مشرق ایکسکلوزیوآج کا کالم
ابابیلیں کیوں نہیں آتیں؟
''تم صرف اونٹوں کیلئے آئے ہو؟ میں تو سمجھا تھا کہ تم مجھے کعبہ کو مسمار کرنے سے روکنے کیلئے آئے ہو؟ یہاں عبدالمطلب نے ایک تاریخی جملہ بولا جو صاحب ایمان کے غیر متزلزل یقین کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا میں اونٹوں کا مالک ہوں مجھے وہ چاہیئں۔ خانہ کعبہ کا جو مالک ہے اس کی حفاظت وہی کرے گا''

ابابیلیں کیوں نہیں آتیں؟
ابراہا نے جب خانہ خدا کو (نعوذ باللہ) مسمار کرنے کیلئے مکہ پر چڑھائی کی تو اس کے سپاہیوں نے مکہ کے مضافات میں لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہوئے عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھی چرا لئے۔ حضرت عبد المطلب کو جب علم ہوا تو وہ اپنے اونٹ واگذار کرانے ابراہا کے پاس جا پہنچے اور اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے کہا مجھے میرے ۲۰۰ اونٹ واپس چاہئیں۔ ابراہا جو عبدالمطلب کے مردانہ جاہ و جلال اور شخصیت سے بہت متاثر ہوا تھا حیران ہوکر بولا کہ تم صرف اونٹوں کیلئے آئے ہو؟ میں تو سمجھا تھا کہ تم مجھے کعبہ کو مسمار کرنے سے روکنے کیلئے آئے ہو؟ یہاں عبدالمطلب نے ایک تاریخی جملہ بولا جو صاحب ایمان کے غیر متزلزل یقین کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا میں اونٹوں کا مالک ہوں مجھے وہ چاہیئں۔ خانہ کعبہ کا جو مالک ہے اس کی حفاظت وہی کرے گا۔ یہ کہا اور اپنے اونٹ لیکر وہاں سے چلے آئے۔ راستے میں خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس پر نصب دھاتی کڑے کو کھٹکھٹایا اور نہایت خشوع و خضوع سے یہ دعا کی:
اے رب، میں تجھ ہی پر بھروسا کرتا ہوںاے رب، اپنے مقدس گھر کو اُن کے شر سے بچاوہ تیرا دشمن ہے، تیرا گھر برباد کرنے آیا ہےتو ہی اپنے شہر کو اس کے ظلم سے محفوظ رکھنا
یہ کہہ کر اپنے خاندان اور جانوروں سمیت پہاڑ کی چوٹی پر ابراہا کی بربادی کا تماشا دیکھنے چڑھ گئے۔ یہ ان کا مضبوط ایمان تھا جس نے انہیں اللہ کا انتقام دکھایا اور خدائے ذوالجلال کی بھیجی ہوئی ننھی مخلوق ابابیلوں نے انہیں کنکریاں مار کر کھائےہوئے بھُس کی مانند کر دیا۔ جہاں اس کے سب سے گرانڈیل ہاتھی ’محمود‘ نے بھی اس کا حکم مانے سے انکار کر دیا۔
دنیا بھر میں مسلمانوں پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ عالم اسلام شدید تنازعوں اور جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے۔ فلسطین سے لیکر میانمار تک مسلمان اپنےازلی دشمنوں کے انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن کہیں تو یہ ہم مسلمانوں کے اعمالوں کی سزا ہے اور کہیں پر اللہ کی آزمائش اور امتحان ہے ۔ چلیئے کچھ دیر کیلئے ہم ساری امت مسلمہ کا درد اپنے جگر میں محسوس کرنے کی بجائے صرف اپنے وطن کو لیتے ہیں تو کیا حالات یہاں آئیڈیل ہیں؟ بالکل بھی نہیں بلکہ یہاں تو ہم عوام کوئی بھی الزام اپنے سر لینے کو تیار نہیں ۔ یہاں ہر برائی ہر ناانصافی اور ہر ظلم کی ذمہ دار حکومت وقت ہے، خواہ وہ پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن کی، تحریک انصاف کی ہو یا فوجی جنتا کی۔ ہم پاکستانی ہر حکمران کو کوسیں گے اور اگر نہیں کچھ بولیں گے تو من حیث القوم اپنے سر کوئی الزام نہ لیں گے کیونکہ ہم سب دودھ کے دھلے ہیں۔ ہم نہایت باقاعدگی سے مصلے پر ٹکریں مارتے ہیں۔ رب العزت سے ظالم حکمرانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی دعا کرتے ہیں، دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے اپنے اعمال کیا ہیں۔
ہمیں پانی ملا دودھ پسند نہیں لیکن ہم اپنی دکان پر برادہ ملی چائے اور چوکر ملا آٹا بیچنے سے نہیں چوکتے۔ ہمیں سرکاری ہسپتال کےڈاکٹر کی بے توجہی پر شکایت ہے لیکن ہم بل جمع کرانے کیلئے لگی انسانوں کی قطار کی پرواہ کئے بغیربے دھڑک آپس میں گپ بازی کرتے اور چائے کی چسکیاں لیتے ہیں۔ ہمیں کھانے کی اشیأ میں ملاوٹ پر سخت اعتراض ہے لیکن ہم عوام کو مری ہوئی مرغی عمدہ پیکنگ میں سپلائی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہم دنیا کو آخرت کے عذاب اور اللہ کے قہر سے تو ڈراتے ہیں لیکن جب دنیا والوں کے بچے ہمارے پاس مدرسہ یا مسجد میں قران پاک کی تعلیم کیلئے آتے ہیں تو ہم ان پھولوں کو نوچتے ہوئےذرا بھی نہیں لرزتے۔ ہم اپنی ماؤں بہنوں کو گھر سے نکلتے وقت سات پردوں میں نکلنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود بسوں اور اسٹاپوں پر دوسروں کی ماؤں بہنوں کو سات پردوں میں بھی برہنہ محسوس کر لیتے ہیں اور صرف نظریں ہی ان کے پردے کے اندر نہیں اتارتے بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ ہاتھ یا کم ازکم کوئی ایک آدھ انگلی بھی کہیں سے داخل ہو کر چھو جائے۔ کبھی چوروں کا بھی کریکٹر ہوا کرتا تھا اور چور ڈاکو کسی گھر میں داخل ہوتے تھے تو خاتون خانہ کے تنہا ہونے کے باوجود صرف لوٹ مار کر کے نکل جاتے تھے لیکن اب صاحب خانہ کی موجودگی میں نہ صرف لوٹ مار کرتے ہیں بلکہ خواتین خانہ کا گینگ ریپ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہم محنت سے جی چراتے ہیں اور جگاڑ لگا کر کمانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔ ہم جب بھی کوئی نیا قانون متعارف ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا توڑدریافت کرنے میں جت جاتے ہیں۔ ہم بیرون ملک سے ملنے والی امداد میں سب سے پہلے ہر سطح پر اپنے حصے نکالتے ہیں اور پھر اگر کچھ بچ جائے تو جس مقصد کیلئے وہ امداد آتی ہے اس پر خرچ ہوتی ہے۔ ہم گریڈ سترہ کے سرکاری ملازم اور عوام کی حفاظت پر مامور ہوتے ہوئے اپنے مہارانیوں والے شوق پورے کرنے کیلئے اپنی سکیورٹی پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہوئے بارش میں سائیکلنگ کا مزہ لیتے ہیں اور باقی الو لے پٹھے بنے سڑک پر دو رویہ مہارانی کا دیدار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم حکومت میں ہوتے ہوئےنجی سیر سپاٹوں کیلئے سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہیں اور واپسی پر مغلیہ اسمبلیوں سے دورے کے کامیاب ہونے کی قرادادیں منظور کرواتے ہیں۔ ہم ایک وقت میں جنہیں چور ڈاکو اور لٹیرے کہتے ہیں دوسرے لمحے میں انہیں اپنے پہلو میں بٹھا کر اپنے بہن بھائیوں کی بے بسی اور لاچارگی کا تماشا دیکھتے۔ ہمیں صحیح یا غلط کی کوئی تمیز نہیں، اچھے یا برے کی کوئی پہچان نہیں۔ ہم میں اپنا حق لینے کی قطعی کوئی جرات نہیں۔ ہم ۲۵ کروڑ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں بس باڑے میں دو وقت کا چارہ مل جائے تو بہت ہے ہماری شکایت یہ نہیں ہوتی کہ ہم انسان ہونے کے ناطے بہتر سلوک کے مستحق ہیں بلکہ ہماری شکایت ہوتی ہے کہ چارہ کیوں نہیں ملا ؟
ہمارا سب سے بڑا مسٗلہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی آکر ہمارے منہ میں پانی اور کھانا ڈالے۔ کوئی اور ہمارے لئے جد وجہد کرے جبکہ ہمیں ہر شے بیٹھے بٹھائے مہیا ہو جائے۔ ہم نے کپڑوں کی برانڈڈ دوکانوں پر کفن اور لنگوٹی چور سیلز مین رکھے ہوئے ہیں جو ہم سے رقم لیکر مطلوبہ لباس پیک کرنے کی بجائے الٹا جو پہنے ہوتے ہیں وہ بھی اتروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا خواب ہے کہ ایک روز ہم صبح اٹھیں تو وطن عزیزامن وخوشحالی کا گہوارہ بنا ہوا ہو جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں اور انواع و اقسام کے کھانے ہماری دہلیزوں پر دھرے ہوں۔ ہمیں ملک کا نظام بھی تبدیل ہوا چاہیے لیکن المیہ یہ ہے کہ جس سے ہمیں یہ توقع ہے وہ پس زنداں ہے اور ہم اس کی رہائی کیلئے بھی دعاؤں اور وظیفوں پر زور رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم نے اپنا آپ تبدیل نہیں کرنا توپھر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ قدرت ہمیں ہماری بد اعمالیوں اور برائیوں کی سزا دے رہی ہے اور مزید دے گی لیکن ابابیلیں اب نہیں آئیں گی۔
یہ زلزلے، پہاڑوں کا سرکنا، بادلوں کا پھٹنا، گلیشیروں کا لڑھکنا، دریاؤں کا رخ بدلنا سزائیں نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ قادر مطلق جب بھی کسی قوم کو سزا دیتا ہے تو وہ اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ گہیوں کے ساتھ گھن بھی پیس ڈالتا ہے۔ آپ نے اللہ کا غضب پہاڑوں سے تو اترتا دیکھ لیا ہے، اب پتنوں تک بھی پہنچ گیا ہے کوئی عجب نہیں اگرکل کلاں کو وہ میدانوں کو بھی روندتا ہوا سمندر کی طرف بڑھ جائے۔ وہ ڈانگ گھماتے یہ نہیں سوچتا کہ یہ کسی غریب کی جھونپڑی ہے یا وزیر اعظم کا محل ہے، کوئی عالم دین ہے یا دھریا ہے۔ سو اگر اپنا حق درکار ہے تو سب سے پہلے اپنا قبلہ درست کریں اور خود کھڑے ہوں اس سے قبل کے عذاب آپ کے سر سے گذر جائے اور پیچھے محض ویرانے یہ نوحہ پڑھنے کیلئے رہ جائیں کہ
نی سسیئے بے خبرے تیرا لُٹیا شہر بھنبھور۔
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔






