
غصہ میں ہم چلاتے کیوں ہیں؟
غصہ نامناسب طرز عمل ہے۔ جو ہماری زندگیوں میں بھونچال لے آتا ہے اور ماسوائے شرمندگی و ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آنے دیتا۔ حدیث نبویﷺ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ علماء کرام اسے منفی طرزِ عمل گردانتے ہیں اورماہر نفسیات ہیجان اور ڈپریشن کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ غصہ انسانی زندگی کے معیار کو متاثر اور شخصیت کو تباہ کر دیتا ہے۔ یقینا ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ کوئی ہمارے سامنے چیخنا چنگاڑنا شروع کردے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کوئی بھی شخص غصہ کی حالت میں چیخ کے مشابہ لہجہ ہی میں بات کیوں کرتا ہے؟ جب دو انسان آپس میں لڑتے ہیں تو اُ ن کے دل ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ وہ لاشعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص سے وہ فی الوقت ناراض اور مخاطب ہیں وہ اُن سے بہت دور کھڑا ہے۔ اسے سنانے کے لئے چیخ اور چنگاڑ کر بات کی جاتی ہے۔ بلا شبہ آپ سوچ کے اس انداز کو مسترد کرتے ہوئے یہ جواب ضرور دیں گے کہ غصہ میں تیز اور اونچا بولنے کی وجہ غصہ ور شخص کا بلند فشارِ خون ہے۔ ہو سکتا ہے طب کی زبان میں ایسا ہی ہو مگر احساسات اس کی نفی کرتے ہیں۔ محبت کے یک دم نفرت میں بدل جانے سے دلوں میں فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں جو ہمیں اپنے پیاروں سے اونچی آواز میں بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔
پیار میں شرگوشیاں:
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان پیار میں ڈوبا ہوتا ہے تو سرگوشیا ں کیوں کرتا ہے۔ معاملہ یہ بھی دل کا ہی ہے مگر اس بار دوری نہیں قربت زیرِبحث ہے جب دل قریب آتے ہیں تو مخاطب طبی لحاظ سے ایک دوسرے کو اپنے قریب ہی سمجھتے ہیں اور آہستہ آہستہ باتیں کی جاتی ہیں، جیسے جیسے دلوں کی قربت بڑھتی جاتی ہے، فاصلے سمٹتے جاتے ہیں اور پھر سرگوشیاں اشاروں سے ہوتی ہوئی آنکھوں کی زبان میں بدل جاتی ہیں۔
کیا واقع ایسا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم کو ہندؤں کی پرانی کتابوں میں درج اس واقعہ سے ملتا ہے۔
سادھو اور چیلوں کا قصہ
ایک ہندو سادھو دریائے گنگا پر نہانے گیا تو اُس نے دیکھا کہ ایک خاندان کے کچھ لوگ آپس میں لڑتے ہوئے اُونچا بول رہے ہیں۔ سادھو نے اپنے چیلوں سے مسکراتے ہوئے پوچھا ”لوگ غصے میں ایک دوسرے کیساتھ اتنا اُونچا کیوں بولتے ہیں“ چیلے سوچ میں پڑ گئے، اُن میں سے ایک نے کہا ”ہم خود پر کنٹرول کھو دیتے ہیں اور اُونچا بولنا شروع کردیتے ہیں“
سادھو نے کہا ایسا کیو ں ہے کہ تم چلانا شروع کر دیتے ہو جبکہ جس پر تم چلا رہے ہوتے ہو وہ تو تمہارے پاس ہی کھڑا ہوتا ہے؟ جبکہ تم وہ ہی بات بہت آرام سے بھی کر سکتے ہو۔ چیلے نے اس جواب میں کچھ اور تاویلیں بھی دیں جو کسی بھی چیلے کو مطمین نہ کر سکیں۔ آخر میں سادھو نے کہا۔
”جب دو انسان ایک دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں تو اُن کے دل ایک دوسرے سے بہت دور ہوجاتے ہیں۔ اس دوری کی وجہ سے اُن کو اونچا بولنا پڑتا ہے تاکہ آواز ایک دوسرے تک پہنچ سکے۔ جتنا وہ زیادہ غصہ میں ہوتے ہیں اُن کے دل کی دوری بھڑتی جاتی ہے اور وہ زیادہ اُونچا بولنے لگتے ہیں۔ جب دو انسان محبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟ وہ ایک دوسرے پر چلاتے نہیں بہت آرام آرام سے بات کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے دل بہت قریب ہو جاتے ہیں”۔ سادھو نے اپنے چیلوں سے پوچھا اور جب اُن کی محبت زیادہ بھڑ جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟۔ دل اتنے قریب آ جاتے ہیں کہ فاصلہ نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے اور بات سرگوشیوں میں ہونے لگتی ہے پھر محبت کی انتہا اُن کو اتنا قریب لے آتی ہے کہ بولنے تک کی ضرورت نہیں پڑتی اور آنکھوں آنکھوں میں بات ہو جاتی ہے۔ سادھو نے اپنے چیلوں کی طرف دیکھا اور کہا ”جب تم کسی بات پر اُلجھ جاؤ تو اپنے دلوں کو دوری پر نہ جانے دو، کوئی بھی ایسی بات نہ کہو کہ دوری اور زیادہ بھڑ جائے ایسا نہ ہو کہ ایک ایسا دن آئے کہ واپسی کا راستہ بھی نہ ملے۔
One Comment