آج کا کالم

افکارِ قائد اور ہمارے رویے

تحریر: اصغر علی کھوکھر، قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں بانی پاکستان کے تمام ارشادات و فرمودات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ افسوس کہ ہمارے حکمران اور سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام نے قائد اعظم کی جاذبِ نظر تصاویر تو اپنے دفاتر میں آویزاں کر رکھی ہیں مگر ان کے اقوالِ زریں پر عمل کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی

83 / 100 SEO Score

افکارِ قائد اور ہمارے رویےافکارِ قائد اور ہمارے رویے

قائد اعظم محمد علی جناح نے 25 مارچ  1948ء کو چٹا گانگ میں اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا حکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں، آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے، عوام الناس میں یہ احساس پیدا کر دیجئے کہ آپ اُن کے خادم اور دوست ہیں۔ وقار، دیانت، عدل اور انصاف کی اعلی ترین روایات قائم رکھیے اگر آپ ایسا کریں گے تو لوگوں کو آپ پر اعتماد اور اعتبار ہوگا اور وہ آپ کو دوست اور بہی خواہ تصور کریں گے۔

قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں بانی پاکستان کے تمام ارشادات و فرمودات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ افسوس کہ ہمارے حکمران اور سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام
نے قائد اعظم کی جاذبِ نظر تصاویر تو اپنے دفاتر میں آویزاں کر رکھی ہیں مگر ان کے اقوالِ زریں پر عمل کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ ہمارے قومی اداروں کے اعلیٰ حکام حتیٰ کہ اُن کے ماتحتوں کا رویہ بھی سائلین سے دوستانہ اور ہمدردانہ نہیں ہوتا۔ یعنی وہ افکار قائد کے مطابق عوام دوست اور خدمت گار سمجھنے کے بجائے خود کو اعلیٰ مخلوق اور عوام کو حشراتِ الارض سمجھتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سائلین درخواستیں ہاتھوں میں لئے کھڑے رہتے ہیں اور ان کی دادرسی کرنے والے باہم گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں اگر کوئی احتجاج کرے یا مہزب انداز میں بھی ان بابو حضرات کی توجہ کام کی طرف دلائے بھی جائے تو وہ اکثر برا مناتے اور ایسے سائل کی درخواست پر اعتراض لگا کر اسے اگلے روز آنے کا کہہ دیتے ہیں۔ یوں سائلین کے چکر لگوا کر انہیں قدم قدم پر پریشان کیا جاتا ہے۔ اس ذہنی اذیت سے تنگ آکر زیادہ تر لوگ اُن رشوت خوروں کی میٹھی گرم کرکے اپنے کام کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اعلیٰ حکام کا معاملہ تو اس سے بھی آگے کی بات ہے، کسی بھی قومی ادارے کے سربراہ کو ملنا مقصود ہو تو پتہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں یا دورے پر ہیں۔

افکارِ قائد اور ہمارے رویے

اکثر اعلیٰ آفیسر اور ان کا ماتحت عملہ دفتری اوقات کار کی پرواہ نہیں کرتا، دفتر تاخیر سے آنا اور جب چاہا حیلے بہانوں سے چھٹی لے کر چلے جانا، ہمارے ہاں معمولی بات تصور کی جاتی ہے۔
قائد اعظم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ وقت کے اتنے پابند تھے کہ لوگ اُن کے آنے جانے سے گھڑیوں کا وقت درست کرتے تھے، آپ ملنے والوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے، دوسروں کی عزت نفس کا خاص خیال رکھتے۔ ہمارے ہاں چونکہ یہ سب مثبت روایات دم توڑتی جا رہی ہیں، اسی لیے عوام اور حکام میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، جس کے باعث سرکاری دفتروں میں رشوت اور سفارش کا دور دورہ ہے۔ یہ منفی روش کسی طور قومی مفاد میں نہیں، عوام ایسی شکایات پر احتجاج کریں یا میڈیا ان ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح پر زور دے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ حکام اور اُن کا ماتحت عملہ اصلاح احوال کے لیے قائد اعظم کے افکار و خیالات کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تاکہ عوام کو درپیش گمبھیر مسائل سے ان کی جان چھوٹ سکے اور وہ سُکھ کا سانس لے سکیں۔

افکارِ قائد

تجاوزات کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

افکارِ قائد
افکارِ قائد اور ہمارے رویے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button