ختم نبوت کا بھی اشارہ ہے کیونکہ کائنات عرش پر ختم ہو جاتی ہے۔اسی طرح نبوت اور رسالت کے تمام کمالات آپ ﷺ پر ختم ہو جاتے ہیں۔آپ ﷺ پورے عالم کے لئے رحمت اللعالمین، پوری انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہیں۔ اسی سفر معراج میں آپ ﷺ کو نماز کا تحفہ ملااور آپ ﷺ کی امت کے لئے نماز فرض ہوئی ”نماز ہی مومن کی معراج ہے۔“معراج نزول وحی کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ میں پیش آیا۔
ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پر کیف تھی، مطلع بالکل صاف اور فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری تھا۔نصف شب گزرنے کو تھی کہ اچانک آسمانی دروازہ کھلتا ہے۔انوارو تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرئیل ؑ نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت اُمِ ہانی ؓ کے گھر تشریف لاتے ہیں جہاں نبیوں کے سردار امام الانبیاء تاجدار مدینہ اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ محو خواب ہیں۔ آنکھیں بندکئے، دل بیدار لئے آرام فرما رہے ہیں۔جبرئیل امین ؑ ہاتھ باندھے کھڑ ے ہیں اور سوچ رہے ہیں اگر آواز دے کر جگایا تو بے ادبی ہو جائے گی۔فکر مند ہیں کہ معراج کے دلہا کو کیسے جگایاجائے۔اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے”اے جبرئیل ؑ میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔اسی دن کے لئے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا۔“ حکم سنتے ہی جبرئیل امین ؑ آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمد ﷺ کے پائے ناز سے مس کر دیئے۔جبرئیل ؑ کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پا کر حضور ﷺ بیدار ہوتے ہیں۔دریافت کرتے ہیں جبرئیل ؑ کیسے آنا ہوا۔عرض کرتے ہیں ”یا رسول اللہ ﷺ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔حضورﷺ تشریف لے چلئے زمین سے آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔“
آپ ﷺ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ جبرئیل ؑ نے آپ ﷺکا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیاپھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہو گیا۔اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا۔(بخاری شریف جلد اول صفحہ ۸۴۵)
پھر آپ ﷺ کو عمامہ باندھا گیا۔حضرت جبرئیل ؑ نے آپ ﷺ کو کونور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا گیا۔(معارج النبوہ صفحہ ۱۰۴) چند لمحوں بعد وہ لمحہ بھی آگیا جب آپ ﷺ براق پر سوار ہوئے۔حضرت جبرئیل ؑ نے رکاب تھام لی۔حضرت میکائیل ؑ نے لگام تھام لی۔حضرت اسرافیل ؑ نے زین کو سنبھالا۔فضا فرشتوں کی درودو سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقا نامدار حضرت محمد ﷺ درودو سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔اس واقعہ کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
ترجمہ:۔ ”پاک ہے و ہ ذات جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے گردو نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں“
آپ ﷺ نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دلہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سر سبز وادیوں، پر خطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی۔ حضرت جبرئیل ؑ عرض کرتے ہیں کہ حضور ﷺ یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ ﷺکی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا۔ آفتاب نبوت حضرت محمدﷺ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔حضرت جبرئیل ؑ مسلسل اذان دے رہے ہیں،تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے ہو رہے ہیں۔ جب صفیں بن چکیں تو امام الانبیاء فخر دو جہاں حضرت محمد ﷺ امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تما م انبیاء و رسل امام الالنبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کر کے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سر تسلیم خم کئے کھڑے ہیں۔وہاں سے فارغ ہونے کے بعد عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔درودو سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔سرور کونین حضرت محمد ﷺ نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہا ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔فوراََ ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرئیل ؑ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرئیل ؑ! دربان نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا حضرت محمد ﷺ! دربان نے کہا!مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم ؑنے حضور ﷺ کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ ؑ اور یحییٰ ؑ نے حضورﷺ کو خوش آمدید کہا۔ تیسر ے آسمان پر حضرت یوسف ؑنے، چوتھے آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ نے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ نے، چھٹے آسما ن پر حضرت موسیٰ ؑ نے اور ساتویں آسمان پرحضرت ابراہیم ؑ نے سرور کونین حضرت محمد ﷺ کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔پھر آپ ﷺ کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ ﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔اس کے بعد پھر آپ ﷺ سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لا رہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃالمنتہیٰ پر جمع ہو جائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کر لیں۔ سب ملائکہ سدرہ پر جمع ہو گئے اور جمال محمد ﷺ کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔(در منشورجلد ۶ صفحہ ۶۲۱)
اس مقام پر حضرت جبرئیل ؑ رک گئے اور عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ ﷺہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر رکھ دیں گے۔یہ میرے مقام کی انتہا ء ہے۔سبحان اللہ! حضور ﷺ کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگائیے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہو جائے وہاں حضور ﷺ کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرئیل ؑ کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرئیل ؑ نے عرض کی حضور ﷺ یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ ﷺ کی امت کے لئے بازو پھیلا سکوں تاکہ حضور ﷺ کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔(روح البیان جلد خامس صفحہ ۱۲۲)
حضور ﷺجبرئیل امین ؑ کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور ﷺعرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھا دیئے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے:
ترجمہ: ”پھر اُس (جلوہ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔اور وہ (محمد ﷺ شب معراج عالم مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے(یعنی عالم کی انتہاء پر تھے)۔“ (عرفان القرآن)
پھر وہ مبارک گھڑی بھی آ گئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ حریم الٰہی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں بیان کرتا ہے:
ترجمہ: ”پھر وہ (رب العزت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوہ حق اور حبیب مکرم ﷺمیں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم۔“
جب حضور ﷺ بار گاہ الٰہی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا:
