آج کا کالممشرق ایکسکلوزیو
آج کی تازہ خبر
میں اکثر سوچا کرتا کہ ابا جی اسے پرانا کیوں کہتے ہیں حالانکہ وہ تو نیا اخبار لا کر دیتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ پہلے اپنے کسی جاننے والے کو دیتا ہے جو اسے گھنٹہ ڈیڑھ میں جب پڑھ لیتا ہے تو پھر وہ اباجی کو لا کر دیتا ہے

آج کی تازہ خبر
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مخالف ہو تو اخبار نکالو
اکبرالہ آبادی
مدت ہوئی للکار سنے، ’’اخبار اے‘‘۔ بچپن سے یہ آواز سنتے چلے آئے تھے۔ باہر بارش ہو، برسات، آندھی یا طوفان، ہڑتال ہو یا مظاہرے، جنگ ہو یا امن، الصبح جسے ’نور پیر‘ کا وقت بھی کہا جاتا تھا اور ہم ابھی گرم بستروں سے بھی نہیں نکلے ہوتے تھے کہ گلی میں ہاکر کی آواز آتی ’’اخبار اے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی برآمدے یا صحن میں اخبار کے گرنے اور بعض اوقات دروازے پر اخبار کے ٹکرانے کی آواز آتی۔ جاگ رہے ہوتے تو ہم میں سے کوئی بہن بھائی جاکر اخبار اٹھاتا اور ابا جی کو لا کر دیتا وگرنہ وہ خود لے آتے۔ ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ کبھی ہاکر لیٹ ہوا ہو۔ وہ سردی گرمی کی شدت سے بے نیاز ہوکر مقررہ وقت پر بلا ناغہ اخبار پھینکتا۔ ہاں کبھی کسی وجہ سےوہ اگر گھنٹہ ڈیڑھ لیٹ ہوجاتا تو والد صاحب اسے نہایت شفقت سے کہتے کہ برخوردار اخبار واپس لے جاؤ کیونکہ یہ پرانا ہو چکا ہے۔
میں اکثر سوچا کرتا کہ ابا جی اسے پرانا کیوں کہتے ہیں حالانکہ وہ تو نیا اخبار لا کر دیتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ پہلے اپنے کسی جاننے والے کو دیتا ہے جو اسے گھنٹہ ڈیڑھ میں جب پڑھ لیتا ہے تو پھر وہ اباجی کو لا کر دیتا ہے۔ ذرا ہوش آئی تو ایسے ہی ایک موقع پر والد صاحب سے پوچھ لیا کہ وہ اخبار کو پرانا کیوں کہتے ہیں؟ کیا وہ گذشتہ روز کا پرچہ پھینک جاتا ہے تو انہوں نے پاس بٹھا کر نہایت پیار سے سمجھایا، ’’نہیں بیٹا! دراصل کسی بھی خبر یا اخبار کی زندگی بس ایک روز کی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے صبح اول وقت میں اخبار پڑھ لیا تو آپ کے پیسے وصول ہو گئے ورنہ دوپہر کے بعد یا تو یہ ردی میں بکے گا یا اس میں پکوڑے بکیں گے۔ والد صاحب اس وقت راولپنڈی میں روزنامہ تعمیر اخبار کی مجلس ادارت سے وابستہ تھے سو سمجھانے لگے کہ میں جب ڈیسک پر بیٹھتا ہوں تو بحیثیت ایڈیٹر کے گذشتہ روز کی ہر خبر سے آگاہ ہونا میرے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے ورنہ میں ایک اچھا ایڈیٹر نہیں۔
اسی طرح اخبار میں شائع ہونے والی خبروں سے منسلک ہر محکمہ کے لوگوں کو اپنے متعلق ہونے والی پیش رفت سے آگاہی رہتی ہے۔ نوجوانی میں داخل ہوئے اور اخبارات سے پالا پڑنا شروع ہوا حقیقت سے مزید روشناس ہوئے۔ سالزبرگر جونیئرکا کہنا ہے، ’’نیوز پیپر کی تشریح اس کے لاحقہ ’پیپر‘ سے ہرگز نہیں کی جاسکتی بلکہ اسکی تشریح ہمیشہ اسکے سابقہ ’نیوز‘ (خبر) سے کرنی ضروری ہے‘‘۔ بھارتی مہاتما گاندھی کا قول ہے، ’’ اخبارات کا مطالعہ حقائق جاننے کیلئے ہونا چاہیے، انہیں آزادانہ سوچ بچار کی عادت کو قتل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
بات اخبارات اور ہاکروں کی ہو رہی تھی جو رفتہ رفتہ ناپید ہوکر ایک کلچر کی بجائے اخبار فروش یونینوں تک رہ گئے جن سے کسی زمانے میں اخبار مالکان بہت مرعوب ہوا کرتے تھے۔ خیر کسی حد تک تو وہ یونین سازی اب بھی اثرانداز ہوتی ہے لیکن ’’اب وہ بہاریں کہاں‘‘۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہی اخبار کی صنعت میں انقلابی تبدیلیاں لے کر آیا۔ گو کہ اس کا آغاز بیسویں صدی کے آخری عشرے سے ہی ہو چکا تھا تاہم مریض نزع کی حالت میں نہیں تھا بس کھانسی بخار اور کبھی کبھار نزلے کی شکایت ہو جایا کرتی تھی جس کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جاتا تھا۔ برادرم صولت رضا اور خاکسار آئی ایس پی آر میں اکٹھے ملازمت کر رہے تھے۔