فَاَوْحٰٓی اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآاَوْحٰی۔ (النجم:۰۱)
ترجمہ: ”پس (اُس مقام ِ قرب و وصال پر) اُس (اللہ) نے اپنے عبد (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی“
حضرت امام جعفر صادق ؒ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر رازو نیاز کی گفتگو ہوئی۔اسرارو رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے تما م مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔اس گفتگو کا علم اللہ تعالیٰ اور حضورﷺ ہی کو ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
مَاکَذَبَ الْفُؤَادُمَارَای۔ (النجم:۱۱)
ترجمہ:”(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔“
”میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا“ (مشکوٰۃ شریف صفحہ۸۲)
حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ حضرت انس بن مالک ؓ اور حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ شب معراج حضور ﷺ نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل، موسٰی ؑ کو کلام اور حضرت سید المرسلین ﷺ کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔حضرت امام احمدؒ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباسؓ کا قائل ہوں کہ حضور ﷺنے اپنے رب کو دیکھا۔حضرت خواجہ حسن بصری قسم کھاتے ہیں حضورﷺ نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔
فخر دو عالم حضرت محمد ﷺ کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا سور بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔دوسرا تحفہ یہ دیا کہ امت محمدیہ ﷺ میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الٰہی سے سر فراز ہو کر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرارو رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد پیارے نبی حضرت محمد ﷺ واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسٰی ؑ نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور ﷺ نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسٰی ؑ نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل)پر خوب تجربہ کیا ہے۔آپ کی امت یہ بار نہ اٹھا سکے گی۔آپ واپس جائیے اور نماز میں کمی کرائیے۔ رسول اللہ ﷺ پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسٰی ؑنے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضورﷺ پھر بار گاہ الٰہی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسٰی ؑ کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بار گاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے محبوب!ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپﷺ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نماز وں کا ثواب دوں گا۔“
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور ﷺ براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔(تفسیرابن کثیر جلد سوئم صفحہ۲۳)
اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں یہ ساری کائنات جو کہ کارخانہ قدرت ہے اور اس کارخانہ کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کے لئے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا، اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو یکدم بند کر دیا سوائے اپنے محبوب ﷺ اور ان چیزوں کے جنہیں حضور ﷺ نے متحرک پایا۔ باقی تمام کائنات کو ٹھہرا دیا، چاند اپنی جگی ٹھہر گیا،سورج اپنی جگہ رک گیا، حرارت اور ٹھنڈک اپنی جگہ ٹھہر گئی، حضورﷺ کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچی وہیں رک گئی، جو سویا تھا سوتا رہ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا غرض یہ کہ زمانے کی حرکت بند ہو گئی۔
جب حضرت محمد ﷺ راتوں رات ایک طویل سفر کر کے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم بحکم الٰہی پھر سے چلنے لگا۔ ہر شت از سر نو مراحل طے کرنے لگی، چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے، حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی۔غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئیں تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں۔ بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی۔حجرہ مبارک کی زنجیرہلنے لگی۔کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا۔(روح البیان جلد ۵، صفحہ ۵۲۱)
حضور اکرم ﷺ نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن اُمِ ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ انکار کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ ﷺ خانہ کعبہ تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے رؤساء جمع تھے۔آپ ﷺ مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق حضرت محمدﷺ کے تذکرہ کو سن کر کفار و مشرکین ہنسنے لگے اور مزاق اڑانے لگے۔ابو جہل بولا، کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کے لئے تیار ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک۔ ابو جہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع ہو گئے تو حضور ﷺ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔انہوں نے حضور ﷺ سے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے۔ بتایئے! اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ یکایک بیت المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس واقعہ کو سچا نہ مانا۔
جب حضرت محمد ﷺ مسجد اقصیٰ کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہو کر کہنے لگے مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپﷺ نے ٹھیک ٹھیک بتا دیا لیکن ذرا یہ بتایئے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ایک قافلہ مقام روحاء پر گزرا، ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا۔وہ لوگ اسے تلاش کر رہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کراس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ رکھا ہوا تھا۔جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کر کے پالان کی طرف واپس آئے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی پایا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں فلاں قافلے پر بھی گزرا۔ دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگ گیا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔(تفسیر مظہری)
اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی مگر ابو جہل حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا: اے ابو بکرؓ! تو نے سنا کہ محمد ﷺ کیا کہتے ہیں۔کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کر کے آبھی گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ فرمانے لگے اگر میرے آقا ﷺ نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے کیوں کہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔میں اپنے نبی ﷺ کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابو بکرؓ تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو؟ اس عاشق صادق نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں، (یعنی باری تعالیٰ پر) اسی دن سے حضرت ابوبکرؓ کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا۔
٭٭٭٭٭
For feedback: shehzad_raja2002@yahoo.com, Cell; 0333-7104102