ان سے زیادہ اخبار کی اہمیت کوئی نہیں جانتا کیونکہ وہ ڈیسک اور فیلڈ دونوں جگہوں پر کارنامے انجام دے چکے تھے اور انکی زنبیل میں وقت کے محیر العقول واقعات موجود ہیں۔ بات اخبار کی ہو رہی تھی جو اکیسویں صدی کے آغاز میں نزاعی ہچکیاں لینا شروع ہو گیا جسے لواحقین معمول کا کھانسی نزلہ اور زکام سمجھے۔ انٹرنیٹ کا انقلاب آچکا تھا جس نے اخباری صنعت کے حفاظتی پشتوں میں دراڑیں ڈالنی شروع کر دی تھیں۔ سب سے پہلی نقب تو پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے لگائی جنہوں نے اخبارات کی توجہ بانٹ لی۔ میں پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی بات کر رہا ہوں۔ عوام کے ایک خاصے بڑے حصے نے اخبارات کو اپنی جیب پر بوجھ سمجھنا شروع کر دیا اور ہمہ وقت ٹی وی چینلز سے مستفیض ہو نا شروع کر دیا۔ چنانچہ اخبارات کو عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے الیکڑانک ایڈیشن شائع کرنے پڑے جو عام خبروں سےشروع ہو کر پورے پورے اخبارات کی اشاعت تک جا پہنچے۔ عوام نے اس میں دلچسپی ظاہرکی لیکن اس وقت تک انٹر نیٹ ایک عام آدمی کی پہنچ سے قطعی دورتھا اور پھر ناخواندہ اور پڑھے لکھے ’’ناخواندہ‘‘ افراد کو چینلز کی بریکنگ نیوز میں زیادہ لذت اور چسکا ملا۔
ہر پانچ دس منٹ کے بعد بریکنگ نیوز کے نام پر کبھی وزیر اطلاعات کی بکری گم ہونے کی خبر تو کبھی ملک کی مشہور ماڈل کےجوتے چوری ہونے کی اطلاع۔ ایسی ہی بریکنگ نیوز سے عوام کا مزاج بدلتا رہااور خبروں کی جگہ چسکوں نے لے لی۔
اخباری صنعت کے حفاظتی پشتے تو شکست و ریخت کا شکار ہو چکے تھے اور انہیں ڈھتا دیکھ کر فیصلہ سازوں نے رہے سہے بند بھی توڑنے شروع کر دیے۔ اب اخباری صنعت کی حالت ابتر ہو چکی تھی صاف نظر آرہا تھا کہ اخباری مالکان کے پاس اخبارات بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ امریکہ برطانیہ اور کئی اور یورپی ممالک میں سو سو سال پرانے اخبارات بند ہونا شروع ہوگئے۔ اسی موقع کیلئے مجھے رچرڈ کلوگر کا قول یاد آیا ہے، ’’جب بھی کوئی اخبار اپنی موت مرتا ہے تو ہم آمریت کی طرف ایک قدم مزید نزدیک ہوجاتے ہیں‘‘۔ پوری دنیا میں اخبارات کا حال ابتر ہونا شروع ہو گیا لیکن چونکہ اس صنعت سے وابستہ افراد اور مالکان پیشہ ور اور سمجھدار تھے سو انہوں نے سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں تیز کردیں جبکہ ہمارے پیارے پاکستان میں ایک آدھ نام چھوڑ کر اخباری صنعت سے وابستہ مالکان زیادہ تر سیٹھ حضرات تھے سو جو جگاڑیں لگا کر وہ کروڑ پتی بنے تھے انہی جگاڑوں سے انہوں نے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوششیں کی۔
باقی باتیں تو چھوڑیے، سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ اخبار مالکان نے اپنے قبلے تبدیل کرنے شروع کر دیئے اور وہ اخبارات جو کبھی حق سچ کا علم اٹھائے پھرتے تھے حکومت وقت کی کاسہ لیسی پر مجبور ہوگئے اور مارک ٹوائن نے بہت پہلے جو کہا تھا وہ انہوں نے سچ ثابت کرنا شروع کر دیا:
“If you don’t read the newspaper, you’re uninformed. If you read the newspaper, you’re misinformed.”
تبدیلی صرف میڈیا کے شعبے ہی میں نہیں آئی بلکہ ہر شعبے کی ایسی تیسی پھرنی شروع ہوگئی اور یہ سب سیاست سے شروع ہوا۔ جب اسمبلیوں میں پڑھے لکھوں کی بجائے انگوٹھا چھاپ عوام کی قسمت کے فیصلے کیلئے انٹری ماریں گے، جب ایسوں کی تنخواہوں میں چھ سو فیصد اضافہ کیا جائیگا توآپ ایسے نمائندوں سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اخبارات کو غیرجانبداری سے کام کرنے دیں گے۔
ہر کوئی مادر پدر آزاد ہو گیا۔ اب وقت ہوا تھا سیٹھوں کے جگاڑ لگانے کا۔ پرنٹ میڈیا نے ایک طرف اپنے عملہ میں چھانٹی شروع کر دی اور جو کام پر برقرار رہے انکو تین تین ماہ تک تنخواہیں ادا نہ کی جاتیں، ایسے میں ملازمین کی خود کشیوں کے واقعات عام ہونے شروع ہو گئے۔ دوسری طرف اخبار تو اب بکتا نہیں تھا سو انہوں نے اپنے اصول نظریئے حکومت وقت کے ہاتھوں پورے صفحے اور آدھے آدھے صفحوں کے کروڑوں کے اشتہارات کے عوض گروی رکھنے شروع کردیئے۔ اور آج یہ حال ہے کہ پرنٹ میڈیا کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ آپ خدا لگتی کہیئے کہ ایسے میں آپکو کیسے یہ آواز آئے،
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
ادا جعفری
سہیل پرواز
ھیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔
